كِتَابُ الْجَامِعِ کتاب: مختلف ابواب کے بیان میں 84. بَابُ مَا جَاءَ فِي التَّعَفُّفِ عَنِ الْمَسْأَلَةِ سوال سے بچنے کا بیان
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دیا۔ یہاں تک کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا تمام ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جہاں تک مال ہوگا میں تم سے دریغ نہ کروں گا، لیکن جو سوال سے بچے گا تو اللہ جل جلالہُ بھی اس کو بچائے گا، اور جو قناعت کر کے اپنی تونگری ظاہر کرے گا تو اللہ جل جلالہُ اس کو غنی کر دے گا، اور جو صبر کرے گا اللہ جل جلالہُ اس کو صبر کی توفیق دے گا، اور کوئی نعمت جو لوگوں کو دی گئی ہے صبر سے زیادہ بہتر اور کشادہ نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1469، 6470، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1053، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3400، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2589، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2380، 11819، 11820، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1644، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2024، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1686، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7961، وأحمد فى «مسنده» برقم: 11912، 11913، فواد عبدالباقي نمبر: 58 - كِتَابُ الصَّدَقَةِ-ح: 7»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا - اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت منبر پر ذکر کرتے صدقے کا اور سوال سے بچنے کا -: ”اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے۔ اور اوپر والا خرچ کرنیوالا ہے اور نیچے والا مانگنے والا ہے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1429، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1033، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3361، 3364، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2534، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2324، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1648، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1692، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7974، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5344، فواد عبدالباقي نمبر: 58 - كِتَابُ الصَّدَقَةِ-ح: 8»
حضرت عطار بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ مال بھیجا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو پھیر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم نے کیوں پھیر دیا؟“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے بہتر وہ شخص ہے جو کسی سے کچھ نہ لے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا مطلب یہ ہے کہ مانگ کر کچھ نہ لے، اور جو بن مانگے ملے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اب کسی سے کچھ نہ مانگوں گا، اور جو بن مانگے میرے پاس آئے گا اس کو لے لوں گا۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1473، 7163، 7164، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1045، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2364، 2365، 2366، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3405، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2605، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2396، 2397، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1647، 2944، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1687، 1688، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7982، وأحمد فى «مسنده» برقم: 136، والحميدي فى «مسنده» برقم: 21، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 167، فواد عبدالباقي نمبر: 58 - كِتَابُ الصَّدَقَةِ-ح: 9»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر ایک تم میں سے اپنی رسی میں لکڑی کا گٹھا باندھ کر اپنی پیٹھ پر لادے تو وہ بہتر ہے اس سے کہ وہ ایسے شخص کے پاس آئے جس کو اللہ نے مال دیا ہے اور اس سے مانگے، وہ دے یا نہ دے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1470، 1480، 2074، 2374، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1042، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1040، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3387، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2590، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3994، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7315، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1087، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6027، فواد عبدالباقي نمبر: 58 - كِتَابُ الصَّدَقَةِ-ح: 10»
ایک شخص سے روایت ہے جو بنی اسد میں سے تھا کہ میں اور میرے گھر کے لوگ بقیع الغرقد (مدینہ منورہ کے مقبرے کا نام ہے) میں اُترے۔ میری بی بی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا اور کھانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگ اور اپنی محتاجی بیان کر۔ تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ پاس گیا، اور دیکھا کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کر رہا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”میرے پاس نہیں ہے جو میں تجھ کو دوں۔“ وہ شخص غصّے میں پیٹھ موڑ کر چلا اور کہتا جاتا تھا: قسم اپنی عمر کی! تم اسی کو دیتے ہو جس کو چاہتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیکھو وہ غصّہ ہوتا ہے اس بات پر کہ میرے پاس نہیں ہے جو میں اس کو دوں، جو شخص تم میں سے سوال کرے اور اس کے پاس چالیس درہم ہوں، یا اتنا مال ہو، تو اس نے لپٹ کر سوال کیا۔“ میں نے کہا: ایک اونٹ ہم کو بہتر ہے چالیس درہم سے۔ پھر میں لوٹ آیا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سوال نہیں کیا۔ بعد اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جَو اور خشک انگور آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بھی اس میں سے حصّہ دیا، یہاں تک کہ اللہ نے غنی کر دیا ہم کو۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 1627، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2597، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2388، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13332، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16525، فواد عبدالباقي نمبر: 58 - كِتَابُ الصَّدَقَةِ-ح: 11»
حضرت علاء بن عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ صدقہ دینے سے کسی مال میں کمی و نقصان نہیں ہوا، اور جو بندہ معاف کرتا رہتا ہے اس کی عزت زیادہ ہوتی ہے، اور جو تواضع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا رتبہ اور بلند کر دیتا ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: مجھ کو معلوم نہیں یہ حدیث مرفوع ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک یا نہیں۔ تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2588، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2029، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7205، والدارمي فى «سننه» برقم: 1676، فواد عبدالباقي نمبر: 58 - كِتَابُ الصَّدَقَةِ-ح: 12»
|