من كتاب المناسك حج اور عمرہ کے بیان میں 47. باب كَيْفَ الْعَمَلُ في الْقُدُومِ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَةَ: منیٰ سے عرفات جاتے ہوئے کیا کہیں؟
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ سے (عرفات کے لئے) روانہ ہوئے تو ہم میں سے کچھ لوگ تکبیر کہہ رہے تھے اور کچھ لوگ تلبیہ پکار رہے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1918]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1284]، [أبوداؤد 1816]، [أحمد 3/2، 22]، [نسائي 3003]، [ابن خزيمه 2805] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
محمد بن ابی بکر الثقفی نے کہا کہ منیٰ سے عرفات جاتے ہوئے میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے تلبیہ کے بارے میں پوچھا کہ آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کہتے تھے؟ فرمایا: تلبیہ کہنے والا تلبیہ پکارتا تو اس پر کوئی اعتراض نہ کیا جاتا اور تکبیر کہنے والا تکبیر کہتا تو اس سے منع نہ کیا جاتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1919]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 970]، [مسلم 1285]، [الموطأ: كتاب الحج 43]، [ابن حبان 3447] وضاحت:
(تشریح احادیث 1913 سے 1915) عرفہ کے دن نو تاریخ کی صبح سے تمام ائمہ کے نزدیک تکبیراتِ عیدین شروع ہو جاتی ہیں اور احرام باندھنے کے بعد حج کا تلبیہ بھی شروع ہو جاتا ہے، اس لئے صحابہ کرام «اللّٰه أكبر، اللّٰه أكبر، لا إله إلا اللّٰه واللّٰه أكبر ...... الخ» بھی کہتے اور «لبيك اللّٰهم لبيك ...... الخ» بھی کہتے تھے، اور دونوں ذکر مشروع ہیں اس لئے کوئی کسی پر اعتراض نہ کرتا تھا، لہٰذا دونوں کلمات کہنا جائز ہوا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|