من كتاب المناسك حج اور عمرہ کے بیان میں 23. باب في الْحَجِّ عَنِ الْحَيِّ: زندہ آدمی کی طرف سے حج کرنے کا بیان
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک خاتون آئیں اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اللہ کا فریضہ حج بندوں پر ادا کرنا ضروری ہے اور میرے والد بہت بزرگ ہو چکے ہیں، سواری پر بھی نہیں بیٹھ سکتے، اور انہوں نے حج نہیں کیا ہے، کیا میں ان کی طرف سے نیابۃ حج کر سکتی ہوں؟ فرمایا: ”ہاں کر سکتی ہو۔“ ابومحمد امام دارمی رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا: کیا آپ کا یہی قول ہے؟ فرمایا: ہاں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1873]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1513]، [مسلم 1334]، [أبوداؤد 2633]، [أبويعلی 2384]، [ابن حبان 3989]، [الحميدي 517] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک خاتون نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے والد اتنے بوڑھے ہیں کہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتے اور ان پر حج فرض ہو گیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان کی طرف سے حج کر لو۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري وأخرجه مسلم، [مكتبه الشامله نمبر: 1874]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1853]، [مسلم 1335]، [ترمذي 928]، [نسائي 2909]، [الموصلي 6717] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: أخرجه البخاري وأخرجه مسلم
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع میں ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا اور سیدنا فضل ابن عباس رضی اللہ عنہما (سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بھائی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف تھے، عرض کیا: اے اللہ کے رسول! بندوں پر الله کا فریضہ حج ضروری ہو گیا ہے اور میرے والد بہت بوڑھے ہو چکے ہیں حتیٰ کہ سواری پر بھی نہیں بیٹھ سکتے، اگر میں ان کی طرف سے حج کروں تو کیا ان کا حج ہو جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں ہو جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1875]»
اس روایت کی سند مثلِ سابق ہے۔ نیز دیکھئے: [بخاري 4399] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
اس طریق سے بھی مذکورہ بالا اوزاعی کی حدیث مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1876]»
ترجمہ اور تخریج ذکر کی جا چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا فضل بن عباس یا سیدنا عبید الله بن عباس رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میری ماں یا باپ بوڑھے ہیں، اگر انہیں سوار کروں تو ٹھیک سے بیٹھ نہیں سکیں گے اور سواری پر باندھ دوں تو ڈر ہے کہ مر نہ جائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری کیا رائے ہے، اگر تمہارے والد یا والدہ پر قرض ہو تو کیا تم ان کا قرض ادا کرو گے؟“ عرض کیا: بالکل ادا کروں گا، فرمایا: ”تب پھر اپنے والد یا والدہ کی طرف سے حج بھی کرو۔“
تخریج الحدیث: «إسناد عبيد الله بن عباس صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1877]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 212/1، 359]، [مشكل الآثار للطحاوي 220/3] وضاحت:
(تشریح احادیث 1868 سے 1873) ان احادیث سے ماں باپ کی طرف سے فریضۂ حج ادا کرنے کا ثبوت ملا خواہ وہ زندہ ہوں یا نہیں، وصیت کی ہو یا نہ کی ہو، ان کے لڑکے یا لڑکی کو چاہیے کہ وہ اگر حج نہیں کر سکتے تو اپنا حج ادا کرنے کے بعد ان کی طرف سے حج کر سکتا ہے۔ بعض علماء نے کہا: اگر وصیت کی ہو تب ہی ان کی طرف سے حج کرے، اور بعض علماء نے کہا کہ بلا وصیت بھی ان کی طرف سے حج کرنا درست ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے، اور راقم نے سماحۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ سے بھی یہی سنا کہ ماں باپ کی طرف سے حج کرنا درست ہے۔ حج کی ایک قسم حجِ بدل ہے جو کسی معذور یا متوفی کی طرف سے نیابتاً کیا جاتا ہے، اس کی نیّت کرتے وقت لبیک کے ساتھ جس کی طرف سے حج کیا جا رہا ہے اس کا نام لیا جائے، مثلاً: «لبيك عن زيد نيابتةً» مگر حجِ بدل کے لئے ضروری ہے کہ حج کرنے والا پہلے خود اپنا حج ادا کر چکا ہو، جیسا کہ حدیث شبرمہ میں وضاحت ہے۔ والله اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناد عبيد الله بن عباس صحيح
|