من كتاب المناسك حج اور عمرہ کے بیان میں 13. باب في التَّلْبِيَةِ: تلبیہ کا بیان
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح تلبیہ کہتے تھے: «لَبَّيْكَ اَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ .......... إلى آخرها» یعنی میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، حاضر ہوں تیری خدمت میں سب تعریف اور نعت تیرے ہی لئے ہے اور سلطنت بھی تیری ہی ہے تیرا کوئی شریک نہیں، یحییٰ نے کہا: نافع نے ذکر کیا سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما اس میں اتنا اور بڑھاتے تھے: «لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ، لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ.»
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1849]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1549]، [مسلم 1484]، [أبوداؤد 1814]، [ترمذي 829]، [نسائي 2752]، [ابن ماجه 2918، 2922]، [أبويعلی 5692]، [ابن حبان 3799]، [الحميدي 675] وضاحت:
(تشریح حدیث 1845) احرام باندھنے کے بعد بیت اللہ الحرام تک پہنچنے کے دوران تلبیہ یعنی «اَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ» کہنا ضروری ہے اور کثرت سے کہنا چاہیے، یہ تلبیہ جواب ہے اس ندا کا جس کا اعلان ابراہیم علیہ السلام نے کیا « ﴿وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا﴾ [الحج:27] » ”اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دے، وہ تیرے پاس پیدل اور ہر لاغر سواری پر آئیں گے۔ “ اسی کے جواب میں حاجی و معتمر کہتے ہیں: اے رب! ہم تیری خدمت میں تیرے گھر کا طواف و سعی اور تیرا ذکر بلند کرنے کیلئے حاضر ہیں۔ مشروع و مرفوع تلبیہ اسی طرح ہے: «لَبَّيْكَ اَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ.» سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس میں «لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ، لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ.» کا اضافہ کیا جو ان کی اپنی صواب دید سے تھا، جس کو کچھ علماء نے جائز کہا اور کچھ علماء نے ناجائز، اور جتنے الفاظ رسولِ ہدیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں اسی پر اکتفا کیا جائے تو بہتر ہے، واللہ اعلم وعلمہ اتم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|