سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
6. باب مَا أُكْرِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَنِينِ الْمِنْبَرِ:
منبر کی آواز و گفتگو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم کا بیان
حدیث نمبر: 32
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا تَمِيمُ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ حَيَّانَ، حَدَّثَنِي ابْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ قَامَ فَأَطَالَ الْقِيامَ، فَكَانَ يَشُقُّ عَلَيْهِ قِيَامُهُ، فَأُتِيَ بِجِذْعِ نَخْلَةٍ فَحُفِرَ لَهُ وَأُقِيمَ إِلَى جَنْبِهِ قَائِمًا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ فَطَالَ الْقِيَامُ عَلَيْهِ، اسْتَنَدَ إِلَيْهِ فَاتَّكَأَ عَلَيْهِ فَبَصُرَ بِهِ رَجُلٌ كَانَ وَرَدَ الْمَدِينَةَ، فَرَآهُ قَائِمًا إِلَى جَنْبِ ذَلِكَ الْجِذْعِ، فَقَالَ: لِمَنْ يَلِيهِ مِنْ النَّاسِ: لَوْ أَعْلَمُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَحْمَدُنِي فِي شَيْءٍ يَرْفُقُ بِهِ، لَصَنَعْتُ لَهُ مَجْلِسًا يَقُومُ عَلَيْهِ، فَإِنْ شَاءَ، جَلَسَ مَا شَاءَ، وَإِنْ شَاءَ، قَامَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "ائْتُونِي بِهِ"، فَأَتَوْهُ بِهِ، فَأُمِرَهُ أَنْ يَصْنَعَ لَهُ هَذِهِ الْمَرَاقِيَ الثَّلَاثَ، أَوْ الْأَرْبَعَ هِيَ الْآنَ فِي مِنْبَرِ الْمَدِينَةِ، فَوَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ رَاحَةً، فَلَمَّا فَارَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجِذْعَ وَعَمَدَ إِلَى هَذِهِ الَّتِي صُنِعَتْ لَهُ، جَزِعَ الْجِذْعُ فَحَنَّ كَمَا تَحِنُّ النَّاقَةُ حِينَ فَارَقَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَزَعَمَ ابْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ سَمِعَ حَنِينَ الْجِذْعِ، رَجَعَ إِلَيْهِ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهِ وَقَالَ:"اخْتَرْ أَنْ أَغْرِسَكَ فِي الْمَكَانِ الَّذِي كُنْتَ فِيهِ، فَتَكُونَ كَمَا كُنْتَ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ أَغْرِسَكَ فِي الْجَنَّةِ فَتَشْرَبَ مِنْ أَنْهَارِهَا وَعُيُونِهَا فَيَحْسُنُ نَبْتُكَ، وَتُثْمِرُ فَيَأْكُلَ أَوْلِيَاءُ اللَّهِ مِنْ ثَمَرَتِكَ وَنَخْلِكَ فَعَلْتُ"فَزَعَمَ أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ لَهُ:"نَعَمْ قَدْ فَعَلْتُ مَرَّتَيْنِ"، فَسُأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:"اخْتَارَ أَنْ أَغْرِسَهُ فِي الْجَنَّةِ".
عبداللہ بن بریدہ نے اپنے باپ سے روایت کیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو کھڑے ہو جاتے اور دیر تک کھڑے رہتے اور یہ آپ پر شاق گزرنے لگا تھا، چنانچہ ایک کھجور کا تنا لایا گیا اور گڑھا کھود کر اسے آپ کے پہلو میں کھڑا کر دیا گیا، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیتے تو دیر تک اس سے ٹیک لگائے کھڑے رہتے، ایک آدمی جو مدینہ آئے ہوئے تھے جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس تنے کے پاس کھڑے دیکھا تو اپنے پاس بیٹھے شخص سے کہا کہ اگر مجھے معلوم ہو جاتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی چیز پر میری تعریف کریں گے جو انہیں آرام دے تو ان کے لئے ایسی نشست گاہ بنا دیتا جس پر آپ کھڑے ہو سکتے اور اس پر چاہے جتنا بیٹھتے اور جتنا چاہتے کھڑے رہتے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں میرے پاس لے کر آو“، چنانچہ انہیں آپ کے رو برو لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ تین یا چار سیڑھی کا منبر بنائیں جو آج مدینہ میں موجود ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں راحت محسوس کی، اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس تنے سے دور ہوئے اور جو چیز (منبر) آپ کے لئے بنائی گئی اس کے قریب جانے لگے تو وہ تنا اداس ہو کر اونٹنی کی طرح باریک آواز سے رونے لگا۔ عبداللہ بن بریدہ نے اپنے والد سے روایت کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تنے کے رونے کی آواز سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف واپس لوٹے اور دست مبارک اس پر رکھا اور فرمایا: ”اگر تم چاہو تو جس جگہ لگے ہو اسی میں گڑا رہنے دوں اور تم جس حال میں ہو برقرار رہو، اور اگر تم چاہو تو جنت میں لگا دوں اور جنت کی نہروں اور چشموں سے سیراب ہو اور تیری روئیدگی اچھی ہو اور تو پھل دے اور اللہ کے ولی تیرے پھل کھائیں“، راوی کا خیال ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بار فرمایا ” «نعم قد فعلت» ٹھیک ہے میں یہی کروں گا۔“ راوی نے استفسار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے یہ اختیار کیا کہ میں اسے جنت میں لگا دوں۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده فيه ضعيفان: محمد بن حميد وصالح بن حيان، [مكتبه الشامله نمبر: 32]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے اور تنے کے رونے کا قصہ صحیح ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے، لیکن یہ سیاق صحیح سند سے مروی نہیں ہے۔ اس کو ابن حبان نے [ثقات 156/8] میں ذکر کیا ہے، نیز دیکھئے: [مجمع الزوائد 3132 بتحقيق الداراني]۔ والله اعلم
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده فيه ضعيفان: محمد بن حميد وصالح بن حيان