موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر

موطا امام مالك رواية يحييٰ
کتاب: مختلف ابواب کے بیان میں
31. بَابُ جَامِعِ مَا جَاءَ فِي الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ
31. کھانے پینے کی مختلف احادیث کا بیان
حدیث نمبر: 1683
Save to word اعراب
حدثني، عن مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة ، انه سمع انس بن مالك ، يقول: قال ابو طلحة لام سليم: لقد سمعت صوت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضعيفا اعرف فيه الجوع، فهل عندك من شيء؟ فقالت: نعم، فاخرجت اقراصا من شعير ثم اخذت خمارا لها فلفت الخبز ببعضه، ثم دسته تحت يدي وردتني ببعضه، ثم ارسلتني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فذهبت به فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا في المسجد ومعه الناس فقمت عليهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اارسلك ابو طلحة؟" قال: فقلت: نعم، قال:" للطعام؟" فقلت: نعم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمن معه:" قوموا"، قال: فانطلق وانطلقت بين ايديهم حتى جئت ابا طلحة فاخبرته، فقال ابو طلحة: يا ام سليم قد جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس، وليس عندنا من الطعام ما نطعمهم، فقالت: الله ورسوله اعلم، قال: فانطلق ابو طلحة حتى لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو طلحة معه حتى دخلا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هلمي يا ام سليم ما عندك؟" فاتت بذلك الخبز، فامر به رسول الله صلى الله عليه وسلم ففت وعصرت عليه ام سليم عكة لها فآدمته، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما شاء الله ان يقول، ثم قال:" ائذن لعشرة بالدخول"، فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا، ثم قال:" ائذن لعشرة" فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا، ثم قال:" ائذن لعشرة" فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا، ثم قال:" ائذن لعشرة" فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا، ثم قال:" ائذن لعشرة" حتى اكل القوم كلهم وشبعوا، والقوم سبعون رجلا او ثمانون رجلا" حَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ: لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ، فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ ثُمَّ أَخَذَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ، ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ يَدِي وَرَدَّتْنِي بِبَعْضِهِ، ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَأَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ؟" قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" لِلطَّعَامِ؟" فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ:" قُومُوا"، قَالَ: فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ، وَلَيْسَ عِنْدَنَا مِنَ الطَّعَامِ مَا نُطْعِمُهُمْ، فَقَالَتْ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو طَلْحَةَ مَعَهُ حَتَّى دَخَلَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَكِ؟" فَأَتَتْ بِذَلِكَ الْخُبْزِ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفُتَّ وَعَصَرَتْ عَلَيْهِ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَّةً لَهَا فَآدَمَتْهُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ثُمَّ قَالَ:" ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ بِالدُّخُولِ"، فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ:" ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ" فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ:" ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ" فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ:" ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ" فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ:" ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ" حَتَّى أَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا، وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ رَجُلًا أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلًا"
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ (دوسرے شوہر تھے سیدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا کے جو والدہ تھیں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی) نے سیدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی جو بھوک کی وجہ سے نہیں نکلتی تھی، تو تیرے پاس کوئی چیز ہے کھانے کی؟ سیدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے کچھ روٹیاں جَو کی نکالیں اور ایک کپڑے میں لپیٹ کر میری بغل میں دبا دیں، اور کچھ کپڑا مجھے اڑھا دیا، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کو لے کر آگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ بہت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، میں کھڑا ہو رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پوچھا: کیا تجھ کو ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے کہا: ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانے کے واسطے؟ میں نے کہا: ہاں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سب ساتھیوں کو فرمایا: سب اٹھو۔ سب اٹھ کر چلے، میں سب کے آگے آگیا اور سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو جا کر خبر کی، سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ساتھ لیئے ہوئے آتے ہیں اور ہمارے پاس اس قدر کھانا نہیں ہے جو سب کو کھلائیں۔ سیدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر ملے، یہاں تک کہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں مل کر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اُم سلیم! جو کچھ تیرے پاس ہو لے آ۔ سیدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا وہی روٹیاں لے آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کرایا، پھر سیدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے ایک کپی گھی کی اس پر نچوڑ دی، وہ ملیدہ بن گیا، اس کے بعد جو اللہ جل جلالہُ کو منظور تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس آدمیوں کو بلاؤ۔ انہوں نے دس آدمیوں کو بلایا، وہ سب کھا کر سیر ہو کر چلے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس آدمیوں کو بلاؤ۔ وہ بھی آئے اور سیر ہو کر چلے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دس آدمیوں کو بلاؤ۔ وہ بھی آئے اور سیر ہو کر چلے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس کو اور بلاؤ۔ یہاں تک کہ جتنے لوگ آئے ستر (70) آدمی تھے یا اسّی (80) سب سیر ہو گئے۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 422، 3578، 5381، 5450، 6688، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2040، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5285، 6534، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 6582، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3630، والدارمي فى «مسنده» برقم: 44، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3342، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14708، 14709، وأحمد فى «مسنده» برقم: 13316، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 19»


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.