كِتَابُ الْجَامِعِ کتاب: مختلف ابواب کے بیان میں 51. بَابُ جَامِعِ السَّلَامِ سلام کی مختلف احادیث کا بیان
حضرت ابوواقد لیثی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے مسجد میں، لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اتنے میں تین آدمی آئے، دو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ایک چلا گیا، جب وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو سلام کیا، اور ایک شخص ان میں سے حلقے میں جگہ پا کر بیٹھ گیا، اور ایک پیچھے بیٹھا رہا، اور تیسرا تو پہلے ہی چلا گیا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے (وعظ سے یا تعلیم سے جس میں مصروف تھے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تم کو ان تینوں آدمیوں کا حال نہ بتلاؤں؟ ایک تو ان میں سے اللہ کے پاس آیا اللہ نے بھی اس کو جگہ دی، ایک نے ان میں سے شرم کی (مجلس کے اندر گھسنے سے اور لوگوں کو تکلیف دینے سے) اللہ نے بھی اس سے شرم کی (یعنی اس پر رحمت اتاری اور اس کو عذاب نہ کیا)، اور ایک نے ان میں سے منہ پھیر لیا، اللہ نے بھی اس طرف سے منہ پھیر لیا۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 66، 474، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2176، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 86، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 5869، 5870، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2724، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5972، 5987، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22252، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1445، والطبراني فى «الكبير» برقم: 3308، 3309، فواد عبدالباقي نمبر: 53 - كِتَابُ السَّلَامَ-ح: 4»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے سنا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے، ان کو ایک شخص نے سلام کیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب دیا، پھر اس سے مزاج پوچھا۔ اس نے کہا: شکر کرتا ہوں اللہ کا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا یہی مطلب تھا۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «شعب الايمان» برقم: 4450، بخاري فى «الادب المفرد» برقم: 1132، فواد عبدالباقي نمبر: 53 - كِتَابُ السَّلَامَ-ح: 5»
حضرت طفیل بن ابی بن کعب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آتے اور صبح صبح ان کے ساتھ بازار کو جاتے۔ طفیل کہتے ہیں: جب ہم بازار میں پہنچتے تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہر ایک ردی ودی بیچنے والے پر، اور ہر دکاندار پر، اور ہر مسکین پر، اور ہر کسی پر سلام کرتے۔ ایک روز میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، انہوں نے مجھے بازار لے جانا چاہا، میں نے کہا: تم بازار میں جا کر کیا کرو گے، نہ تم بیچنے والوں کے پاس ٹھہرتے ہو، نہ کسی اسباب کو پوچھتے ہو، نہ کسی کا مول تول کرتے ہو، نہ بازار کی مجلسوں میں بیٹھتے ہو؟ اس سے یہیں بیٹھے رہو، ہم تم باتیں کریں گے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اے پیٹ والے (طفیل کا پیٹ بڑا تھا)! بازار میں سلام کرنے کو جاتے ہیں، جس سے ملاقات ہوتی ہے اس کو سلام کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «شعب الايمان» برقم: 8790، بخاري فى «الادب المفرد» برقم: 1006، فواد عبدالباقي نمبر: 53 - كِتَابُ السَّلَامَ-ح: 6»
حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ ایک شخص نے سلام کیا سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو تو کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ والغادیات والرائحات (سلامتی ہو تم پر اور اللہ کی رحمت اور برکات اور صبح اور شام کی نعمتیں آنے والیں اور جانے والیں)۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: وعلیک الفاً (تیرے اوپر بھی ہزار گنے اس کے)، اور اس طرح کہا جیسے کہ اس کو برا جانا۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 19453، والبيهقي فى «شعب الايمان» برقم: 8860، والطبراني فى «الكبير» برقم: 2905، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2917، فواد عبدالباقي نمبر: 53 - كِتَابُ السَّلَامَ-ح: 7»
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ جب کوئی آدمی ایسے گھر میں جائے جو خالی پڑا ہو تو کہے السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین، یعنی: سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 53 - كِتَابُ السَّلَامَ-ح: 8»
|