(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن خالد، حدثنا محمد بن إسحاق، عن الزهري، عن محمد بن عبد الله بن نوفل، قال: سمعت عام حج معاوية يسال سعد بن مالك: "كيف تقول بالتمتع بالعمرة إلى الحج؟ قال: حسنة جميلة". فقال: قد كان عمر ينهى عنها، فانت خير من عمر؟ قال: عمر خير مني، وقد فعل ذلك النبي صلى الله عليه وسلم وهو خير من عمر.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَوْفَلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَامَ حَجَّ مُعَاوِيَةُ يَسْأَلُ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ: "كَيْفَ تَقُولُ بِالتَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ؟ قَالَ: حَسَنَةٌ جَمِيلَةٌ". فَقَالَ: قَدْ كَانَ عُمَرُ يَنْهَى عَنْهَا، فَأَنْتَ خَيْرٌ مِنْ عُمَرَ؟ قَالَ: عُمَرُ خَيْرٌ مِنِّي، وَقَدْ فَعَلَ ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ خَيْرٌ مِنْ عُمَرَ.
محمد بن عبدالله نوفل نے کہا: جس سال سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے حج کیا، میں نے انہیں سیدنا سعد بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کرتے ہوئے سنا: آپ عمرے کے بعد حج کے لئے تمتع کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ (یعنی عمرے کے بعد احرام کھول دینے اور آٹھ ذوالحجہ کو حج کے لئے دوبارہ احرام باندھنے کے بارے میں)، انہوں نے کہا: تمتع بہت بہتر و اچھا ہے یعنی افضل ہے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تو اس (تمتع) سے منع کرتے تھے تو کیا تم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بہتر ہو؟ جواب دیا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے بہتر تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا اور وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی بہتر تھے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1851) سبحان الله کیا سوال اور کتنا نپا تلا جواب کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تو مجھ سے بہتر و اچھے تھے لیکن ہمیں اس ذاتِ گرامی نے ایسا کرنے کا حکم دیا جو ہم سب سے بہتر و اعلى و افضل تھے۔ اس میں کسی کی تنقیص بھی نہیں اور مقامِ نبوّت کی نشان دہی ہے۔ اس سے حجِ تمتع کے افضل ہونے کا ثبوت ملا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1855]» اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مسند ابي يعلی 805]، [صحيح ابن حبان 3923، 3939]، [موارد الظمآن 995، 996]