سنن دارمي
من كتاب المناسك
حج اور عمرہ کے بیان میں
40. باب الْمِيقَاتِ في الْعُمْرَةِ:
عمرے کے لئے میقات کا بیان
حدیث نمبر: 1901
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ الْعَطَّارُ، عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، عَنْ أَبِيهَا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ: "أَرْدِفْ أُخْتَكَ يَعْنِي: عَائِشَةَ وَأَعْمِرْهَا مِنْ التَّنْعِيمِ، فَإِذَا هَبَطْتَ مِنْ الْأَكَمَةِ، فَمُرْهَا فَلْتُحْرِمْ، فَإِنَّهَا عُمْرَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ".
حفصہ بنت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہم نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے کہا: ”اپنی بہن یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو پیچھے بٹھاؤ اور تنعیم سے عمرہ کرا لاؤ، جب وہ ٹیلوں سے اتریں تو ان سے کہنا کہ احرام باندھ لیں، بیشک یہ عمرہ قبول ہو گا۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1905]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1995]، [أحمد 198/1]، [طحاوي 240/2]، [بيهقي 357/4]
وضاحت: (تشریح احادیث 1898 سے 1901)
احادیث الباب سے معلوم ہوا کہ مکہ میں مقیم حاجی کو عمرے کے لئے حدودِ حرم سے باہر جانا ہوگا، اور اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانہ سے خود عمرہ کیا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے حکم فرمایا کہ تنعیم سے احرام باندھ کر آ ئیں اور عمرہ کر لیں، یہ عمره ان شاء اللہ صحیح ہوگا، عمرہ کرنا باعثِ خیر و برکت ہے لیکن آج کل لوگ کثرت سے تنعیم جاجا کر عمرے لاتے ہیں یہ درست نہیں، علمائے کرام نے اس کو مکروہ کہا ہے، دور سے آنے والے حجاج کرام مدینہ سے آتے ہوئے اگر عمرہ کریں تو زیادہ بہتر ہے، یا اگر ایسا موقع نہ ملے تو ایک عمرہ مذکورہ بالا میقات سے کر سکتے ہیں۔
«(واللّٰه أعلم وعلمه أتم)» ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح