سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
6. باب مَا أُكْرِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَنِينِ الْمِنْبَرِ:
منبر کی آواز و گفتگو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم کا بیان
حدیث نمبر: 42
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ أَبِي طَلْحَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ: يَقُومُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَيُسْنِدُ ظَهْرَهُ إِلَى جِذْعٍ مَنْصُوبٍ فِي الْمَسْجِدِ فَيَخْطُبُ النَّاسَ، فَجَاءَهُ رُومِيٌّ، فَقَالَ: أَلَا أَصْنَعُ لَكَ شَيْئًا تَقْعُدُ عَلَيْهِ وَكَأَنَّكَ قَائِمٌ؟ فَصَنَعَ لَهُ مِنْبَرًا لَهُ دَرَجَتَانِ، وَيَقْعُدُ عَلَى الثَّالِثَةِ، فَلَمَّا قَعَدَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ذَلِكَ الْمِنْبَرِ، خَارَ الْجِذْعُ كَخُوَارِ الثَّوْرِ حَتَّى ارْتَجَّ الْمَسْجِدُ حُزْنًا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمِنْبَرِ، فَالْتَزَمَهُ وَهُوَ يَخُورُ، فَلَمَّا الْتَزَمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَكَنَ، ثُمَّ قَالَ:"أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ لَمْ أَلْتَزِمْهُ، لَمَا زَالَ هَكَذَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ حُزْنًا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدُفِنَ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنی پشت مسجد میں رکھے ایک تنے سے ٹکاتے تھے، ایک رومی آپ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میں آپ کے لئے ایسی چیز بنا دیتا ہوں جس پر آپ بیٹھے بھی ہوں تو ایسا لگے کہ کھڑے ہیں، چنانچہ اس نے منبر بنایا جس کی دو سیڑھیوں پر آپ کھڑے ہوتے اور تیسری پر بیٹھتے تھے، جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر تشریف فرما ہوئے تو وہ تنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم میں بیل کی طرح ڈکرانے لگا اور مسجد گونجنے لگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اسے چمٹا لیا تو وہ خاموش ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں اسے چمٹاتا نہیں تو یہ اللہ کے رسول کے فراق میں قیامت تک اسی طرح روتا رہتا“، پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا اور اس تنے کو دفن کر دیا گیا۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 42]»
اس روایت کی سند صحیح ہے جس کی تخریج گزر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [مسند ابي يعلى 2756]، [صحيح ابن حبان 6507]، [موارد الظمآن 574]
وضاحت: (تشریح احادیث 31 سے 42)
❀ ان تمام روایات سے لکڑی اور تنے کا رونا، بات کرنا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا ثابت ہوتا ہے۔
❀ نیز منبر کی مشروعیت اور اس پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا بھی ثابت ہوتا ہے۔
❀ نبی رحمت کا پیڑ پودوں سے شفقت و محبت کرنا بھی ثابت ہوتا ہے۔
❀ غیب کی خبر دینا کہ ”میں اسے چمٹا نہ لیتا تو قیامت تک روتا رہتا“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسولِ صادق ہونے کی دلیل ہے۔
❀ قوت گویائی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، انسان، حیوان، نباتات و جمادات جس کو چاہے عطا فرما دے، اور جس سے چاہے اس کی یہ قوت سلب کر لے۔ «الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ» [فصلت: 21]
❀ مولانا وحیدالزماں صاحبں نے لکھا ہے: حسن بصری رحمہ اللہ جب اس حدیث کو بیان کرتے تو کہتے تھے: مسلمانو! ایک لکڑی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں، ملنے کے شوق میں روئی اور تم ایک لکڑی کے برابر بھی آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے ملنے کا شوق و محبت نہیں رکھتے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: شرح بخاری مولانا داؤد راز 83/5۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح