سنن دارمي
من كتاب المناسك
حج اور عمرہ کے بیان میں
86. باب في الذي يَبْعَثُ هَدْيَهُ وَهُوَ مُقِيمٌ في بَلَدِهِ:
اپنے شہر میں مقیم رہتے ہوئے قربانی کا جانور مکہ بھیجنے کا بیان
حدیث نمبر: 1975
أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَعَمْرَةُ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ: "كُنْتُ أَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَبْعَثُ بِهَدْيِهِ مُقَلَّدَةً، وَيُقِيمُ بِالْمَدِينَةِ وَلَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا حَتَّى يُنْحَرَ هَدْيُهُ".
عروہ بن زبیر اور عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے کہا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہدی کے لئے ہار (قلادے) بٹتی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہدیٰ (قربانی کے جانور) کو ہار پہنے ہوئے روانہ کرتے اور خود مدینہ ہی میں مقیم رہتے اور قربانی ہونے تک کسی چیز سے بھی پرہیز نہیں کرتے۔ (یعنی جس طرح حاجی پرہیز کرتا ہے احرام کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ پرہیز نہ کرتے تھے)۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1979]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ «كما مر آنفا» ۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1974)
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنے وطن سے کسی کے ہمراہ قربانی کا جانور بھیج دے تو وہ حلال ہی رہے گا، اس پر احرام کے احکام لاگو نہیں ہونگے۔
ہدی میں قربانی کا جانور اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری سب شامل ہیں، ان کے گلے میں ہار ڈالنا بھی ثابت ہوا، اسی کو تقلید الہدی کہتے ہیں، اور یہ ہار چاہے اون کے بنے ہوئے ہوں یا رسی کے ساتھ جوتا ڈال دیا جائے یہ بھی جائز ہے، اسی طرح اشعار الہدی بھی جائز ہے جس کا ذکر گزر چکا ہے، اور تقلید و اشعار یہ اس بات کی علامت ہے کہ جانور قربانی کے لئے ہے۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے ہاتھ سے ہار یا ہار کی رسیاں بٹتی تھیں، پس عورت کا شوہر کے لئے ایسے کام انجام دینا عملِ خیر اور اسلامی نظامِ معاشرت کا حصہ ہے جو الفت و محبت کا آئینہ دار ہے، کوئی معیوب چیز نہیں، جیسا کہ بعض لوگوں کے تصورات ہیں۔
«هدانا اللّٰه وإياهم لأمور الشريعة.» آمین۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح