من كتاب المناسك حج اور عمرہ کے بیان میں 60. باب الرَّمْيِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي وَالتَّكْبِيرِ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ: وادی کے بیچ سے رمی کر نے اور ہر کنکری کے پھینکتے وقت اللہ اکبر کہنے کا بیان
امام زہری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جمرہ کی رمی کرتے، جو مسجد منیٰ کے قریب ہے، تو آپ سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری مارتے وقت تکبیر کہتے تھے، پھر تھوڑا آگے بڑھتے اور نرم ہموار زمین پر پہنچ کر قبلہ رخ کھڑے ہوتے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دیر تک دعا کرتے رہتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے جمرہ پر آتے (یعنی جمرہ وسطیٰ) اور اس پر بھی سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے تھے، پھر بائیں جانب نشیب کی طرف آتے اور وہاں بھی قبلہ رخ کھڑے ہوتے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے، پھر جمرہ عقبہ کے پاس آتے اور یہاں بھی سات کنکریوں سے رمی کرتے اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے، اس کے بعد واپس ہو جاتے اور یہاں آپ دعا کے لئے نہیں ٹھہرتے تھے۔ امام زہری رحمہ اللہ نے کہا: میں نے سالم بن عبداللہ سے سنا جو اس حدیث کو اپنے والد سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے، نیز فرمایا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1945]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1753]، [نسائي 3083]، [ابن ماجه 3032]، [أبويعلی 5577]، [ابن حبان 3887]، [موارد الظمآن 1014] وضاحت:
(تشریح حدیث 1940) مذکورہ بالا حدیث میں رمی کا ذکر گیارہویں تاریخ کا ہے جس میں سب سے پہلے رمی جمرہ کی ہے جو جمره مسجدِ خیف سے قریب پڑتا ہے، جمرہ سے دور ہٹ کر کھڑے ہو کر دعا کرنا سنّت ہے، اسی طرح جمرۂ وسطیٰ سے دور ہٹ کر ہاتھ اٹھا کر دیر تک دعا کرنا سنّتِ نبوی ہے، اور آخری جمرے پر کنکری مار کر کھڑے رہنا یا دعا مانگنا ثابت و صحیح نہیں۔ تمام اعمال کی قبولیت کی شرط یہ ہے کہ وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کے مطابق ہو، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ایسا ہی کیا کرتے تھے جیسا کہ حبیبِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا تھا اور وہ اتنی دیر تک دعا کرتے تھے جتنی دیر میں سورۂ بقرۃ ختم کی جاتی ہے۔ نیز ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہنا بھی اس حدیث سے ثابت ہوا جو اللہ تعالیٰ کے ذکر کو بلند کرنے کے لئے اور شیطان و اس کی ذریت کو ذلیل و خوار کرنے کے مرادف ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|