من كتاب المناسك حج اور عمرہ کے بیان میں 17. باب في الْقِرَانِ: حج قران کا بیان
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں ایک حدیث بیان کرتا ہوں، ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں بعد میں اس سے فائدہ پہنچائے، مجھ سے فرشتے سلام کرتے تھے، ابن زیاد نے مجھ کو حکم دیا مسوں کو داغ لگا لوں، (چنانچہ ایسا کرنے پر) وہ سلام رک گیا یہاں تک کہ میرے داغنے کا نشان ختم ہو گیا (تو پھر سلام ہونے لگا)، اور سنو عمرے کے بعد احرام کھول دینے کو کتاب اللہ نے حلال کیا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اس سے روکا اور نہ قرآن پاک میں اس کی ممانعت آئی، ایک آدمی نے اپنی رائے سے صحیح سمجھتے ہوئے ایسا کہہ دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل أبي هلال الراسبي: محمد بن سليم ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1854]»
اس روایت کی سند حسن اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1571]، [مسلم 1226 فى كتاب الحج: باب جواز التمتع]، [أحمد 436/4]، [ابن حبان 3937] وضاحت:
(تشریح حدیث 1850) اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ امیر المومنین سیدنا عثمان و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما حجِ تمتع یا عمرے کے بعد احرام کھول دینے سے منع کرتے تھے اشارہ انہیں کی طرف ہے، یہ ان کا اجتہاد تھا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجِ قران کیا تھا اور عمرے کے بعد بھی احرام کی حالت میں رہے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ احرام کھول دو، اگر میں ہدی نہ لایا ہوتا تو میں بھی ایسا ہی کرتا، اس لئے اکثر صحابہ نے احرام کھول دیا تھا اور متعہ یا تمتع کے قائل تھے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ان کی مخالفت کرتے تھے، تفصیل آگے 78 ویں باب میں آ رہی ہے۔ نیز سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا قضیہ یہ ہے کہ انہیں بواسیر کا شدید مرض تھا لیکن وہ صبر کرتے تھے اور اللہ سے اجر کے متمنی تھے اس لئے فرشتے ان سے آ کر سلام کرتے تھے، جب انہوں نے بواسیری مسوں کو آگ سے دغوا لیا تو سلام کا یہ سلسلہ موقوف ہو گیا۔ اس میں اس صحابیٔ جلیل کی عظمت و منزلت ہے کہ فرشتے آ کر سلام کرتے ہیں اور بالکل یہی کیفیت کہ: دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ (رضی اللہ عنہ و ارضاه)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل أبي هلال الراسبي: محمد بن سليم ولكن الحديث متفق عليه
|