من كتاب المناسك حج اور عمرہ کے بیان میں 26. باب الْفَضْلِ في اسْتِلاَمِ الْحَجَرِ: حجر اسود کو بوسہ دینے کی فضیلت کا بیان
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حجر اسود کو قیامت کے دن اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھتا ہو گا اور ایک زبان ہو گی جس سے وہ بولے گا، گواہی دے گا اس شخص کی جس نے اس کو حق کے ساتھ چوما۔“ سلیمان بن حرب نے کہا: یعنی حجر اسود ان کے لئے گواہی دے گا جس نے اسے بوسہ دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1881]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 961]، [ابن ماجه 2944]، [أبويعلی 2719]، [ابن حبان 3711]، [الموارد 1005، وغيرهم] وضاحت:
(تشریح حدیث 1876) حق کے ساتھ چومنے کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کے ساتھ، اس سے وہ مشرک نکل گئے جنہوں نے حجرِ اسود کو شرک کی حالت میں چوما۔ حجرِ اسود کو چومنا یا استلام کرنا عبادت اور سنّت ہے، کسی اور پتھر کو چومنا، ہاتھ لگانا درست نہیں اور نہ یہ عقیدہ رکھنا جائز ہے کہ حجرِ اسود بنفسہ نفع و نقصان کی قدرت رکھتا ہے، اسی شرکیہ عقیدے کو ختم کرنے کے لئے امیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے جو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے، اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چومتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے کبھی نہ چومتا۔ [ابن ماجه 2943] ۔ یہ حدیث آگے (1903) پر آرہی ہے۔ اس لئے حجرِ اسود کا چومنا یا بیت اللہ الحرام کا طواف کرنا کسی پتھر یا عمارت کی عظمت کے لئے نہیں بلکہ اتباعِ سنّت کے لئے ہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|