من كتاب المناسك حج اور عمرہ کے بیان میں 40. باب الْمِيقَاتِ في الْعُمْرَةِ: عمرے کے لئے میقات کا بیان
سیدنا محرش کعبی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عمرے کا ارادہ کیا تو جعرانہ سے نکلے اور مکہ میں رات میں داخل ہوئے، اپنا عمرہ پورا کیا پھر اسی رات میں واپس جعرانہ لوٹ آئے، گویا کہ جعرانہ ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات گزاری۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1903]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 935]، [نسائي 2863]، [الحميدي 886]، [معجم الصحابة لابن قانع 1052] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو پیچھے بٹھا کر لے جاؤں اور انہیں تنعیم سے عمرہ کروا دوں۔ سفیان نے کہا: شعبہ رحمۃ اللہ علیہ اس طرح کی اسناد پسند کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1904]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1784]، [مسلم 2928]، [ترمذي 934]، [ابن ماجه 2999]، [أحمد 406/6]، [طبراني 367]۔ اور عمرو: ابن دینار ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حفصہ بنت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہم نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے کہا: ”اپنی بہن یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو پیچھے بٹھاؤ اور تنعیم سے عمرہ کرا لاؤ، جب وہ ٹیلوں سے اتریں تو ان سے کہنا کہ احرام باندھ لیں، بیشک یہ عمرہ قبول ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1905]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1995]، [أحمد 198/1]، [طحاوي 240/2]، [بيهقي 357/4] وضاحت:
(تشریح احادیث 1898 سے 1901) احادیث الباب سے معلوم ہوا کہ مکہ میں مقیم حاجی کو عمرے کے لئے حدودِ حرم سے باہر جانا ہوگا، اور اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانہ سے خود عمرہ کیا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے حکم فرمایا کہ تنعیم سے احرام باندھ کر آ ئیں اور عمرہ کر لیں، یہ عمره ان شاء اللہ صحیح ہوگا، عمرہ کرنا باعثِ خیر و برکت ہے لیکن آج کل لوگ کثرت سے تنعیم جاجا کر عمرے لاتے ہیں یہ درست نہیں، علمائے کرام نے اس کو مکروہ کہا ہے، دور سے آنے والے حجاج کرام مدینہ سے آتے ہوئے اگر عمرہ کریں تو زیادہ بہتر ہے، یا اگر ایسا موقع نہ ملے تو ایک عمرہ مذکورہ بالا میقات سے کر سکتے ہیں۔ «(واللّٰه أعلم وعلمه أتم)» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|