من كتاب المناسك حج اور عمرہ کے بیان میں 53. باب بِمَا يَتِمُّ الْحَجُّ: حج کی تکمیل کس طرح ہوتی ہے؟
سیدنا عبدالرحمٰن بن یعمر دیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حج کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حج عرفات میں ٹھہرنے“ یا یہ کہا کہ ”عرفہ کے دن وقوف کرنا ہے اور جس نے مزدلفہ کی رات صبح ہونے سے پہلے وقوف عرفہ کر لیا تو اس نے حج کو پا لیا“، نیز فرمایا: ”منیٰ میں ٹھہرنے کے تین دن ہیں۔ سو جس نے جلدی کی اور دو دن میں ہی (منیٰ سے) چلا گیا اس پر کچھ گناہ نہیں اور جو دیر کر کے تیسرے دن گیا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1929]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1949]، [ترمذي 889]، [نسائي 3016]، [ابن ماجه 3015]، [ابن حبان 3892]، [الموارد 1009]، [الحميدي 923] وضاحت:
(تشریح حدیث 1924) حج کی جان اور روح وقوفِ عرفہ ہے، جس کا وقت مختار زوالِ آفتاب سے غروب تک کا ہے، اگر کسی مصیبت و پریشانی کی وجہ سے کوئی غروبِ آفتاب تک عرفات میں نہ پہنچ سکا تو مزدلفہ کی رات میں عرفات میں تھوڑا قیام کر کے پھر مزدلفہ آجائے، کیونکہ نویں تاریخ کا پورا دن اور دس ذوالحجہ کی رات طلوعِ فجر تک بھی عرفات میں وقوف کر لیا تو حج ہو جائے گا، یہ ہی مسألہ مذکورہ بالا حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ نیز یہ کہ منیٰ میں قیام کے دس ذوالحجہ کے بعد تین دن ہیں (11، 12، 13) اب اگر کوئی 10 اور 11 کو قیام کر کے رات گزار کر منیٰ سے 12 تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے کنکری مار کر منیٰ سے چلا جائے تو یہ بھی جائز ہے، اور جو حاجی 11، 12 کو قیام کر کے 13 تاریخ کو بعد از زوال کنکری مار کر منیٰ سے جائے تو یہ بھی جائز ہے، جیسا کہ آیتِ شریفہ میں مذکور ہے۔ (واللہ اعلم)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عروہ بن مضرس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مزدلفہ میں ایک شخص سب لوگوں کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں طی کے پہاڑوں سے آ رہا ہوں، میں نے اپنی اونٹنی کو خوب تھکایا اور اپنی جان کو مشقت میں ڈالا ہے (یعنی جلدی عرفات پہنچنے کے لئے) اور اللہ کی قسم کوئی پہاڑ یا ٹیلہ ایسا نہ چھوڑا جس پر وقوف نہ کیا ہو (یعنی عرفات کے خیال سے) تو میرا حج ہوا یا نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہمارے ساتھ اس نماز میں (یعنی فجر کی نماز میں) آ ملے اور وہ دن یا رات کے کسی حصہ میں عرفات میں وقوف کر چکا ہو اس کا میل کچیل دور ہوا اور حج پورا ہو گیا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1930]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1950]، [ترمذي 891]، [نسائي 3044]، [ابن ماجه 3016]، [أبويعلی 946]، [ابن حبان 3850]، [موارد الظمآن 1010]، [الحميدي 924] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عروہ بن مضرس بن حارثۃ بن لام الطائی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ...... اور مذکورہ بالا حدیث ذکر کی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1931]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ تخریج اوپر گزر چکی ہے۔ مزید دیکھئے: [الطيالسي 1075] وضاحت:
(تشریح احادیث 1925 سے 1927) مذکورہ بالا احادیث سے ثابت ہوا کہ وقوفِ عرفہ اور مکوثِ مزدلفہ حج کے اہم رکن ہیں، اور یہاں ٹھہرنا ضروری ہے چاہے تھوڑے ہی وقفے ٹھہرے ہوں ورنہ حج نہ ہوگا، عرفات میں وقوف کا وقت 9 تاریخ کو زوال کے بعد سے غروبِ آفتاب تک ہے، اور مزدلفہ میں ٹھہرنے کا وقت رات اندھیرا پھیلنے کے بعد سے صبح تک کا ہے، اب اگر کوئی شخص دن میں عرفات میں نہ پہنچ سکا تو رات میں بھی تھوڑی دیر وقوف کر لیا اور پھر مزدلفہ میں حجاج سے آملا اور وہاں رات گزاری تو اس کا حج پورا ہوگیا، حجاجِ بيت الله کی خدمت کرنے والوں اور عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو آدھی رات کے بعد مزدلفہ سے روانگی کی اجازت ہے۔ «(كما مر آنفا).» قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|