من كتاب المناسك حج اور عمرہ کے بیان میں 43. باب الْحِجْرِ مِنَ الْبَيْتِ: حجر (حطیم) کعبہ میں داخل ہے
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہاری قوم زمانہ کفر سے قریب نہ ہوتی تو میں خانہ کعبہ کو توڑ دیتا اور اس کو ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر تعمیر کرتا، قریش نے جب اس کی تعمیر کی تھی تو (سامان کی قلت کی وجہ سے) اس میں کمی کر دی، میں دوبارہ تعمیر کرتا اور پیچھے ایک اور دروازہ بنا دیتا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1910]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1585]، [مسلم 1333]، [نسائي 2901]، [أبويعلی 4363]، [ابن حبان 3815-3818] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا حطیم بھی بیت الله میں داخل ہے؟ فرمایا: ”ہاں“، میں نے عرض کیا: پھر لوگوں نے اسے کعبہ میں شامل کیوں نہیں کیا؟ فرمایا: ”تمہاری قوم کے پاس سامان تعمیر کی قلت ہو گئی تھی“، میں نے عرض کیا: پھر دروازه اتنا اونچا کیوں رکھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری قوم نے ایسا اس لئے کیا کہ جسے چاہیں اندر جانے دیں اور جسے چاہیں روک دیں، اگر تمہاری قوم کے لوگ زمانہ جاہلیت سے قریب نہ ہوتے تو میں حطیم کو خانہ کعبہ میں ملا دیتا اور دروازہ بھی زمین سے لگا دیتا، مجھے ڈر ہے کہ ان کے دل اس (تبدیلی) کو قبول نہ کریں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1911]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1584]، [مسلم 1343]، [ابن ماجه 2955] وضاحت:
(تشریح احادیث 1905 سے 1907) خانۂ کعبہ اللہ تعالیٰ کا روئے زمین پر سب سے پہلا گھر ہے، جس پر سب سے پہلے فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور حضرت آدم علیہ السلام نے اس کی تعمیر کی، طوفانِ نوح کے بعد اس کے آثار مٹ گئے، اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو اس کی نشاہی کی اور تعمیر کا کام لیا، « ﴿وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ ...﴾ [البقره: 127] » بنائے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد بنو جرہم نے اسی اساس پر دوبارہ تعمیرِ خانۂ کعبہ کی، پھر عمالقہ نے، اور ان کے بعد قصی بن کلاب نے، اور پھر قریش نے تعمیرِ کعبہ کی جو نبوتِ محمدی (علی صاحبہ الصلاة والسلام) سے صرف پانچ سال پہلے عمل میں آئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے چچا سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس کی تعمیر میں حصہ لیا، اور جب حجرِ اسود کو متبرک جگہ پر رکھنے کا قضیہ کھڑا ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشرافِ مکہ کے کہنے پر بڑی دانشمندی اور سب کی رضا مندی سے اس قضیہ کو حل فرمایا، تفصیل سیرت کی کتابوں میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اس تعمیر میں خرچ کی کمی کی وجہ سے خانۂ کعبہ کا کچھ حصہ باہر خالی چھوڑنا پڑا جو حطیم کے نام سے یا حجر کے نام سے معروف ہے، اور اس کے گرد ایک میٹر سے اونچی سنگِ مرمر کی دیوار ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ نماز پڑھنے کو کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کے مترادف قرار دیا، کعبہ کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہی اگر کوئی شخص اس کے اندر سے طواف کے لئے گزرے تو اس کا طواف پورا نہ ہوگا، قریش نے خانۂ کعبہ کی دیواروں کو اٹھارہ ہاتھ اونچا کر دیا، فرش بچھایا، چت ڈالدی، پرنالہ لگایا، دروازے کو اونچا اس کی حالت پر رہنے دیا، اندرونِ بیت الله شمالاً و جنوباً تین تین ستون قائم کئے، بعده عبداللہ بن الزبیر نے حطیم کو کعبہ میں داخل کیا لیکن خلافتِ امویہ یا عباسیہ میں پھر اصلی قریش کی تعمیر پر لوٹا دیا گیا، اب دورِ حکومتِ سعودیہ میں ملک فہد رحمہ اللہ کے زمانے میں تعمیر و تزئین اور تغليف و آرائش کا بہترین تعمیری نمونہ سامنے آیا، ملک خالد رحمہ اللہ نے دروازے کو خالص سونے کا بنا دیا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|