(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا مالك، حدثني محمد بن ابي بكر الثقفي، قال: سالت انس بن مالك ونحن غاديان من منى إلى عرفات عن التلبية: كيف كنتم تصنعون مع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال:"كان يلبي الملبي فلا ينكر عليه، ويكبر المكبر فلا ينكر عليه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الثَّقَفِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ وَنَحْنُ غَادِيَانِ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَاتٍ عَنْ التَّلْبِيَةِ: كَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:"كَانَ يُلَبِّي الْمُلَبِّي فَلَا يُنْكَرُ عَلَيْهِ، وَيُكَبِّرُ الْمُكَبِّرُ فَلَا يُنْكَرُ عَلَيْهِ".
محمد بن ابی بکر الثقفی نے کہا کہ منیٰ سے عرفات جاتے ہوئے میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے تلبیہ کے بارے میں پوچھا کہ آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کہتے تھے؟ فرمایا: تلبیہ کہنے والا تلبیہ پکارتا تو اس پر کوئی اعتراض نہ کیا جاتا اور تکبیر کہنے والا تکبیر کہتا تو اس سے منع نہ کیا جاتا۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1913 سے 1915) عرفہ کے دن نو تاریخ کی صبح سے تمام ائمہ کے نزدیک تکبیراتِ عیدین شروع ہو جاتی ہیں اور احرام باندھنے کے بعد حج کا تلبیہ بھی شروع ہو جاتا ہے، اس لئے صحابہ کرام «اللّٰه أكبر، اللّٰه أكبر، لا إله إلا اللّٰه واللّٰه أكبر ...... الخ» بھی کہتے اور «لبيك اللّٰهم لبيك ...... الخ» بھی کہتے تھے، اور دونوں ذکر مشروع ہیں اس لئے کوئی کسی پر اعتراض نہ کرتا تھا، لہٰذا دونوں کلمات کہنا جائز ہوا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1919]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 970]، [مسلم 1285]، [الموطأ: كتاب الحج 43]، [ابن حبان 3447]