كِتَابُ الْجَامِعِ کتاب: مختلف ابواب کے بیان میں 31. بَابُ جَامِعِ مَا جَاءَ فِي الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ کھانے پینے کی مختلف احادیث کا بیان
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ (دوسرے شوہر تھے سیدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا کے جو والدہ تھیں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی) نے سیدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی جو بھوک کی وجہ سے نہیں نکلتی تھی، تو تیرے پاس کوئی چیز ہے کھانے کی؟ سیدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے کچھ روٹیاں جَو کی نکالیں اور ایک کپڑے میں لپیٹ کر میری بغل میں دبا دیں، اور کچھ کپڑا مجھے اڑھا دیا، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کو لے کر آگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ بہت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، میں کھڑا ہو رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پوچھا: ”کیا تجھ کو ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟“ میں نے کہا: ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھانے کے واسطے؟“ میں نے کہا: ہاں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سب ساتھیوں کو فرمایا: ”سب اٹھو۔“ سب اٹھ کر چلے، میں سب کے آگے آگیا اور سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو جا کر خبر کی، سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ساتھ لیئے ہوئے آتے ہیں اور ہمارے پاس اس قدر کھانا نہیں ہے جو سب کو کھلائیں۔ سیدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر ملے، یہاں تک کہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں مل کر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اُم سلیم! جو کچھ تیرے پاس ہو لے آ۔“ سیدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا وہی روٹیاں لے آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کرایا، پھر سیدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے ایک کپی گھی کی اس پر نچوڑ دی، وہ ملیدہ بن گیا، اس کے بعد جو اللہ جل جلالہُ کو منظور تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس آدمیوں کو بلاؤ۔“ انہوں نے دس آدمیوں کو بلایا، وہ سب کھا کر سیر ہو کر چلے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس آدمیوں کو بلاؤ۔“ وہ بھی آئے اور سیر ہو کر چلے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دس آدمیوں کو بلاؤ۔“ وہ بھی آئے اور سیر ہو کر چلے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس کو اور بلاؤ۔“ یہاں تک کہ جتنے لوگ آئے ستر (70) آدمی تھے یا اسّی (80) سب سیر ہو گئے۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 422، 3578، 5381، 5450، 6688، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2040، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5285، 6534، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 6582، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3630، والدارمي فى «مسنده» برقم: 44، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3342، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14708، 14709، وأحمد فى «مسنده» برقم: 13316، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 19»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”دو شخصوں کا کھانا کفایت کرتا ہے تین آدمیوں کو، اور تین کا کھانا چار کو کفایت کرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5392، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2058، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 6742، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1820، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7318، 9400، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1099، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6275، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 20»
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”بند کرو دروازے کو، اور منہ باندھا کرو مشک کا، اور بند رکھا کرو برتن کو، اور بجھا دیا کرو چراغ کو، کہ شیطان بند دروازہ کو نہیں کھولتا، اور ڈاٹ کو نہیں نکالتا، اور برتن نہیں کھولتا، اور چوہا گھر والوں کو جلا دیتا ہے۔“ (یعنی اگر سوتے وقت چراغ روشن رہے تو چوہا بتی لے جاتا ہے تو گھر میں اکثر آگ لگ جاتی ہے)۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3280، 3304، 3316، 5623، 5624، 6295، 6296، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2012، 2013، خزيمة فى «صحيحه» برقم: 131، 132، 133، 2559، 2560، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1271، 1272، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7307، 7796، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 6716، 9668، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2732، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1812، 2766، 2767، 2857، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3410، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14277، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1310، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1771، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 21»
سیدنا ابی شریح الکعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”جو ایمان لایا ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر تو اسے چاہیے نیک بات بولا کرے یا چپ رہے، اور جو ایمان لایا ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر تو اسے چاہیے اپنے ہمسایہ (یعنی پڑوسی) کی خاطر داری کیا کرے، اور جو ایمان لایا ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر تو اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی آؤ بھگت کرے، ایک رات دن تک مہمانی اچھے طور سے کرے، اور تین رات دن تک جو کچھ حاضر ہو کھلائے، اور زیادہ اس سے ثواب ہے، اور مہمان کو لائق نہیں کہ بہت ٹھہرے میزبان کے پاس کہ تکلیف دے اس کو۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6019، 6135، 6476، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 48، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5287، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7389، 7391، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11779، 11780، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1967، 1968، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2078، 2079، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3672، 3675، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9270، وأحمد فى «مسنده» برقم: 27703، والحميدي فى «مسنده» برقم: 585، 586، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 2774، 2775، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 22»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص راستہ میں جا رہا تھا، اس کو بہت شدّت سے پیاس لگی، تو اس نے ایک کنواں دیکھا، اس میں اتر کر پانی پیا، جب کنوئیں سے نکلا تو دیکھا ایک کُتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کے مارے کیچڑ چاٹ رہا ہے، اس نے سوچا اس کا بھی پیاس کی وجہ سے میری طرح حال ہوگا، پھر اس نے کنوئیں میں اُتر کر اپنے موزے میں پانی بھرا اور منہ میں اس کو دبا کر اوپر چڑھا اور کُتے کو پانی پلایا، اللہ جل جلالہُ اس سے خوش ہو گیا اور اس کو بخش دیا۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم کو جانوروں کے پانی پلانے میں بھی ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں، ہر جاندار جگر میں ثواب ہے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2363، 2466، 6009، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2244، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 543، 544، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2550، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7900، 15918، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8861، والبزار فى «مسنده» برقم: 8946، 8969، 8986، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 35856، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 23»
قال مالك: «الظرب الجبيل» سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا ساحلِ دریا کی طرف، اور ان پر حاکم مقرر کیا سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو۔ اس لشکر میں تین سو آدمی تھے، میں بھی ان میں شریک تھا، راہ میں کھانا ختم ہوچکا، سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے حکم کیا کہ جس قدر کھانا باقی ہے اس کو اکٹھا کرو، سب اکٹھا کیا گیا تو دو ظرف کھجور کے ہوئے۔ سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اس میں سے ہر روز ہم کو تھوڑا تھوڑ کھانا دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ ایک کھجور ہمارے حصّہ میں آنے لگی، پھر وہ بھی تمام ہوگئی۔ وہب بن کیسان کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ایک ایک کھجور میں تمہارا کیا ہوتا تھا؟ انہوں نے کہا: جب وہ بھی نہ رہی تو قدر معلوم ہوئی۔ جب ہم دریا کے کنارے پہنچے تو ہم نے ایک مچھلی پڑی پائی پہاڑ کے برابر، سارا لشکر اس سے اٹھارہ دن رات تک کھاتا رہا، پھر سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے حکم کیا اس مچھلی کی ہڈیاں کھڑی کرنے کا، دو ہڈیاں کھڑی کر کے رکھی گئیں تو ان کے نیچے سے اونٹ چلا گیا اور ان سے نہ لگا۔
امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں(حدیث کے لفظ) «الظَّرِبُ» سے مراد چھوٹا پہاڑ ہے۔ تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2483، 2983، 4360، 4361، 4362، 5493، 5494، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1935، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5259، 5260، 5261، 5262، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4356، 4359، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4844، 4845، 4846، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3840، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2475، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2055، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4159، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19026، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14477، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1278، 1279، 1280، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 24»
حضرت عمرو بن سعد بن معاذ کی دادی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے مسلمان عورتوں! نہ ذلیل کرے کوئی تم میں سے اپنے ہمسائے کو، اگرچہ وہ ایک کُھر جلا ہوا بکری کا بھیجے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع حسن لغيره، وأخرجه بخاري فى «الادب المفرد» برقم: 122، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1714، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16278، 23671، 28092، والطبراني فى «الكبير» برقم: 559، 562، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 715، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 25»
حضرت عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”تباہ کرے اللہ یہود کو! حرام ہوا ان پر چربی کا کھانا تو انہوں نے اس کو بیچ کر اس کے دام کھائے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح لغيره، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 26»
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے تھے: اے بنی اسرائیل! تم پانی پیا کرو، اور ساگ پات جو کی روٹی کھایا کرو، اور گیہوں کی روٹی نہ کھاؤ، اس کا شکر ادا نہ کر سکوگے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «شعب الايمان» برقم: 4584، وابن عساكر فى «تاريخ دمشق» برقم: 297/50، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 31875، 34218، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 27»
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا (مسلم اور اصحابِ سنن نے اس کو متصلاً روایت کیا ہے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں آئے، وہاں سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کو پایا، ان سے پوچھا: ”تم کیسے آئے؟“ انہوں نے کہا: بھوک کی وجہ سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھی اسی سبب سے نکلا۔“ پھر تینوں آدمی سیدنا ابو الہیثم ابن تیہان انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، انہوں نے جو کی روٹی پکانے کا حکم کیا اور ایک بکری ذبح کر نے پر مستعد ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دودھ والی کو چھوڑ دے۔“ انہوں نے دوسری بکری ذبح کی اور میٹھا پانی مشک میں بھر کر درخت سے لٹکا دیا، پھر کھانا آیا تو سب نے کھایا اور وہی پانی پیا، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی نعیم (نعمت) ہے، جس کے بارے میں پوچھے جاؤ گے تم اس (قیامت کے) روز۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2083، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2369، والنسائی فى «الكبريٰ» برقم: 11697، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3180، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 28»
حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ روٹی گھی سے لگا کر کھا رہے تھے، ایک بدو آیا، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کو بلایا، وہ بھی کھانے لگا اور روٹی کے ساتھ جو گھی کا میل کچیل پیالے میں لگ رہا تھا وہ بھی کھانے لگا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بڑا ندیدہ ہے (یعنی تجھ کو سالن میسر نہیں ہوا)۔ اس نے کہا: قسم اللہ کی! میں نے اتنی مدت سے گھی نہیں کھایا، نہ اس کے ساتھ کھاتے دیکھا (اس وجہ سے کہ اس زمانے میں ایک مدت سے قحط تھا، لوگ تکلیف میں مبتلا تھے)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بھی گھی نہ کھاؤں گا جب تک کہ لوگوں کی حالت پہلے کی سی نہ ہو جائے (یعنی قحط جاتا رہے اور ارزانی ہو جائے)۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «شعب الايمان» برقم: 5682، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 34453، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 29»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک صاع کھجور کا ڈالا جاتا تھا، وہ اس کو کھاتے تھے یہاں تک کہ خراب اور سوکھی کھجور بھی کھالیتے تھے، اور اس وقت آپ رضی اللہ عنہ امیرالمؤمنین تھے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «شعب الايمان» برقم: 5676، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 34478، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 30»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ٹڈی کے بارے میں (یعنی حلال ہے یا حرام؟) پوچھا گیا۔ تو کہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے: میں چاہتا ہوں کہ میرے پاس ایک زنبیل ہوتی ٹڈیوں کی کہ میں ان کو کھایا کرتا۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18999، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 8758، 8759، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 24553، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 30»
حضرت حمید بن مالک سے روایت ہے کہ میں بیٹھا ہوا تھا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی زمین میں جو عقیق میں تھی، اس کے پاس کچھ لوگ مدینہ کے آئے جانوروں پر سوار ہو کر وہیں اترے۔ حمید نے کہا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: میری ماں کے پاس جاؤ اور میرا سلام ان سے کہو اور کہو کچھ کھانا ہم کو کھلاؤ۔ حمید نے کہا (میں ان کی ماں کے پاس گیا): انہوں نے تین روٹیاں اور کچھ تیل زیتوں کا اور کچھ نمک دیا، اور میرے سر پر لاد دیا، میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس لایا اور ان کے سامنے رکھ دیا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے دیکھ کر کہا: اللہ اکبر، اور کہا: شکر ہے اللہ کا جس نے ہم کو سیر کیا روٹی سے، اس سے پہلے ہمارا یہ حال تھا کہ سوائے کھجور کے اور پانی کے کچھ میسر نہیں تھا، وہ کھانا ان لوگوں کو پورا نہ ہوا، جب وہ چلے گئے تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: اے بیٹے میرے بھائی کے! اچھی طرح رکھ بکریوں کو، اور پونچھتا رہ ناک ان کی، اور صاف کر جگہ ان کی، اور نماز پڑھ اسی جگہ ایک کونے میں، کیونکہ وہ بہشت کے جانوروں میں سے ہیں، قسم اللہ کی! جس کے قبضے میں میری جان ہے، ایک زمانہ قریب ہے ایسے لوگوں پر آئے گا کہ اس وقت ایک چھوٹا سا گلہ بکریوں کا آدمی کو زیادہ پسند ہوگا مروان کے گھر سے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه بخاري فى «الادب المفرد» برقم: 572، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 795، 796، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1384، 1700، 1701، 2314، 2317، والترمذي فى «جامعه» برقم: 348، 349، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1431، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 768، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4426، وأحمد فى «مسنده» برقم: 9756، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 1600، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 3900، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 31»
حضرت ابونعیم وہب بن کیسان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھانا آیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ربیب عمر بن ابی سلمہ تھے (سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے پہلے خاوند کے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”اپنے سامنے سے کھا بسم اللہ کہہ کر۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5378، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 6727، 10039، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 19544، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 156، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 32»
حضرت یحییٰ بن سعید نے کہا: میں نے سنا قاسم بن محمد کہتے تھے کہ ایک شخص آیا سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس اور کہا: میرے پاس ایک یتیم لڑکا ہے، اس کے اونٹ ہیں، کیا میں دودھ ان کا پیوں؟ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر تو اس کے گُم ہوئے اونٹ ڈھونڈتا ہے، اور خارشی اونٹ میں دوا لگاتا ہے، اور ان کا حوض لیپتا پوتتا ہے، اور ان کو پانی کے دن پانی پلاتا ہے (مطلب یہ کہ محنت کرتا ہے اور اونٹوں کی خبر گیری کرتا ہے) تو دودھ ان کا پی، مگر اس طرح نہیں کہ بچے کے لئے نہ بچے (یعنی سب دودھ نہ نچوڑ کہ بچہ بھوکا رہ جائے)، اور نسل کو ضرر پہنچے، یا اس اونٹنی کو ضرر پہنچے (مثلاً خوب زور سے دوہے)۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10996، 12670، 12793، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 571، وبغوي فى «شرح السنة» برقم: 2206، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 33»
حضرت عروہ بن زبیر کے سامنے جب کوئی کھانے پینے کی چیز آتی یہاں تک کہ دوا بھی تو اس کو کھاتے پیتے اور کہتے: سب خوبیاں اسی پروردگار کو لائق ہیں جس نے ہم کو ہدایت کی، اور کھلایا، اور پلایا، اور نعمتیں عطا فرمائیں، وہ اللہ بڑا ہے، اے پروردگار! تیری نعمت اس وقت آئی جب ہم سراسر برائی میں مصروف تھے، ہم نے صبح کی اور شام کی اس نعمت کی وجہ سے اچھی طرح، ہم چاہتے ہیں تو پورا کرے اس نعمت کو، اور ہمیں شکر کی توفیق دے، سوائے تیری بہتری کے کہیں بہتری نہیں ہے، کوئی معبود برحق نہیں سوائے تیرے۔ اے پروردگار نیکوں کے، اور پالنے والے سارے جہاں کے، سب خوبیاں اللہ کو زیبا ہیں، کوئی سچا معبود نہیں سوائے اس کے، جو چاہتا ہے اللہ وہی ہوتا ہے، کسی میں طاقت نہیں سوائے اللہ کے، یا اللہ برکت دے ہماری روزی میں، اور بچا ہم کو دوزخ کے عذاب سے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 24502، 29559، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 34»
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ اگر عورت غیر محرم مرد یا اپنے غلام کے ساتھ کھانا کھائے تو کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: کچھ قباحت نہیں ہے جب کہ عزت کے موافق ہو (یعنی ایسی صورت ہو جو اس عورت کے لیے بہتر ہو) اور وہ یہ کہ اس جگہ اور لوگ بھی ہوں، اور کہا کہ عورت بھی اپنے خاوند کے ساتھ کھاتی ہے، کبھی غیر کے ساتھ جس کو خاوند کھانا کھلایا کرتا ہے، کبھی بھائی کے ساتھ، اور مکروہ ہے عورت کو خلوت کرنا غیر محرم کے ساتھ۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 35»
|