Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
87. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْمَسْحِ بِغَيْرِ تَوْقِيتٍ
باب: موزوں پر مسح کے لیے مدت کی حد نہ ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 558
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ السُّلَمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَلَوِيِّ ، عَنْ عُلَيِّ بْنِ رَبَاحٍ اللَّخْمِيِّ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ مِنْ مِصْرَ، فَقَالَ:" مُنْذُ كَمْ لَمْ تَنْزِعْ خُفَّيْكَ؟ قَالَ: مِنَ الْجُمُعَةِ إِلَى الْجُمُعَةِ، قَالَ:" أَصَبْتَ السُّنَّةَ".
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ مصر سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپ نے اپنے موزے کب سے نہیں اتارے ہیں؟ انہوں نے کہا: جمعہ سے جمعہ تک، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے سنت کو پا لیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10610) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ فتح مصر کی خوش خبری لے کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تھے، چونکہ ایسے موقعہ پر رکنے ٹھہرنے کا موقعہ نہیں ہوتا، اس لئے انہوں نے تین دن سے زیادہ تک مسح کر لیا، یہ حکم ایسی ہی اضطراری صورتوں کے لئے ہے، ورنہ اصل حکم وہی ہے جو گزرا، مقیم ایک دن اور ایک رات، اور مسافر تین دن اور تین رات تک مسح کر سکتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 558 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث558  
اردو حاشہ:
(1)
یہ اثر صحیح ہے۔
امام ابن تیمیہ ؒ نے بھی اس کی توثیق کی ہےاور اپنے ایک سفر کا بھی ذکر کیا ہے جس میں ان کوبھی اس مسئلے پر بہ امر مجبوری عمل کرنا پڑا تھا تاہم یہ اثر سابقہ باب کی احادیث سے بظاہر متعارض نظر آتا ہے لیکن اہل علم نے ان کے درمیان اس طرح تطبیق دی ہے کہ جن احادیث میں موزوں پر مسح کی مدت مقرر کی گئی ہے ان پر عمل اس وقت ہوگا جب مسافر کے لیے تین دن رات کے بعد موزوں کو اتارنے میں مشقت و تکلیف نہ ہو البتہ سفر طویل ہواور قافلے کے چھوٹ جانے کا خطرہ ہو یا موزوں کو اتارنا مشقت و کلفت کا باعث ہوتو پھر موزوں پر مسح کرنا غیر معینہ مدت کے لیے ہوگا جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ نے کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (أصَبْتَ السُّنُّةَ)
 تم نے سنت نبوی کو پالیا کہہ کران کی تحسین فرمائی۔
والله اعلم
(2)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ دمشق کی خوشخبری لے کرآئے تھے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (سلسلة الاحاديث الصحيه: 6؍239 حديث: 2622)

ملحوظہ:
سنن ابو داؤد کے فوائد میں حضرت ابی بن عمارہ ؓ کی حدیث کے تحت اس کے ضعف کی تو صراحت ہے لیکن حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ اس میں بیان نہیں ہوسکا۔
جس کی رو سے بہ وقت ضرورت تین دن سے زیادہ مسح کرنے کا جواز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 558