من كتاب المناسك حج اور عمرہ کے بیان میں 64. باب فِيمَنْ قَدَّمَ نُسُكَهُ شَيْئاً قَبْلَ شَيْءٍ: ارکان حج میں تقدیم و تاخیر کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمرہ کے پاس دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسائل دریافت کئے جا رہے تھے، ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی، فرمایا: ”رمی کر لو کوئی حرج نہیں“، دوسرے نے کہا: میں نے قربانی سے پہلے بال منڈا لئے؟ فرمایا: ”جاؤ قربانی کر لو کوئی حرج نہیں“، غرضیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس چیز کے بھی آگے یا پیچھے کرنے کے متعلق پوچھا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں یہی فرمایا: ”اب کر لو کوئی حرج نہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1949]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 83، 1736]، [مسلم 1306]، [أبوداؤد 2014]، [ترمذي 961]، [ابن ماجه 3051] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں (جواب دینے کے لئے) کھڑے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے قربانی کرنے سے پہلے بال منڈا لئے ہیں؟ فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“، دوسرے نے کہا: مجھے معلوم نہ تھا اور میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی؟ فرمایا: ”کوئی حرج کی بات نہیں“، سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا: اس دن جس چیز کے بارے میں بھی پوچھا گیا جس میں تقدیم یا تاخیر ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں یہ ہی فرمایا: ” «لا حرج» “ (کوئی حرج نہیں)۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: میں بھی اسی کا قائل ہوں لیکن کوفہ والے اس بارے میں سختی برتتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1950]»
اس حدیث کی تخریج گزر چکی ہے۔ مزید مراجع کے لئے دیکھئے: [بخاري 124]، [الموطأ: كتاب الحج 251، وغيرهم] وضاحت:
(تشریح احادیث 1944 سے 1946) دس ذوالحجہ کو حاجی کو چار کام کرنے ہوتے ہیں: رمی، قربانی، حلق یا تقصیر اور طوافِ زیارہ، یہ ارکان اسی ترتیب سے افضل ہیں، اگر تقدیم یا تأخیر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں، آگے پیچھے ان چاروں ارکان کے ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں، نہ یہ کوئی گناہ ہے اور نہ اس پر فدیہ، اہلِ حدیث، شافعیہ اور حنابلہ کا یہی مذہب ہے، حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک ترتیب واجب ہے اور اس کے خلاف کرنے پر دم لازم آئے گا، لیکن ان حضرات کا یہ قول حدیث ہذا کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابلِ توجہ نہیں۔ ہوتے ہوئے مصطفیٰ کی گفتار مت دیکھے کسی کا قول و کردار امام دارمی رحمہ اللہ نے اہلِ کوفہ کا ذکر کیا ہے اس سے مراد حنفیہ ہیں جو دم لازم کر کے تشدد و سختی برتتے ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|