سیدنا فضل بن عباس یا سیدنا عبید الله بن عباس رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میری ماں یا باپ بوڑھے ہیں، اگر انہیں سوار کروں تو ٹھیک سے بیٹھ نہیں سکیں گے اور سواری پر باندھ دوں تو ڈر ہے کہ مر نہ جائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری کیا رائے ہے، اگر تمہارے والد یا والدہ پر قرض ہو تو کیا تم ان کا قرض ادا کرو گے؟“ عرض کیا: بالکل ادا کروں گا، فرمایا: ”تب پھر اپنے والد یا والدہ کی طرف سے حج بھی کرو۔“
وضاحت: (تشریح احادیث 1868 سے 1873) ان احادیث سے ماں باپ کی طرف سے فریضۂ حج ادا کرنے کا ثبوت ملا خواہ وہ زندہ ہوں یا نہیں، وصیت کی ہو یا نہ کی ہو، ان کے لڑکے یا لڑکی کو چاہیے کہ وہ اگر حج نہیں کر سکتے تو اپنا حج ادا کرنے کے بعد ان کی طرف سے حج کر سکتا ہے۔ بعض علماء نے کہا: اگر وصیت کی ہو تب ہی ان کی طرف سے حج کرے، اور بعض علماء نے کہا کہ بلا وصیت بھی ان کی طرف سے حج کرنا درست ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے، اور راقم نے سماحۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ سے بھی یہی سنا کہ ماں باپ کی طرف سے حج کرنا درست ہے۔ حج کی ایک قسم حجِ بدل ہے جو کسی معذور یا متوفی کی طرف سے نیابتاً کیا جاتا ہے، اس کی نیّت کرتے وقت لبیک کے ساتھ جس کی طرف سے حج کیا جا رہا ہے اس کا نام لیا جائے، مثلاً: «لبيك عن زيد نيابتةً» مگر حجِ بدل کے لئے ضروری ہے کہ حج کرنے والا پہلے خود اپنا حج ادا کر چکا ہو، جیسا کہ حدیث شبرمہ میں وضاحت ہے۔ والله اعلم۔
تخریج الحدیث: «إسناد عبيد الله بن عباس صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1877]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 212/1، 359]، [مشكل الآثار للطحاوي 220/3]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناد عبيد الله بن عباس صحيح