وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، انه قال: سمعت القاسم بن محمد ، يقول: جاء رجل إلى عبد الله بن عباس، فقال له: إن لي يتيما وله إبل افاشرب من لبن إبله؟ فقال له ابن عباس : " إن كنت تبغي ضالة إبله، وتهنا جرباها وتلط حوضها وتسقيها يوم وردها، فاشرب غير مضر بنسل ولا ناهك في الحلب" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ ، يَقُولُ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ لَهُ: إِنَّ لِي يَتِيمًا وَلَهُ إِبِلٌ أَفَأَشْرَبُ مِنْ لَبَنِ إِبِلِهِ؟ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ : " إِنْ كُنْتَ تَبْغِي ضَالَّةَ إِبِلِهِ، وَتَهْنَأُ جَرْبَاهَا وَتَلُطُّ حَوْضَهَا وَتَسْقِيهَا يَوْمَ وِرْدِهَا، فَاشْرَبْ غَيْرَ مُضِرٍّ بِنَسْلٍ وَلَا نَاهِكٍ فِي الْحَلْبِ"
حضرت یحییٰ بن سعید نے کہا: میں نے سنا قاسم بن محمد کہتے تھے کہ ایک شخص آیا سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس اور کہا: میرے پاس ایک یتیم لڑکا ہے، اس کے اونٹ ہیں، کیا میں دودھ ان کا پیوں؟ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر تو اس کے گُم ہوئے اونٹ ڈھونڈتا ہے، اور خارشی اونٹ میں دوا لگاتا ہے، اور ان کا حوض لیپتا پوتتا ہے، اور ان کو پانی کے دن پانی پلاتا ہے (مطلب یہ کہ محنت کرتا ہے اور اونٹوں کی خبر گیری کرتا ہے) تو دودھ ان کا پی، مگر اس طرح نہیں کہ بچے کے لئے نہ بچے (یعنی سب دودھ نہ نچوڑ کہ بچہ بھوکا رہ جائے)، اور نسل کو ضرر پہنچے، یا اس اونٹنی کو ضرر پہنچے (مثلاً خوب زور سے دوہے)۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10996، 12670، 12793، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 571، وبغوي فى «شرح السنة» برقم: 2206، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 33»