سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
6. باب مَا أُكْرِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَنِينِ الْمِنْبَرِ:
منبر کی آواز و گفتگو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم کا بیان
حدیث نمبر: 36
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُصَلِّي إِلَى جِذْعٍ وَيَخْطُبُ إِلَيْهِ إِذْ كَانَ الْمَسْجِدُ عَرِيشًا، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: أَلَا نَجْعَلُ لَكَ عَرِيشًا تَقُومُ عَلَيْهِ يَرَاكَ النَّاسُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَتُسْمِعُ مِنْ خُطْبَتِكَ؟، قَالَ: "نَعَمْ"، فَصُنِعَ لَهُ الثَّلَاثَ دَرَجَاتٍ، هُنَّ اللَّوَاتِي عَلَى الْمِنْبَرِ، فَلَمَّا صُنِعَ الْمِنْبَرُ وَوُضِعَ فِي مَوْضِعِهِ الَّذِي وَضَعَهُ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ الْمِنْبَرَ مَرَّ عَلَيْهِ، فَلَمَّا جَاوَزَهُ، خَارَ الْجِذْعُ حَتَّى تَصَدَّعَ وَانْشَقَّ، فَرَجَعَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَسَحَهُ بِيَدِهِ حَتَّى سَكَنَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمِنْبَرِ، قَالَ: فَكَانَ إِذَا صَلَّى، صَلَّى إِلَيْهِ فَلَمَّا هُدِمَ الْمَسْجِدُ أَخَذَ ذَلِكَ الْجِذْعَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ فَلَمْ يَزَلْ عِنْدَهُ حَتَّى بَلِيَ فَأَكَلَتْهُ الْأَرَضَةُ وَعَادَ رُفَاتًا.
طفیل نے روایت کیا اپنے والد سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہ جب مسجد (نبوی) کی چھت تنوں پر تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے تنے کے پاس نماز پڑھتے اور اس کا سہارا لے کر خطبہ دیتے تھے، آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے کہا ہم آپ کے لئے بیٹھنے کی جگہ بنا دیتے ہیں جس پر آپ کھڑے ہوں اور لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور خطبہ بھی سن سکیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی چنانچہ تین سیڑھی کا منبر بنایا گیا، اور جہاں آپ نے حکم دیا وہ منبر رکھ دیا گیا، اور جب رسول اللہ ن صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اس منبر کی طرف جانے لگے اور اس تنے کے پاس سے گزرے تو وہ بھینسے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا، آپ منبر کی طرف تشریف لے گئے، آپ نماز اسی تنے کے پاس پڑھتے تھے اور جب مسجد نبوی کی ترمیم ہوئی تو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اس تنے کو لے گئے اور وہ انہیں کے پاس رہا یہاں تک کہ بوسیدہ ہو گیا اور اسے دیمک نے کھا لیا اور وہ ریزہ ریزہ ہو گیا۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن من أجل عبد الله بن محمد بن عقيل، [مكتبه الشامله نمبر: 36]»
اس واقعے کی سند حسن درجے کو پہنچتی ہے اور اسے امام احمد نے [مسند أحمد 138/5] اور [ابن ماجه 1414] وبیہقی نے [دلائل النبوة 306] میں ذکر کیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل عبد الله بن محمد بن عقيل