من كتاب المناسك حج اور عمرہ کے بیان میں 45. باب كَمْ صَلاَةً تُصَلَّى بِمِنًى حَتَّى يَغْدُوَ إِلَى عَرَفَاتٍ: عرفات جانے سے پہلے منیٰ میں کتنی نمازیں پڑھنی چاہئیں؟
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں پانچ نمازیں پڑھی تھیں۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 1913]»
اس روایت کی سند میں کلام ہے، لیکن اس کے شواہد موجود ہیں، اس لئے قابلِ حجت و عمل ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1911]، [ترمذي 880]، [أحمد 297/1، 303]، [ابن خزيمه 2799]، [حاكم 461/1]، [أبويعلی 2426] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات
عبدالعزیز بن رفیع نے کہا: میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ (خادم النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) سے عرض کیا: آپ کو یاد ہو تو بتایئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ ذوالحجہ کو ظہر کی نماز کہاں پڑھی تھی؟ فرمایا: منیٰ میں، اور بارہویں ذی الحجہ کو عصر کی نماز کہاں پڑھی تھی؟ بتایا کہ ابطح میں، پھر انہوں نے فرمایا کہ جس طرح تمہارے حکام کرتے ہیں اسی طرح تم کرو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1914]»
یہ روایت صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1653]، [مسلم 1309]، [أبوداؤد 1912]، [ترمذي 963]، [أبويعلی 4053]، [ابن حبان 3846]، [ابن خزيمه 2796] وضاحت:
(تشریح احادیث 1908 سے 1910) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حکام و امراء کی اطاعت واجب ہے جب تک کہ ان کا حکم خلافِ شرع نہ ہو۔ ابن منذر رحمہ اللہ نے کہا: سنّت یہ ہے کہ امام ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نماز آٹھ تاریخ کو منیٰ میں پڑھے، اور منیٰ کی طرف کسی بھی وقت نکلا جا سکتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے وہاں پہنچ گئے تھے اور ظہر وہیں پڑھی تھی، کما مر۔ اب اگر امیر یا حاکم کچھ تأخیر سے منیٰ کے لئے روانہ ہو تو اس کی اطاعت اور جماعت کے ساتھ رہنا واجب ہے، کیونکہ یہ سنّت اور مستحب ہے، اور حج میں یوم الترویہ کو تأخیر سے منیٰ پہنچنے پر کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے قتادہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر، عصر، مغرب، عشاء کی نماز منیٰ میں پڑھیں پھر تھوڑی دیر نیند لی اور سوار ہو کر خانہ کعبہ گئے اور بیت اللہ کا طواف کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1915]»
اس روایت کی سند ضعیف لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1764]، [أبويعلی 5694] وضاحت:
(تشریح حدیث 1910) اس طواف سے مراد غالباً طوافِ وداع ہے جیسا کہ امام بخاری کے باب «مَنْ صَلَّى الْعَصْرَ يَوْمَ النَّفْرِ بِالْأَبْطَحِ» سے معلوم ہوتا ہے، نیز باب طواف الوداع (1757) میں بھی امام بخاری نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
|