من كتاب المناسك حج اور عمرہ کے بیان میں 12. باب في أَيِّ وَقْتٍ يُسْتَحَبُّ الإِحْرَامُ: احرام باندھنا کس وقت مستحب ہے؟
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ظہر کی) نماز کے بعد احرام باندھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1847]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 819]، [نسائي 2753]، [أبويعلی 2513] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد احرام باندھا اور لبیک پکارا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1848]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1541]، [مسلم 1185، 1186، 1187]، [أبوداؤد 1747]، [نسائي 2682]، [ابن ماجه 3047] وضاحت:
(تشریح احادیث 1843 سے 1845) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد احرام باندھا اور تلبیہ کہا۔ اس سے بعد نمازِ ظہر احرام باندھنا ثابت ہوا، نیز یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کے لئے کوئی نماز نہیں پڑھی تھی بلکہ فرض نماز کے بعد احرام باندھا، لہٰذا احرام باندھنے کے وقت احرام کی نیّت سے نماز پڑھنا درست نہیں، ہاں اگر مسجد میں جانا ہو تو دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھی جا سکتی ہے۔ نیز ان احادیث سے ثابت ہوا کہ احرام میقات سے ہی باندھنا چاہیے۔ تلبیہ کہنے کے بارے میں روایات کا اختلاف ہے، اور مسلم شریف میں احرام کے بارے میں بھی مختلف روایات ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں سے احرام باندھا تھا؟ بعض راوی مسجد ذوالحلیفہ سے بتاتے ہیں، بعض نے کہا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکل کر اونٹنی پر سوار ہوئے، بعض نے کہا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیداء کی بلندی پر پہنچے تو احرام باندھا اور تلبیہ کہا، یہ اختلاف درحقیقت اختلاف نہیں ہے کیونکہ ان تینوں مقامات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک پکاری ہوگی اور بعض صحابہ کرام نے اول اور دوسرے مقام پر نہ سنی ہوگی، بعضوں نے اول کی نہ سنی ہوگی دوسرے کی سنی ہوگی، تو ان کو یہی گمان ہوا کہ یہیں سے احرام باندھا (وحیدی)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|