من كتاب المناسك حج اور عمرہ کے بیان میں 20. باب الْحِجَامَةِ لِلْمُحْرِمِ: محرم کو پچھنا یا سینگی لگوانے کا بیان
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں پچھنا لگوایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1860]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1835]، [مسلم 1202]، [أبوداؤد 1835]، [ترمذي 839]، [نسائي 2845] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبدالله بن بحینہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کہ آپ محرم تھے، مقام لحی جمل میں پچھنا لگوایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1861]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1836]، [مسلم 1203]، [نسائي 2850]، [ابن ماجه 3481]، [ابن حبان 3953]، [معرفة السنن والآثار للبيهقي 9732] وضاحت:
(تشریح احادیث 1856 سے 1858) لحی جمل ایک جگہ کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے، بخاری شریف میں ہے کہ یہ پچھنا یاسینگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرِ مبارک میں لگوایا، اس سے معلوم ہوا کہ بوقتِ ضرورت محرم پچھنا لگوا سکتا ہے، مروجہ اعمالِ جراحیہ کو بھی بوقتِ ضرورتِ شدید اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ اسحاق راہویہ نے کہا: سفیان نے ایک مرتبہ عطا سے روایت کی اور ایک مرتبہ طاؤس سے اور ایک مرتبہ دونوں سے روایت کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1862]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1835]، [مسلم 1202]، [أبويعلی 2360، 2390]، [ابن حبان 3950، 3951]، [الحميدي 508، 509] وضاحت:
(تشریح حدیث 1858) ان روایاتِ صحیحہ کے پیشِ نظر علمائے کرام نے حالتِ احرام میں پچھنا لگوانے کے جواز پر اجماع کیا ہے چاہے سر میں پچھنا لگوایا جائے یا اور کسی مقام پر، ضرورت ہو یا نہ ہو، شرط یہ ہے کہ بال نہ کاٹنے پڑیں، اگر بال ٹوٹے یا کاٹنے پڑے تو فدیہ (دم) دینا واجب ہوگا، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر حسبِ ضرورت سر کے بال منڈانے پڑے یا کپڑا سلا ہوا پہننا پڑے یا شکار کو مار گرائے تو محرم پر ان سب امور میں فدیہ (دم) واجب ہے۔ (وحیدی بتصرف)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|