من كتاب المناسك حج اور عمرہ کے بیان میں 18. باب في التَّمَتُّعِ: حج تمتع کا بیان
محمد بن عبدالله نوفل نے کہا: جس سال سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے حج کیا، میں نے انہیں سیدنا سعد بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کرتے ہوئے سنا: آپ عمرے کے بعد حج کے لئے تمتع کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ (یعنی عمرے کے بعد احرام کھول دینے اور آٹھ ذوالحجہ کو حج کے لئے دوبارہ احرام باندھنے کے بارے میں)، انہوں نے کہا: تمتع بہت بہتر و اچھا ہے یعنی افضل ہے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تو اس (تمتع) سے منع کرتے تھے تو کیا تم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بہتر ہو؟ جواب دیا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے بہتر تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا اور وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی بہتر تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1855]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مسند ابي يعلی 805]، [صحيح ابن حبان 3923، 3939]، [موارد الظمآن 995، 996] وضاحت:
(تشریح حدیث 1851) سبحان الله کیا سوال اور کتنا نپا تلا جواب کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تو مجھ سے بہتر و اچھے تھے لیکن ہمیں اس ذاتِ گرامی نے ایسا کرنے کا حکم دیا جو ہم سب سے بہتر و اعلى و افضل تھے۔ اس میں کسی کی تنقیص بھی نہیں اور مقامِ نبوّت کی نشان دہی ہے۔ اس سے حجِ تمتع کے افضل ہونے کا ثبوت ملا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا تو میں (یمن سے واپس) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (وادی بطحاء) میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ”کیا تم نے حج کا ارادہ کیا؟“ عرض کیا: جی ہاں، فرمایا: ”تم نے کون سا احرام باندھا؟“ عرض کیا: جیسا آپ نے باندھا، فرمایا: ”تم نے بہت اچھا کیا، اب جاؤ کعبہ کا طواف کرو اور صفا و مروہ کی سعی کرو پھر احرام کھول دو“، سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے طواف و سعی صفا و مروہ کی کر لی پھر (اپنے خاندان) بنو قیس کی ایک عورت کے پاس آیا جس نے میرے سر کی جوئیں نکالیں (یعنی کنگھی کی)، پھر میں لوگوں کو عمرے کے بعد احرام کھول دینے یعنی تمتع کا فتویٰ دینے لگا، تو ایک شخص نے مجھ سے کہا: اے عبداللہ بن قیس (یہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کا نام ہے) اپنے اس فتوے سے توقف کرو، کیونکہ تم کو معلوم نہیں تمہارے بعد امیر المومنین نے نیا حکم دیا ہے، چنانچہ میں نے اعلان کیا کہ: اے لوگو! ہم نے جس کو (تمتع کا) فتویٰ دیا ہے وہ انتظار کرے کیونکہ امیر المومنین تشریف لانے والے ہیں، تم ان کی اقتدا کرنا، پس جب امیر المومنین (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ) تشریف لے آئے تو میں نے ان سے اس کا ذکر کیا، فرمایا: واقعہ یہ ہے کہ ہم کتاب اللہ پر عمل کریں، اللہ تعالیٰ نے احرام کی حالت میں رہنے کا حکم دیا ہے «وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ» اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر بھی عمل کریں جنہوں نے ہدی کی قربانی تک احرام نہیں کھولا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1856]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1559]، [مسلم 1221]، [أبويعلی 7778]، [نسائي 2737، 2741] وضاحت:
(تشریح حدیث 1852) ان دونوں باتوں سے تمتع کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ نے « ﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ﴾ » کے بعد خود فرمایا: « ﴿فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ﴾ [البقرة: 196] » یعنی جو تمتع کرے، اس پر جو بھی میسر ہو قربانی کرے، اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی (قربانی کا جانور) کے ساتھ ہونے کی وجہ سے احرام نہیں کھولا تھا، لیکن صحابہ کرام کو جن کے ساتھ ہدی نہیں تھے احرام کھول دینے کا حکم دیا، لہٰذا قرآن پاک اور سنّتِ مطہرہ سے تمتع کرنا ثابت ہوا جیسا کہ اوپر احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔ اور اس بارے میں سیدنا عمر و سیدنا عثمان و سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہم وغیرہ کا استدلال درست نہیں۔ ان احادیث سے تمتع اور قران کی مشروعیت معلوم ہوئی، حجِ قران یہ ہے کہ جس حاجی کے ساتھ قربانی کا جانور ہو وہ میقات سے حج کا احرام باندھے اور طواف و سعی کے بعد احرام ہی کی حالت میں رہے یہاں تک کہ قربانی سے فارغ ہو، اس کے بعد احرام کھولے۔ اور تمتع یہ ہے کہ حج و عمرے کی نیت سے احرام باندھے اور عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دے، 8 ذوالحجہ کو پھر سے اپنی قیام گاہ سے احرام باندھ کر ارکانِ حج پورے کرے، یہ تین حج کی اقسام ہیں اور سب جائز ہیں، اس میں اختلاف ہے کہ کون سی قسم سب سے افضل ہے، اور صحیح یہ ہے کہ تمتع سب سے افضل ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی نے صرف حج کی نیت کی اور اس کے ساتھ ہدی نہ ہو تو وہ فسخِ نیّت کر کے عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول سکتا ہے جیسا کہ اس طویل حدیث میں سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تمتع کا حکم دیا، امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے کہا کہ فسخِ حج کو چوبیس صحابہ نے روایت کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|