من كتاب المناسك حج اور عمرہ کے بیان میں 35. باب في الْمُحْرِمِ إِذَا مَاتَ مَا يُصْنَعُ بِهِ: حالت احرام میں کسی کا انتقال ہو جائے تو کیا کیا جائے؟
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ایک آدمی میدان عرفات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وقوف کئے ہوئے تھا کہ اپنی سواری سے گر پڑا، یا کہا: اور اونٹ نے انہیں کچل دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں کا کفن دو، انہیں نہ خوشبو لگانا نہ ان کا سر ڈھانکنا، کیونکہ قیامت کے دن الله تعالیٰ انہیں لبیک کہتے ہوئے اٹھائے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1894]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1266]، [مسلم 1206]، [أبوداؤد 3238]، [ترمذي 951]، [نسائي 1903]، [ابن ماجه 3084]، [أبويعلی 2337]، [ابن حبان 3957]، [الحميدي 471] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرنا الله تعالیٰ کے ذکر کے لئے ہے۔ ابوعاصم نے کہا: وہ مرفوعاً روایت کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1895]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1888]، [ترمذي 902، وغيرهما] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
اس سند سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حسب سابق روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1896]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أحمد 46/6، 139]، [ابن ابي شيبه 32/4]، [عبدالرزاق 8961]، [الحاكم 459/1]، [البيهقي 145/5] وضاحت:
(تشریح احادیث 1890 سے 1892) ان احادیث و روایات سے معلوم ہوا کہ طواف، سعی، اور رمی کے دوران ذکر الٰہی میں مشغول رہنا چاہیے، جیسا کہ نماز کے لئے قرآن پاک میں آیا: « ﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي﴾ [طه: 14] » لہٰذا ان اعمال و ارکانِ حج میں فالتو باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے اور وقتِ ضرورت بات کی جا سکتی ہے جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
|