عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے۔ وہ (گھر سے) باہر تشریف لائے۔ (بات چیت کے دوران ان میں ابی نے) فرمایا: مجھے مذی آ گئی تھی تو میں نے عضو خاص کو دھو کر وضو کیا ہے (اس لیے باہر آنے میں دیر ہوئی) عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا یہ (وضو کر لینا) کافی ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! فرمایا: کیا آپ نے یہ مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (خود) سنا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 51، ومصباح الزجاجة: 210)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/320، 5/117) (ضعیف الإسناد)» (سند ابوحبیب کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے)
وضاحت: ۱ ؎: مذی اور اسی طرح پیشاب اور پاخانہ کے راستہ سے جو چیز بھی نکلے اس سے وضو ٹوٹنے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
It was narrated from Ibn 'Abbas that:
He came to Ubayy bin Ka'b accompanied by 'Umar. Ubayy came out to them and said: "I noticed some prostatic fluid, so I washed my penis and performed ablution. 'Umar said: "Is that sufficient?" He said: "Yes." He ('Umar) asked: "Did you hear that from the messenger of Allah?" He said: "Yes."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو حبيب: مجهول (تقريب: 8038) وأصله في الصحيحين من حديث علي والمقداد رضي اللّٰه عنهما (البخاري: 132 ومسلم: 303) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 396
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 436
´مذی نکلنے سے وضو کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ علی، مقداد اور عمار رضی اللہ عنہم نے آپس میں بات کی، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایک ایسا آدمی ہوں جسے بہت مذی آتی ہے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اس کے بارے میں) پوچھنے سے شرماتا ہوں، اس لیے کہ آپ کی صاحبزادی میرے عقد نکاح میں ہیں، تو تم دونوں میں سے کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے (عطاء کہتے ہیں:) ابن عباس رضی اللہ عنہا نے مجھ سے ذکر کیا کہ ان دونوں میں سے ایک نے (میں اس کا نام بھول گیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مذی ہے، جب تم میں سے کوئی اسے پائے تو اسے اپنے جسم سے دھو لے، اور نماز کے وضو کی طرح وضو کرے“، راوی کو شک ہے «وضوئه للصلاة» کہا یا ” «كوضوء الصلاة» کہا۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 436]
436 ۔ اردو حاشیہ: وضاحت کے لیے دیکھیے سنن نسائی احادیث: 152، 153، 157 اور ان کے فوائدومسائل۔ سلیمان پر اختلاف وضاحت: درج ذیل دو احادیث میں حضرت سلیمان اعمش کے شاگرد، سلیمان سے اوپر والی سند مختلف بیان کرتے ہیں۔ پہلی حدیث میں سلیمان کے استاد حبیب بن ابی ثابت ہیں اور دوسری حدیث میں ان کے استاد منذر ہیں۔ اس سے اوپر بھی سند مختلف ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ روایت مضطرب ہے یا کوئی ایک سند غلط ہے، بلکہ دونوں درست ہیں۔ صرف راویوں کا اختلاف بیان کرنا مقصود ہے، حدیث میں طعن کرنا مراد نہیں۔ واللہ اعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 436
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 697
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے مقداد بن اسود کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا، تو اس نے آپﷺ سے انسان سے نکلنے والی مذی کے بارے میں پوچھا کہ وہ اس کا کیا کرے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وضو کر اور شرم گاہ کو دھو لے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:697]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ سسرال والوں سے بیوی سے استمتاع کی باتیں کرنا مناسب نہیں ہے اور جب براہ راست گفتگو کرنے میں کوئی مانع موجود ہو تو بات بالواسطہ ہو سکتی ہے اور دوسروں کے ذریعہ فتویٰ یا مسئلہ پوچھا جا سکتا ہے۔ 2۔ مذی سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور مذی نکلنے کی صورت میں عضو مخصوص کو دھو لینا کافی ہے۔ اس کے لیے غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہے بول وبراز سے استنجا کے لیے پتھریا ڈھیلا کافی ہے۔ لیکن مذی نکلنے کی صورت میں پانی کا استعمال ضروری ہے۔