من كتاب المناسك حج اور عمرہ کے بیان میں 14. باب في رَفْعِ الصَّوْتِ بِالتَّلْبِيَةِ: بآواز بلند تلبیہ پکارنے کا بیان
خلاد بن سائب نے اپنے والد سیدنا سائب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا: انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور کہا کہ اپنے اصحاب کو حکم دیجئے کہ وہ بآواز بلند لبیک کہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1850]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1814]، [ترمذي 829]، [نسائي 2752]، [ابن ماجه 2922]، [صحيح ابن حبان 3802]، [موارد الظمآن 290/3]، [الحميدي 876، وغيرهم] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
اس سند سے بھی حسب سابق مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1851]»
تخریج و ترجمہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 1846 سے 1848) ایک روایت میں یہ اضافہ ہے: «فَإِنَّهَا مِنْ شِعَارِ الْحَجَّ.» یعنی تلبیہ حج کا شعار ہے، اسی لئے بعض حنفیہ نے کہا کہ تلبیہ واجب ہے اگر چھوڑ دیا تو دم لازم آئے گا، امام مالک رحمہ اللہ نے بھی تقریباً ایسے ہی کہا: واجب نہیں لیکن ترک پر دم لازم آئے گا، امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: لبیک کہنا سنّت ہے واجب نہیں، اور تلبیہ کہتے وقت آواز بلند کرنا صرف مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں، نیز ہر شخص کو اپنے طور پر کہنا چاہیے، اجتماعی طور پر لبیک کہنا درست نہیں۔ واللہ علم۔ مذکورہ بالا احادیث سے واضح ہوا کہ حاجی یا معتمر ممکن ہو تو میقات پر غسل کرے، پھر بدن پر خوشبو لگائے، چادریں اوڑھے اور پھر تلبیہ کہے جو حج و عمرہ میں دخول کی لفظی نیّت ہے، صرف حج کی نیت ہو تو لبیک حجۃ کہے، صرف عمرے کی نیت ہو تو لبیک عمرۃ، اور حج و عمرہ دونوں کی نیت ہو تو لبیک حجۃ و عمرة یا جس حج کی نیت ہو کہنا چاہے، واضح رہے کہ الفاظ میں نیت صرف حج و عمرہ کے لئے آئی ہے، نماز کی نیت الفاظ میں ضروری ہوتی تو حج کی نیت کی طرح اس کا بھی ذکر ہوتا جبکہ نماز توحید کے بعد اسلام کا اہم ترین رکن ہے، اس لئے نمازی کا زبان سے کہنا کہ میں نماز پڑھتا ہوں ........... بدعت و نئی چیز ہے جس کا احادیثِ صحیحہ میں کوئی ثبوت نہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|