(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن كثير، عن الاوزاعي، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إذا استاذنت احدكم امراته إلى المسجد، فلا يمنعها"، فقال فلان بن عبد الله: إذا والله امنعها، فاقبل عليه ابن عمر فشتمه شتيمة لم اره يشتمها احدا قبله، ثم قال: احدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وتقول: إذا والله امنعها!!.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا اسْتَأْذَنَتْ أَحَدَكُمْ امْرَأَتُهُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَلَا يَمْنَعْهَا"، فَقَالَ فُلَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: إِذًا وَاللَّهِ أَمْنَعُهَا، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ ابْنُ عُمَرَ فَشَتَمَهُ شَتِيمَةً لَمْ أَرَهُ يَشْتِمُهَا أَحَدًا قَبْلَهُ، ثُمَّ قَالَ: أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتَقُولُ: إِذًا وَاللَّهِ أَمْنَعُهَا!!.
سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کی بیوی اگر مسجد جانے کی اجازت مانگے تو اسے روکے نہیں۔“ عبداللہ کے ایک بیٹے نے کہا: میں تو الله کی قسم اس وقت اسے روکوں گا، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اتنا برا بھلا کہا کہ میں نے اس سے پہلے انہیں کبھی کسی کو اتنا برا بھلا کہتے نہیں سنا، پھر فرمایا: میں تمہیں حدیث رسول سناتا ہوں، پھر بھی تم کہتے ہو ہم اس وقت واللہ اسے روکیں گے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 453 سے 456) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت اگر مسجد جانے کی اجازت مانگے تو اسے مسجد جانے سے روکنا نہیں چاہئے بشرطیکہ فتنے میں پڑنے کا ڈر نہ ہو، اور مکان آمن ہو، راستہ محفوظ ہو، اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اتنی شدت سے ان کو ڈانٹا تو اس کا سبب ان کے بیٹے کا طرزِ کلام تھا، اور قسم کھا کر یہ کہنا کہ واللہ ہم روکیں گے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح مخالفت ہے۔ جس کے بارے میں آیا: « ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾[النور: 63] » یعنی ”جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کریں انھیں ڈرنا چاہیے کہ فتنہ میں نہ پڑ جائیں یا درد ناک عذاب میں مبتلا ہو جائیں۔ “
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير وهو الثقفي الصنعاني لكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 456]» اس اثر کی سند ضعیف ہے، لیکن عورت کا مسجد جانے کی اجازت والی حدیث دوسری سند سے صحیح و متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: تخریج حدیث نمبر (459)۔ اور مذکورہ بالا حدیث کے لئے دیکھئے: [بخاري 873]، [مسلم 442]، [مسند أبي يعلی 5426]، [صحيح ابن حبان 2208]، [مسند الحميدي 625]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير وهو الثقفي الصنعاني لكن الحديث متفق عليه