سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب المناسك
حج اور عمرہ کے بیان میں
54. باب وَقْتِ الدَّفْعِ مِنَ الْمُزْدَلِفَةِ:
مزدلفہ سے منیٰ واپسی کا وقت
حدیث نمبر: 1928
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو غسان مالك بن إسماعيل، حدثنا إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن عمرو بن ميمون، عن عمر بن الخطاب، قال: كان اهل الجاهلية يفيضون من جمع بعد طلوع الشمس، وكانوا يقولون: اشرق ثبير لعلنا نغير، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم خالفهم "فدفع قبل طلوع الشمس بقدر صلاة المسفرين او قال: المشرقين بصلاة الغداة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو غَسَّانَ مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يُفِيضُونَ مِنْ جَمْعٍ بَعْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَكَانُوا يَقُولُونَ: أَشْرِقْ ثَبِيرُ لَعَلَّنَا نُغِيرُ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُمْ "فَدَفَعَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ بِقَدْرِ صَلَاةِ الْمُسْفِرِينَ أَوْ قَالَ: الْمُشْرِقِينَ بِصَلَاةِ الْغَدَاةِ".
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: زمانہ جاہلیت میں لوگ آفتاب طلوع ہونے کے بعد مزدلفہ سے منیٰ کے لئے روانہ ہوتے تھے یہ کہتے ہوئے اے ثبیر چمک جاتا کہ ہم روانہ ہو جائیں (ثبیر مزدلفہ کے ایک پہاڑ کا نام ہے جو منیٰ آتے ہوئے بائیں جانب واقع ہے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مخالفت کرتے ہوئے جلدی نماز پڑھ کر طلوع آفتاب سے پہلے روانہ ہوئے۔ راوی کو شک ہے کہ «صلاة المسفرين» کہا یا «صلاة المشرقين» کہا نماز فجر کو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1932]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1684]، [أبوداؤد 1938]، [ترمذي 896]، [نسائي 3047]، [ابن ماجه 3022]، [الطيالسي 1069]، [أحمد 29/1، 39، 42]، [ابن خزيمه 2859]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1927)
بعض روایات میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صرف مزدلفہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندھیرے میں بہت پہلے نمازِ فجر ادا کی، بعض علماء نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مزدلفہ کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز اجالا پھیل جانے پر ادا کرتے تھے اور یہ صحیح نہیں ہے، صحیح یہ ہے کہ مزدلفہ میں قدرے جلدی پڑھی، مزدلفہ کے علاوہ تھوڑی تأخیر کرتے تھے لیکن نماز ہمیشہ غلس یعنی اندھیرے ہی میں پڑھتے تھے حتیٰ کہ پاس بیٹھا آدمی یا چلتی ہوئی عورت پہچانی نہیں جاتی تھی، کیونکہ سورج نکلنے سے پہلے منیٰ جانا تھا اور رمی و قربانی کرنی تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز اور جلدی پڑھی۔
(والله اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.