قال: حدثني يحيى بن يحيى الليثي، عن مالك بن انس، عن ابن شهاب ، ان عمر بن عبد العزيز، اخر الصلاة يوما فدخل عليه عروة بن الزبير ، فاخبره، ان المغيرة بن شعبة، اخر الصلاة يوما وهو بالكوفة، فدخل عليه ابو مسعود الانصاري ، فقال: ما هذا يا مغيرة؟ اليس قد علمت ان " جبريل نزل فصلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: بهذا امرت" . فقال عمر بن عبد العزيز: اعلم ما تحدث به يا عروة، او إن جبريل هو الذي اقام لرسول الله صلى الله عليه وسلم وقت الصلاة؟ قال عروة: كذلك كان بشير بن ابي مسعود الانصاري يحدث، عن ابيه. قال قال عروة : ولقد حدثتني عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان يصلي العصر والشمس في حجرتها، قبل ان تظهر" قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَحْيى اللَّيْثِيّ، عَنْ مَالِك بْن أَنَس، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، أَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا فَدَخَلَ عَلَيْهِ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، فَأَخْبَرَهُ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، أَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا وَهُوَ بِالْكُوفَةِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ أَبُو مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيُّ ، فَقَالَ: مَا هَذَا يَا مُغِيرَةُ؟ أَلَيْسَ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ " جِبْرِيلَ نَزَلَ فَصَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: بِهَذَا أُمِرْتُ" . فَقَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ: اعْلَمْ مَا تُحَدِّثُ بِهِ يَا عُرْوَةُ، أَوَ إِنَّ جِبْرِيلَ هُوَ الَّذِي أَقَامَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقْتَ الصَّلَاةِ؟ قَالَ عُرْوَةُ: كَذَلِكَ كَانَ بَشِيرُ بْنُ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيُّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ. قَالَ قَالَ عُرْوَةُ : وَلَقَدْ حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا، قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ"
محمد بن مسلم بن شہاب زہری سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز خلیفہ وقت نے ایک روز دیر کی عصر کی نماز میں تو ان کے پاس عروہ بن زبیر گئے اور ان کو خبر دی کہ مغیرہ بن شعبہ نے ایک روز دیر کی تھی عصر کی نماز میں جب وہ کوفہ کے حاکم تھے، پس ان کے پاس ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری گئے اور کہا کہ اے مغیرہ! یہ دیر میں نماز کیا ہے، کیا تم کو نہیں معلوم کہ جبرئیل علیہ السلام اترے آسمان سے اور نماز پڑھی انہوں نے (ظہر کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی ان کے، پھر نماز پڑھی جبرئیل علیہ السلام نے (عصر کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی ان کے، پھر نماز پڑھی جبرئیل علیہ السلام نے (مغرب کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی ان کے، پھر نماز پڑھی جبرئیل علیہ السلام نے (عشا کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی ان کے، پھر نماز پڑھی جبرئیل علیہ السلام نے (فجر کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی ان کے، پھر کہا جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے: ایسا ہی تم کو حکم ہوا ہے۔ تب کہا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عروہ سے کہ سمجھو تم جو روایت کرتے ہو کیا جبرئیل علیہ السلام نے قائم کیے نماز کے وقت حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے۔ عروہ نے کہا کہ ابومسعود بن عقبہ بن عمرو انصاری کے بیٹے بشیر ایسا ہی روایت کرتے تھے اپنے باپ سے۔ اور مجھ سے روایت کیا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے عصر کی اور دھوپ حجرے کے اندر ہوتی تھی دیواروں پر چڑھنے سے پہلے۔
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 521، 522، 544، 545، 546، 3103، 3221، 4007، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 610، 611، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1448، 1449، 1450، 1494، 1521، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 697، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 493، 504، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1494، 1506، وأبو داود فى «سننه» برقم: 394، 407، والترمذي فى «جامعه» برقم: 159، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1223، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 668، 683، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1723، 1728، 1729، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17364، 22785، شركة الحروف نمبر: 1، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 2»
حافظ عبد اللہ رفیق حفظہ اللہ، موطا امام مالك حدیث 1
فائدہ: اس حدیث مبارکہ سے اصل مقصود یہ سمجھانا ہے کہ نماز عصر کو جلدی ادا کر لینا چاہیے، یہ بات مشہور بھی ہے اور ہر حاجی اس کا مشاہدہ بھی کرتا ہے کہ اُمہات المومنین کے حجرے چھوٹے چھوٹے سے تھے، اُن کا اندرونی صحن وسیع نہیں تھا اور یہ حقیقت ہے کہ ایسے مکانات کی دیواریں خواہ چھوٹی بھی ہوں، سورج کی دھوپ جلد ہی ان کے صحن سے ختم ہو جاتی ہے اور دیواروں پر چڑھ جاتی ہے۔ عصر کا وقت ایک مثل پر شروع ہو جاتا ہے یعنی جب آدمی کا سایہ اس کے قد کے برابر ہو جائے تو نماز عصر پڑھی جاسکتی ہے اور یہ ایک مثل سایہ، زوال کے وقت باقی رہنے والے سائے سے زائد ہوتا ہے ....... یاد رہے ظہر کا وقت ختم ہوتے ہی عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے، چنانچہ فرمانِ مصطفی علیہ السّلام ہے: ”وقتُ الظُّهْرِ مَا لَمْ تَحْضُرِ الْعَصْرُ“”ظہر کا وقت باقی رہے گا جب تک نماز عصر نہ آجائے۔“(مسلم: 173/ 612) نیز اختتام ظہر کے متعلق فرمایا: ”وَكَانَ ظِلُّ الرَّجُل كَطوله“”اور آدمی کا سایہ اس کے قد کے برابر ہو جائے۔“(مسلم: 173/ 612) ایک روایت میں ہے: ”وَصَلَّى بِيَ الْعَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّهُ مِثْلَهُ“”اور جبریل علیہ السّلام نے مجھے نماز عصر اس وقت پڑھائی جب سایہ ایک مثل ہو گیا۔“(ابو داؤد: 393، ترمذی: 419 و غیرہ) یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے تمام شاگردوں نے یہی موقف اختیار کیا، خود امام صاحب سے بھی ایک روایت میں یہی منقول ہے، مولانا رشید احمد گنگوہی حنفی رحمہ اللہ تعالی اور مولانا عبد الحئی لکھنوی حنفی رحمہ اللہ تعالی نے حاشیہ موطا امام محمد میں اس موقف کی بھر پور تائید کی ہے۔ (مرعاة المفاتيح: 2/289) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ خبر واحد حجت ہے، اسی طرح علماء کا حکمرانوں کی اصلاح کے لیے ان کے پاس جانا درست ہے، بصورت دیگر حکمرانوں کی صحبت سے بچنا ہی بہتر ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم و تابعین رحمھم اللہ تعالی کا دور بہت سنہری تھا، وہ فریضہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو بروقت ادا کرتے تھے اور اس میں غفلت و کوتاہی سے کام نہ لیتے تھے، سنت نبویہ کی ذرہ بھر مخالفت بھی ان کو گوارا نہ تھی، وہ نماز کی ادائیگی میں تھوڑی سی تاخیر پر بھی گرفت کرتے اور حاکموں کے درباروں میں بیباکی سے اظہار حق کرتے تھے، وہ یہ باور کراتے تھے کہ اوقات نماز کا معاملہ بہت عظیم ہے جس کی خاطر اللہ نے سید الملائکہ جبریل علیہ السّلام کو نازل فرمایا اور پریکٹیکل کے ذریعے رسول اللہ ﷺ کو اوقات نماز بتائے ... حدیث مذکور سے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تعالی کی فضیلت اور احتیاط بھی عیاں ہوئی کہ باہمی اختلاف کے حل کے لیے فوراً سنت مصطفی ﷺ کی طرف رجوع کیا اور یہی حکم الہی ہے (سورۂ نساء 59:4) ... ہر امتی کو چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب صرف اسی قول و فعل کو قبول کرے جو قابل حجت سند سے ثابت ہو، کیونکہ بہت سے لوگ مختلف مقاصد کی خاطر جھوٹی روایات گھڑ کر اُن پر حدیث کا لیبل لگا لیتے ہیں، لہذا حدیث کے معاملے میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کی طرح ضرور تحقیق کر لینا چاہیے۔ نیز معلوم ہوا کہ مفضول یعنی کم رتبے والے کے پیچھے افضل شخصیت کی نماز ہو جاتی ہے جیسا کہ جبریل علیہ السّلام کے پیچھے سید کائنات ﷺ نے نماز ادا فرمائی اور ایسے ہی نبی کریم ﷺ کا ایک دفعہ سید نا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کے پیچھے نماز پڑھنا ثابت ہے۔ (صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب المسح على الخفين: 633)
۔۔۔، حدیث/صفحہ نمبر: 1
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 1
فائده:
اس حدیث مبارکہ سے اصل مقصود یہ سمجھانا ہے کہ نمازِ عصر کو جلدی ادا کر لینا چاہیے، یہ بات مشہور بھی ہے اور ہر حاجی اس کا مشاہدہ بھی کرتا ہے کہ اُمہات المومنین کے حجرے چھوٹے چھوٹے سے تھے، اُن کا اندرونی صحن وسیع نہیں تھا اور یہ حقیقت ہے کہ ایسے مکانات کی دیواریں خواہ چھوٹی بھی ہوں، سورج کی دھوپ جلد ہی ان کے صحن سے ختم ہو جاتی ہے اور دیواروں پر چڑھ جاتی ہے۔
عصر کا وقت ایک مثل پر شروع ہو جاتا ہے یعنی جب آدمی کا سایہ اس کے قد کے برابر ہو جائے تو نمازِ عصر پڑھی جا سکتی ہے اور یہ ایک مثل سایہ، زوال کے وقت باقی رہنے والے سائے سے زائد ہوتا ہے۔۔
یاد رہے ظہر کا وقت ختم ہوتے ہی عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے، چنانچہ فرمانِ مصطفی علیہ السلام ہے: «وقت الظهْرِ مَالَمْ تَحْضُرِ العَصْرُ»”ظهر کا وقت باقی رہے گا جب تک نماز عصر نہ آ جائے۔“[مسلم: 173، 612]
نیز اختتام ظہر کے متعلق فرمایا: «وَكَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ كَطُولِه»”اور آدمی کا سایہ اس کے قد کے برابر ہو جائے۔“[مسلم: 173، 612]
ایک روایت میں ہے: «وَصَلَّى بِيَ الْعَصْرَ حِيْنَ كَانَ ظله مِثْلَه»”اور جبریل علیہ السلام نے مجھے نماز عصر اس وقت پڑھائی جب سایہ ایک مثل ہو گیا۔“[ابو داؤد: 393، ترمذي: 149 وغيره]
یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے تمام شاگردوں نے یہی موقف اختیار کیا، خود امام صاحب سے بھی ایک روایت میں یہی منقول ہے، مولانا رشید احمد گنگوہی حنفی رحمہ اللہ اور مولانا عبد الحئی لکھنوی حنفی رحمہ اللہ نے نے حاشیہ موطا امام محمد میں اس موقف کی بھر پور تائید کی ہے۔ [مرعاة المفاتيح: 289/2]
اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ خبر واحد حجت ہے، اسی طرح علماء کا حکمرانوں کی اصلاح کے لیے ان کے پاس جانا درست ہے، بصورتِ دیگر حکمرانوں کی صحبت سے بچنا ہی بہتر ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہ اللہ کا دور بہت سنہری تھا، وہ فریضہ «امر بالمعروف و نهي عن المنكر» کو بروقت ادا کرتے تھے اور اس میں غفلت و کوتاہی سے کام نہ لیتے تھے، سنت نبویہ کی ذرہ بھر مخالفت بھی ان کو گوارا نہ تھی، وہ نماز کی ادائیگی میں تھوڑی سی تاخیر پر بھی گرفت کرتے اور حاکموں کے درباروں میں بیباکی سے اظہارِ حق کرتے تھے، وہ یہ باور کراتے تھے کہ اوقاتِ نماز کا معاملہ بہت عظیم ہے جس کی خاطر اللہ نے سید الملائکہ جبریل علیہ السلام کو نازل فرمایا اور پریکٹیکل کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اوقات نماز بتائے۔۔
حدیث مذکور سے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی فضیلت اور احتیاط بھی عیاں ہوئی کہ باہمی اختلاف کے حل کے لیے فوراََ سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا اور یہی حکم الہی ہے۔ [سورۃ نساء 59: 4]
ہر امتی کو چاہیے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب صرف اُسی قول و فعل کو قبول کرے جو قابل حجت سند سے ثابت ہو، کیونکہ بہت سے لوگ مختلف مقاصد کی خاطر جھوٹی روایات گھڑ کر اُن پر حدیث کا لیبل لگا لیتے ہیں، لہذا حدیث کے معاملے میں عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی طرح ضرور تحقیق کر لینا چاہیے.
نیز معلوم ہوا کہ مفضول یعنی کم رتبے والے کے پیچھے افضل شخصیت کی نماز ہو جاتی ہے جیسا کہ جبریل علیہ السلام کے پیچھے سید کا ئنات صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا فرمائی اور ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دفعہ سیدنا عبد الرحمن بن
عوف رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھنا ثابت ہے۔ [صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب المسح على الخفين: 633]
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 1
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 407
´عصر کے وقت کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر ایسے وقت میں ادا فرماتے تھے کہ دھوپ میرے حجرے میں ہوتی، ابھی دیواروں پر چڑھی نہ ہوتی۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 407]
407۔ اردو حاشیہ: ”حجرہ“ عربی زبان میں گھر کے ساتھ گھرے ہوئے آنگن کو بھی کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے صحن کی دیواریں چھوٹی ہی تھیں اس لیے دھوپ ابھی آنگن ہی میں ہوتی تھی۔ مشرقی دیوارپر چڑھتی نہ تھی کہ عصر کا وقت ہو جاتا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ لیتے تھے۔ معلوم ہوا کہ آپ اوّل وقت میں عصر پڑھتے تھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 407
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 506
´عصر جلدی پڑھنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھی، اور دھوپ ان کے حجرے میں تھی، اور سایہ ان کے حجرے سے (دیوار پر) نہیں چڑھا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 506]
506 ۔ اردو حاشیہ: حدیث کا مقصد عصر کی نماز جلدی پڑھنا ہے، یعنی مثل اول ہوتے ہیں پڑھ لیتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے سے مراد ان کے گھر کا صحن ہے جو دیوار سے گھرا ہوا تھا۔ دوپہر کو پورے صحن میں دھوپ ہوتی تھی اور جیسے جیسے سورج ڈھلتا جاتا تھا، مغربی دیوار کا سایہ صحن میں پھیلتا جاتا تھا، لیکن دیوار چونکہ بہت زیادہ اونچی نہ تھی، اس لیے ابھی صحن میں دھوپ باقی رہتی تھی، مشرقی دیوار پر سایہ چڑھ نہ پاتا تھا کہ وہ مغربی دیوار کے ایک مثل ہو جاتا تھا اور اس وقت نماز قائم کر دی جاتی تھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 506
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث683
´نماز عصر کا وقت۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی اور دھوپ میرے کمرے میں باقی رہی، ابھی تک سایہ دیواروں پر چڑھا نہیں تھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 683]
اردو حاشہ: اس سے معلوم ہو کہ نبی ﷺ نے عصر کی نماز جلدی ادا فرمائی کیونکہ اگر دیر کی جائے تو سایہ پورے صحن میں پھیل جائے گا اور دیوار پر چڑھنا شروع ہو جائے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 683
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1382
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عصر کی نماز اس وقت پڑھتے جبکہ دھوپ میرے کمرہ میں چمک رہی ہوتی، ابھی تک اس جگہ سے سایہ نہ پھیلا ہوتا اور ابوبکر نےلَمْ يَفِئِ الْفَيْءُ کی جگہ لَمْ يَظْهَرِ الْفَيْءُ کہا (دونوں کا معنی ایک ہی ہے)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1382]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: قَبْلَ أَنْ تَظْهَر: دھوپ ابھی کمرہ میں موجود تھی، اسی مفہوم کو لَمْ يَفِئِ الْفَيْءُ سے ادا کیا گیا ہے کہ دھوپ کی جگہ سایہ نے نہیں لی تھی، دھوپ اٹھتی ہے تو اس کی جگہ سایہ پھیلتا ہے، اس لیے دونوں الفاظ میں تضاد نہیں ہے اور لَمْ يَظْهَرِ الْفَيْءُ کا معنی بھی یہی ہے کہ اس دھوپ کی جگہ سایہ ظاہر نہیں ہوا تھا، اس کی جگہ سایہ نہیں پھیلا تھا، اس طرح آپﷺ عصر کی نماز وقت ہوتے ہی پڑھ لیتے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1382
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1383
نبی اکرم ﷺ کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عصر کی نماز، اس وقت پڑھتے جبکہ دھوپ ان کے حجرہ میں ہوتی، سایہ ان کے حجرہ میں نہ پھیلا ہوتا تھا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1383]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: جب حجرہ کی دیواریں چھوٹی ہوں یعنی چھت بلند نہ ہو تو اس میں دھوپ اس صورت میں ہو گی جب سورج بلند ہو اس لیے عصر کا وقت ایک مثل سایہ کے بعد شروع ہوتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1383
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3103
3103. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نماز عصر ایسے وقت میں ادا کرتے تھے جبکہ دھوپ ابھی ان کے حجرے سے نہیں نکلی ہوتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3103]
حدیث حاشیہ: حضرت عائشہ ؓ کی طرف حجرہ کو منسوب کیا گیا‘ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ یہ حدیث کتاب المواقیت میں بھی گزر چکی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3103
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:544
544. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: دھوپ ابھی میرے حجرے سے نہ نکلی ہوتی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نماز عصر پڑھ لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:544]
حدیث حاشیہ: (1) عصر کے اول وقت (ایک مثل سایہ) کی تعیین کے لیے امام بخاری ؒ کو اپنی شرائط کے مطابق کوئی حدیث نہ مل سکی، اس لیے انھوں نے ایسی احادیث ذکر کی ہیں جن سے اول وقت کا استنباط ہوسکے، اگرچہ امام مسلم ؒ متعدد ایسی احادیث لائے ہیں جو واضح طور پر مقصود پر دلالت کرتی ہیں۔ مذکورہ روایت سے تعجیل عصر کا استدلال امام نووی ؒ نے بایں الفاظ نقل کیا ہے: سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے کا صحن انتہائی چھوٹا تھا اور اس کی دیواریں اس قدر نیچی تھیں کہ ان کی اونچائی صحن کی پیمائش سے کچھ کم تھی، اس لیے جب دیوار کا سایہ ایک مثل ہوگا تو صحن کی دھوپ بالکل کنارے پر پہنچ جائے گی۔ (شرح النووي، حدیث: 5/152،153)(2) اس استدلال کی وضاحت یوں ہے کہ حجرے سے مراد صحن کی چار دیواری ہے، صحن کی پیمائش، چار دیواری سے کچھ زائد تھی، اس لیے ایک مثل کی دھوپ صحن میں رہے گی، لیکن دوسری مثل کے شروع ہوتے ہی دیوار پر چڑھنا شروع ہوجائے گی۔ چونکہ عائشہ ؓ کا فرمان ہے کہ نماز سے فراغت کے وقت دھوپ میرے صحن میں باقی ہوتی تھی، گویا عصر کی نماز مثل ثانی کے شروع ہوتے ہی پڑھ لی جاتی تھی۔ (فتح الباري: 35/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 544
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:546
546. حضرت عائشہ ؓ سے ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عصر کی نماز سے فارغ ہو جاتے جبکہ دھوپ میرے حجرے (کے صحن) میں نمایاں ہوتی تھی اور سایہ مکمل طور پر نہ آیا ہوتا تھا۔ امام مالک، یحییٰ بن سعید، شعیب اور ابن ابی حفصہ نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ دھوپ کے اوپر چڑھنے سے پہلے پہلے (نماز پڑھ لیتے تھے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:546]
حدیث حاشیہ: حضرت عائشہ ؓ کا حجرہ جس میں رسول اللہ ﷺ، حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت عمر ؓ دفن ہیں، مسجد نبوی کے مشرقی جانب واقع تھا جبکہ قبلہ جنوب کی جانب تھا اور اس طرف حضرت حفصہ ؓ اور حضرت میمونہ ؓ کے حجرات تھے۔ مغرب کی طرف کوئی حجرہ نہیں تھا۔ مشرقی جانب جنوبی گوشے میں حضرت سودہ، اس کے آگے شمال کی طرف حضرت عائشہ، پھر حضرت فاطمہ اور آخر میں حضرت صفیہ ؓ کا حجرہ تھا۔ جبکہ شمالی جانب حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ، ان کی وفات کے بعد وہی حجرہ حضرت ام سلمہ ؓ کی تحویل میں آگیا۔ مشرقی جانب ام حبیبہ ؓ، حضرت جویریہ اور حضرت زینب بنت حجش ؓ کے حجرات تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کی اونچائی زیادہ سے زیادہ آٹھ فٹ تھی، کیونکہ حضرت حسن بصری ؒ کا بیان ہے کہ وہ ہاتھ اٹھاتے تو چھت سے لگ جاتا تھا۔ (طبقات ابن سعد: 117/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 546