من كتاب المناسك حج اور عمرہ کے بیان میں 86. باب في الذي يَبْعَثُ هَدْيَهُ وَهُوَ مُقِيمٌ في بَلَدِهِ: اپنے شہر میں مقیم رہتے ہوئے قربانی کا جانور مکہ بھیجنے کا بیان
مسروق نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اے ام المومنین! مکہ جانے والے کے ساتھ کچھ لوگ قربانی کا جانور بھیجتے ہیں اور تاکید کر دیتے ہیں کہ جب فلاں مقام تک پہنچو تو اس کے گلے میں قلادہ ڈال دینا (تاکہ معلوم ہو کہ وہ ہدی ہے)، پھر جب مکہ جانے والا اس مقام تک پہنچ جاتا ہے (اندازے کے مطابق) تو اس وقت سے بھیجنے والا احرام کی حالت میں رہتا ہے یہاں تک کہ لوگ (قربانی کے بعد) احرام کھول دیں؟ میں نے پردے کے پیچھے سے ان کے ہاتھ بجانے کی آواز سنی، انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہدی کے لئے ہار (قلادے) بٹتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہدی (قربانی کے جانور) کعبہ کی طرف بھیجتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سے وہ پرہیز نہیں کرتے تھے جو احرام والا کرتا ہے یہاں تک کہ لوگ واپس بھی آ جاتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1978]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1698]، [مسلم 1321]، [أبوداؤد 1758]، [نسائي 2774]، [ابن ماجه 3094]، [أبويعلی 4658]، [ابن حبان 4009] وضاحت:
(تشریح حدیث 1973) یعنی مدینہ میں رہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے جانور قربانی کے لئے مکہ بھیجتے اور ہر وہ کام سر انجام دیتے تھے جو محرم کے لئے جائز نہیں۔ یہ واقعہ حجِ وداع سے پہلے کا ہے جب سنہ 9ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیرِ حج بنا کر مکہ روانہ کیا تھا اور ان کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے اونٹ بھی بھیجے تھے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ مسئلہ نکالا کہ اگر کوئی شخص خود مکہ نہ جا سکے تو قربانی کا جانور وہاں بھیج دینا مستحب ہے، اور جمہور علماء کا یہی قول ہے کہ صرف قربانی کا جانور روانہ کر دینے سے آدمی محرم نہیں ہوتا جب تک کہ خود احرام کی نیّت نہ کرے۔ (وحیدی)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عروہ بن زبیر اور عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے کہا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہدی کے لئے ہار (قلادے) بٹتی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہدیٰ (قربانی کے جانور) کو ہار پہنے ہوئے روانہ کرتے اور خود مدینہ ہی میں مقیم رہتے اور قربانی ہونے تک کسی چیز سے بھی پرہیز نہیں کرتے۔ (یعنی جس طرح حاجی پرہیز کرتا ہے احرام کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ پرہیز نہ کرتے تھے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1979]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ «كما مر آنفا» ۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 1974) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنے وطن سے کسی کے ہمراہ قربانی کا جانور بھیج دے تو وہ حلال ہی رہے گا، اس پر احرام کے احکام لاگو نہیں ہونگے۔ ہدی میں قربانی کا جانور اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری سب شامل ہیں، ان کے گلے میں ہار ڈالنا بھی ثابت ہوا، اسی کو تقلید الہدی کہتے ہیں، اور یہ ہار چاہے اون کے بنے ہوئے ہوں یا رسی کے ساتھ جوتا ڈال دیا جائے یہ بھی جائز ہے، اسی طرح اشعار الہدی بھی جائز ہے جس کا ذکر گزر چکا ہے، اور تقلید و اشعار یہ اس بات کی علامت ہے کہ جانور قربانی کے لئے ہے۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے ہاتھ سے ہار یا ہار کی رسیاں بٹتی تھیں، پس عورت کا شوہر کے لئے ایسے کام انجام دینا عملِ خیر اور اسلامی نظامِ معاشرت کا حصہ ہے جو الفت و محبت کا آئینہ دار ہے، کوئی معیوب چیز نہیں، جیسا کہ بعض لوگوں کے تصورات ہیں۔ «هدانا اللّٰه وإياهم لأمور الشريعة.» آمین۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|