ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی مگر جو چیز اس کی بو، مزہ اور رنگ پر غالب آ جائے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: نجاست پڑنے کے بعد اگر پانی میں بو، رنگ اور مزہ کی تبدیلی ہو جائے تو وہ پانی کم ہو یا زیادہ نجس و ناپاک ہو جائے گا، اس پر علماء کا اجماع ہے کما تقدم۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4860، ومصباح الزجاجة: 218) (ضعیف)» (رشدین اور راشد بن سعد دونوں ضعیف ہیں، یہ حدیث صحیح نہیں ہے، لیکن علماء کا اس کے عمل پر اجماع ہے، یعنی اگر نجاست پڑنے سے پانی میں تبدیلی پیدا ہو جائے تو وہ پانی نجس ہے)
It was narrated that Abu Umamah Al-Bahili said:
"The Messenger of Allah said: 'Water is not made impure by anything except that which changes its smell, taste and color.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري: ”ھذا إسناد فيه رشدين وھو ضعيف واختلف عليه مع ضعفه“ ويغني عنه الإجماع،انظر: الإجماع لابن المنذر (ص 33 نص 11،12) رشدين: ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 397
ابوصهيب مولانا محمد داود ارشد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابن ماجه 521
� فقہ الحدیث ◈ علامہ زیلعی حنفی امام ابن حبان کے حوالہ سے لکھتے ہیں: «وهذا مخصوص بحديث القلتين، وكلاهما بالإجماع أن الماء المتغير بنجاسة ينجس، قليلا كان الماء أو كثيرا.»[نصب الرايه: ج1، ص 95] یعنی یہ حدیث قلتین والی حدیث کی وجہ سے مخصوص ہے اور یہ دونوں ہی اجماع سے مخصوص ہیں وہ یہ کہ نجاست گرنے کی وجہ سے پانی اگر متغیر ہو جائے خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ تو وہ نجس ہو گیا۔ چنانچہ: ◈ بیہقی میں ہے: «ان النبى صلى الله عليه وسلم قال اذا كان الماء قلتين لم ينجسه شئ الا ما غلب على ريحه او طعمه»[السنن الكبريٰ: ج1، ص259] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جب پانی دو مٹکے ہو تو اس کو کوئی چیز نجس نہیں کرتی مگر یہ کہ اس کا مزہ اور بو بدل جائے۔“ اسی طرح سنن ترمذی کی حدیث 67 اور اس کے فوائد و مسائل دیکھیں۔
دین الحق بجواب جاء الحق، حصہ اول، حدیث/صفحہ نمبر: 76
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابن ماجه 521
فوائد و مسائل «لا يخرجه عن الوصفين إلا ما غير ريحه أو لونه او طعمه من النجاسات» ”ان دونوں اوصاف سے اسے کوئی چیز خارج نہیں کرتی مگر صرف ایسی نجاست جو اس کی بو یا اس کا رنگ یا اس کا ذائقہ تبد یل کر دے۔“ ❀ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا، کیا ہم بئر بضاعہ کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ (بئر بضاعہ ایک قدیم کنواں تھا جس میں حیض آلود کپڑے، کتے کے گوشت کے ٹکڑے اور بدبودار اشیاء ڈالی جاتی تھیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا: «الْمَاءُ طَهُورٌ لَا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ»”پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔“[صحيح: أبوداود 66]۱؎ ❀ حضرت ابوامامہ باھلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّ الْمَاءَ لَا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ، إِلَّا مَا غَلَبَ عَلَى رِيحِهِ، وَطَعْمِهِ، وَلَوْنِهِ» ”یقیناًً پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی الا یہ کہ پانی پر اس ناپاک چیز کی بؤ ذائقہ اور رنگ غالب ہو جائے۔“[ضعیف: ابن ماجه 521]۲؎ حافظ بوصیری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ رشدین کے ضعف کی بنا پر اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ [الزوائد 170/1] ❀ بیھقی کی روایت میں یہ لفظ ہیں: «الماء طهور إلا إن تغير ريحه أو طعمه أو لونه بنجاسة تحدث فيه» ” پانی پاک ہے سوائے اس کے کہ نجاست گرنے کی وجہ سے اس کی بو یا اس کا ذائقہ یا اس کا رنگ بدل جائے۔“[بيهقي 209/1]۳؎ اس کی سند میں بھی رشدین بن سعد راوی متروک ہے لہٰذا یہ حدیث بھی قابل حجت نہیں۔ [فيض القدير 383/2، نيل الاوطار 67/1] امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے اس کے مرسل ہونے کو صحیح قرار دیا ہے۔ [علل الحديث 44/1] امام دارقطنی رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ یہ حدیث ثابت نہیں۔ [دارقطني 29/1] امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے ضعف پر محدثین کا اتفاق نقل کیا ہے۔ [المجموع 110/1] امام ابن ملقن رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ مذکورہ استثناء کمزور ہے۔ [البدر المنير 832] امام ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی رشدین بن سعد کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [المجمع 214/1] (راجح) اگرچہ استثناء والی روایات ضعیف ہیں لیکن ان کے معنی و مفہوم کے صحیح و قابل عمل ہونے پر اجماع ہے جیسا کہ امام بن منذر، امام نووی، امام ابن قدامہ اور امام ابن ملقن رحمہم اللہ اجمعین نے اس مسئلے پر اجماع نقل کیا ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت حسن بصری، حضرت سعید بن مسیب، امام عکرمہ، امام ابن ابی لیلی، امام ثوری، امام داود ظاہری، امام نخعی، امام جابر بن زید، امام مالک، امام غزالی، امام قاسم اور امام یحیی رحمہم اللہ اجمعین بھی یہی موقف رکھتے ہیں۔ [والإجماع لابن المنذر 10 ص 33]۴؎ ------------------ ۱؎[صحيح: صحيح أبوداود 20، كتاب الطهارة: باب ما جاء فى بئر بضاعة ' ابوداود 67، ترمذي 66، نسائي 174/1، أحمد 31/3، مسند شافعي 30، ابن الجارود 47، شرح معاني الآثار 11/1، دار قطني 29/1، بيهقي 207/1] ۲؎[ضعيف: ضعيف ابن ماجة 117، كتاب الطهارة: باب الحياض، الضعيفة 2644، ابن ماجه 521، دار قطني 208/1، طبراني كبير 123/8] ۳؎[بيهقي 209/1، دار قطني 28/1] ۴؎[والإجماع لابن المنذر 10 ص 33، المجموع للنوري 110/1، المغني لابن قدامة 03/1، البدر المنير لابن الملقن 83/2، نيل الأوطار 69/1] * * * * * * * * * * * * * *
فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 128
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث521
اردو حاشہ: یہ روایت بعض آئمہ کے نزدیک اگرچہ ضعیف ہے تاہم اس بات پر اجماع ہےکہ جب نجاست کی وجہ سے کوئی وصف بدل جائےتو پانی پاک کرنے والا نہیں رہتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 521
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 3
´دو قلے، یا اس سے زیادہ پانی پاک ہے` «. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إن الماء لا ينجسه شيء إلا ما غلب على ريحه وطعمه ولونه . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”یقیناً پانی کو کوئی چیز ناپاک و پلید نہیں کرتی الایہ کہ پانی پر اس ناپاک و پلد چیز کی بو، ذائقہ اور رنگت غالب ہو جائے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 3]
� لغوی تشریح: «لَا يُنَجِّسُهُ» «تَنْجِيس» سے ماخوذ ہے۔ «شَيْءٌ» اس سے مراد نجاست ہے، یعنی محض کچھ نجاست کا پانی میں گر جانا اسے ناپاک نہیں بناتا۔ یہ اس صورت میں ہے جب پانی کی مقدار کثیر ہو، یعنی دو بڑے مٹکوں کی مقدار کے برابر ہو۔ «إِلَّا مَا»”ما“ موصوفہ یا موصولہ ہے، یعنی مگر ایسی نجاست۔ «غَلَبَ عَلَى رِيحِهِ وَطَعْمِهِ, وَلَوْنِهِ» جو ان تین اوصاف میں سے کسی کو تبدیل کر دے تو پانی اس کی وجہ سے ناپاک ہو جائے گا۔ اوصاف ثلاثہ بدلنے سے پانی لازماً پلید ہو جائے گا، خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر۔ اور ”و“ یہ ”أؤ“ کے معنی میں ہے۔ «تَحْدُثُ فِيهِ» کے معنی ہیں: نجاست پانی میں گر جائے۔
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پانی اگر زیادہ مقدار مثلاً: دو قلے، یا اس سے زیادہ ہو تو کوئی چیز اسے پلید نہیں کرتی۔ ہاں، اگر نجاست گرنے کی وجہ سے اس کا رنگ، بو یا ذائقہ بدل جائے تو وہ پلید ہو جاتا ہے۔
راویٔ حدیث: سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ ابوامامہ کنیت ہے۔ ”امامہ“ ہمزہ کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ باہلہ قبیلے سے ہونے کی وجہ سے باہلی کہلائے جو کہ ایک مشہور و معروف قبیلہ ہے۔ ان کا نام صُدَیٔ (تصغیر) بن عجلان ہے۔ مشہور صحابی رسول ہیں۔ یہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں جن سے بکثرت روایات مروی ہیں۔ مصر میں سکونت اختیار کی، پھر حمص کی جانب منتقل ہو گئے۔ وہیں ان کی وفات 81 یا 86 ہجری میں ہوئی۔ شام میں وفات پانے والے سب سے آخری صحابی یہی ہیں۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 3