سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
40. باب تَعْجِيلِ عُقُوبَةِ مَنْ بَلَغَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثٌ فَلَمْ يُعَظِّمْهُ وَلَمْ يُوَقِّرْهُ:
حدیث رسول کی توہین و تحقیر پر فوری سزا کا بیان
حدیث نمبر: 451
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَجْلَانَ، عَنْ الْعَجْلَانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "بَيْنَمَا رَجُلٌ يَتَبَخْتَرُ فِي بُرْدَيْنِ، خَسَفَ اللَّهُ بِهِ الْأَرْضَ، فَهُوَ يَتَجَلْجَلُ فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ"، فَقَالَ لَهُ فَتًى قَدْ سَمَّاهُ وَهُوَ فِي حُلَّةٍ لَهُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، أَهَكَذَا كَانَ يَمْشِي ذَلِكَ الْفَتَى الَّذِي خُسِفَ بِهِ؟ ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ، فَعَثَرَ عَثْرَةً كَادَ يَتَكَسَّرُ مِنْهَا، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ لِلْمَنْخَرَيْنِ وَلِلْفَمِ: إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ سورة الحجر آية 95.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص اپنی دو چادروں میں اترا رہا تھا تو الله تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا، لہٰذا وہ قیامت تک دھنستا رہے گا۔“ ایک نوجوان نے کہا: جس کا نام انہوں نے بتایا جو اپنے لباس (حلۃ) میں تھا، اے ابوہریرہ! کیا وہ جوان جو چلتے ہوئے دھنسا دیا گیا اس طرح چلتا تھا؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ مارا تو وہ لڑکھڑا کر گرا، قریب تھا کہ چور چور ہو جائے، پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ اسے اس کے چہرے کے بل گرائے اور پڑھا: «﴿إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ﴾» [الحجر: 95/15] یعنی آپ سے جو لوگ استہزاء کرتے ہیں ان کی سزا کے لئے ہم کافی ہیں۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف غير أن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 451]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن زمین میں دھنسائے جانے کا واقعہ صحیح ہے، اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3485]، [مسلم 2088] نیز اس روایت کے شواہد بھی ہیں۔ دیکھئے: [مسند أبى يعلی 4302] و [فتح الباري 261/10]
وضاحت: (تشریح حدیث 450)
حدیث پاک کے ساتھ ہنسی مذاق پر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو سخت سرزنش کی اور یہ پیغام دیا کہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر و عظمت نہ کرنے والے کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف غير أن الحديث متفق عليه