من كتاب المناسك حج اور عمرہ کے بیان میں 9. باب مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ مِنَ الثِّيَابِ: محرم کون سے کپڑے پہنے؟
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جب ہم احرام باندھیں تو کون سے کپڑے پہنیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”قمیص، پائجامہ، پگڑی (عمامہ) ٹوپی اور موزے نہ پہنو، ہاں اگر کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو موزے پہن لے، لیکن (انہیں) ٹخنے سے نیچے سے کاٹ لے، نا ایسا کپڑا پہنو جس میں زعفران یا ورس لگا ہوا ہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1839]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھے: [بخاري 1542]، [مسلم 1177]، [أبوداؤد 1824]، [ترمذي 833]، [نسائي 2673]، [ابن ماجه 2929، 2932]، [أبويعلی 5425]، [ابن حبان 3955]، [الحميدي 639] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: ”جس کے پاس (احرام کے لئے) باندھنے کی چادر نہ ہو تو وہ پائجامہ پہن سکتا ہے، اور جو شخص جوتے نہ پائے تو موزے پہن سکتا ہے“، راوی نے کہا: میں نے عرض کیا، یا کہا کہ عرض کیا گیا: کیا ان موزوں کو (اوپر سے) کاٹ دے؟ فرمایا: نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1840]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1841]، [مسلم 1178]، [أبوداؤد 1829]، [ترمذي 834]، [نسائي 2670]، [ابن ماجه 2931]، [أبويعلی 2395]، [ابن حبان 3781]، [الحميدي 474] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محرم کے لباس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قمیص، عمامہ، پائجامے، ٹوپی اور موزے نہ پہنے، ہاں اگر جوتے نہ ہوں تو موزے پہن لے اور انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ دے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1841]»
اس حدیث کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 1835 سے 1838) اس باب کی پہلی اور تیسری حدیث میں مذکورہ کپڑے حالتِ احرام میں نہ پہننے کا حکم ہے، اور احرام کی دوسری چادر نہ ہونے کی صورت میں پائجامہ پہننے کی اجازت ہے، اور جوتے نہ ہونے کی صورت میں موزے پہننے کی اجازت ہے لیکن ان کو ٹخنے سے اوپر کا حصہ کاٹ دینے کے بعد، جمہور علماء کا یہی مسلک ہے کہ موزے کاٹ دینے اور (سروال) پائجامے کو پھاڑ دینے کے بعد احرام کے طور پر پہن سکتے ہیں اور اگر موزے یا پائجامے کو ان کی اصلی حالت میں پہنا تو دم لازم آئے گا کیونکہ مذکورہ بالا دونوں حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی دوسری حدیث میں جوتے نہ ہونے پر موزے پہن لینے کی اجازت ہے لیکن اوپر سے کاٹ دینے کی ممانعت ہے۔ یہ حدیث بھی صحیح متفق علیہ ہے اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مسلک ہے کہ جوتے نہ ہوں تو احرام کی حالت میں موزے پہنے جا سکتے ہیں، کاٹنے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ دو مختلف حکم ہیں جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں، جمع اور تطبیق کی صورت اس طرح ہو سکتی ہے کہ اولی و افضل موزے کاٹ دینا ہے، نہ کاٹے تو کوئی جرح نہیں، واللہ علم۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [فتح الباري 75/4]، [نيل الأوطار 70/5]، [المحلى 80/7-81] و [المعرفة للبيهقي 48/7]، ایک روایت میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے کہ موز سے کاٹ دے، [نسائي 2671]، [ترمذي 834]، [طبراني 12811] ۔ اس حدیث کے ذیل میں مولانا راز صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ورس ایک زرد گھاس ہوتی ہے خوشبو دار، اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ محرم کو (مذکورہ بالا) یہ کپڑے پہننا ناجائز ہیں، اور ہر سلا ہوا کپڑا پہننا مرد کو احرام میں ناجائز ہے لیکن عورتوں کو درست ہے، خلاصہ یہ کہ ایک لنگی ایک چادر مرد کا یہی احرام ہے، یہ ایک فقیری لباس ہے، اب یہ حاجی الله کا فقیر بن گیا، اس کو اس لباسِ فقر کا تازندگی لحاظ رکھنا ضروری ہے، اس موقع پر کوئی کتنا ہی بڑا بادشاه، مال دار کیوں نہ ہو سب کو یہی لباس زیب تن کر کے مساواتِ انسانی کا ایک بہترین نمونہ پیش کرنا ہے، اور ہر امیر و غریب کو ایک ہی سطح پر آ جانا ہے تاکہ وحدتِ انسانی کا ظاہراً و باطناً بہتر مظاہرہ ہو سکے اور امراء کے دماغوں سے نخوتِ امیر ی نکل سکے اور غرباء کو تسلی و اطمینان ہو سکے۔ الغرض لباسِ احرام کے اندر بہت سے روحانی و مادی و سماجی فوائد مضمر ہیں، مگر ان کا مطالعہ کرنے کے لئے دیدۂ بصیرت کی ضرورت ہے، اور یہ چیز ہر کسی کو نہیں ملتی۔ «إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوْا الْأَلْبَابِ.» قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد والحديث متفق عليه
|