حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا جو مسلمان بھی فوت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کسی یہودی یا عیسائی کو جہنم میں داخل کردیتا ہے۔ ابوبردہ نے گزشتہ حدیث حضرت عمرعبدالعزیز رحمہ اللہ کو سنائی تو انہوں نے ابوبردہ سے اس اللہ کے نام کی قسم کھانے کے لئے کہا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ یہ حدیث ان کے والد صاحب نے بیان کی ہے اور انہوں نے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اور سعید بن ابی بردہ، عوف کی اس بات کی تردید نہیں کرتے۔
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا هشام ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " والذي نفس محمد بيده، إن المعروف والمنكر خليقتان ينصبان للناس يوم القيامة، فاما المعروف فيبشر اصحابه، ويوعدهم الخير، واما المنكر، فيقول: إليكم إليكم، وما يستطيعون له إلا لزوما" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنَّ الْمَعْرُوفَ وَالْمُنْكَرَ خَلِيقَتَانِ يُنْصَبَانِ لِلنَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَأَمَّا الْمَعْرُوفُ فَيُبَشِّرُ أَصْحَابَهُ، وَيُوعِدُهُمْ الْخَيْرَ، وَأَمَّا الْمُنْكَرُ، فَيَقُولُ: إِلَيْكُمْ إِلَيْكُمْ، وَمَا يَسْتَطِيعُونَ لَهُ إِلَّا لُزُومًا" .
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے نیکی اور برائی دو مخلوق ہیں جنہیں قیامت کے دن لوگوں کے سامنے کھڑا کیا جائے گا نیکی اپنے ساتھیوں کو خوشخبری دے گی اور ان سے خیر کا وعدہ کرے گی اور برائی کہے گی کہ مجھ سے دور رہو مجھ سے دور رہو لیکن وہ اس سے چمٹے بغیر نہ رہ سکیں گے۔
حكم دارالسلام: هذا إسناده ضعيف، الحسن البصري لم يسمع من أبى موسي
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا يزيد يعني ابن إبراهيم ، اخبرنا ليث ، عن ابي بردة ، عن عبد الله بن قيس ، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة، ثم قال: " على مكانكم اثبتوا"، ثم اتى الرجال، فقال:" إن الله عز وجل يامرني ان آمركم ان تتقوا الله تعالى، وان تقولوا قولا سديدا"، ثم تخلل إلى النساء، فقال لهن:" إن الله عز وجل يامرني ان آمركن ان تتقوا الله، وان تقولوا قولا سديدا"، قال: ثم رجع حتى اتى الرجال، فقال:" إذا دخلتم مساجد المسلمين واسواقهم ومعكم النبل، فخذوا بنصولها، لا تصيبوا بها احدا، فتؤذوه او تجرحوه" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا لَيْثٌ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةً، ثُمَّ قَالَ: " عَلَى مَكَانِكُمْ اثْبُتُوا"، ثُمَّ أَتَى الرِّجَالَ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَأْمُرُنِي أَنْ آمُرَكُمْ أَنْ تَتَّقُوا اللَّهَ تَعَالَى، وَأَنْ تَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا"، ثُمَّ تَخَلَّلَ إِلَى النِّسَاءِ، فَقَالَ لَهُنَّ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَأْمُرُنِي أَنْ آمُرَكُنَّ أَنْ تَتَّقُوا اللَّهَ، وَأَنْ تَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا"، قَالَ: ثُمَّ رَجَعَ حَتَّى أَتَى الرِّجَالَ، فَقَالَ:" إِذَا دَخَلْتُمْ مَسَاجِدَ الْمُسْلِمِينَ وَأَسْوَاقَهُمْ وَمَعَكُمْ النَّبْلُ، فَخُذُوا بِنُصُولِهَا، لَا تُصِيبُوا بِهَا أَحَدًا، فَتُؤْذُوهُ أَوْ تَجْرَحُوهُ" .
حضرت عبداللہ بن قیس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور نماز کے بعد فرمایا اپنی جگہ پر ہی رکو پھر پہلے مردوں کے پاس آکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اللہ سے ڈرنے اور درست بات کہنے کا حکم دوں، پھر خواتین کے پاس جا کر ان سے بھی یہی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اللہ سے ڈرنے اور درست بات کہنے کا حکم دوں، پھر واپس مردوں کے پاس آکر فرمایا جب تم مسلمانوں کی مسجدوں اور بازاروں میں جایا کرو اور تمہارے پاس تیر ہوں تو ان کا پھل قابو میں رکھا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کسی کو لگ جائے اور تم کسی کو اذیت پہنچاؤ یا زخمی کردو۔
حكم دارالسلام: قوله منه:إذا دخلتم مساجد المسلمين إلى آخر الحديث، صحيح، وهذا إسناد ضعيف، لضعف ليث من أبى سليم
حدثنا عبد الصمد ، حدثني ابي ، حدثنا حسين ، عن ابن بريدة ، قال: حدثت عن الاشعري ، انه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " اللهم إني استغفرك لما قدمت، وما اخرت، وما اسررت، وما اعلنت، إنك انت المقدم، وانت المؤخر، وانت على كل شيء قدير" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حِدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، قَالَ: حُدِّثْتُ عَنِ الْأَشْعَرِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَغْفِرُكَ لِمَا قَدَّمْتُ، وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ، وَمَا أَعْلَنْتُ، إِنَّكَ أَنْتَ الْمُقَدِّمُ، وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ" .
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعاء کرتے ہوئے سنا ہے کہ اے اللہ! میں ان گناہوں سے معافی چاہتا ہوں جو میں نے پہلے کئے یا بعد میں ہوں گے جو چھپ کر کئے یا علانیہ طور پر کئے بیشک آگے اور پیچھے کرنے والے تو آپ ہی ہیں اور آپ ہر چیز پر قادر ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 6398، م: 2719، شيخ ابن بريدة مبهم لكنه متابع
حدثنا حدثنا هشيم ، عن مجالد ، عن الشعبي ، قال: كتب عمر في وصيته: ان لا يقر لي عامل اكثر من سنة، واقروا الاشعري يعني: ابا موسى اربع سنين .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ: كَتَبَ عُمَرُ فِي وَصِيَّتِهِ: أَنْ لَا يُقَرَّ لِي عَامِلٌ أَكْثَرَ مِنْ سَنَةٍ، وَأَقِرُّوا الْأَشْعَرِيَّ يَعْنِي: أَبَا مُوسَى أَرْبَعَ سِنِينَ .
امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ میرے کسی عامل کو ایک سال سے زیادہ دیرتک برقرار نہ رکھا جائے البتہ ابوموسیٰ اشعری کو چار سال تک برقرار رکھنا۔
حكم دارالسلام: أثر ضعيف الاسناد لضعف مجالد، وهشيم مدلس، وقد عنعن، والشعبي لم يدرك عمر
حدثنا عبد الصمد ، قال: حدثنا ابي ، حدثنا ليث ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا مرت بكم جنازة يهودي، او نصراني، او مسلم، فقوموا لها، فلستم لها تقومون، إنما تقومون لمن معها من الملائكة" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا مَرَّتْ بِكُمْ جِنَازَةُ يَهُودِيٍّ، أَوْ نَصْرَانِيٍّ، أَوْ مُسْلِمٍ، فَقُومُوا لَهَا، فَلَسْتُمْ لَهَا تَقُومُونَ، إِنَّمَا تَقُومُونَ لِمَنْ مَعَهَا مِنَ الْمَلَائِكَةِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تمہارے سامنے سے کی یہودی، عیسائی یا مسلمان کا جنازہ گذرے تو تم کھڑے ہوجایا کرو، کیونکہ تم جنازے کی خاطر کھڑے نہیں ہوگے، ان فرشتوں کی وجہ سے کھڑے ہوگے جو جنازے کے ساتھ ہوتے ہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث، واختلف عليه فيه
حدثنا عبد الصمد ، وعفان ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا علي بن زيد ، عن حطان بن عبد الله الرقاشي ، عن الاشعري ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن بين يدي الساعة الهرج"، قالوا: وما الهرج؟ قال:" القتل"، قالوا: اكثر مما نقتل؟ إنا لنقتل كل عام اكثر من سبعين الفا، قال:" إنه ليس بقتلكم المشركين، ولكن قتل بعضكم بعضا"، قالوا: ومعنا عقولنا يومئذ؟ قال:" إنه لتنزع عقول اهل ذلك الزمان، ويخلف له هباء من الناس، يحسب اكثرهم انهم على شيء، وليسوا على شيء" ، قال عفان في حديثه: قال ابو موسى: والذي نفسي بيده، ما اجد لي ولكم منها مخرجا إن ادركتني وإياكم، إلا ان نخرج منها كما دخلنا فيها، لم نصب منها دما ولا مالا.حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ ، عَنِ الْأَشْعَرِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ الْهَرْجَ"، قَالُوا: وَمَا الْهَرْجُ؟ قَالَ:" الْقَتْلُ"، قَالُوا: أَكْثَرُ مِمَّا نَقْتُلُ؟ إِنَّا لَنَقْتُلُ كُلَّ عَامٍ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ أَلْفًا، قَالَ:" إِنَّهُ لَيْسَ بِقَتْلِكُمْ الْمُشْرِكِينَ، وَلَكِنْ قَتْلُ بَعْضِكُمْ بَعْضًا"، قَالُوا: وَمَعَنَا عُقُولُنَا يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ:" إِنَّهُ لَتُنْزَعُ عُقُولُ أَهْلِ ذَلِكَ الزَّمَانِ، وَيُخَلَّفُ لَهُ هَبَاءٌ مِنَ النَّاسِ، يَحْسِبُ أَكْثَرُهُمْ أَنَّهُمْ عَلَى شَيْءٍ، وَلَيْسُوا عَلَى شَيْءٍ" ، قَالَ عَفَّانُ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ أَبُو مُوسَى: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مِنْهَا مَخْرَجًا إِنْ أَدْرَكَتْنِي وَإِيَّاكُمْ، إِلَّا أَنْ نَخْرُجَ مِنْهَا كَمَا دَخَلْنَا فِيهَا، لَمْ نُصِبْ مِنْهَا دَمًا وَلَا مَالًا.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت سے پہلے " ہرج " واقع ہوگا لوگوں نے پوچھا کہ " ہرج " سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قتل، لوگوں نے پوچھا اس تعداد سے بھی زیادہ جتنے ہم قتل کردیتے ہیں؟ ہم تو ہر سال ستر ہزار سے زیادہ لوگ قتل کردیتے تھے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد مشرکین کو قتل کرنا نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کو قتل کرنا مراد ہے لوگوں نے پوچھا کیا اس موقع پر ہماری عقلیں ہمارے ساتھ ہوں گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس زمانے کے لوگوں کی عقلیں چھین لی جائیں گی اور ایسے بیوقوف لوگ رہ جائیں گے جو یہ سمجھیں گے وہ کسی دین پر قائم ہیں حالانکہ وہ کسی دین پر نہیں ہوں گے۔ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر وہ زمانہ آگیا تو میں اپنے اور تمہارے لئے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں پاتا الاّ یہ کہ ہم اس سے اسی طرح نکل جائیں جیسے داخل ہوئے تھے اور کسی کے قتل یا مال میں ملوث نہ ہوں۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح، وهذا اسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا زهير ، حدثنا منصور ، عن شقيق ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا، فهو في سبيل الله عز وجل" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا، فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اعلاء کلمتہ اللہ کی خاطر قتال کرتا ہے درحقیقت وہی اللہ کے راستے میں قتال کرنے والا ہے۔
حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن الاسود ، قال: قال ابو موسى : لقد ذكرنا علي بن ابي طالب صلاة كنا نصليها مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، إما نسيناها، وإما تركناها عمدا، يكبر كلما ركع، وكلما رفع، وكلما سجد .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى : لَقَدْ ذَكَّرَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ صَلَاةً كُنَّا نُصَلِّيهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِمَّا نَسِينَاهَا، وَإِمَّا تَرَكْنَاهَا عَمْدًا، يُكَبِّرُ كُلَّمَا رَكَعَ، وَكُلَّمَا رَفَعَ، وَكُلَّمَا سَجَدَ .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد دلادی ہے جو ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے تھے جسے ہم بھلا چکے تھے یا عمداً چھوڑ چکے تھے وہ ہر مرتبہ رکوع کرتے وقت، سر اٹھاتے وقت اور سجدے میں جاتے ہوئے اللہ اکبر کہتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على أبى إسحاق
حدثنا عبد الله بن يزيد ، حدثنا سعيد بن ابي ايوب ، قال: سمعت رجلا من قريش، يقال له: ابو عبد الله ، كان يجالس جعفر بن ربيعة، قال: سمعت ابا بردة الاشعري يحدث، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن اعظم الذنوب عند الله عز وجل ان يلقاه عبد بها بعد الكبائر التي نهى عنها، ان يموت الرجل وعليه دين لا يدع قضاء" .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ، يُقَالُ لَهُ: أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ، كَانَ يُجَالِسُ جَعْفَرَ بْنَ رَبِيعَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا بُرْدَةَ الْأَشْعَرِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ أَعْظَمَ الذُّنُوبِ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَلْقَاهُ عَبْدٌ بِهَا بَعْدَ الْكَبَائِرِ الَّتِي نَهَى عَنْهَا، أَنْ يَمُوتَ الرَّجُلُ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ لَا يَدَعُ قَضَاءً" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ " ان کبیرہ گناہوں کے بعد جن کی ممانعت کی گئی ہے " یہ ہے کہ انسان اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ مرتے وقت اس پر اتنا قرض ہو جسے ادا کرنے کے لئے اس نے کچھ نہ چھوڑا ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف الجهالة حال أبى عبد الله القرشي
حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن ابي موسى ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: الرجل يحب القوم، ولما يلحق بهم، فقال: " المرء مع من احب" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: الرَّجُلُ يُحِبُّ الْقَوْمَ، وَلَمَّا يَلْحَقْ بِهِمْ، فَقَالَ: " الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ سوال پوچھا کہ اگر کوئی آدمی کسی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن ان تک پہنچ نہیں پاتا تو کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔
حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، قال: كان عبد الله، وابو موسى جالسين، وهما يتذاكران الحديث، فقال ابو موسى : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " بين يدي الساعة ايام يرفع فيها العلم، وينزل فيها الجهل، ويكثر فيها الهرج" ، والهرج: القتل.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ، وَأَبُو مُوسَى جَالِسَيْنِ، وَهُمَا يَتَذَاكَرَانِ الْحَدِيثَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ أَيَّامٌ يُرْفَعُ فِيهَا الْعِلْمُ، وَيَنْزِلُ فِيهَا الْجَهْلُ، وَيَكْثُرُ فِيهَا الْهَرْجُ" ، وَالْهَرْجُ: الْقَتْلُ.
شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے حدیث کا مذاکرہ کررہے تھے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت سے پہلے جو زمانہ آئے گا اس میں علم اٹھالیا جائے گا اور جہالت اترنے لگے گی اور " ہرج " کی کثرت ہوگی جس کا معنی قتل ہے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد دلا دی ہے جو ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے تھے جسے ہم بھلاچکے تھے یا عمداً چھوڑ چکے تھے وہ ہر مرتبہ رکوع کرتے وقت، سر اٹھاتے وقت اور سجدے میں جاتے ہوئے اللہ اکبر کہتے تھے۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت سے پہلے " ہرج " واقع ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر وہ زمانہ آگیا تو میں اپنے اور تمہارے لئے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں پاتا الاّ یہ کہ ہم اس سے اسی طرح نکل جائیں جیسے داخل ہوئے تھے اور کسی کے قتل یا مال میں ملوث نہ ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على أبى إسحاق
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن ليث ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا مررتم بالسهام في اسواق المسلمين، او في مساجدهم، فامسكوا بالانصال، لا تجرحوا بها احدا" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا مَرَرْتُمْ بِالسِّهَامِ فِي أَسْوَاقِ الْمُسْلِمِينَ، أَوْ فِي مَسَاجِدِهِمْ، فَأَمْسِكُوا بِالْأَنْصَالِ، لَا تَجْرَحُوا بِهَا أَحَدًا" .
حضرت عبداللہ بن قیس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم مسلمانوں کی مسجدوں اور بازاروں میں جایا کرو اور تمہارے پاس تیر ہوں تو ان کا پھل قابو میں رکھا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کسی کو لگ جائے اور تم کسی کو اذیت پہنچاؤ یا زخمی کردو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث
حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص گوٹیوں کے ساتھ کھیلتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول اللہ کی نافرمانی کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد اختلف فيه على سعيد بن أبى هند
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ سونا اور ریشم دونوں میری امت کی عورتوں کے لئے حلال اور مردوں کے لئے حرام ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده، وهذا إسناد اختلف فيه على عبد الله بن سعيد
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ میں ریشم اور بائیں ہاتھ میں سونا بلند کیا اور فرمایا یہ دونوں میری امت کی عورتوں کے لئے حلال اور مردوں کے لئے حرام ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده، وهذا إسناد اختلف فيه على نافع
ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی پھر ایک حدیث ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور سنتوں کی وضاحت کرتے ہوئے ہمیں نماز کا طریقہ سکھایا اور فرمایا جب تم نماز پڑھو تو اپنی صفیں سیدھی کرلیا کرو اور تم میں سے ایک آدمی کو امام بن جانا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا الثوري ، عن قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ارض قومي، فلما حضر الحج، حج رسول الله صلى الله عليه وسلم وحججت، فقدمت عليه وهو نازل بالابطح، فقال لي:" بم اهللت يا عبد الله بن قيس؟"، قال: قلت: لبيك بحج كحج رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" احسنت"، ثم قال:" هل سقت هديا؟"، فقلت: ما فعلت، فقال لي:" اذهب، فطف بالبيت، وبين الصفا والمروة، ثم احلل"، فانطلقت، ففعلت ما امرني، واتيت امراة من قومي، فغسلت راسي بالخطمي، وفلته، ثم اهللت بالحج يوم التروية، فما زلت افتي الناس بالذي امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى توفي، ثم زمن ابي بكر رضي الله عنه، ثم زمن عمر رضي الله عنه، فبينا انا قائم عند الحجر الاسود، او المقام، افت الناس بالذي امرني به رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذ اتاني رجل، فسارني، فقال: لا تعجل بفتياك، فإن امير المؤمنين قد احدث في المناسك شيئا، فقلت: ايها الناس، من كنا افتيناه في المناسك شيئا، فليتئد، فإن امير المؤمنين قادم، فبه فاتموا، قال: فقدم عمر رضي الله عنه، فقلت: يا امير المؤمنين، هل احدثت في المناسك شيئا؟ قال: نعم، ان ناخذ بكتاب الله عز وجل، فإنه يامر بالتمام، وان ناخذ بسنة نبينا صلى الله عليه وسلم، فإنه لم يحلل، حتى نحر الهدي .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَرْضِ قَوْمِي، فَلَمَّا حَضَرَ الْحَجُّ، حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَجَجْتُ، فَقَدِمْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ نَازِلٌ بِالْأَبْطَحِ، فَقَالَ لِي:" بِمَ أَهْلَلْتَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ؟"، قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ بِحَجٍّ كَحَجِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَحْسَنْتَ"، ثُمَّ قَالَ:" هَلْ سُقْتَ هَدْيًا؟"، فَقُلْتُ: مَا فَعَلْتُ، فَقَالَ لِي:" اذْهَبْ، فَطُفْ بِالْبَيْتِ، وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ احْلِلْ"، فَانْطَلَقْتُ، فَفَعَلْتُ مَا أَمَرَنِي، وَأَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَوْمِي، فَغَسَلَتْ رَأْسِي بِالْخِطْمِيِّ، وَفَلَّتْهُ، ثُمَّ أَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ، فَمَا زِلْتُ أُفْتِي النَّاسَ بِالَّذِي أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تُوُفِّيَ، ثُمَّ زَمَنَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ثُمَّ زَمَنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَبَيْنَا أَنَا قَائِمٌ عِنْدَ الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ، أَوْ الْمَقَامِ، أُفْتِ النَّاسَ بِالَّذِي أَمَرَنِي بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ أَتَانِي رَجُلٌ، فَسَارَّنِي، فَقَالَ: لَا تَعْجَلْ بِفُتْيَاكَ، فَإِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ أَحْدَثَ فِي الْمَنَاسِكِ شَيْئًا، فَقُلْتُ: أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ فِي الْمَنَاسِكِ شَيْئًا، فَلْيَتَّئِدْ، فَإِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ، فَبِهِ فَأْتَمُّوا، قَالَ: فَقَدِمَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، هَلْ أَحْدَثْتَ فِي الْمَنَاسِكِ شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ، أَنْ نَأْخُذَ بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالتَّمَامِ، وَأَنْ نَأْخُذَ بِسُنَّةِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّهُ لَمْ يَحْلِلْ، حَتَّى نَحَرَ الْهَدْيَ .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی قوم کے علاقے میں بھیج دیا، جب حج کاموسم قریب آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لئے تشریف لے گئے میں نے بھی حج کی سعادت حاصل کی، میں جب حاضرخدمت میں ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابطح میں پڑاؤ کئے ہوئے تھے مجھ سے پوچھا کہ اے عبداللہ بن قیس! تم نے کس نیت سے احرام باندھا؟ میں نے عرض کیا " لبیک بحج کحج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا یہ بتاؤ کہ کیا اپنے ساتھ ہدی کا جانور لائے ہو؟ میں نے کہا نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا کر بیت اللہ کا طواف کرو، صفا مروہ کے درمیان سعی کرو اور حلال ہوجاؤ۔ چناچہ میں چلا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق کرلیا پھر اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا، اس نے " خطمی " سے میرا سر دھویا اور میرے سر کی جوئیں دیکھیں، پھر میں نے آٹھ ذی الحج کو حج کا احرام باندھ لیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک لوگوں کو یہی فتویٰ دیتا رہا جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی یہی صورت حال رہی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو ایک دن میں حجر اسود کے قریب کھڑا ہوا تھا اور لوگوں کو یہی مسئلہ بتارہا تھا جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا کہ اچانک ایک آدمی آیا اور سرگوشی میں مجھ سے کہنے لگا کہ یہ فتویٰ دینے میں جلدی سے کام مت لیجئے کیونکہ امیرالمؤمنین نے مناسک حج کے حوالے سے کچھ نئے احکام جاری کئے ہیں۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ اے لوگو! جسے ہم نے مناسک حج کے حوالے سے کوئی فتویٰ دیا ہو وہ انتظار کرے کیونکہ امیرالمؤمنین آنے والے ہیں آپ ان ہی کی اقتداء کریں، پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تو میں نے ان سے پوچھا اے امیرالمؤمنین! کیا مناسک حج کے حوالے سے آپ نے کچھ نئے احکام جاری کئے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں! اگر ہم کتاب اللہ کو لیتے ہیں تو وہ ہمیں اتمام کا حکم دیتی ہے اور اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لیتے ہیں تو انہوں نے قربانی کرنے تک احرام نہیں کھولا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1559، م: 1221، 1222
حدثنا وكيع ، عن حرملة بن قيس ، عن محمد بن ابي ايوب ، عن ابي موسى ، قال: امانان كانا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، رفع احدهما، وبقي الآخر: وما كان الله ليعذبهم وانت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون سورة الانفال آية 33 .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ حَرْمَلَةَ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: أَمَانَانِ كَانَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رُفِعَ أَحَدُهُمَا، وَبَقِيَ الْآخَرُ: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ سورة الأنفال آية 33 .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں دو طرح کی امان تھی جن میں سے ایک اٹھ چکی ہے اور دوسری باقی ہے، (١) اللہ تعالیٰ انہیں آپ کی موجودگی میں عذاب نہیں دے گا (٢) اللہ انہیں اس وقت تک عذاب نہیں دے گا جب تک یہ استغفار کرتے رہیں گے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة محمد بن أبى أيوب
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ میں ریشم اور بائیں ہاتھ میں سونا بلند کیا اور فرمایا یہ دونوں میری امت کی عورتوں کے لئے حلال اور مردوں کے لئے حرام ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده، وهذا إسناد اختلف فيه على نافع
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن إسماعيل بن ابي خالد ، عن اخيه ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: قدم رجلان معي من قومي، قال: فاتينا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فخطبا، وتكلما، فجعلا يعرضان بالعمل، فتغير وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، او: رئي في وجهه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم " إن اخونكم عندي من يطلبه، فعليكما بتقوى الله عز وجل"، قال فما استعان بهما على شيء .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ أَخِيهِ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: قَدِمَ رَجُلَانِ مَعِي مِنْ قَوْمِي، قَالَ: فَأَتَيْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَطَبَا، وَتَكَلَّمَا، فَجَعَلَا يُعَرِّضَانِ بِالْعَمَلِ، فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ: رُئِيَ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِنَّ أَخْوَنَكُمْ عِنْدِي مَنْ يَطْلُبُهُ، فَعَلَيْكُمَا بِتَقْوَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ"، قَالَ فَمَا اسْتَعَانَ بِهِمَا عَلَى شَيْءٍ .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے ساتھ میری قوم کے دو آدمی بھی آئے تھے ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ان دونوں نے دوران گفتگو کوئی عہدہ طلب کیا جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور فرمایا میرے نزدیک تم میں سب سے بڑا خائن وہ ہے جو کسی عہدے کا طلب گار ہوتا ہے لہٰذا تم دونوں تقویٰ کو لازم پکڑو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کوئی خدمت نہیں لی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام أخي إسماعيل بن أبى خالد
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن قتادة ، عن ابي عثمان النهدي ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم حسبته قال: في حائط فجاء رجل، فسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " اذهب، فاذن له، وبشره بالجنة"، فذهبت، فإذا هو ابو بكر رضي الله عنه، فقلت: ادخل، وابشر بالجنة، فما زال يحمد الله عز وجل، حتى جلس، ثم جاء آخر، فسلم، فقال:" ائذن له وبشره بالجنة"، فانطلقت، فإذا هو عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فقلت: ادخل، وابشر بالجنة، فما زال يحمد الله عز وجل حتى جلس، ثم جاء آخر، فسلم، فقال:" اذهب، فاذن له، وبشره بالجنة على بلوى شديدة"، قال: فانطلقت، فإذا هو عثمان، فقلت: ادخل، وابشر بالجنة على بلوى شديدة، قال: فجعل يقول: اللهم صبرا، حتى جلس .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَسِبْتُهُ قَالَ: فِي حَائِطٍ فَجَاءَ رَجُلٌ، فَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اذْهَبْ، فَأْذَنْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، فَذَهَبْتُ، فَإِذَا هُوَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: ادْخُلْ، وَأَبْشِرْ بِالْجَنَّةِ، فَمَا زَالَ يَحْمَدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، حَتَّى جَلَسَ، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ، فَسَلَّمَ، فَقَالَ:" ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، فَانْطَلَقْتُ، فَإِذَا هُوَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: ادْخُلْ، وَأَبْشِرْ بِالْجَنَّةِ، فَمَا زَالَ يَحْمَدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى جَلَسَ، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ، فَسَلَّمَ، فَقَالَ:" اذْهَبْ، فَأْذَنْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى شَدِيدَةٍ"، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ، فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ، فَقُلْتُ: ادْخُلْ، وَأَبْشِرْ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى شَدِيدَةٍ، قَالَ: فَجَعَلَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ صَبْرًا، حَتَّى جَلَسَ .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی باغ میں تھا ایک آدمی آیا اور اس نے سلام کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اسے اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنادو میں گیا تو وہ حضرت ابوبکرصدق رضی اللہ عنہ تھے میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے آئیے اور جنت کی خوشخبری قبول کیجئے وہ مسلسل اللہ کی تعریف کرتے ہوئے ایک جگہ پر بیٹھ گئے پھر دوسرا آدمی آیا اس نے بھی سلام کیا نبی کریم نے فرمایا اسے بھی اجازت اور خوشخبری دے دو میں گیا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے آئیے اور جنت کی خوشخبری قبول کیجئے وہ مسلسل اللہ کی تعریف کرتے ہوئے ایک جگہ پر بیٹھ گئے پھر تیسرا آدمی آیا اس نے بھی سلام کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا کر اسے بھی اجازت دے دو اور ایک امتحان کے ساتھ جنت کی خوشخبری سنا دو میں گیا تو وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے آئیے اور ایک سخت امتحان کے ساتھ جنت کی خوشخبری قبول کیجئے وہ یہ کہتے ہوئے کہ " اے اللہ! ثابت قدم رکھنا " آکر بیٹھ گئے۔
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تین مرتبہ سلام کیا، انہیں اجازت نہیں ملی تو وہ واپس چلے گئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پیچھے قاصد کو بھیجا کہ واپس کیوں چلے گئے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جب تم میں سے کوئی شخص تین مرتبہ سلام کرچکے اور اسے جواب نہ ملے تو اسے واپس لوٹ جانا چاہئے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اللہ تمہاری سنے گا کیونکہ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ جو اللہ کی تعریف کرتا ہے اللہ اس کی سن لیتا ہے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امانت دار خزانچی وہ ہوتا ہے کہ اسے جس چیز کا حکم دیا جائے وہ اسے مکمل، پورا اور دل کی خوشی کے ساتھ ادا کردے تاکہ صدقہ کرنے والے نے جسے دینے کا حکم دیا ہے اس تک وہ چیز پہنچ جائے۔
حدثنا حسين بن علي ، عن جعفر بن برقان ، عن ثابت بن الحجاج ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: اختصم رجلان إلى النبي صلى الله عليه وسلم في ارض، احدهما من اهل حضرموت، قال: فجعل يمين احدهما، قال: فضج الآخر، وقال: إنه إذا يذهب بارضي، فقال: " إن هو اقتطعها بيمينه ظلما، كان ممن لا ينظر الله عز وجل إليه يوم القيامة، ولا يزكيه، وله عذاب اليم" ، قال: وورع الآخر، فردها.حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: اخْتَصَمَ رَجُلَانِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَرْضٍ، أَحَدُهُمَا مِنْ أَهْلِ حَضْرَمَوْتَ، قَالَ: فَجَعَلَ يَمِينَ أَحَدِهِمَا، قَالَ: فَضَجَّ الْآخَرُ، وَقَالَ: إِنَّهُ إِذًا يَذْهَبُ بِأَرْضِي، فَقَالَ: " إِنْ هُوَ اقْتَطَعَهَا بِيَمِينِهِ ظُلْمًا، كَانَ مِمَّنْ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يُزَكِّيهِ، وَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ" ، قَالَ: وَوَرِعَ الْآخَرُ، فَرَدَّهَا.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو آدمی ایک زمین کا مقدمہ لے کر آئے جن میں سے ایک تعلق حضرموت سے تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے کو قسم اٹھانے کا کہہ دیا دوسرا فریق یہ سن کر چیخ پڑا اور کہنے لگا کہ اس طرح تو یہ میری زمین لے جائے گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ قسم کھاکر ظلماً اسے اپنی ملکیت میں لے لیتا ہے تو یہ ان لوگوں میں سے ہوگا جنہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دیکھے گا اور نہ ہی اس کا تزکیہ کرے گا اور اس کے لئے دردناک عذاب ہوگا پھر دوسرے شخص کو تقویٰ کی ترغیب دی تو اس نے وہ زمین واپس کردی۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ سونا اور ریشم دونوں میری امت کی عورتوں کے لئے حلال اور مردوں کے لئے حرام ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده، وهذا إسناد منقطع، سعيد بن أبى هند لم يلق أبا موسي
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بالغ لڑکی سے اس کے نکاح کی اجازت لی جائے گی، اگر وہ خاموش رہے تو گویا اس نے اجازت دے دی اور اگر وہ انکار کردے تو اسے اس رشتے پر مجبور نہ کیا جائے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بھوکے کو کھانا کھلایا کرو، قیدیوں کو چھڑایا کرو اور بیماروں کی عیادت کیا کرو۔
حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن عاصم يعني الاحول ، عن ابي عثمان ، عن ابي موسى ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فاشرفنا على واد، فذكر من هوله، فجعل الناس يكبرون، ويهللون، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ايها الناس، اربعوا على انفسكم"، ورفعوا اصواتهم، فقال:" ايها الناس، إنكم لا تدعون اصم ولا غائبا، إنه معكم" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ يَعْنِي الْأَحْوَلَ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَأَشْرَفْنَا عَلَى وَادٍ، فَذَكَرَ مِنْ هَوْلِهِ، فَجَعَلَ النَّاسُ يُكَبِّرُونَ، وَيُهَلِّلُونَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ"، وَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ، فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، إِنَّهُ مَعَكُمْ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے ہم ایک وادی پر چڑھے، انہوں نے اس کی ہولناکی بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ لوگ تکبیر و تہلیل کہنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو! اپنے ساتھ نرمی کرو، کیونکہ لوگوں نے آوازیں بلند کر رکھی تھیں، لوگو! تم کسی بہرے یا غائب اللہ کو نہیں پکار رہے ہو وہ ہر لمحہ تمہارے ساتھ ہے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص نردشیر (بارہ ٹانی) کے ساتھ کھیلتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد منقطع، سعيد لم يلق أبا موسي، وقد اختلف فيه على سعيد
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص نردشیر (بارہ ٹانی) کے ساتھ کھیلتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد اختلف فيه على أسامة بن زيد
حدثنا وكيع ، وابن جعفر ، قالا: حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن مرة الهمداني ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كمل من الرجال كثير، ولم يكمل من النساء إلا آسية امراة فرعون، ومريم بنت عمران، وإن فضل عائشة على النساء، كفضل الثريد على سائر الطعام" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَابْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرٍو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ مُرَّة الْهَمْدَانِيِّ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيرٌ، وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا آسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ، وَمَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ، وَإِنَّ فَضْلَ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ، كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مردوں میں سے کامل افراد تو بہت گذرے ہیں لیکن عورتوں میں کامل عورتیں صرف حضرت آسیہ رضی اللہ عنہ " جو فرعون کی بیوی تھیں " اور حضرت مریم (علیہا السلام) گذری ہیں اور تمام عورتوں پر عائشہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کو فضیلت حاصل ہے۔
حدثنا وكيع ، عن المسعودي ، عن عدي بن ثابت ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، ان اسماء لما قدمت لقيها عمر بن الخطاب رضي الله عنه في بعض طرق المدينة، فقال: آلحبشية هي؟ قالت: نعم، فقال: نعم القوم انتم، لولا انكم سبقتم بالهجرة، فقالت هي لعمر: كنتم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يحمل راجلكم، ويعلم جاهلكم، وفررنا بديننا، اما إني لا ارجع حتى اذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فرجعت إليه، فقالت له، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " بل لكم الهجرة مرتين: هجرتكم إلى المدينة، وهجرتكم إلى الحبشة" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِيِّ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، أَنَّ أَسْمَاءَ لَمَّا قَدِمَتْ لَقِيَهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ: آلْحَبَشِيَّةُ هِيَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، فَقَالَ: نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ، لَوْلَا أَنَّكُمْ سَبَقْتُمْ بِالْهِجْرَةِ، فَقَالَتْ هِيَ لِعُمَرَ: كُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُ رَاجِلَكُمْ، وَيُعَلِّمُ جَاهِلَكُمْ، وَفَرَرْنَا بِدِينِنَا، أَمَا إِنِّي لَا أَرْجِعُ حَتَّى أَذْكُرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَجَعَتْ إِلَيْهِ، فَقَالَتْ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَلْ لَكُمْ الْهِجْرَةُ مَرَّتَيْنِ: هِجْرَتُكُمْ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَهِجْرَتُكُمْ إِلَى الْحَبَشَةِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت اسماء رضی اللہ عنہ حبشہ سے واپس آئیں تو مدینہ منورہ کے کسی راستے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کا آمنا سامنا ہوگیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا حبشہ جانے والی ہو؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگ بہترین قوم تھے اگر تم سے ہجرت مدینہ نہ چھوٹتی انہوں نے فرمایا کہ تم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے وہ تمہارے پیدل چلنے والوں کو سواری دیتے تمہارے جاہل کو علم سکھاتے اور ہم لوگ اس وقت اپنے دین کو بچانے کے لئے نکلے تھے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کئے بغیر اپنے گھر واپس نہ جاؤں گی چناچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ساری بات بتادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری دوہجرتیں ہوئیں ایک مدینہ منورہ کی طرف اور دوسری ہجرت حبشہ کی جانب۔
حدثنا وكيع ، عن المسعودي . ويزيد ، قال: اخبرنا المسعودي، عن عمرو بن مرة ، عن ابي عبيدة ، عن ابي موسى ، قال: سمى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم نفسه اسماء، منها ما حفظنا، فقال:: " انا محمد، واحمد، والمقفي، والحاشر، ونبي الرحمة" ، قال يزيد:" ونبي التوبة، ونبي الملحمة".حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ الْمَسْعُودِيِّ . وَيَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: سَمَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ أَسْمَاءً، مِنْهَا مَا حَفِظْنَا، فَقَالَ:: " أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ، وَالْمُقَفِّي، وَالْحَاشِرُ، وَنَبِيُّ الرَّحْمَةِ" ، قَالَ يَزِيدُ:" وَنَبِيُّ التَّوْبَةِ، وَنَبِيُّ الْمَلْحَمَةِ".
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے کچھ نام بتائے جو ہمیں پہلے سے یاد اور معلوم نہ تھے چناچہ فرمایا کہ میں محمد ہوں، احمد، مقفی، حاشر اور نبی الرحمۃ ہوں صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ سوال پوچھا کہ اگر کوئی آدمی کسی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن ان تک پہنچ نہیں پاتا تو کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی تکلیف دہ بات کو سن کر اللہ سے زیادہ اس پر صبر کرنے والا کوئی نہیں ہے اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرایا جاتا ہے لیکن وہ پھر بھی انہیں رزق دیتا ہے
حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا سفيان ، عن زياد بن علاقة ، عن رجل ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فناء امتي بالطعن والطاعون"، فقيل: يا رسول الله، هذا الطعن قد عرفناه، فما الطاعون؟ قال:" وخز اعدائكم من الجن، وفي كل شهداء" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَنَاءُ أُمَّتِي بِالطَّعْنِ وَالطَّاعُونِ"، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الطَّعْنُ قَدْ عَرَفْنَاهُ، فَمَا الطَّاعُونُ؟ قَالَ:" وَخْزُ أَعْدَائِكُمْ مِنَ الْجِنِّ، وَفِي كُلٍّ شُهَدَاءُ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت " طعن اور طاعون " سے فناء ہوگی کسی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! طعن کا معنی تو ہم نے سمجھ لیا (کہ نیزوں سے مارنا) طاعون سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے دشمن جنات کے کچوکے اور دونوں صورتوں میں شہادت ہے۔
حكم دارالسلام: وهذا إسناد اختلف فيه على زياد بن علا قة
حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا شعبة . وابن جعفر ، اخبرنا شعبة، عن عمرو بن مرة ، عن ابي عبيدة ، عن ابي موسى . قال ابن جعفر في حديثه: سمعت ابا عبيدة يحدث، عن ابي موسى، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله تعالى يبسط يده بالليل ليتوب مسيء النهار، ويبسط يده بالنهار ليتوب مسيء الليل، حتى تطلع الشمس من مغربها" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . وَابْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى . قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ فِي حَدِيثِهِ: سَمِعْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَبْسُطُ يَدَهُ بِاللَّيْلِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ النَّهَارِ، وَيَبْسُطُ يَدَهُ بِالنَّهَارِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ اللَّيْلِ، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا رات کے وقت اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کرلے اور دن میں اپنے ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ رات میں گناہ کرنے والا توبہ کرلے یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوجاتا۔
حدثنا عبد الرحمن ، وابن جعفر ، قالا: حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي عبيدة ، عن ابي موسى ، قال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم باربع، فقال: " إن الله عز وجل لا ينام، ولا ينبغي له ان ينام، يخفض القسط، ويرفعه، يرفع إليه عمل الليل بالنهار، وعمل النهار بالليل" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، وَابْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَرْبَعٍ، فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَنَامُ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ، يَخْفِضُ الْقِسْطَ، وَيَرْفَعُهُ، يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ بِالنَّهَارِ، وَعَمَلُ النَّهَارِ بِاللَّيْلِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور چارباتیں بیان فرمائیں اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کو نیند نہیں آتی اور نہ ہی نیند ان کی شایان شان ہے وہ ترازو کو جھکاتے اور اونچا کرتے ہیں رات کے اعمال دن کے وقت اور دن کے اعمال رات کے وقت ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔
حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا شعبة ، عن سعيد بن ابي بردة ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " على كل مسلم صدقة"، قال: افرايت إن لم يجد؟ قال:" يعمل بيده، فينفع نفسه، ويتصدق"، قال: افرايت إن لم يستطع ان يفعل؟ قال:" يعين ذا الحاجة الملهوف"، قال: ارايت إن لم يفعل؟ قال:" يامر بالخير، او: بالعدل"، قال: افرايت إن لم يستطع ان يفعل؟ قال:" يمسك عن الشر، فإنه له صدقة" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ"، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَجِدْ؟ قَالَ:" يَعْمَلُ بِيَدِهِ، فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ، وَيَتَصَدَّقُ"، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَفْعَلَ؟ قَالَ:" يُعِينُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَ"، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَفْعَلْ؟ قَالَ:" يَأْمُرُ بِالْخَيْرِ، أَوْ: بِالْعَدْلِ"، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَفْعَلَ؟ قَالَ:" يُمْسِكُ عَنِ الشَّرِّ، فَإِنَّهُ لَهُ صَدَقَةٌ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر مسلمان پر صدقہ کرنا واجب ہے کسی نے پوچھا یہ بتائیے کہ اگر کسی کے پاس کچھ نہ ہو تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے ہاتھ سے محنت کرے، اپنا بھی فائدہ کرے اور صدقہ بھی کرے، سائل نے پوچھا یہ بتائیے کہ اگر وہ اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی ضرورت مند، فریادی کی مدد کر دے سائل نے پوچھا اگر کوئی شخص یہ بھی نہ کرسکے تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خیر یا عدل کا حکم دے سائل نے پوچھا اگر یہ بھی نہ کرسکے تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کسی کو تکلیف پہنچانے سے اپنے آپ کو روک کر رکھے اس کے لئے یہی صدقہ ہے۔
حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن صالح الثوري ، عن الشعبي ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من كانت له امة فعلمها، فاحسن تعليمها، وادبها، فاحسن تاديبها، واعتقها، فتزوجها، فله اجران، وعبد ادى حق الله عز وجل، وحق مواليه، ورجل من اهل الكتاب آمن بما جاء به عيسى، وما جاء به محمد صلى الله عليه وسلم، فله اجران" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ صَالِحٍ الثَّوْرِيِّ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ فَعَلَّمَهَا، فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، وَأَدَّبَهَا، فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا، وَأَعْتَقَهَا، فَتَزَوَّجَهَا، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَعَبْدٌ أَدَّى حَقَّ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَحَقَّ مَوَالِيهِ، وَرَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِمَا جَاءَ بِهِ عِيسَى، وَمَا جَاءَ بِهِ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَهُ أَجْرَانِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کے پاس کوئی باندی ہو اور وہ اسے عمدہ تعلیم دلائے بہترین ادب سکھائے پھر اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے تو اسے دہرا اجر ملے گا، اسی طرح وہ غلام جو اپنے اللہ کا حق بھی ادا کرتا ہو اور اپنے آقا کا حق بھی ادا کرتا ہو یا اہل کتاب میں سے وہ آدمی جو حضرت عیسیٰ کی شریعت پر بھی ایمان لایا ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر بھی ایمان لایا ہو اسے بھی دہرا اجرملے گا۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب ، عن ابي موسى ، قال: قدمت على النبي صلى الله عليه وسلم وهو منيخ بالابطح، فقال لي:" احججت؟" قلت: نعم، قال:" فبم اهللت؟"، قال: قلت: لبيك بإهلال كإهلال النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" قد احسنت"، قال: " طف بالبيت، وبالصفا، والمروة، ثم احل"، قال: فطفت بالبيت، وبالصفا، والمروة، ثم اتيت امراة من بني قيس، ففلت راسي، ثم اهللت بالحج، قال: فكنت افتي به الناس، حتى كان خلافة عمر رضي الله عنه، فقال رجل: يا ابا موسى، او: يا عبد الله بن قيس، رويدك بعض فتياك، فإنك لا تدري ما احدث امير المؤمنين في شان النسك بعدك، قال: فقال: يا ايها الناس، من كنا افتيناه فتيا، فليتئد، فإن امير المؤمنين قادم عليكم، فبه فاتموا، قال: فقدم عمر، فذكرت ذلك له، فقال: إن ناخذ بكتاب الله، فإن كتاب الله تعالى يامرنا بالتمام، وإن ناخذ بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يحل، حتى بلغ الهدي محله .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُنِيخٌ بِالْأَبْطَحِ، فَقَالَ لِي:" أَحَجَجْتَ؟" قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" فَبِمَ أَهْلَلْتَ؟"، قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ بِإِهْلَالٍ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" قَدْ أَحْسَنْتَ"، قَالَ: " طُفْ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَحِلَّ"، قَالَ: فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ بَنِي قَيْسٍ، فَفَلَّتْ رَأْسِي، ثُمَّ أَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ، قَالَ: فَكُنْتُ أُفْتِي بِهِ النَّاسَ، حَتَّى كَانَ خِلَافَةُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا أَبَا مُوسَى، أَوْ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، رُوَيْدَكَ بَعْضَ فُتْيَاكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ بَعْدَكَ، قَالَ: فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ فُتْيَا، فَلْيَتَّئِدْ، فَإِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ، فَبِهِ فَأْتَمُّوا، قَالَ: فَقَدِمَ عُمَرُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنَّ كِتَابَ اللَّهِ تَعَالَى يَأْمُرُنَا بِالتَّمَامِ، وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَحِلَّ، حَتَّى بَلَغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی قوم کے علاقے میں بھیج دیا، جب حج کاموسم قریب آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لئے تشریف لے گئے میں نے بھی حج کی سعادت حاصل کی، میں جب حاضر خدمت میں ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابطح میں پڑاؤ کئے ہوئے تھے مجھ سے پوچھا کہ اے عبداللہ بن قیس! تم نے کس نیت سے احرام باندھا؟ میں نے عرض کیا " لبیک بحج باہلال کا ھلال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھایہ بتاؤ کہ کیا اپنے ساتھ ہدی کا جانور لائے ہو؟ میں نے کہا نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا کر بیت اللہ کا طواف کرو، صفا مروہ کے درمیان سعی کرو اور حلال ہوجاؤ۔ چناچہ میں چلا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق کرلیا پھر اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا، اس نے " خطمی " سے میرا سر دھویا اور میرے سر کی جوئیں دیکھیں، پھر میں نے آٹھ دی الحج کو حج کا احرام باندھ لیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک لوگوں کو یہی فتویٰ دیتا رہا جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی یہی صورت حال رہی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو ایک دن میں حجر اسود کے قریب کھڑا ہوا تھا اور لوگوں کو یہی مسئلہ بتارہا تھا جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا کہ اچانک ایک آدمی آیا اور سرگوشی میں مجھ سے کہنے لگا کہ یہ فتویٰ دینے میں جلدی سے کام مت لیجئے کیونکہ امیرالمؤمنین نے مناسک حج کے حوالے سے کچھ نئے احکام جاری کئے ہیں۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ اے لوگو! جسے ہم نے مناسک حج کے حوالے سے کوئی فتویٰ دیا ہو وہ انتظار کرے کیونکہ امیرالمؤمنین آنے والے ہیں آپ ان ہی کی اقتداء کریں، پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تو میں نے ان سے پوچھا اے امیرالمؤمنین! کیا مناسک حج کے حوالے سے آپ نے کچھ نئے احکام جاری کئے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں! اگر ہم کتاب اللہ کو لیتے ہیں تو وہ ہمیں اتمام کا حکم دیتی ہے اور اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لیتے ہیں تو انہوں نے قربانی کرنے تک احرام نہیں کھولا تھا۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن يزيد بن اوس ، عن ابي موسى ، انه اغمي عليه، فبكت عليه ام ولده، فلما افاق، قال لها: اما بلغك ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: فسالتها، فقالت: قال: " ليس منا من سلق، وحلق، وخرق" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَوْسٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، أَنَّهُ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، فَبَكَتْ عَلَيْهِ أُمُّ وَلَدِهِ، فَلَمَّا أَفَاقَ، قَالَ لَهَا: أَمَا بَلَغَكِ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: فَسَأَلْتُهَا، فَقَالَتْ: قَالَ: " لَيْسَ مِنَّا مَنْ سَلَقَ، وَحَلَقَ، وَخَرَقَ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ ان پر بیہوشی طاری ہوئی تو ان کی ام ولدہ رونے لگی جب انہیں افاقہ ہوا تو اس سے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے؟ اس نے پوچھا کیا فرمایا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو واویلا کرے، بال نوچے اور گریبان چاک کرے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 104، يزيد بن أوس مجهول لكنه توبع
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص میرے متعلق سنے خواہ میرا امتی ہو، یہودی ہو یا عیسائی ہو اور مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، سعيد بن جبير لم يسمع أبا موسى الأشعري
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي التياح ، حدثني رجل اسود طويل، قال: جعل ابو التياح ينعته، انه قدم مع ابن عباس البصرة، فكتب إلى ابي موسى، فكتب إليه ابو موسى ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يمشي، فمال إلى دمث في جنب حائط، فبال، ثم قال:" كان بنو إسرائيل إذا بال احدهم، فاصابه شيء من بوله، يتبعه، فقرضه بالمقراضين"، وقال: " إذا اراد احدكم ان يبول، فليرتد لبوله" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، حَدَّثَنِي رَجُلٌ أَسْوَدُ طَوِيلٌ، قَالَ: جَعَلَ أَبُو التَّيَّاحِ يَنْعَتُهُ، أَنَّهُ قَدِمَ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ الْبَصْرَةَ، فَكَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى، فَكَتَبَ إِلَيْهِ أَبُو مُوسَى ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْشِي، فَمَالَ إِلَى دَمْثٍ فِي جَنْبِ حَائِطٍ، فَبَالَ، ثُمَّ قَالَ:" كَانَ بَنَو إِسْرَائِيلَ إِذَا بَالَ أَحَدُهُمْ، فَأَصَابَهُ شَيْءٌ مِنْ بَوْلِهِ، يَتْبَعُهُ، فَقَرَضَهُ بِالْمِقْرَاضَيْنِ"، وَقَالَ: " إِذَا أَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يَبُولَ، فَلْيَرْتَدْ لِبَوْلِهِ" .
ابوالتیاح کے طویل سیاہ فام آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بصرہ آیا انہوں نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا، حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے انہیں جواب میں لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ جارہے تھے کہ ایک باغ کے پہلو میں نرم زمین کے قریب پہنچ کر پیشاب کیا اور فرمایا بنی اسرائیل میں جب کوئی شخص پیشاب کرتا اور اس کے جسم پر معمولی سا پیشاب لگ جاتا تو وہ اس جگہ کو قینچی سے کاٹ دیا کرتا تھا اور فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص پیشاب کا ارادہ کرے تو اس کے لئے نرم زمین تلاش کرے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: إذا أراد أحدكم أن يبول فليرتد لبوله، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الرجل الراوي عنه أبو التياح
حدثنا بهز ، حدثنا جعفر بن سليمان ، حدثنا ابو عمران الجوني ، عن ابي بكر بن عبد الله بن قيس ، قال: سمعت ابي وهو بحضرة العدو يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول " إن ابواب الجنة تحت ظلال السيوف"، قال: فقام رجل من القوم رث الهيئة، فقال: يا ابا موسى، آنت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، قال: فرجع إلى اصحابه، فقال: اقرا عليكم السلام، ثم كسر جفن سيفه، فالقاه، ثم مشى بسيفه، فضرب به حتى قتل .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي وَهُوَ بِحَضْرَةِ الْعَدُوِّ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ " إِنَّ أَبْوَابَ الْجَنَّةِ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ"، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ رَثُّ الْهَيْئَةِ، فَقَالَ: يَا أَبَا مُوسَى، آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَرَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: أَقْرَأُ عَلَيْكُمْ السَّلَامَ، ثُمَّ كَسَرَ جَفْنَ سَيْفِهِ، فَأَلْقَاهُ، ثُمَّ مَشَى بِسَيْفِهِ، فَضَرَبَ بِهِ حَتَّى قُتِلَ .
ابوبکربن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ دشمن کے لشکرکے سامنے میں نے اپنے والد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے میں ہیں یہ سن کر ایک پراگندہ ہیئت آدمی لوگوں میں سے کھڑا ہو اور کہنے لگا اے ابوموسیٰ! کیا یہ حدیث آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! وہ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس پہنچا اور انہیں آخری مرتبہ سلام کیا اپنی تلوار کی نیام توڑ کر پھینکی اور تلوار لے کر چل پڑا اور اس شدت کے ساتھ لڑا کہ بالآخر شہید ہوگیا۔
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن يزيد بن اوس ، قال: اغمي على ابي موسى ، فبكوا عليه، فقال: إني بريء ممن برئ منه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسالوا عن ذلك امراته، فقالت: من حلق، او خرق، او سلق .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ: أُغْمِيَ عَلَى أَبِي مُوسَى ، فَبَكَوْا عَلَيْهِ، فَقَالَ: إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّنْ بَرِئَ مِنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلُوا عَنْ ذَلِكَ امْرَأَتَهُ، فَقَالَتْ: مَنْ حَلَقَ، أَوْ خَرَقَ، أَوْ سَلَقَ .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ ان پر بیہوشی طاری ہوئی تو ان کی ام ولدہ رونے لگی جب انہیں افاقہ ہوا تو اس سے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے؟ اس نے پوچھا کیا فرمایا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو واویلا کرے، بال نوچے اور گریبان چاک کرے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 106، يزيد بن أوس مجهول لكنه توبع
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ ان پر بیہوشی طاری ہوئی تو ان کی ام ولدہ رونے لگی جب انہیں افاقہ ہوا تو اس سے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے؟ اس نے پوچھا کیا فرمایا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو واویلا کرے، بال نوچے اور گریبان چاک کرے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا عوف . وحماد بن اسامة ، حدثني عوف، عن زياد بن مخراق ، عن ابي كنانة ، عن ابي موسى ، قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم على باب بيت فيه نفر من قريش، فقال واخذ بعضادتي الباب، ثم قال:" هل في البيت إلا قرشي؟"، قال: فقيل: يا رسول الله، غير فلان ابن اختنا، فقال: " ابن اخت القوم منهم"، قال: ثم قال:" إن هذا الامر في قريش ما داموا إذا استرحموا رحموا، وإذا حكموا عدلوا، وإذا قسموا اقسطوا، فمن لم يفعل ذلك منهم، فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين، لا يقبل منه صرف ولا عدل" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ . وَحَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ ، حَدَّثَنِي عَوْفٌ، عَنْ زِيَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ ، عَنْ أَبِي كِنَانَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَابِ بَيْتٍ فِيهِ نَفَرٌ مِنْ قُرَيْشٍ، فَقَالَ وَأَخَذَ بِعِضَادَتَيْ الْبَابِ، ثُمَّ قَالَ:" هَلْ فِي الْبَيْتِ إِلَّا قُرَشِيٌّ؟"، قَالَ: فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، غَيْرُ فُلَانٍ ابْنِ أُخْتِنَا، فَقَالَ: " ابْنُ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْهُمْ"، قَالَ: ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ فِي قُرَيْشٍ مَا دَامُوا إِذَا اسْتُرْحِمُوا رَحِمُوا، وَإِذَا حَكَمُوا عَدَلُوا، وَإِذَا قَسَمُوا أَقْسَطُوا، فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ مِنْهُمْ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھرکے دروازے پر پہنچے جہاں کچھ قریشی جمع تھے اور دروازے کے دونوں کواڑ پکڑ کر پوچھا کہ کیا اس گھر میں قریشیوں کے علاوہ بھی کوئی ہے؟ کسی نے جواب دیا ہمارا فلاں بھانجا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قوم کا بھانجا ان ہی میں شمار ہوتا ہے پھر فرمایا حکومت قریش ہی میں رہے گی جب تک ان سے رحم کی درخواست کی جائے تو وہ رحم کرتے رہیں فیصلہ کریں تو انصاف کریں تقسیم کریں تو عدل سے کام لیں جو شخص ایسا نہ کرے اس پر اللہ کی فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کا کوئی فرض یا نفل قبول نہیں ہوگا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: فمن لم يفعل ذلك منهم….. إلى آخر الحديث، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى كنانة
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، قال: كنت جالسا مع ابي موسى، وعبد الله، فقال ابو موسى : الم تسمع لقول عمار: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في حاجة، فاجنبت، فلم اجد الماء، فتمرغت في الصعيد كما تمرغ الدابة، ثم اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له، فقال: " إنما كان يكفيك ان تقول، وضرب بيده على الارض، ثم مسح كل واحدة منهما بصاحبتها، ثم مسح بهما وجهه" ، لم يجز الاعمش الكفين.حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي مُوسَى، وَعَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى : أَلَمْ تَسْمَعْ لِقَوْلِ عَمَّارٍ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ، فَأَجْنَبْتُ، فَلَمْ أَجِدْ الْمَاءَ، فَتَمَرَّغْتُ فِي الصَّعِيدِ كَمَا تَمَرَّغُ الدَّابَّةُ، ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: " إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَقُولَ، وَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى الْأَرْضِ، ثُمَّ مَسَحَ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بِصَاحِبَتِهَا، ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ" ، لَمْ يُجِزْ الْأَعْمَشُ الْكَفَّيْنِ.
شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کیا آپ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی یہ بات نہیں سنی کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی کام سے بھیجا مجھ پر دوران سفر غسل واجب ہوگیا مجھے پانی نہیں ملا تو میں اسی طرح مٹی میں لوٹ پوٹ ہوگیا جیسے چوپائے ہوتے ہیں پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس واقعے کا بھی ذکر کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لئے تو صرف یہی کافی تھا یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر اپنا ہاتھ مارا پھر دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے پر ملا اور چہرے پر مسح کرلیا۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن ابي موسى ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ارايت الرجل يقاتل شجاعة، ويقاتل حمية، ويقاتل رياء، فاي ذلك في سبيل الله؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قاتل لتكون كلمة الله عز وجل هي العليا، فهو في سبيل الله عز وجل" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ يُقَاتِلُ شَجَاعَةً، وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً، وَيُقَاتِلُ رِيَاءً، فَأَيُّ ذَلِكَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ هِيَ الْعُلْيَا، فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ آدمی اپنے آپ کو بہادر ثابت کرنے کے لئے لڑتا ہے ایک آدمی قومی غیرت کے جذبے سے قتال کرتا ہے اور ایک آدمی ریاکاری کے لئے قتال کرتا ہے ان میں سے اللہ کے راستے میں قتال کرنے والا کون ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اس لئے قتال کرتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے وہی اللہ کے راستہ میں قتال کرنے والا ہے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا اور انہیں حکم کہ لوگوں کو قرآن سکھائیں۔
حضرت عبداللہ بن قیس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم مسلمانوں کی مسجدوں اور بازاروں میں جایا کرو اور تمہارے پاس تیر ہوں تو ان کا پھل قابو میں رکھا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کسی کو لگ جائے اور تم کسی کو اذیت پہنچاؤ یا زخمی کردو۔
حدثنا ابو احمد ، حدثنا بريد بن عبد الله ، حدثنا ابو بردة ، عن ابي موسى ، قال:" تعاهدوا هذا القرآن، والذي نفسي بيده، لهو اشد تفلتا من احدكم من الإبل من عقله . قال ابو احمد: قلت لبريد: هذه الاحاديث التي حدثتني عن ابي بردة، عن ابي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: هي عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولكن لا اقول لك.حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ:" تَعَاهَدُوا هَذَا الْقُرْآنَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَهُوَ أَشَدُّ تَفَلُّتًا مِنْ أَحَدِكُمْ مِنَ الْإِبِلِ مِنْ عُقُلِهِ . قَالَ أَبُو أَحْمَدَ: قُلْتُ لِبُرَيْدٍ: هَذِهِ الْأَحَادِيثُ الَّتِي حَدَّثْتَنِي عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: هِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنْ لَا أَقُولُ لَكَ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس قرآن کی حفاظت کیا کرو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے یہ اپنی رسی چھڑا کر بھاگ جانے والے اونٹ سے زیادہ تم میں سے کسی کے سینے سے جلدی نکل جاتا ہے۔
حدثنا معتمر بن سليمان التيمي ، قال: قرات على الفضيل بن ميسرة ، في حديث ابي حريز ، ان ابا بردة حدثه، قال: اوصى ابو موسى حين حضره الموت، فقال: إذا انطلقتم بجنازتي، فاسرعوا المشي، ولا يتبعني مجمر، ولا تجعلوا في لحدي شيئا يحول بيني وبين التراب، ولا تجعلوا على قبري بناء، واشهدكم اني بريء من كل حالقة، او سالقة، او خارقة، قالوا: اوسمعت فيه شيئا؟ قال: نعم، من رسول الله صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيُّ ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى الْفُضَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، فِي حَدِيثِ أَبِي حَرِيزٍ ، أَنَّ أَبَا بُرْدَةَ حَدَّثَهُ، قَالَ: أَوْصَى أَبُو مُوسَى حِينَ حَضَرَهُ الْمَوْتُ، فَقَالَ: إِذَا انْطَلَقْتُمْ بِجِنَازَتِي، فَأَسْرِعُوا الْمَشْيَ، وَلَا يَتَّبِعُنِي مُجَمَّرٌ، وَلَا تَجْعَلُوا فِي لَحْدِي شَيْئًا يَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَ التُّرَابِ، وَلَا تَجْعَلُوا عَلَى قَبْرِي بِنَاءً، وَأُشْهِدُكُمْ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ حَالِقَةٍ، أَوْ سَالِقَةٍ، أَوْ خَارِقَةٍ، قَالُوا: أَوَسَمِعْتَ فِيهِ شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ، مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
ابوبردہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اپنے مرض الوفات میں حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے وصیت کرتے ہوئے فرمایا جب تم لوگ میرے جنازے کو لے روانہ ہو تو تیزی سے چلنا، انگیٹھی ساتھ لے کر نہ جانامیری قبر میں کوئی ایسی چیز نہ رکھنا جو میرے اور مٹی کے درمیان حائل ہو، میری قبر پر کچھ تعمیر نہ کرنا اور میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں ہر اس شخص سے بری ہوں جو بال نوچے، واویلا کرے اور گریبان چاک کرے لوگوں نے پوچھا کیا آپ نے اس حوالے سے کچھ سن رکھا ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا سفيان ، عن قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب ، عن ابي موسى ، قال: قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو بالبطحاء، فقال:" بم اهللت؟"، فقلت: بإهلال كإهلال النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" هل سقت من هدي؟"، قلت: لا، قال: " طف بالبيت، وبالصفا، والمروة، ثم حل" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ:" بِمَ أَهْلَلْتَ؟"، فَقُلْتُ: بِإِهْلَالٍ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" هَلْ سُقْتَ مِنْ هَدْيٍ؟"، قُلْتُ: لَا، قَالَ: " طُفْ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ حِلَّ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں جب حاضرخدمت میں ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابطح میں پڑاؤ کئے ہوئے تھے مجھ سے پوچھا کہ اے عبداللہ بن قیس! تم نے کس نیت سے احرام باندھا؟ میں نے عرض کیا " لبیک بحج باہلال کأہلال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا یہ بتاؤ کہ کیا اپنے ساتھ ہدی کا جانور لائے ہو؟ میں نے کہا نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا کر بیت اللہ کا طواف کرو، صفا مروہ کے درمیان سعی کرو اور حلال ہوجاؤ۔
حدثنا روح ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، قال: حدثنا انس بن مالك ، ان ابا موسى الاشعري ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مثل المؤمن الذي يقرا القرآن مثل الاترجة، طعمها طيب، وريحها طيب، ومثل المؤمن الذي لا يقرا القرآن كمثل التمرة، طعمها طيب، ولا ريح لها، ومثل الفاجر الذي يقرا القرآن، كمثل الريحانة، مر طعمها، وطيب ريحها، ومثل الفاجر الذي لا يقرا القرآن، كمثل الحنظلة، مر طعمها، ولا ريح لها" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ الْأُتْرُجَّةِ، طَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَرِيحُهَا طَيِّبٌ، وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ التَّمْرَةِ، طَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَلَا رِيحَ لَهَا، وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ، مُرٌّ طَعْمُهَا، وَطَيِّبٌ رِيحُهَا، وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ، مُرٌّ طَعْمُهَا، وَلَا رِيحَ لَهَا" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس مسلمان کی مثال جو قرآن کریم پڑھتا ہے اترج کی سی ہے جس کا ذائقہ بھی عمدہ ہوتا ہے اور اس کی مہک بھی عمدہ ہوتی ہے، اس مسلمان کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور کی سی ہے جس کا ذائقہ تو عمدہ ہوتا ہے لیکن اس کی مہک نہیں ہوتی، اس گنہگار کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے ریحان کی سی ہے جس کا ذائقہ تو کڑوا ہوتا ہے لیکن مہک عمدہ ہوتی ہے۔ اور اس فاجر کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اندرائن کی سی ہے جس کا ذائقہ بھی کڑوا ہوتا ہے اور اس کی مہک بھی نہیں ہوتی۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام انگلیاں برابر ہوتی ہیں (دیت کے حوالے سے) یعنی ہر انگلی کی دیت دس اونٹ ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة مسروق بن أوس، وقد اختلف فيه على غالب التمار
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص نردشیر (بارہ ٹانی) کے ساتھ کھیلتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد منقطع، سعيد بن أبى هند لم يلق أبا موسي الأشعري
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس چیز کا رنگ آگ نے بدل ڈالا ہو اسے کھانے کے بعد وضو کیا کرو۔
حكم دارالسلام: إسناده فيه ضعف وانقطاع، المبارك بن فضالة يدلس ويسوي، وقد عنعن، والحسن لم يسمع من أبى موسى
حدثنا ابو احمد ، حدثنا سفيان ، عن ايوب ، عن ابي قلابة ، عن زهدم ، عن ابي موسى ، انه جاء رجل وهو ياكل دجاجا، فتنحى، فقال: إني حلفت ان لا آكله، إني رايته ياكل شيئا قذرا، فقال: ادنه، فقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ياكله .حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ زَهْدَمٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، أَنَّهُ جَاءَ رَجُلٌ وَهُوَ يَأْكُلُ دَجَاجًا، فَتَنَحَّى، فَقَالَ: إِنِّي حَلَفْتُ أَنْ لَا آكُلَهُ، إِنِّي رَأَيْتُهُ يَأْكُلُ شَيْئًا قَذِرًا، فَقَالَ: ادْنُهُ، فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُهُ .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا وہ اس وقت مرغی کھا رہے تھے وہ آدمی ایک طرف کو ہو کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ میں نے قسم کھا رکھی ہے کہ اسے نہیں کھاؤں گا کیونکہ میں مرغیوں کو گند کھاتے ہوئے دیکھتا ہوں، انہوں نے فرمایا قریب آجاؤ کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے تناول فرماتے ہوئے دیکھا ہے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ سوال پوچھا کہ اگر کوئی آدمی کسی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن ان تک پہنچ نہیں پاتا تو کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے تمہیں تین مرتبہ اجازت مانگنی چاہئے مل جائے تو بہت اچھا اور اگر تم میں سے کوئی شخص تین مرتبہ اجازت طلب کرچکے اور اسے جواب نہ ملے تو اسے واپس لوٹ جانا چاہئے۔
حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا شعبة ، عن غالب ، عن اوس ابن مسروق ، او: مسروق بن اوس اليربوعي، من بني تميم، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الاصابع سواء" ، قال شعبة: قلت له: عشرا عشرا؟ قال:" نعم".حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ غَالِبٍ ، عَنْ أَوْسِ ابْنِ مَسْرُوقٍ ، أَوْ: مَسْرُوقِ بْنِ أَوْسٍ الْيَرْبُوعِيِّ، مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْأَصَابِعُ سَوَاءٌ" ، قَالَ شُعْبَةُ: قُلْتُ لَهُ: عَشْرًا عَشْرًا؟ قَالَ:" نَعَمْ".
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام انگلیاں برابر ہوتی ہیں (دیت کے حوالے سے) یعنی ہر انگلی کی دیت دس اونٹ ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة مسروق بن أوس، وقد اختلف فيه على غالب التمار
حدثنا سليمان بن حرب ، حدثنا حماد بن زيد ، حدثني غيلان بن جرير ، عن ابي بردة بن ابي موسى ، عن ابيه ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في رهط من الاشعريين نستحمله، فقال:" لا، والله ما احملكم، وما عندي ما احملكم عليه"، فلبثنا ما شاء الله، ثم امر لنا بثلاث ذود غر الذرى، فلما انطلقنا، قال بعضنا لبعض: اتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم نستحمله، فحلف ان لا يحملنا، ارجعوا بنا، اي: حتى نذكره، قال: فاتيناه، فقلنا: يا رسول الله، إنا اتيناك نستحملك، فحلفت ان لا تحملنا، ثم حملتنا! فقال: " ما انا حملتكم، بل الله عز وجل حملكم، إني والله إن شاء الله تعالى لا احلف على يمين، فارى غيرها خيرا منها، إلا اتيت الذي هو خير، وكفرت عن يميني"، او قال:" إلا كفرت يميني، واتيت الذي هو خير" .حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنِي غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ مِنَ الْأَشْعَرِيِّينَ نَسْتَحْمِلُهُ، فَقَالَ:" لَا، وَاللَّهِ مَا أَحْمِلُكُمْ، وَمَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ"، فَلَبِثْنَا مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ أَمَرَ لَنَا بِثَلَاثِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَى، فَلَمَّا انْطَلَقْنَا، قَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ: أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَسْتَحْمِلُهُ، فَحَلَفَ أَنْ لَا يَحْمِلَنَا، ارْجِعُوا بِنَا، أَيْ: حَتَّى نُذَكِّرَهُ، قَالَ: فَأَتَيْنَاهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا أَتَيْنَاكَ نَسْتَحْمِلُكَ، فَحَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا، ثُمَّ حَمَلْتَنَا! فَقَالَ: " مَا أَنَا حَمَلْتُكُمْ، بَلْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَمَلَكُمْ، إِنِّي وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ، فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، وَكَفَّرْتُ عَنْ يَمِينِي"، أَوْ قَالَ:" إِلَّا كَفَّرْتُ يَمِينِي، وَأَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اشعریین کے ایک گروہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لئے جانوروں کی درخواست کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخدا! میں تمہیں سوار نہیں کرسکوں گا کیونکہ میرے پاس تمہیں سوار کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے؟ ہم کچھ دیر " جب تک اللہ کو منظور ہوا " رکے رہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے روشن پیشانی کے تین اونٹوں کا حکم دے دیا جب ہم واپس جانے لگے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواری کے جانور کی درخواست لے کر آئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی تھی کہ وہ ہمیں سواری کا جانور نہیں دیں گے واپس چلو تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی قسم یاد دلادیں۔ چناچہ ہم دوبارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم آپ کے پاس سواری کے جانور کی درخواست لے کر آئے تھے اور آپ نے قسم کھائی تھی کہ ہمیں سواری کا جانور نہیں دیں گے، پھر آپ نے ہمیں جانور دے دیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہیں سوار نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے بخدا! اگر اللہ کو منظور ہوا تو میں جب بھی کوئی قسم کھاؤں گا اور کسی دوسری چیز میں خیر دیکھوں گا تو اسی کو اختیار کر کے اپنی قسم کا کفارہ دے دوں گا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اس چیز کی حفاظت کرلے جو اس کے منہ میں ہے (زبان) اور شرمگاہ تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالله بن محمد ولاضطرابه فيه ولابهام شيخه فى الإسناد
حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، ان عونا ، وسعيد بن ابي بردة حدثاه، انهما شهدا ابا بردة يحدث عمر بن عبد العزيز، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يموت رجل مسلم إلا ادخل الله عز وجل مكانه النار يهوديا، او نصرانيا" ، قال: فاستحلفه عمر بن عبد العزيز بالله الذي لا إله إلا هو ثلاث مرات، ان اباه حدثه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، قال: فحلف له، قال: فلم يحدثني سعيد انه استحلفه، ولم ينكر على عون قوله.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، أَنَّ عَوْنًا ، وَسَعِيد بن أبي بردةَ حَدَّثَاهُ، أَنَّهُمَا شَهِدَا أَبَا بُرْدَةَ يُحَدِّثُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَمُوتُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ إِلَّا أَدْخَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَكَانَهُ النَّارَ يَهُودِيًّا، أَوْ نَصْرَانِيًّا" ، قَالَ: فَاسْتَحْلَفَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بِاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ: فَحَلَفَ لَهُ، قَالَ: فَلَمْ يُحَدِّثْنِي سَعِيدٌ أَنَّهُ اسْتَحْلَفَهُ، وَلَمْ يُنْكِرْ عَلَى عَوْنٍ قَوْلَهُ.
ایک مرتبہ ابوبردہ نے حضرت عمربن عبدالعزیزرضی اللہ عنہ کو اپنے والد صاحب کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو مسلمان بھی فوت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کسی یہودی یا عیسائی کو جہنم میں داخل کردیتا ہے، ابوبردہ نے گزشتہ حدیث حضرت عمرعبدالعزیز رحمہ اللہ کو سنائی تو انہوں نے ابوبردہ سے اس اللہ کے نام کی قسم کھانے کے لئے کہا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ یہ حدیث ان کے والد صاحب نے بیان کی ہے اور انہوں نے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اور سعید بن ابی بردہ، عوف کی اس بات کی تردید نہیں کرتے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن غالب التمار ، قال: سمعت اوس بن مسروق رجلا منا، كان اخذ الدرهمين على عهد عمر بن الخطاب رضي الله عنه، وغزا في خلافته، يحدث، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الاصابع سواء" ، قال شعبة: فقلت: عشر عشر؟ قال: نعم.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ غَالِبٍ التَّمَّارِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَوْسَ بْنَ مَسْرُوقٍ رَجُلًا مِنَّا، كَانَ أَخَذَ الدِّرْهَمَيْنِ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَغَزَا فِي خِلَافَتِهِ، يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْأَصَابِعُ سَوَاءٌ" ، قَالَ شُعْبَةُ: فَقُلْتُ: عَشْرٌ عَشْرٌ؟ قَالَ: نَعَمْ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام انگلیاں برابر ہوتی ہیں (دیت کے حوالے سے) یعنی ہر انگلی کی دیت دس اونٹ ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أوس بن مسروق، وقد اختلف فيه على غالب التمار
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، اخبرني ابو بشر ، قال: سمعت سعيد بن جبير ، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من سمع بي من امتي، او: يهودي، او: نصراني، ثم لم يؤمن بي، دخل النار" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنِي أَبُو بِشْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ سَمِعَ بِي مِنْ أُمَّتِي، أَوْ: يَهُودِيٌّ، أَوْ: نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ لَمْ يُؤْمِنْ بِي، دَخَلَ النَّارَ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص میرے متعلق سنے خواہ میرا امتی ہو، یہودی ہو یا عیسائی ہو اور مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، سعيد بن جبير لم يسمع أبا موسى الأشعري
حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا رجل من الانصار، ان ابا بكر بن عبد الله بن قيس حدثه، ان اباه حدثه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كان يكثر زيارة الانصار خاصة وعامة، فكان إذا زار خاصة، اتى الرجل في منزله، وإذا زار عامة، اتى المسجد" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، أَنَّ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يُكْثِرُ زِيَارَةَ الْأَنْصَارِ خَاصَّةً وَعَامَّةً، فَكَانَ إِذَا زَارَ خَاصَّةً، أَتَى الرَّجُلَ فِي مَنْزِلِهِ، وَإِذَا زَارَ عَامَّةً، أَتَى الْمَسْجِدَ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خصوصیت اور عمومیت دونوں طریقوں پر انصار کے ساتھ کثرت سے ملاقات فرماتے تھے اگر خصوصیت کے ساتھ ملنا ہوتا تو متعلقہ آدمی کے گھر تشریف لے جاتے اور عمومی طور پر ملنا ہوتا تو مسجد میں تشریف لے جاتے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الرجل الراوي عن أبى بكر بن أبى موسى
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کے پاس کوئی باندی ہو اور وہ اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے تو اسے دہرا اجر ملے گا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص کوئی نیکی کرے اور اس پر اسے خوشی ہو اور کوئی گناہ ہونے پر غم ہو تو وہ مؤمن ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، المطلب لا يعرف له سماع من الصحابة
حدثنا علي بن عبد الله ، حدثنا حسين بن علي الجعفي ، عن مجمع بن يحيى بن زيد بن جارية الانصاري ، قال: سمعته يذكره، عن سعيد بن ابي بردة ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: صلينا المغرب مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قلنا: لو انتظرنا حتى نصلي معه العشاء، قال: فانتظرنا، فخرج إلينا، فقال:" ما زلتم هاهنا؟"، قلنا: نعم يا رسول الله، قلنا: نصلي معك العشاء، قال:" احسنتم او اصبتم" ثم رفع راسه إلى السماء، قال: وكان كثيرا مما يرفع راسه إلى السماء، فقال: " النجوم امنة للسماء، فإذا ذهبت النجوم، اتى السماء ما توعد، وانا امنة لاصحابي، فإذا ذهبت، اتى اصحابي ما يوعدون، واصحابي امنة لامتي، فإذا ذهب اصحابي، اتى امتي ما يوعدون" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ ، عَنْ مُجَمِّعِ بْنِ يَحْيَى بْنِ زَيْدِ بْنِ جَارِيَةَ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَذْكُرُهُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: صَلَّيْنَا الْمَغْرِبَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قُلْنَا: لَوِ انْتَظَرْنَا حَتَّى نُصَلِّيَ مَعَهُ الْعِشَاءَ، قَالَ: فَانْتَظَرْنَا، فَخَرَجَ إِلَيْنَا، فَقَالَ:" مَا زِلْتُمْ هَاهُنَا؟"، قُلْنَا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْنَا: نُصَلِّي مَعَكَ الْعِشَاءَ، قَالَ:" أَحْسَنْتُمْ أَوْ أَصَبْتُمْ" ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، قَالَ: وَكَانَ كَثِيرًا مِمَّا يَرْفَعُ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ: " النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ، فَإِذَا ذَهَبَتْ النُّجُومُ، أَتَى السَّمَاءَ مَا تُوعَدُ، وَأَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِي، فَإِذَا ذَهَبْتُ، أَتَى أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ، وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي، فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي، أَتَى أُمَّتِي مَا يُوعَدُونَ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کہ ایک مرتبہ ہم لوگوں نے نماز مغرب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ادا کی پھر سوچا کہ تھوڑی دیر انتظار کرلیتے ہیں اور عشاء کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھیں گے چناچہ ہم انتظار کرتے رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو پوچھا کہ تم اس وقت یہیں پر ہو؟ ہم نے عرض کیا جی ہاں! یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے سوچا کہ عشاء کی نماز آپ کے ساتھ ہی پڑھیں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت خوب پھر آسمان کی طرف سر اٹھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھتے ہی تھے اور فرمایا ستارے آسمان میں امن کے علامت ہیں جب ستارے ختم ہوجائیں گے تو آسمان پر وہ قیامت آجائے گی جس کا وعدہ کیا گیا ہے اور میں اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے لئے امن کی علامت ہوں جب میں چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ رضی اللہ عنہ پر وہ آفت آجائے گی جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے اور میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میری امت کے لئے امن کی علامت ہیں جو وہ بھی ختم ہوجائیں گے تو میری امت پر وہ آزمائش آجائے گی جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔
حدثنا علي بن عبد الله ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا يحيى بن عبد العزيز الاردني ، عن عبد الله بن نعيم القيني ، قال: حدثني الضحاك بن عبد الرحمن بن عرزب الاشعري ، ان ابا موسى حدثهم، قال: لما هزم الله عز وجل هوازن بحنين، عقد رسول الله صلى الله عليه وسلم لابي عامر الاشعري على خيل الطلب، فطلب، فكنت فيمن طلبهم، فاسرع به فرسه، فادرك ابن دريد بن الصمة، فقتل ابا عامر، واخذ اللواء، وشددت على ابن دريد، فقتلته، واخذت اللواء، وانصرفت بالناس، فلما رآني رسول الله صلى الله عليه وسلم احمل اللواء، قال:" يا ابا موسى، قتل ابو عامر؟" قال: قلت: نعم يا رسول الله، قال: فرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم رفع يديه، يقول: " اللهم عبيدك عبيدا ابا عامر، اجعله من الاكثرين يوم القيامة" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْأُرْدُنِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُعَيْمٍ الْقَيْنِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الضَّحَّاكُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَرْزَبٍ الْأَشْعَرِيُّ ، أَنَّ أَبَا مُوسَى حَدَّثَهُمْ، قَالَ: لَمَّا هَزَمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَوَازِنَ بِحُنَيْنٍ، عَقَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي عَامِرٍ الْأَشْعَرِيِّ عَلَى خَيْلِ الطَّلَبِ، فَطَلَبَ، فَكُنْتُ فِيمَنْ طَلَبَهُمْ، فَأَسْرَعَ بِهِ فَرَسُهُ، فَأَدْرَكَ ابْنَ دُرَيْدِ بْنِ الصِّمَّةِ، فَقَتَلَ أَبَا عَامِرٍ، وَأَخَذَ اللِّوَاءَ، وَشَدَدْتُ عَلَى ابْنِ دُرَيْدٍ، فَقَتَلْتُهُ، وَأَخَذْتُ اللِّوَاءَ، وَانْصَرَفْتُ بِالنَّاسِ، فَلَمَّا رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْمِلُ اللِّوَاءَ، قَالَ:" يَا أَبَا مُوسَى، قُتِلَ أَبُو عَامِرٍ؟" قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ، يَقُولُ: " اللَّهُمَّ عُبَيْدَكَ عُبَيْدًا أَبَا عَامِرٍ، اجْعَلْهُ مِنَ الْأَكْثَرِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حنین میں بنو ہوازن کو شکست سے ہمکنار کردیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا پیچھا کرنے کے لئے سواروں کا ایک دستہ ابوعامر اشعری رضی اللہ عنہ کی زیرقیادت جھنڈے کے ساتھ روانہ کیا وہ روانہ ہوگئے ان کے ساتھ جانے والوں میں میں بھی شامل تھا انہوں نے اپنا گھوڑا برق رفتاری سے دوڑانا شروع کردیا راستے میں ابن ورید بن صمہ سے آمنا سامنا ہوا تو اس نے حضرت ابوعامر رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا اور جھنڈے کو اپنے قبضے میں کرلیا یہ دیکھ کر میں نے ابن ورید پر انتہائی سخت حملہ کیا اور اسے قتل کرکے جھنڈا حاصل کرلیا اور لوگوں کے ساتھ واپس آگیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بغير هذه السياقة، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالله بن نعيم، ولا نقطاعه، رواية الضحاك عن أبى موسى مرسلة الوليد بن مسلم يدلس ويسوي لكنه توبع
حدثنا بهز ، حدثنا شعبة ، حدثنا ابو التياح ، عن شيخ لهم، عن ابي موسى ، قال: مال رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى دمث إلى جنب حائط، فبال، قال شعبة: فقلت لابى التياح: جالسا؟ قال: لا ادري، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن بني إسرائيل كانوا إذا اصابهم البول، قرضوه بالمقراضين، فإذا بال احدكم، فليرتد لبوله" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا أَبُو التَّيَّاحِ ، عَنْ شَيْخٍ لَهُمْ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: مَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى دَمْثٍ إِلَى جَنْبِ حَائِطٍ، فَبَالَ، قَالَ شُعْبَةُ: فَقُلْتُ لِأَبِى التَّيَّاحِ: جَالِسًا؟ قَالَ: لَا أَدْرِي، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانُوا إِذَا أَصَابَهُمْ الْبَوْلُ، قَرَضُوهُ بِالْمِقْرَاضَيْنِ، فَإِذَا بَالَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَرْتَدْ لِبَوْلِهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ جارہے تھے کہ ایک باغ کے پہلو میں نرم زمین کے قریب پہنچ کر پیشاب کیا اور فرمایا بنی اسرائیل میں جب کوئی شخص پیشاب کرتا اور اس کے جسم پر معمولی سا پیشاب لگ جاتا تو وہ اس جگہ کو قینچی سے کاٹ دیا کرتا تھا اور فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص پیشاب کا ارادہ کرے تو اس کے لئے نرم زمین تلاش کرے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: إذا أراد أحدكم أن يبول فليرتد لبوله، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الرجل الراوي عنه أبوالتياح
حدثنا علي بن عبد الله ، حدثنا المعتمر بن سليمان ، قال: قرات على الفضيل بن ميسرة ، عن حديث ابي حريز ، ان ابا بردة حدثه، عن حديث ابي موسى ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ثلاثة لا يدخلون الجنة: مدمن خمر، وقاطع رحم، ومصدق بالسحر، ومن مات مدمنا للخمر، سقاه الله عز وجل من نهر الغوطة"، قيل: وما نهر الغوطة؟ قال:" نهر يجري من فروج المومسات، يؤذي اهل النار ريح فروجهم" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى الْفُضَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ حَدِيثِ أَبِي حَرِيزٍ ، أَنَّ أَبَا بُرْدَةَ حَدَّثَهُ، عَنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " ثَلَاثَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ: مُدْمِنُ خَمْرٍ، وَقَاطِعُ رَحِمٍ، وَمُصَدِّقٌ بِالسِّحْرِ، وَمَنْ مَاتَ مُدْمِنًا لِلْخَمْرِ، سَقَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ نَهْرِ الْغُوطَةِ"، قِيلَ: وَمَا نَهْرُ الْغُوطَةِ؟ قَالَ:" نَهْرٌ يَجْرِي مِنْ فُرُوجِ الْمُومِسَاتِ، يُؤْذِي أَهْلَ النَّارِ رِيحُ فُرُوجِهِمْ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین قسم کے لوگ جنت میں داخل نہ ہوسکیں گے عادی شرابی، قطع رحمی کرنے والا اور جادو کی تصدق کرنے والا اور جو شخص عادی شرابی ہونے کی حالت میں مرجائے، اللہ اسے " نہر غوطہ " کا پانی پلائے گا! کسی نے پوچھا نہر غوطہ سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ نہر جو فاحشہ عورتوں کی شرمگاہوں سے جاری ہوگی اور ان کی شرمگاہوں کی بدبو تمام اہل جہنم کو اذیت پہنچائے گی۔
حكم دارالسلام: قوله منه :ثلالثة…ومصدق بالسحر،حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى جرير
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا میں اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " ابراہیم " اس کا نام رکھا اور کھجور سے اسے گھٹی دی
وقال: احترق بيت بالمدينة على اهله، فحدث النبي صلى الله عليه وسلم بشانهم، فقال: " إنما هذه النار عدو لكم، فإذا نمتم، فاطفئوها عنكم" .وَقَالَ: احْتَرَقَ بَيْتٌ بِالْمَدِينَةِ عَلَى أَهْلِهِ، فَحُدِّثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَأْنِهِمْ، فَقَالَ: " إِنَّمَا هَذِهِ النَّارُ عَدُوٌّ لَكُمْ، فَإِذَا نِمْتُمْ، فَأَطْفِئُوهَا عَنْكُمْ" .
اور کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کے کسی گھر میں آگ لگ گئی اور تمام اہل خانہ جل گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات بتائی گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ آگ تمہاری دشمن ہے جب تم سویا کرو تو اسے بجھادیا کرو۔
قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بعث احدا من اصحابه في بعض امره، قال: " بشروا ولا تنفروا، ويسروا ولا تعسروا" .قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِهِ فِي بَعْضِ أَمْرِهِ، قَالَ: " بَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا، وَيَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا" .
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی اپنے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کو کسی کام کے حوالے سے کہیں بھیجتے تو فرماتے خوشخبری دیا کرو نفرت نہ پھیلایا کرو، آسانیاں پیدا کیا کرو، مشکلات پیدانہ کیا کرو۔
وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن مثل ما بعثني الله عز وجل به من الهدى والعلم، كمثل غيث اصاب الارض، فكانت منه طائفة قبلت، فانبتت الكلا والعشب الكثير، وكانت منها اجادب امسكت الماء، فنفع الله عز وجل بها ناسا، فشربوا، فرعوا، وسقوا وزرعوا واسقوا، واصابت طائفة منها اخرى، إنما هي قيعان لا تمسك ماء، ولا تنبت كلا، فذلك مثل من فقه في دين الله عز وجل، ونفعه الله عز وجل بما بعثني به، ونفع به، فعلم وعلم، ومثل من لم يرفع بذلك راسا، ولم يقبل هدى الله عز وجل الذي ارسلت به" .وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مَثَلَ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهِ مِنَ الْهُدَى وَالْعِلْمِ، كَمَثَلِ غَيْثٍ أَصَابَ الْأَرْضَ، فَكَانَتْ مِنْهُ طَائِفَةٌ قَبِلَتْ، فَأَنْبَتَتْ الْكَلَأَ وَالْعُشْبَ الْكَثِيرَ، وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَكَتْ الْمَاءَ، فَنَفَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا نَاسًا، فَشَرِبُوا، فَرَعَوْا، وَسَقَوْا وَزَرَعُوا وَأَسْقَوْا، وَأَصَابَتْ طَائِفَةً مِنْهَا أُخْرَى، إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لَا تُمْسِكُ مَاءً، وَلَا تُنْبِتُ كَلَأً، فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَنَفَعَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا بَعَثَنِي بِهِ، وَنَفَعَ بِهِ، فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا، وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ" .
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو ہدایت اور علم دے کر بھیجا ہے اس کی مثال اس بارش کی سی ہے جو زمین پر بر سے اب زمین کا کچھ حصہ تو اسے قبول کرلیتا ہے اور اس سے گھاس اور چارہ کثیر مقدار میں اگتا ہے کچھ حصہ قحط زدہ ہوتا ہے جو پانی کو روک لیتا ہے اور جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے چناچہ لوگ اسے پیتے ہیں اور سیراب ہوتے ہیں جانوروں کو پلاتے ہیں کھیتی باڑی میں استعمال کرتے ہیں اور دوسروں کو پلاتے ہیں اور کچھ حصہ بالکل چٹیل میدان ہوتا ہے جو پانی کو روکتا ہے اور نہ ہی چارہ اگاتا ہے یہی مثال ہے اس شخص کی جو اللہ کے دین کی سمجھ حاصل کرتا ہے اور اللہ اس کو اس سے فائدہ پہنچاتا ہے جو اس نے مجھے دے کر بھیجا ہے لوگوں کو بھی اس سے فائدہ پہنچتا ہے اور وہ علم حاصل کرتا اور اسے پھیلاتا ہے اور یہی مثال ہے اس شخص کی جو اس کے لئے سرتک نہیں اٹھاتا اور اللہ کی اس ہدایت کو قبول نہیں کرتا جو مجھے دے کر بھیجا گیا ہے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضو کا پانی لے کر آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور دعاء پڑھتے ہوئے فرمایا اے اللہ! میرے دین کی اصلاح فرما، مجھ پر کشادگی فرما اور میرے رزق میں برکت عطاء فرما۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، فى إسناده نظر، سماع أبى مجلز من أبى موسى فيه نظر، وهو يرسل عمن لم يلقه
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا لاحول ولاقوۃ الاباللہ (جنت کا ایک خزانہ ہے)
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت کا ایک خیمہ ایک جوف دارموتی سے بنا ہوگا آسمان میں جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی اور اس کے ہر کونے میں ایک مسلمان کے جو اہل خانہ ہوں گے، دوسرے کونے والے انہیں دیکھ نہ سکیں۔
حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، اخبرنا ثابت ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا مر احدكم في مسجد، او سوق، او مجلس، وبيده نبال، فلياخذ بنصالها" . قال ابو موسى: فوالله ما متنا حتى سددها بعضنا في وجوه بعض.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا مَرَّ أَحَدُكُمْ فِي مَسْجِدٍ، أَوْ سُوقٍ، أَوْ مَجْلِسٍ، وَبِيَدِهِ نِبَالٌ، فَلْيَأْخُذْ بِنِصَالِهَا" . قَالَ أَبُو مُوسَى: فَوَاللَّهِ مَا مِتْنَا حَتَّى سَدَّدَهَا بَعْضُنَا فِي وُجُوهِ بَعْضٍ.
حضرت عبداللہ بن قیس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم مسلمانوں کی مسجدوں اور بازاروں میں جایا کرو اور تمہارے پاس تیر ہوں تو ان کا پھل قابو میں رکھا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کسی کو لگ جائے اور تم کسی کو اذیت پہنچاؤ یا زخمی کردو۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی عورت عطر لگا کر کچھ لوگوں کے پاس سے گذرتی ہے تاکہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ ایسی ایسی ہے (بدکا رہے)
حدثنا يحيى ، عن عثمان بن غياث ، حدثنا ابو عثمان ، عن ابي موسى الاشعري ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " هل ادلكم على كنز من كنوز الجنة"، او" ما تدري ما كنز من كنوز الجنة؟" قلت: الله ورسوله اعلم، قال:" لا حول ولا قوة إلا بالله" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ"، أَو" مَا تَدْرِي مَا كَنْزٌ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟" قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا لاحول ولاقوۃ الاباللہ (جنت کا ایک خزانہ ہے)
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص نردشیر (بارہ ٹانی) کے ساتھ کھیلتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد منقطع، سعيد بن أبى هند لم يلق أبا موسى الأشعري
حدثنا يحيى هو ابن سعيد ، عن ابن جريج ، عن عطاء ، عن عبيد بن عمير ، ان ابا موسى استاذن على عمر رضي الله عنه ثلاث مرات، فلم ياذن له، فرجع، فقال: الم اسمع صوت عبد الله بن قيس آنفا؟ قالوا: بلى، قال: فاطلبوه، قال: فطلبوه، فدعي، فقال: ما حملك على ما صنعت؟ قال: استاذنت ثلاثا، فلم يؤذن لي، فرجعت، كنا نؤمر بهذا، فقال: لتاتين عليه بالبينة، او لافعلن، قال: فاتى مسجدا، او مجلسا للانصار، فقالوا: لا يشهد لك إلا اصغرنا، فقام ابو سعيد الخدري، فشهد له ، فقال عمر رضي الله عنه: خفي هذا علي من امر رسول الله صلى الله عليه وسلم، الهاني عنه الصفق بالاسواق".حَدَّثَنَا يَحْيَى هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، أَنَّ أَبَا مُوسَى اسْتَأْذَنَ عَلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمْ يَأْذَنْ لَهُ، فَرَجَعَ، فَقَالَ: أَلَمْ أَسْمَعْ صَوْتَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ آنِفًا؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَاطْلُبُوهُ، قَالَ: فَطَلَبُوهُ، فَدُعِيَ، فَقَالَ: مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ: اسْتَأْذَنْتُ ثَلَاثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي، فَرَجَعْتُ، كُنَّا نُؤْمَرُ بِهَذَا، فَقَالَ: لَتَأْتِيَنَّ عَلَيْهِ بِالْبَيِّنَةِ، أَوْ لَأَفْعَلَنَّ، قَالَ: فَأَتَى مَسْجِدًا، أَوْ مَجْلِسًا لِلْأَنْصَارِ، فَقَالُوا: لَا يَشْهَدُ لَكَ إِلَّا أَصْغَرُنَا، فَقَامَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، فَشَهِدَ لَهُ ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: خَفِيَ هَذَا عَلَيَّ مِنْ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَلْهَانِي عَنْهُ الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ".
عبید بن عمیررحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تین مرتبہ سلام کیا، انہیں اجازت نہیں ملی تو وہ واپس چلے گئے تھوڑی دیر بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ابھی میں نے عبداللہ بن قیس کی آواز نہیں سنی تھی؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پیچھے قاصد کو بھیجا کہ واپس کیوں چلے گئے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے تین مرتبہ اجازت لی تھی جب مجھے اجازت نہیں ملی تو میں واپس چلا گیا ہمیں اسی کا حکم دیا جاتا تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس پر گواہ پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزادوں گا، حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ انصار کی ایک مجلس میں پہنچے وہ لوگ کہنے لگے کہ اس بات کی شہادت تو ہم میں سب سے چھوٹا بھی دے سکتا ہے چناچہ حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ چلے گئے اور اس کی شہادت دے دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم مجھ پر مخفی رہا مجھے بازاروں کے معاملات نے اس سے غفلت میں رکھا۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، ومحمد بن جعفر ، قالا: حدثنا عوف ، قال: حدثني قسامة بن زهير . قال ابن جعفر: عن قسامة بن زهير، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الله عز وجل خلق آدم من قبضة قبضها من جميع الارض، فجاء بنو آدم على قدر الارض، جاء منهم الابيض، والاحمر، والاسود، وبين ذلك، والخبيث والطيب، والسهل والحزن، وبين ذلك" ..حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَسَامَةُ بْنُ زُهَيْرٍ . قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيعِ الْأَرْضِ، فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَى قَدْرِ الْأَرْضِ، جَاءَ مِنْهُمْ الْأَبْيَضُ، وَالْأَحْمَرُ، وَالْأَسْوَدُ، وَبَيْنَ ذَلِكَ، وَالْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ، وَالسَّهْلُ وَالْحَزْنُ، وَبَيْنَ ذَلِكَ" ..
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا تھا جو اس نے ساری زمین سے اکٹھی کی تھی یہی وجہ سے کہ بنو آدم زمین ہی کی طرح ہیں چناچہ کچھ سفید ہیں، کچھ سرخ ہیں کچھ سیاہ فام ہیں اور کچھ اس کے درمیان، اسی طرح کچھ گندے ہیں اور کچھ عمدہ، کچھ نرم ہیں اور کچھ غمگین وغیرہ۔ گذشہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا وكيع ، حدثنا بريد بن ابي بردة بن ابي موسى ، عن ابيه ، عن جده ، قال: كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه وسلم، وإنه ساله سائل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اشفعوا تؤجروا، وليقض الله عز وجل على لسان نبيه ما احب" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّهُ سَأَلَهُ سَائِلٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اشْفَعُوا تُؤْجَرُوا، وَلْيَقْضِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ مَا أَحَبَّ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک آدمی نے کچھ مانگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس کی سفارش کرو، تمہیں اجر ملے گا اور اللہ اپنے نبی کی زبان پر وہی فیصلہ جاری فرمائے گا جو اسے محبوب ہوگا۔
حدثنا وكيع ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن الاسود ابن يزيد ، قال: قال ابو موسى الاشعري : لقد ذكرنا علي رضي الله عنه صلاة صليناها مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإما ان نكون نسيناها، وإما ان نكون تركناها عمدا، يكبر كلما ركع، وإذا سجد، وإذا رفع .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ ابْنِ يَزِيدَ ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ : لَقَدْ ذَكَّرَنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ صَلَاةً صَلَّيْنَاهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَسِينَاهَا، وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ تَرَكْنَاهَا عَمْدًا، يُكَبِّرُ كُلَّمَا رَكَعَ، وَإِذَا سَجَدَ، وَإِذَا رَفَعَ .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاددلادی ہے جو ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے تھے جسے ہم بھلاچکے تھے یا عمداً چھوڑ چکے تھے وہ ہر مرتبہ رکوع کرتے وقت، سر اٹھاتے وقت اور سجدے میں جاتے ہوئے اللہ اکبر کہتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على أبى إسحاق
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہودی لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر چھینکیں مارتے تھے تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جواب میں یہ کہہ دیں کہ اللہ تم پر رحم فرمائے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھینک کے جواب میں یوں فرماتے کہ اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارے احوال کی اصلاح فرمائے۔
حدثنا وكيع ، حدثنا المسعودي ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي عبيدة ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله عز وجل لا ينام، ولا ينبغي له ان ينام، يخفض القسط ويرفعه، حجابه النار، لو كشفها لاحرقت سبحات وجهه كل شيء ادركه بصره" ، ثم قرا ابو عبيدة: نودي ان بورك من في النار ومن حولها وسبحان الله رب العالمين سورة النمل آية 8.حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَنَامُ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ، يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَيَرْفَعُهُ، حِجَابُهُ النَّارُ، لَوْ كَشَفَهَا لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ كُلَّ شَيْءٍ أَدْرَكَهُ بَصَرُهُ" ، ثُمَّ قَرَأَ أَبُو عُبَيْدَةَ: نُودِيَ أَنْ بُورِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا وَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة النمل آية 8.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو نیند نہیں آتی اور نہ ہی نیندان کی شایان شان ہے وہ ترازو کو جھکاتے اور اونچا کرتے ہیں اس کا حجاب آگ ہے اگر وہ اپناحجاب اٹھادے تو تاحد نگاہ ہر چیز جل جائے پھر ابوعبیدہ نے یہ آیت تلاوت کی " آواز لگائی گئی کہ آگ اور اس کے اردگردجو کچھ ہے اس سب میں برکت دی گئی ہے اور اللہ رب العالمین ہر عیب سے پاک ہے۔ "
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے ان کے گھر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اتنا آنا جانا دیکھا کہ میں انہیں اس گھر کا ایک فرد سمجھتا تھا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی تکلیف دہ بات کو سن کر اللہ سے زیادہ اس پر صبر کرنے والا کوئی نہیں ہے اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرایا جاتا ہے لیکن وہ پھر بھی انہیں عافیت اور رزق دیتا ہے۔
حدثنا إسماعيل ، عن يونس ، عن الحسن ، ان اخا لابي موسى كان يتسرع في الفتنة، فجعل ينهاه، ولا ينتهي، فقال: إن كنت ارى انه سيكفيك مني اليسير، او قال: من الموعظة دون ما ارى، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا تواجه المسلمان بسيفيهما، فقتل احدهما الآخر، فالقاتل والمقتول في النار"، فقيل: هذا القاتل، فما بال المقتول؟ قال:" إنه اراد قتل صاحبه" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ أَخًا لِأَبِي مُوسَى كَانَ يَتَسَرَّعُ فِي الْفِتْنَةِ، فَجَعَلَ يَنْهَاهُ، وَلَا يَنْتَهِي، فَقَالَ: إِنْ كُنْتُ أَرَى أَنَّهُ سَيَكْفِيكَ مِنِّي الْيَسِيرُ، أَوْ قَالَ: مِنَ الْمَوْعِظَةِ دُونَ مَا أَرَى، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا، فَقَتَلَ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ، فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ"، فَقِيلَ: هَذَا الْقَاتِلُ، فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟ قَالَ:" إِنَّهُ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ" .
خواجہ حسن رحمہ اللہ کہتے ہیں حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کا ایک بھائی تھا جو بڑھ چڑھ کر فتنے کے کاموں میں حصہ لیتا تھا وہ اسے منع کرتے لیکن وہ باز نہ آتا وہ اس سے فرماتے اگر میں یہ سمجھتا کہ تمہیں سی نصیحت بھی کافی ہوسکتی ہے جو میری رائے میں اس سے کم ہوتی (تب بھی میں تمہیں نصیحت کرتا) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے سامنے آجائیں اور ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کردے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ قاتل کی بات تو سمجھ میں آجاتی ہے مقتول کا کیا معاملہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہتا تھا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد منقطع، الحسن لم يسمع من أبى موسي
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن القاسم التميمي ، عن زهدم الجرمي ، قال: كنا عند ابي موسى، فقدم في طعامه لحم دجاج، وفي القوم رجل من بني تيم الله احمر، كانه مولى، فلم يدن، قال له ابو موسى : ادن، فإني قد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ياكل منه، قال: إني رايته ياكل شيئا، فقذرته، فحلفت ان لا اطعمه ابدا . فقال: ادن، اخبرك عن ذلك، إني اتيت النبي صلى الله عليه وسلم في رهط من الاشعريين نستحمله، وهو يقسم نعما من نعم الصدقة قال ايوب: احسبه وهو غضبان فقال: لا والله، ما احملكم، وما عندي ما احملكم، فانطلقنا، فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بنهب إبل، فقال:" اين هؤلاء الاشعريون؟" فاتينا، فامر لنا بخمس ذود غر الذرى، فاندفعنا، فقلت لاصحابي: اتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم نستحمله، فحلف ان لا يحملنا، ثم ارسل إلينا، فحملنا، فقلت: نسي رسول الله صلى الله عليه وسلم يمينه، والله لئن تغفلنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يمينه، لا نفلح ابدا، ارجعوا بنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلنذكره يمينه، فرجعنا إليه، فقلنا: يا رسول الله، اتيناك نستحملك، فحلفت ان لا تحملنا، ثم حملتنا، فعرفنا، او: ظننا انك نسيت يمينك، فقال صلى الله عليه وسلم:" انطلقوا، فإنما حملكم الله عز وجل، وإني والله إن شاء الله لا احلف على يمين، فارى غيرها خيرا منها، إلا اتيت الذي هو خير، وتحللتها" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنِ الْقَاسِمِ التَّمِيمِيِّ ، عَنْ زَهْدَمٍ الْجَرْمِيِّ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى، فَقَدَّمَ فِي طَعَامِهِ لَحْمَ دَجَاجٍ، وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ أَحْمَرُ، كَأَنَّهُ مَوْلًى، فَلَمْ يَدْنُ، قَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى : ادْنُ، فَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ مِنْهُ، قَالَ: إِنِّي رَأَيْتُهُ يَأْكُلُ شَيْئًا، فَقَذِرْتُهُ، فَحَلَفْتُ أَنْ لَا أَطْعَمَهُ أَبَدًا . فَقَالَ: ادْنُ، أُخْبِرْكَ عَنْ ذَلِكَ، إِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ مِنَ الْأَشْعَرِيِّينَ نَسْتَحْمِلُهُ، وَهُوَ يَقْسِمُ نَعَمًا مِنْ نَعَمْ الصَّدَقَةِ قَالَ أَيُّوبُ: أَحْسِبُهُ وَهُوَ غَضْبَانُ فَقَالَ: لَا وَاللَّهِ، مَا أَحْمِلُكُمْ، وَمَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ، فَانْطَلَقْنَا، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَهْبِ إِبِلٍ، فَقَالَ:" أَيْنَ هَؤُلَاءِ الْأَشْعَرِيُّونَ؟" فَأَتَيْنَا، فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَى، فَانْدَفَعْنَا، فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي: أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَسْتَحْمِلُهُ، فَحَلَفَ أَنْ لَا يَحْمِلَنَا، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْنَا، فَحَمَلَنَا، فَقُلْتُ: نَسِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينَهُ، وَاللَّهِ لَئِنْ تَغَفَّلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينَهُ، لَا نُفْلِحُ أَبَدًا، ارْجِعُوا بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْنُذَكِّرْهُ يَمِينَهُ، فَرَجَعْنَا إِلَيْهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَيْنَاكَ نَسْتَحْمِلُكَ، فَحَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا، ثُمَّ حَمَلْتَنَا، فَعَرَفْنَا، أَوْ: ظَنَنَّا أَنَّكَ نَسِيتَ يَمِينَكَ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" انْطَلِقُوا، فَإِنَّمَا حَمَلَكُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِنِّي وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ، فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، وَتَحَلَّلْتُهَا" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا وہ اس وقت مرغی کھا رہے تھے وہ آدمی ایک طرف کو ہو کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ میں نے قسم کھا رکھی ہے کہ اسے نہیں کھاؤں گا کیونکہ میں مرغیوں کو گندکھاتے ہوئے دیکھتا ہوں، انہوں نے فرمایا قریب آجاؤ کیونکہ میں تمہیں اس کے متعلق بتاتاہوں۔ ایک مرتبہ میں اشعریین کے ایک گروہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لئے جانوروں کی درخواست کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخدا! میں تمہیں سوار نہیں کرسکوں گا کیونکہ میرے پاس تمہیں سوار کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے؟ ہم کچھ دیر " جب تک اللہ کو منظور ہوا " رکے رہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے روشن پیشانی کے تین اونٹوں کا حکم دے دیا جب ہم واپس جانے لگے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواری کے جانور کی درخواست لے کر آئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی تھی کہ وہ ہمیں سواری کا جانور نہیں دیں گے واپس چلو تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی قسم یاد دلادیں۔ چناچہ ہم دوبارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم آپ کے پاس سواری کے جانور کی درخواست لے کر آئے تھے اور آپ نے قسم کھائی تھی کہ ہمیں سواری کا جانور نہیں دیں گے، پھر آپ نے ہمیں جانور دے دیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہیں سوار نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے بخدا! اگر اللہ کو منظور ہوا تو میں جب بھی کوئی قسم کھاؤں گا اور کسی دوسری چیز میں خیر دیکھوں گا تو اسی کو اختیار کر کے اپنی قسم کا کفارہ دے دوں گا۔ گذشہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا إسماعيل ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن يونس بن جبير ، عن حطان بن عبد الله الرقاشي ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاتنا، وسنتنا، فقال: " إنما الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا قال: غير المغضوب عليهم ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7، فقولوا: آمين، يجبكم الله تعالى، وإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: ربنا لك الحمد، يسمع الله لكم، وإذا سجد فاسجدوا، وإذا رفع فارفعوا، فإن الإمام يسجد قبلكم، ويرفع قبلكم"، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فتلك بتلك" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَنَا، وَسُنَّتَنَا، فَقَالَ: " إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَالَ: غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، فَقُولُوا: آمِينَ، يُجِبْكُمْ اللَّهُ تَعَالَى، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، يَسْمَعْ اللَّهُ لَكُمْ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، فَإِنَّ الْإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ، وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ"، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَتِلْكَ بِتِلْكَ" .
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز اور اس کا طریقہ سکھایا اور فرمایا کہ امام کو تو مقرر ہی اقتداء کے لئے کیا جاتا ہے اس لئے وہ تکبیر جب کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ غیرالمغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو آمین کہو اللہ اسے قبول کرلے گا جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنالک الحمد کہو اللہ تمہاری ضرور سنے گا جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ کیونکہ امام تم سے پہلے سجدہ کرے گا اور سر اٹھائے گا یہ اس کے بدلے میں ہوجائے گا۔
حدثنا محمد بن جعفر ، وعفان ، قالا: حدثنا شعبة ، عن عمرو ابن مرة ، قال عفان: اخبرني عمرو بن مرة، قال: سمعت ابا وائل ، قال: حدثنا ابو موسى الاشعري ، ان اعرابيا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، الرجل يقاتل للمغنم، والرجل يقاتل ليذكر، والرجل يقاتل ليرى مكانه، فمن في سبيل الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا، فهو في سبيل الله عز وجل" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ مُرَّةَ ، قَالَ عَفَّانُ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ، وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِيُذْكَرَ، وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِيُرَى مَكَانُهُ، فَمَنْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا، فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ بتائیے کہ ایک آدمی مال غنیمت کے لئے لڑتا ہے دوسرا آدمی اپنے آپ کو بہادرثابت کرنے کے لئے لڑتا ہے اور ایک آدمی ریاکاری کے لئے قتال کرتا ہے ان میں سے اللہ کے راستے میں قتال کرنے والا کون ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اس لئے قتال کرتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے وہی اللہ کے راستہ میں قتال کرنے والا ہے۔
حدثنا مؤمل بن إسماعيل ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا ابو عمران الجوني ، عن ابي بكر بن ابي موسى ، عن ابيه ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم ومعي نفر من قومي، فقال: " ابشروا، وبشروا من وراءكم، انه من شهد ان لا إله إلا الله صادقا بها، دخل الجنة"، فخرجنا من عند النبي صلى الله عليه وسلم، نبشر الناس، فاستقبلنا عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فرجع بنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال عمر: يا رسول الله، إذا يتكل الناس؟ قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعِي نَفَرٌ مِنْ قَوْمِي، فَقَالَ: " أَبْشِرُوا، وَبَشِّرُوا مَنْ وَرَاءَكُمْ، أَنَّهُ مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ صَادِقًا بِهَا، دَخَلَ الْجَنَّةَ"، فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نُبَشِّرُ النَّاسَ، فَاسْتَقْبَلَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَرَجَعَ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذًَا يَتَّكِلَ النَّاسُ؟ قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میرے ساتھ میری قوم کے کچھ لوگ بھی تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خوشخبری قبول کرو اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو سنا دو کہ جو شخص صدق دل کے ساتھ لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے نکل کر لوگوں کو یہ خوشخبری سنانے لگے اچانک سامنے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ آگئے وہ ہمیں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس طرح تو لوگ اسی بات پر بھروسہ کرکے بیٹھ جائیں گے اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، مؤمل سييء الحفظ لكنه توبع
حدثنا مصعب بن سلام ، حدثنا الاجلح ، عن ابي بكر بن ابي موسى ، عن ابيه ، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن، فقلت:" يا رسول الله، إن بها اشربة، فما اشرب وما ادع؟ قال:" وما هي؟"، قلت: البتع والمزر، فلم يدر رسول الله صلى الله عليه وسلم ما هو، فقال:" ما البتع وما المزر؟"، قال: اما البتع، فنبيذ الذرة يطبخ حتى يعود بتعا، واما المزر، فنبيذ العسل، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تشربن مسكرا" .حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ سَلَّامٍ ، حَدَّثَنَا الْأَجْلَحُ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، فَقُلْتُ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ بِهَا أَشْرِبَةً، فَمَا أَشْرَبُ وَمَا أَدَعُ؟ قَالَ:" وَمَا هِيَ؟"، قُلْتُ: الْبِتْعُ وَالْمِزْرُ، فَلَمْ يَدْرِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا هُوَ، فَقَالَ:" مَا الْبِتْعُ وَمَا الْمِزْرُ؟"، قَالَ: أَمَّا الْبِتْعُ، فَنَبِيذُ الذُّرَةِ يُطْبَخُ حَتَّى يَعُودَ بِتْعًا، وَأَمَّا الْمِزْرُ، فَنَبِيذُ الْعَسَلِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَشْرَبَنَّ مُسْكِرًا" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہاں کچھ مشروبات رائج ہیں میں ان میں سے کون سا مشروب پیوں اور کون ساچھوڑوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشروبات کے نام پوچھے میں نے بتایا " تبع اور مزر " لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ نہیں پائے کہ یہ کیسے مشروبات ہوتے ہیں اس لئے پوچھا کہ تبع اور مزر کسے کہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ تبع تو جو کی اس نبیذ کو کہتے جسے خوب پکایا جاتا ہے اور مزر شہد کی نبیذ کو کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی نشہ آور چیز مت پینا۔
حكم دارالسلام: قوله: لا تشربن مسكرا صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف مصعب بن سلام. أخطأ الأجلح فى تفسير البتع والمزر
حدثنا عبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي ابو محمد ، حدثنا خالد الحذاء ، عن ابي عثمان النهدي ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزاة، فجعلنا لا نصعد شرفا، ولا نعلو شرفا، ولا نهبط في واد، إلا رفعنا اصواتنا بالتكبير، قال: فدنا منا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" ايها الناس، اربعوا على انفسكم، فإنكم ما تدعون اصم ولا غائبا، إنما تدعون سميعا بصيرا، إن الذي تدعون اقرب إلى احدكم من عنق راحلته، يا عبد الله بن قيس، الا اعلمك كلمة من كنوز الجنة؟ لا حول ولا قوة إلا بالله" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الثَّقَفِيُّ أَبُو مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَن أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَجَعَلْنَا لَا نَصْعَدُ شَرَفًا، وَلَا نَعْلُو شَرَفًا، وَلَا نَهْبِطُ فِي وَادٍ، إِلَّا رَفَعْنَا أَصْوَاتَنَا بِالتَّكْبِيرِ، قَالَ: فَدَنَا مِنَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّكُمْ مَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، إِنَّمَا تَدْعُونَ سَمِيعًا بَصِيرًا، إِنَّ الَّذِي تَدْعُونَ أَقْرَبُ إِلَى أَحَدِكُمْ مِنْ عُنُقِ رَاحِلَتِهِ، يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، أَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَةً مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جہاد کے سفر میں تھے جس ٹیلے یا بلند جگہ پر چڑھتے یا کسی نشیب میں اترتے تو بلند آواز سے تکبیر کہتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے قریب آکر فرمایا لوگو! اپنے ساتھ نرمی کرو، تم کسی بہرے یا غائب اللہ کو نہیں پکار رہے، تم سمیع وبصیر کو پکار رہے ہو جو تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے، اے عبداللہ بن قیس کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا لاحول ولاقوۃ الاباللہ (جنت کا ایک خزانہ ہے)
حدثنا ابو المغيرة وهو النضر بن إسماعيل يعني القاص ، حدثنا بريد ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كان يوم القيامة، لم يبق مؤمن إلا اتي بيهودي، او نصراني، حتى يدفع إليه، يقال له: هذا فداؤك من النار" ، قال ابو بردة: فاستحلفني عمر ابن عبد العزيز بالله الذي لا إله إلا هو: اسمعت ابا موسى يذكره عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: قلت: نعم، فسر بذلك عمر.حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ وَهُوَ النَّضْرُ بن إسماعيل يعني القاص ، حَدَّثَنَا بُرَيْدٌ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ، لَمْ يَبْقَ مُؤْمِنٌ إِلَّا أُتِيَ بِيَهُودِيٍّ، أَوْ نَصْرَانِيٍّ، حَتَّى يُدْفَعَ إِلَيْهِ، يُقَالُ لَهُ: هَذَا فِدَاؤُكَ مِنَ النَّارِ" ، قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: فَاسْتَحْلَفَنِي عُمَرُ ابْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بِاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ: أَسَمِعْتَ أَبَا مُوسَى يَذْكُرُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، فَسُرَّ بِذَلِكَ عُمَرُ.
ایک مرتبہ ابوبردہ نے حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو اپنے والد صاحب کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو مسلمان بھی فوت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کسی یہودی یا عیسائی کو جہنم میں داخل کردیتا ہے، ابوبردہ نے گزشتہ حدیث حضرت عمرعبدالعزیز رحمہ اللہ کو سنائی تو انہوں نے ابوبردہ سے اس اللہ کے نام کی قسم کھانے کے لئے کہا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ یہ حدیث ان کے والد صاحب نے بیان کی ہے اور انہوں نے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اور سعید بن ابی بردہ، عوف کی اس بات کی تردید نہیں کرتے۔
حكم دارالسلام: صحيح، م: 2767، وهذا إسناد ضعيف لضعف النضر بن إسماعيل، وللاختلاف فيه على أبى بردة
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن صالح ، عن الشعبي ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ثلاثة يؤتون اجورهم مرتين: رجل كانت له امة، فادبها، فاحسن تاديبها، وعلمها، فاحسن تعليمها، ثم اعتقها، فتزوجها، ومملوك اعطى حق ربه عز وجل، وحق مواليه، ورجل آمن بكتابه، وبمحمد صلى الله عليه وسلم" ، قال: قال لي الشعبي: خذها بغير شيء، ولو سرت فيها إلى كرمان، لكان ذلك يسيرا.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " ثَلَاثَةٌ يُؤْتَوْنَ أُجُورَهُمْ مَرَّتَيْنِ: رَجُلٌ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ، فَأَدَّبَهَا، فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا، وَعَلَّمَهَا، فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، ثُمَّ أَعْتَقَهَا، فَتَزَوَّجَهَا، وَمَمْلُوكٌ أَعْطَى حَقَّ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَحَقَّ مَوَالِيهِ، وَرَجُلٌ آمَنَ بِكِتَابِهِ، وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ، قَالَ: قَالَ لِي الشَّعْبِيُّ: خُذْهَا بِغَيْرِ شَيْءٍ، وَلَوْ سِرْتَ فِيهَا إِلَى كَرْمَانَ، لَكَانَ ذَلِكَ يَسِيرًا.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین قسم کے لوگوں کو دہرا اجر ملتا ہے وہ آدمی جس کے پاس کوئی باندی ہو اور وہ اسے عمدہ دلائے بہترین ادب سکھائے، پھر اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے تو اسے دہرا اجر ملے گا، اسی طرح وہ غلام جو اپنے اللہ کا حق بھی ادا کرتا ہو اور اپنے آقا کا حق بھی ادا کرتا ہو یا اہل کتاب میں سے وہ آدمی جو اپنی شریعت پر بھی ایمان لایا ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر بھی ایمان لایا ہو، اسے بھی دہرا اجرملے گا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ دو آدمی کسی جانور کا جھگڑا لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان میں میں سے کسی کے پاس بھی گواہ نہیں تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ان دونوں کے درمیان نصف نصف مشترک قرار دے دیا۔
حكم دارالسلام: هو حديث معلول مع الاختلاف فى إسناده على قتاده
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا عثمان بن غياث ، عن ابي عثمان ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هل تدري"، او: " هل ادلك على كنز من كنوز الجنة؟" قال: الله ورسوله اعلم، قال:" لا حول ولا قوة إلا بالله" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ تَدْرِي"، أَوْ: " هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟" قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا لاحول ولاقوۃ الاباللہ (جنت کا ایک خزانہ ہے)
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عاصم ، عن ابي عثمان ، عن ابي موسى ، انهم كانوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فرفعوا اصواتهم بالدعاء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنكم لا تدعون اصم، ولا غائبا، إنكم تدعون قريبا مجيبا يسمع دعاءكم، ويستجيب" . ثم قال: " يا عبد الله بن قيس او: يا ابا موسى: الا ادلك على كنز من كنوز الجنة: لا حول ولا قوة إلا بالله" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ بِالدُّعَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ، وَلَا غَائِبًا، إِنَّكُمْ تَدْعُونَ قَرِيبًا مُجِيبًا يَسْمَعُ دُعَاءَكُمْ، وَيَسْتَجِيبُ" . ثُمَّ قَالَ: " يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ أَوْ: يَا أَبَا مُوسَى: أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جہاد کے سفر میں تھے جس ٹیلے یا بلند جگہ پر چڑھتے یا کسی نشیب میں اترتے تو بلند آواز سے تکبیر کہتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے قریب آکر فرمایا لوگو! اپنے ساتھ نرمی کرو، تم کسی بہرے یا غائب اللہ کو نہیں پکار رہے، تم سمیع وبصیر کو پکار رہے ہو جو تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے، اے عبداللہ بن قیس کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا لاحول ولاقوۃ الاباللہ (جنت کا ایک خزانہ ہے)
حدثنا عبد الله بن نمير ، حدثنا عبد الملك يعني ابن ابي سليمان العزرمي ، عن ابي علي ، رجل من بني كاهل، قال: خطبنا ابو موسى الاشعري ، فقال: يا ايها الناس، اتقوا هذا الشرك، فإنه اخفى من دبيب النمل، فقام إليه عبد الله بن حزن، وقيس بن المضارب، فقالا: والله لتخرجن مما قلت، او: لناتين عمر، ماذون لنا، او غير ماذون، قال: بل اخرج مما قلت: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم، فقال:" ايها الناس، اتقوا هذا الشرك، فإنه اخفى من دبيب النمل"، فقال له من شاء الله ان يقول: وكيف نتقيه، وهو اخفى من دبيب النمل يا رسول الله؟ قال:" قولوا: اللهم إنا نعوذ بك من ان نشرك بك شيئا نعلمه، ونستغفرك لما لا نعلم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ الْعَزْرَمِيَّ ، عَنْ أَبِي عَلِيٍّ ، رَجُلٍ مِنْ بَنِي كَاهِلٍ، قَالَ: خَطَبَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، اتَّقُوا هَذَا الشِّرْكَ، فَإِنَّهُ أَخْفَى مِنْ دَبِيبِ النَّمْلِ، فَقَامَ إِلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَزْنٍ، وَقَيْسُ بْنُ المُضَارِبِ، فَقَالَا: وَاللَّهِ لَتَخْرُجَنَّ مِمَّا قُلْتَ، أَوْ: لَنَأْتِيَنَّ عُمَرَ، مَأْذُونٌ لَنَا، أَوْ غَيْرُ مَأْذُونٍ، قَالَ: بَلْ أَخْرُجُ مِمَّا قُلْتُ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، اتَّقُوا هَذَا الشِّرْكَ، فَإِنَّهُ أَخْفَى مِنْ دَبِيبِ النَّمْلِ"، فَقَالَ لَهُ مَنْ شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ: وَكَيْفَ نَتَّقِيهِ، وَهُوَ أَخْفَى مِنْ دَبِيبِ النَّمْلِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" قُولُوا: اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ نُشْرِكَ بِكَ شَيْئًا نَعْلَمُهُ، وَنَسْتَغْفِرُكَ لِمَا لَا نَعْلَمُ" .
ابوعلی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا لوگو! اس شرک سے بچو کیونکہ اس کی آہٹ چیونٹی کی آہٹ سے بھی ہلکی ہوتی ہے یہ سن کر عبداللہ بن حزن اور قیس بن مضارب کھڑے ہو کر کہنے لگے اللہ کی قسم! یا تو آپ اپنی بات کا حوالہ دیں گے یا پھر ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جائیں گے خواہ ہمیں اس کی اجازت ملے یا نہیں انہوں نے کہا کہ میں تمہیں اس کا حوالہ دیتا ہوں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا لوگو! اس شرک سے بچو کیونکہ اس کی آہٹ چیونٹی کی آہٹ سے بھی ہلکی ہوتی ہے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس کی آہٹ چیونٹی کی آہٹ سے بھی ہلکی ہوتی ہے تو پھر ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم یوں کہتے رہا کرو اے اللہ! ہم اس بات سے آپ کی پناہ میں آتے ہیں کہ کسی چیز کو جان بوجھ کر آپ کے ساتھ شریک ٹھہرائیں اور اس چیز سے معافی مانگتے ہیں جسے ہم جانتے نہیں۔
حدثنا وكيع ، عن حرملة بن قيس ، عن محمد بن ابي ايوب ، عن ابي موسى ، قال: امانان كانا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، رفع احدهما، وبقي الآخر: وما كان الله ليعذبهم وانت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون سورة الانفال آية 33 .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ حَرْمَلَةَ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: أَمَانَانِ كَانَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رُفِعَ أَحَدُهُمَا، وَبَقِيَ الْآخَرُ: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ سورة الأنفال آية 33 .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں دو طرح کی امان تھی جن میں سے ایک اٹھ چکی ہے اور دوسری باقی ہے، (١) اللہ تعالیٰ انہیں آپ کی موجودگی میں عذاب نہیں دے گا (٢) اللہ انہیں اس وقت تک عذاب نہیں دے گا جب تک یہ استغفار کرتے رہیں گے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة محمد بن أبى أيوب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، اخبرنا ثابت ، عمن سمع حطان بن عبد الله الرقاشي ، قال: قال ابو موسى : قلت لصاحب لي: تعال، فلنجعل يومنا هذا لله عز وجل، فلكانما شهدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ومنهم من يقول: تعال، فلنجعل يومنا هذا لله عز وجل" ، فما زال يرددها، حتى تمنيت ان اسيخ في الارض.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَمَّنْ سَمِعَ حِطَّانَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيَّ ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى : قُلْتُ لِصَاحِبٍ لِي: تَعَالَ، فَلْنَجْعَلْ يَوْمَنَا هَذَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَلَكَأَنَّمَا شَهِدَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: تَعَالَ، فَلْنَجْعَلْ يَوْمَنَا هَذَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" ، فَمَا زَالَ يُرَدِّدُهَا، حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنْ أَسِيخَ فِي الْأَرْضِ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ آؤ آج کا دن اللہ کے لئے وقف کردیتے ہیں مجھے ایسا لگا جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے موجود ہیں اور فرما رہے ہیں کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو یوں کہتے ہیں کہ آؤ! آج کا دن اللہ کے لئے وقف کردیتے ہیں اور انہوں نے یہ بات اتنی مرتبہ دہرائی ہے کہ میں تمنا کرنے لگا کہ میں زمین میں اترجاؤں۔
حدثنا عفان ، حدثنا همام ، عن قتادة ، حدثنا الحسن ، ان ابا موسى الاشعري كان له اخ يقال له: ابو رهم، وكان يتسرع في الفتنة، وكان الاشعري يكره الفتنة، فقال له: لولا ما ابلغت إلي، ما حدثتك، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من مسلمين التقيا بسيفيهما، فقتل احدهما الآخر، إلا دخلا جميعا النار" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، أَنَّ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ كَانَ لَهُ أَخٌ يُقَالُ لَهُ: أَبُو رُهْمٍ، وَكَانَ يَتَسَرَّعُ فِي الْفِتْنَةِ، وَكَانَ الْأَشْعَرِيُّ يَكْرَهُ الْفِتْنَةَ، فَقَالَ لَهُ: لَوْلَا مَا أَبْلَغْتَ إِلَيَّ، مَا حَدَّثْتُكَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ الْتَقَيَا بِسَيْفَيْهِمَا، فَقَتَلَ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ، إِلَّا دَخَلَا جَمِيعًا النَّارَ" .
خواجہ حسن رحمہ اللہ کہتے ہیں حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کا ایک بھائی تھا جو بڑھ چڑھ کر فتنے کے کاموں میں حصہ لیتا تھا وہ اسے منع کرتے لیکن وہ باز نہ آتاوہ اس سے فرماتے اگر میں یہ سمجھتا کہ تمہیں سی نصیحت بھی کافی ہوسکتی ہے جو میری رائے میں اس سے کم ہوتی (تب بھی میں تمہیں نصیحت کرتا) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے سامنے آجائیں اور ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کردے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے
حكم دارالسلام: صحيح الغيره، وهذا إسناد منقطع، الحسن البصري لم يسمع من أبى موسى
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام انگلیاں برابر ہوتی ہیں (دیت کے حوالے سے) یعنی ہر انگلی کی دیت دس اونٹ ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة مسروق بن أوس، وقد اختلف فيه على غالب التمار
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي مسلمة ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: إن ابا موسى استاذن على عمر رضي الله عنهما، قال: واحدة، ثنتين، ثلاثا، ثم رجع ابو موسى، فقال له عمر رضي الله عنه: لتاتين على هذا ببينة، او: لافعلن، قال: كانه يقول: اجعلك نكالا في الآفاق، قال: فانطلق ابو موسى إلى مجلس فيه الانصار، فذكر ذلك لهم، فقال: الم تعلموا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا استاذن احدكم ثلاثا، فلم يؤذن له، فليرجع" ؟ قالوا: بلى، لا يقوم معك إلا اصغرنا، قال: فقام ابو سعيد الخدري إلى عمر رضي الله عنه، فقال: هذا ابو سعيد، فخلى عنه.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي مَسْلَمَةَ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: إِنَّ أَبَا مُوسَى اسْتَأْذَنَ عَلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: وَاحِدَةً، ثِنْتَيْنِ، ثَلَاثًَا، ثُمَّ رَجَعَ أَبُو مُوسَى، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَتَأْتِيَنَّ عَلَى هَذَا بِبَيِّنَةٍ، أَوْ: لَأَفْعَلَنَّ، قَالَ: كَأَنَّهُ يَقُولُ: أَجْعَلُكَ نَكَالًا فِي الْآفَاقِ، قَال: فَانْطَلَقَ أَبُو مُوسَى إِلَى مَجْلِسٍ فِيهِ الْأَنْصَارُ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُمْ، فَقَالَ: أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدُكُمْ ثَلَاثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، فَلْيَرْجِعْ" ؟ قَالُوا: بَلَى، لَا يَقُومُ مَعَكَ إِلَّا أَصْغَرُنَا، قَالَ: فَقَامَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ: هَذَا أَبُو سَعِيدٍ، فَخَلَّى عَنْهُ.
عبید بن عمیر رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تین مرتبہ سلام کیا، انہیں اجازت نہیں ملی تو وہ واپس چلے گئے تھوڑی دیر بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ابھی میں نے عبداللہ بن قیس کی آواز نہیں سنی تھی؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پیچھے قاصد کو بھیجا کہ واپس کیوں چلے گئے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے تین مرتبہ اجازت لی تھی جب مجھے اجازت نہیں ملی تو میں واپس چلا گیا ہمیں اسیکا حکم دیا جاتا تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس پر گواہ پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا، حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ انصار کی ایک مجلس میں پہنچے وہ لوگ کہنے لگے کہ اس بات کی شہادت تو ہم میں سب سے چھوٹا بھی دے سکتا ہے چناچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ چلے گئے اور اس کی شہادت دے دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا راستہ چھوڑ دیا۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ليث ، قال: سمعت ابا بردة يحدث، عن ابيه ، قال: إن اناسا مروا على رسول الله صلى الله عليه وسلم بجنازة، يسرعون بها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لتكون عليكم السكينة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَن لَيْثٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا بُرْدَةَ يُحَدِّثُ، عَن أَبِيهِ ، قَالَ: إِنَّ أُنَاسًا مَرُّوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَةٍ، يُسْرِعُونَ بِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِتَكُونَ عَلَيْكُمْ السَّكِينَةُ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ایک جنازہ تیزی سے لے کر گذرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سکون کے ساتھ چلنا چاہئے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جس کے جسم پر " خلوق " نامی خوشبو کا معمولی اثر بھی ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضيعف، الربيع بن أنس وجده مجهولان
حدثنا عفان ، وبهز ، قالا: حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن انس ، ان ابا موسى الاشعري حدثه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " مثل المؤمن الذي يقرا القرآن، كمثل الاترجة، طعمها طيب، وريحها طيب، ومثل المؤمن الذي لا يقرا القرآن كمثل التمرة، طعمها طيب، ولا ريح لها، ومثل الفاجر الذي يقرا القرآن، كمثل الريحانة، ريحها طيب، وطعمها مر، ومثل الفاجر الذي لا يقرا القرآن كمثل الحنظلة، طعمها مر، ولا ريح لها" ..حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، وَبَهْزٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَن أَنَسٍ ، أَنَّ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيّ حَدَّثَهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، كَمَثَلِ الْأُتْرُجَّةِ، طَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَرِيحُهَا طَيِّبٌ، وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ التَّمْرَةِ، طَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَلَا رِيحَ لَهَا، وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ، رِيحُهَا طَيِّبٌ، وَطَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ، طَعْمُهَا مُرٌّ، وَلَا رِيحَ لَهَا" ..
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس مسلمان کی مثال جو قرآن کریم پڑھتا ہے اترج کی سی ہے جس کا ذائقہ بھی عمدہ ہوتا ہے اور اس کی مہک بھی عمدہ ہوتی ہے، اس مسلمان کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور کی سی ہے جس کا ذائقہ تو عمدہ ہوتا ہے لیکن اس کی مہک نہیں ہوتی، اس گنہگار کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے ریحان کی سی ہے جس کا ذائقہ تو کڑوا ہوتا ہے لیکن مہک عمدہ ہوتی ہے۔ اور اس فاجر کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اندرائن کی سی ہے جس کا ذائقہ بھی کڑوا ہوتا ہے اور اس کی مہک بھی نہیں ہوتی۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی بھی مروی ہے۔
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن يزيد بن اوس ، قال: اغمي على ابي موسى ، فبكوا عليه، فقال: إني بريء ممن برئ منه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسالوا عن ذلك امراته: ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: اما علمتم ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: فذكروا ذلك لامراته، فقالت:" ممن حلق، وسلق، وخرق" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن إِبْرَاهِيمَ ، عَن يَزِيدَ بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ: أُغْمِيَ عَلَى أَبِي مُوسَى ، فَبَكَوْا عَلَيْهِ، فَقَالَ: إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّنْ بَرِئَ مِنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلُوا عَنْ ذَلِكَ امْرَأَتَهُ: مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتُمْ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِامْرَأَتِهِ، فَقَالَتْ:" مِمَّنْ حَلَقَ، وَسَلَقَ، وَخَرَقَ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ ان پر بیہوشی طاری ہوئی تو لوگ رونے لگے جب انہیں افاقہ ہوا تو فرمایا میں اس شخص سے بری ہوں جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بری ہیں لوگ ان کی بیوی سے اس کی تفصیل پوچھنے لگے انہوں نے جواب دیا کہ وہ شخص جو واویلا کرے، بال نوچے اور گریبان چاک کرے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 104، يزيد بن أوس مجهول لكنه توبع
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، عن عوف ، قال: سمعت خالدا الاحدب ، عن صفوان بن محرز ، قال: اغمي على ابي موسى ، فبكوا عليه، فافاق، فقال: إني ابرا إليكم مما برئ منه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ممن حلق، وسلق، وخرق . وحدثنا بهما عفان مرة اخرى، فقال فيهما جميعا: ممن حلق، او سلق، او خرق.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَن عَوْفٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ خَالِدًا الْأَحْدَبَ ، عَن صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ ، قَالَ: أُغْمِيَ عَلَى أَبِي مُوسَى ، فَبَكَوْا عَلَيْهِ، فَأَفَاقَ، فَقَالَ: إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكُمْ مِمَّا بَرِئَ مِنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِمَّنْ حَلَقَ، وَسَلَقَ، وَخَرَقَ . وَحَدَّثَنَا بِهِمَا عَفَّانُ مَرَّةً أُخْرَى، فَقَالَ فِيهِمَا جَمِيعًا: مِمَّنْ حَلَقَ، أَوْ سَلَقَ، أَوْ خَرَقَ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ ان پر بیہوشی طاری ہوئی تو لوگ رونے لگے جب انہیں افاقہ ہوا تو فرمایا میں اس شخص سے بری ہوں جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بری ہیں لوگ ان کی بیوی سے اس کی تفصیل پوچھنے لگے انہوں نے جواب دیا کہ وہ شخص جو واویلا کرے، بال نوچے اور گریبان چاک کرے۔
حدثنا عفان ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، اخبرنا عاصم ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يحرسه اصحابه، فقمت ذات ليلة، فلم اره في منامه، فاخذني ما قدم وما حدث، فذهبت انظر، فإذا انا بمعاذ قد لقي الذي لقيت، فسمعنا صوتا مثل هزيز الرحا، فوقفا على مكانهما، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم من قبل الصوت، فقال: " هل تدرون اين كنت؟ وفيم كنت؟ اتاني آت من ربي عز وجل، فخيرني بين ان يدخل نصف امتي الجنة، وبين الشفاعة، فاخترت الشفاعة"، فقالا: يا رسول الله، ادع الله عز وجل ان يجعلنا في شفاعتك، فقال:" انتم ومن مات، لا يشرك بالله شيئا في شفاعتي" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَحْرُسُهُ أَصْحَابُهُ، فَقُمْتُ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَلَمْ أَرَهُ فِي مَنَامِهِ، فَأَخَذَنِي مَا قَدُمَ وَمَا حَدَثَ، فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ، فَإِذَا أَنَا بِمُعَاذٍ قَدْ لَقِيَ الَّذِي لَقِيتُ، فَسَمِعْنَا صَوْتًا مِثْلَ هَزِيزِ الرَّحَا، فَوَقَفَا عَلَى مَكَانِهِمَا، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قِبَلِ الصَّوْتِ، فَقَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ أَيْنَ كُنْتُ؟ وَفِيمَ كُنْتُ؟ أَتَانِي آتٍ مِنْ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، فَخَيَّرَنِي بَيْنَ أَنْ يَدْخُلَ نِصْفُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ، وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ، فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ"، فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَجْعَلَنَا فِي شَفَاعَتِكَ، فَقَالَ:" أَنْتُمْ وَمَنْ مَاتَ، لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا فِي شَفَاعَتِي" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ آپ کے یہاں چوکیداری کرتے تھے ایک مرتبہ میں رات کو اٹھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی خواب گاہ میں نہ پایا مجھے طرح طرح کے خدشات اور وساوس پیش آنے لگے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلا تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوگئی ان کی بھی وہی کیفیت تھی جو میری تھی ہم نے ایسی آواز سنی جو چکی کے چلنے سے پیدا ہوتی ہے اور اپنی پر ٹھٹک کر رک گئے اس آواز کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرہے تھے۔ قریب آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ میں کہاں تھا اور میں کس حال میں تھا؟ میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا تھا اور اس نے مجھے ان دو میں سے کسی ایک بات کا اختیار دیا کہ میری نصف امت جنت میں داخل ہوجائے یا مجھے شفاعت کا اختیار مل جائے تو میں نے شفاعت والے پہلو کو ترجیح دے لی دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ سے دعاء کردیجئے کہ وہ آپ کی شفاعت میں ہمیں بھی شامل کردے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بھی اور ہر وہ شخص بھی جو اس حال میں مرے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو میری شفاعت میں شامل ہے۔
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي عبيدة ، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الله عز وجل يبسط يده بالنهار ليتوب مسيء الليل، ويبسط يده بالليل ليتوب مسيء النهار، حتى تطلع الشمس من مغربها" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَن عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَن أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْسُطُ يَدَهُ بِالنَّهَارِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ اللَّيْلِ، وَيَبْسُطُ يَدَهُ بِاللَّيْلِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ النَّهَارِ، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا رات کے وقت اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کرلے اور دن میں اپنے ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ رات میں گناہ کرنے والا توبہ کرلے یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوجاتا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے کچھ نام بتائے جو ہمیں پہلے سے یاد اور معلوم نہ تھے چناچہ فرمایا کہ میں محمد ہوں، احمد، مقفی، حاشر اور نبی التوبہ اور نبی الملحمہ ہوں صلی اللہ علیہ وسلم
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2355، المسعودي اختلط، لكن رواه أيضا قبل اختلاطه
حدثنا ابن ابي عدي ، عن سليمان يعني التيمي ، عن ابي السليل ، عن زهدم ، عن ابي موسى ، قال: انطلقنا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، نستحمله، فقال:" والله لا احملكم"، فرجعنا، فبعث إلينا بثلاث بقع الذرى، فقال بعضنا لبعض: حلف النبي صلى الله عليه وسلم ان لا يحملنا، فاتيناه، فقلنا: إنك حلفت ان لا تحملنا! فقال: " ما انا حملتكم، إنما حملكم الله تعالى، ما على الارض يمين احلف عليها، فارى غيرها خيرا منها، إلا اتيته" .حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَن سُلَيْمَانَ يَعْنِي التَّيْمِيَّ ، عَن أَبِي السَّلِيلِ ، عَن زَهْدَمٍ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: انْطَلَقْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَسْتَحْمِلُهُ، فَقَالَ:" وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ"، فَرَجَعْنَا، فَبَعَثَ إِلَيْنَا بِثَلَاثٍ بُقْعِ الذُّرَى، فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ: حَلَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَحْمِلَنَا، فَأَتَيْنَاهُ، فَقُلْنَا: إِنَّكَ حَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا! فَقَالَ: " مَا أَنَا حَمَلْتُكُمْ، إِنَّمَا حَمَلَكُمْ اللَّهُ تَعَالَى، مَا عَلَى الْأَرْضِ يَمِينٌ أَحْلِفُ عَلَيْهَا، فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَتَيْتُهُ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اشعریین کے ایک گروہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لئے جانوروں کی درخواست کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخدا! میں تمہیں سوار نہیں کرسکوں گا کیونکہ میرے پاس تمہیں سوار کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے؟ ہم کچھ دیر " جب تک اللہ کو منظور ہوا " رکے رہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے روشن پیشانی کے تین اونٹوں کا حکم دے دیا جب ہم واپس جانے لگے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواری کے جانور کی درخواست لے کر آئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی تھی کہ وہ ہمیں سواری کا جانور نہیں دیں گے واپس چلو تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی قسم یاد دلادیں۔ چناچہ ہم دوبارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! ہم آپ کے پاس سواری کے جانور کی درخواست لے کر آئے تھے اور آپ نے قسم کھائی تھی کہ ہمیں سواری کا جانور نہیں دیں گے، پھر آپ نے ہمیں جانور دے دیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہیں سوار نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے بخدا! اگر اللہ کو منظور ہوا تو میں جب بھی کوئی قسم کھاؤں گا اور کسی دوسری چیز میں خیر دیکھوں گا تو اسی کو اختیار کر کے اپنی قسم کا کفارہ دے دوں گا۔
حدثنا سفيان بن عيينة ، حدثنا شعبة الكوفي ، قال: كنا عند ابي بردة بن ابي موسى ، فقال: اي بني، الا احدثكم حديثا حدثني ابي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من اعتق رقبة، اعتق الله عز وجل بكل عضو منها عضوا منه من النار" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ الْكُوفِيُّ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى ، فَقَالَ: أَيْ بَنِيَّ، أَلَا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً، أَعْتَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهَا عُضْوًا مِنْهُ مِنَ النَّارِ" .
ابوبردہ رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ اپنے بچوں سے کہا میرے بچو! کیا میں تمہیں ایک حدیث نہ سناؤں؟ میرے والد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مجھے یہ حدیث سنائی ہے کہ جو شخص کسی غلام کو آزاد کرے اللہ اس کے ہر عضو کے بدلے میں آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو جہنم کی آگ سے آزاد فرمادے گا۔
حدثنا سفيان ، عن بريد بن عبد الله بن ابي بردة ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، رواية، قال " المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا، ومثل الجليس الصالح مثل العطار، إن لم يحذك من عطره علقك من ريحه، ومثل الجليس السوء مثل الكير، إن لم يحرقك نالك من شرره، والخازن الامين الذي يؤدي ما امر به مؤتجرا احد المتصدقين" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَن بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، رِوَايَةً، قَالَ " الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا، وَمَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ مَثَلُ الْعَطَّارِ، إِنْ لَمْ يُحْذِكَ مِنْ عِطْرِهِ عَلِقَكَ مِنْ رِيحِهِ، وَمَثَلُ الْجَلِيسِ السُّوءِ مَثَلُ الْكِيرِ، إِنْ لَمْ يُحْرِقْكَ نَالَكَ مِنْ شَرَرِهِ، وَالْخَازِنُ الْأَمِينُ الَّذِي يُؤَدِّي مَا أُمِرَ بِهِ مُؤْتَجِرًا أَحَدُ الْمُتَصَدِّقِينَ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہوتا ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔ اور اچھے ہم نشین کی مثال عطار کی سی ہے کہ اگر وہ اپنے عطر کی شیشی تمہارے قریب بھی نہ لائے تو اس کی مہک تم تک پہنچے گی اور برے ہم نشین کی مثال بھٹی کی سی ہے کہ اگر وہ تمہیں نہ بھی جلائے تب بھی اس کی گرمی اور شعلے تو تم تک پہنچیں گے۔ اور امانت دار خزانچی وہ ہوتا ہے کہ اسے جس چیز کا حکم دیا جائے وہ اسے مکمل، پورا اور دل کی خوشی کے ساتھ ادا کردے تاکہ صدقہ کرنے والوں نے جسے دینے کا حکم دیا ہے اس تک وہ چیز پہنچ جائے۔
حدثنا ابن إدريس ، عن بريد ، عن جده ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المؤمن للمؤمن كالبنيان، يشد بعضه بعضا" .حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ ، عَن بُرَيْدٍ ، عَن جَدِّهِ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ، يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہوتا ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن سهم ابن منجاب ، عن القرثع ، قال: لما ثقل ابو موسى الاشعري صاحت امراته، فقال لها: اما علمت ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: بلى، ثم سكتت، فلما مات، قيل لها: اي شيء قال رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لعن من حلق، او خرق، او سلق" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَن إِبْرَاهِيمَ ، عَن سَهْمِ ابْنِ مِنْجَابٍ ، عَن الْقَرْثَعِ ، قَالَ: لَمَّا ثَقُلَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ صَاحَتْ امْرَأَتُهُ، فَقَالَ لَهَا: أَمَا عَلِمْتِ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: بَلَى، ثُمَّ سَكَتَتْ، فَلَمَّا مَاتَ، قِيل لَهَا: أَيُّ شَيْءٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَعَنَ مَنْ حَلَقَ، أَوْ خَرَقَ، أَوْ سَلَقَ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ ان پر بیہوشی طاری ہوئی تو ان کی بیوی رونے لگی جب انہیں افاقہ ہوا تو فرمایا میں کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے؟ اس نے کہا کیوں نہیں پھر وہ خاموش ہوگئی ان کے انتقال کے بعد کسی نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو واویلا کرے، بال نوچے اور گریبان چاک کرے اس پر لعنت ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 104، تكلم فى القرثع الضبي، وقد توبع
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا سعيد ، عن قتادة ، عن يونس بن جبير ، عن حطان بن عبد الله الرقاشي ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاتنا وسنتنا، فقال: " إنما الإمام ليؤتم به، فإذا كبر، فكبروا، وإذا قال: غير المغضوب عليهم ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7، فقولوا: آمين، يجبكم الله تعالى، وإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: اللهم ربنا لك الحمد، يسمع الله لكم، وإذا سجد فاسجدوا، وإذا رفع فارفعوا، فإن الإمام يسجد قبلكم، ويرفع قبلكم"، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تلك بتلك" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ ، عَن قَتَادَةَ ، عَن يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَن حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ ، عَن أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَنَا وَسُنَّتَنَا، فَقَالَ: " إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ، فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَالَ: غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، فَقُولُوا: آمِينَ، يُجِبْكُمْ اللَّهُ تَعَالَى، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، يَسْمَعْ اللَّهُ لَكُمْ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، فَإِنَّ الْإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ، وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ"، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تِلْكَ بِتِلْكَ" .
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز اور اس کا طریقہ سکھایا اور فرمایا کہ امام کو تو مقررہیاقتداء کے لئے کیا جاتا ہے اس لئے جب وہ تکبیرک ہے تو تم بھی تکبیرکہو اور جب وہ غیرالمغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو آمین کہو اللہ اسے قبول کرلے گا جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنالک الحمد کہو اللہ تمہاری ضرور سنے گا جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ کیونکہ امام تم سے پہلے سجدہ کرے گا اور سر اٹھائے گا یہ اس کے بدلے میں ہوجائے گا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ سوال پوچھا کہ اگر کوئی آدمی کسی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن ان تک پہنچ نہیں پاتا تو کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن شقيق ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن من ورائكم اياما، ينزل فيها الجهل، ويرفع فيها العلم، ويكثر فيها الهرج"، قالوا: يا رسول الله، وما الهرج؟ قال:" القتل" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَن الْأَعْمَشِ ، عَن شَقِيقٍ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ أَيَّامًا، يَنْزِلُ فِيهَا الْجَهْلُ، وَيُرْفَعُ فِيهَا الْعِلْمُ، وَيَكْثُرُ فِيهَا الْهَرْجُ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْهَرْجُ؟ قَالَ:" الْقَتْلُ" .
شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے حدیث کا مذاکرہ کررہے تھے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت سے پہلے جو زمانہ آئے گا اس میں علم اٹھالیا جائے گا اور جہالت اترنے لگے گی اور " ہرج " کی کثرت ہوگی جس کا معنی قتل ہے۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن ابي موسى ، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرجل يقاتل شجاعة، ويقاتل حمية، ويقتل رياء، فاي ذلك في سبيل الله تعالى؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا، فهو في سبيل الله عز وجل" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَن شَقِيقٍ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يُقَاتِلُ شَجَاعَةً، وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً، وَيَقْتُلُ رِيَاءً، فَأَيُّ ذَلِكَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا، فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ آدمی اپنے آپ کو بہادر ثابت کرنے کے لئے لڑتا ہے ایک آدمی قومی غیرت کے جذبے سے قتال کرتا ہے اور ایک آدمی ریاکاری کے لئے قتال کرتا ہے ان میں سے اللہ کے راستے میں قتال کرنے والا کون ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اس لئے قتال کرتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے وہی اللہ کے راستہ میں قتال کرنے والا ہے۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي عبيدة ، عن ابي موسى ، قال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بخمس كلمات، فقال: " إن الله تعالى لا ينام، ولا ينبغي له ان ينام، ولكنه يخفض القسط ويرفعه، يرفع إليه عمل الليل قبل عمل النهار، وعمل النهار قبل عمل الليل، حجابه النور، لو كشفه لاحرقت سبحات وجهه ما انتهى إليه بصره من خلقه" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَن عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَن أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ، فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَنَامُ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ، وَلَكِنَّهُ يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَيَرْفَعُهُ، يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ، وَعَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّيْلِ، حِجَابُهُ النُّورُ، لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَيْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور پانچ باتیں بیان فرمائیں اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کو نیند نہیں آتی اور نہ ہی نیند ان کی شایان شان ہے وہ ترازو کو جھکاتے اور اونچا کرتے ہیں رات کے اعمال دن کے وقت اور دن کے اعمال رات کے وقت ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، اس کا حجاب نور ہے جو اگر وہ ہٹادے تو تاحد نگاہ ساری مخلوق جل جائے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی تکلیف دہ بات کو سن کر اللہ سے زیادہ اس پر صبر کرنے والا کوئی نہیں ہے اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرایا جاتا ہے لیکن وہ پھر بھی انہیں عافیت اور رزق دیتا ہے، اس کی مصیبتیں دور کرتا ہے۔
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، اخبرنا معمر بن راشد ، عن فراس ، عن الشعبي ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " ثلاثة يؤتون اجرهم مرتين: رجل آمن بالكتاب الاول والكتاب الآخر، ورجل له امة فادبها، فاحسن تاديبها، ثم اعتقها وتزوجها، وعبد مملوك احسن عبادة ربه، ونصح لسيده" ، او كما قال.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَن فِرَاسٍ ، عَن الشَّعْبِيِّ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثَةٌ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ: رَجُلٌ آمَنَ بِالْكِتَابِ الْأَوَّلِ وَالْكِتَابِ الْآخِرِ، وَرَجُلٌ لَهُ أَمَةٌ فَأَدَّبَهَا، فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا، ثُمَّ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا، وَعَبْدٌ مَمْلُوكٌ أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ، وَنَصَحَ لِسَيِّدِهِ" ، أَوْ كَمَا قَالَ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین قسم کے لوگوں کو دہرا اجر ملتا ہے وہ آدمی جس کے پاس کوئی باندی ہو اور وہ اسے عمدہ دلائے بہترین ادب سکھائے، پھر اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے تو اسے دہرا اجر ملے گا، اسی طرح وہ غلام جو اپنے اللہ کا حق بھی ادا کرتا ہو اور اپنے آقا کا حق بھی ادا کرتا ہو یا اہل کتاب میں سے وہ آدمی جو اپنی شریعت پر بھی ایمان لایا ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر بھی ایمان لایا ہو، اسے بھی دہرا اجر ملے گا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں اپنی قوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا تھا جب فتح خیبر کو ابھی صرف تین دن گذرے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھی اس میں سے حصہ دیا اور ہمارے علاوہ کسی ایسے آدمی کو مال غنیمت میں سے حصہ نہیں دیا جو اس غزوے میں شریک نہیں ہوا تھا۔
حدثنا إسماعيل ، عن يونس ، عن الحسن ، ان اسيد بن المتشمس قال: اقبلنا مع ابي موسى من اصبهان، فتعجلنا، وجاءت عقيلة، فقال ابو موسى : الا فتى ينزل كنته؟ قال: يعني: امة الاشعري، فقلت: بلى، فادنيتها من شجرة، فانزلتها، ثم جئت، فقعدت مع القوم، فقال: الا احدثكم حديثا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحدثناه، فقلنا: بلى، يرحمك الله، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحدثنا: " ان بين يدي الساعة الهرج"، قيل: وما الهرج؟ قال:" الكذب والقتل"، قالوا: اكثر مما نقتل الآن؟ قال:" إنه ليس بقتلكم الكفار، ولكنه قتل بعضكم بعضا، حتى يقتل الرجل جاره، ويقتل اخاه، ويقتل عمه، ويقتل ابن عمه"، قالوا: سبحان الله! ومعنا عقولنا؟ قال:" لا، إلا انه ينزع عقول اهل ذاكم الزمان حتى يحسب احدكم انه على شيء، وليس على شيء". والذي نفس محمد بيده، لقد خشيت ان تدركني وإياكم تلك الامور، وما اجد لي ولكم منها مخرجا، فيما عهد إلينا نبينا صلى الله عليه وسلم، إلا ان نخرج منها كما دخلناها، لم نحدث فيها شيئا ..حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَن يُونُسَ ، عَن الْحَسَنِ ، أَنَّ أَسِيدَ بْنَ الْمُتَشَمِّسِ قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ أَبِي مُوسَى مِنْ أَصْبَهَانَ، فَتَعَجَّلْنَا، وَجَاءَتْ عُقَيْلَةُ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى : أَلَا فَتًى يُنْزِلُ كَنَّتَهُ؟ قَالَ: يَعْنِي: أَمَةٌ الْأَشْعَرِيَّ، فَقُلْتُ: بَلَى، فَأَدْنَيْتُهَا مِنْ شَجَرَةٍ، فَأَنْزَلْتُهَا، ثُمَّ جِئْتُ، فَقَعَدْتُ مَعَ الْقَوْمِ، فَقَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُنَاهُ، فَقُلْنَا: بَلَى، يَرْحَمُكَ اللَّهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُنَا: " أَنَّ بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ الْهَرْجَ"، قِيلَ: وَمَا الْهَرْجُ؟ قَالَ:" الْكَذِبُ وَالْقَتْلُ"، قَالُوا: أَكْثَرُ مِمَّا نَقْتُلُ الْآنَ؟ قَالَ:" إِنَّهُ لَيْسَ بِقَتْلِكُمْ الْكُفَّارَ، وَلَكِنَّهُ قَتْلُ بَعْضِكُمْ بَعْضًا، حَتَّى يَقْتُلَ الرَّجُلُ جَارَهُ، وَيَقْتُلَ أَخَاهُ، وَيَقْتُلَ عَمَّهُ، وَيَقْتُلَ ابْنَ عَمِّهِ"، قَالُوا: سُبْحَانَ اللَّهِ! وَمَعَنَا عُقُولُنَا؟ قَالَ:" لَا، إِلَّا أَنَّهُ يَنْزِعُ عُقُولَ أَهْلِ ذَاكُمِ الزَّمَانِ حَتَّى يَحْسَبَ أَحَدُكُمْ أَنَّهُ عَلَى شَيْءٍ، وَلَيْسَ عَلَى شَيْءٍ". وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ تُدْرِكَنِي وَإِيَّاكُمْ تِلْكَ الْأُمُورُ، وَمَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مِنْهَا مَخْرَجًا، فِيمَا عَهِدَ إِلَيْنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا أَنْ نَخْرُجَ مِنْهَا كَمَا دَخَلْنَاهَا، لَمْ نُحْدِثْ فِيهَا شَيْئًا ..
اسید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم اصفہان سے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ واپس آرہے تھے ہم تیز رفتاری سفر کر رہے تھے کہ " عقیلہ " آگئی حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کوئی نوجوان ہے جوان کی باندی کو سواری سے اتارے میں نے کہا کیوں نہیں چناچہ میں نے اس کی سواری کو درخت کے قریب لے جا کر اسے اتارا پھر آکر لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک حدیث نہ سناؤں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سناتے تھے؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں اللہ کی رحمتیں آپ پر نازل ہوں انہوں نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتاتے تھے کہ قامت سے پہلے " ہرج " واقع ہوگا لوگوں نے پوچھا کہ " ہرج " سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قتل، لوگوں نے پوچھا اس تعداد سے بھی زیادہ جتنے ہم قتل کردیتے ہیں؟ ہم تو ہر سال ستر ہزار سے زیادہ لوگ قتل کردیتے تھے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد مشرکین کو قتل کرنا نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کو قتل کرنا مراد ہے حتیٰ کہ آدمی اپنے پڑوسی، چچا، بھائی اور چچازاد بھائی کو قتل کردے گا لوگوں نے پوچھا کیا اس موقع پر ہماری عقلیں ہمارے ساتھ ہوں گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس زمانے کے لوگوں کی عقلیں چھین لی جائیں گی اور ایسے بیوقوف لوگ رہ جائیں گے جو یہ سمجھیں گے وہ کسی دین پر قائم ہیں حالانکہ وہ کسی دین پر نہیں ہوں گے۔ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر وہ زمانہ آگیا تو میں اپنے اور تمہارے لئے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں پاتا الاّ یہ کہ ہم اس سے اسی طرح نکل جائیں جیسے داخل ہوئے تھے اور کسی کے قتل یا مال میں ملوث نہ ہوں
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ليث ، عن ابي بردة بن ابي موسى ، عن ابيه ، انه قال: مرت برسول الله صلى الله عليه وسلم جنازة، تمخض مخض الزق، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" عليكم القصد" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا لَيْثٌ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَن أَبِيهِ ، أَنَّهُ قَالَ: مَرَّتْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِنَازَةٌ، تُمْخَضُ مَخْضَ الزِّقِّ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَلَيْكُمْ الْقَصْدَ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ایک جنازہ تیزی سے لے کر گذرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سکون کو اپنے اوپر لازم کرلو۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بھوکے کو کھانا کھلایا کرو، قیدیوں کو چھڑایا کرو اور بیماروں کی عیادت کیا کرو۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا عوف ، حدثنا قسامة بن زهير ، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم. وحدثناه هوذة ، حدثنا عوف ، عن قسامة ، قال سمعت الاشعري يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله عز وجل خلق آدم من قبضة قبضها من جميع الارض، فجاء بنو آدم على قدر الارض، جعل منهم الاحمر، والابيض، والاسود، وبين ذلك، والسهل والحزن، وبين ذلك، والخبيث والطيب، وبين ذلك" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، حَدَّثَنَا قَسَامَةُ بْنُ زُهَيْرٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وحَدَّثَنَاه هَوْذَةُ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَن قَسَامَةَ ، قَالَ سَمِعْتُ الْأَشْعَرِيَّ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيعِ الْأَرْضِ، فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَى قَدْرِ الْأَرْضِ، جَعَلَ مِنْهُمْ الْأَحْمَرَ، وَالْأَبْيَضَ، وَالْأَسْوَدَ، وَبَيْنَ ذَلِكَ، وَالسَّهْلَ وَالْحَزْنَ، وَبَيْنَ ذَلِكَ، وَالْخَبِيثَ وَالطَّيِّبَ، وَبَيْنَ ذَلِكَ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا تھا جو اس نے ساری زمین سے اکٹھی کی تھی یہی وجہ سے کہ بنو آدم زمین ہی کی طرح ہیں چناچہ کچھ سفید ہیں، کچھ سرخ ہیں کچھ سیاہ فام ہیں اور کچھ اس کے درمیان، اسی طرح کچھ گندے ہیں اور کچھ عمدہ، کچھ نرم ہیں اور کچھ غمگین وغیرہ۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن عثمان بن غياث ، حدثنا ابو عثمان ، عن ابي موسى : انه كان مع النبي صلى الله عليه وسلم في حائط، وبيد النبي صلى الله عليه وسلم عود يضرب به بين الماء والطين، فجاء رجل يستفتح، فقال: " افتح له، وبشره بالجنة"، فإذا هو ابو بكر رضي الله عنه، قال: ففتحت له، وبشرته بالجنة، ثم جاء رجل يستفتح، فقال:" افتح له، وبشره بالجنة"، فإذا هو عمر رضي الله عنه، ففتحت له، وبشرته بالجنة، ثم جاء رجل، فاستفتح، فقال:" افتح له، وبشره بالجنة على بلوى تصيبه، او بلوى تكون"، قال فإذا هو عثمان رضي الله عنه، ففتحت له، وبشرته بالجنة، واخبرته، فقال:" الله المستعان" ..حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَن عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، عَن أَبِي مُوسَى : أَنَّهُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ، وَبِيَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُودٌ يَضْرِبُ بِهِ بَيْنَ الْمَاءِ وَالطِّينِ، فَجَاءَ رَجُلٌ يَسْتَفْتِحُ، فَقَالَ: " افْتَحْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، فَإِذَا هُوَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: فَفَتَحْتُ لَهُ، وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ يَسْتَفْتِحُ، فَقَالَ:" افْتَحْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، فَإِذَا هُوَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَفَتَحْتُ لَهُ، وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ، فَاسْتَفْتَحَ، فَقَالَ:" افْتَحْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ، أَوْ بَلْوَى تَكُونُ"، قَالَ فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَفَتَحْتُ لَهُ، وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، وَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ:" اللَّهُ الْمُسْتَعَانُ" ..
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی باغ میں تھا ایک آدمی آیا اور اس نے سلام کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اسے اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنادو میں گیا تو وہ حضرت ابوبکرصدق رضی اللہ عنہ تھے میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے آئیے اور جنت کی خوشخبری قبول کیجئے وہ مسلسل اللہ کی تعریف کرتے ہوئے ایک جگہ پر بیٹھ گئے پھر دوسرا آدمی آیا اس نے بھی سلام کیا نبی کریم نے فرمایا اسے بھی اجازت اور خوشخبری دے دو میں گیا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے آئیے اور جنت کی خوشخبری قبول کیجئے وہ مسلسل اللہ کی تعریف کرتے ہوئے ایک جگہ پر بیٹھ گئے پھر تیسرا آدمی آیا اس نے بھی سلام کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا کر اسے بھی اجازت دے دو اور ایک امتحان کے ساتھ جنت کی خوشخبری سنا دو میں گیا تو وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے آئیے اور ایک سخت امتحان کے ساتھ جنت کی خوشخبری قبول کیجئے وہ یہ کہتے ہوئے کہ " اے اللہ! ثابت قدم رکھنا " آکر بیٹھ گئے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا عثمان يعني ابن غياث ، عن ابي عثمان ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حائط من حيطان المدينة، فذكر معنى حديث يحيى، إلا انه قال في قول عثمان رضي الله عنه: الله المستعان، اللهم صبرا، وعلى الله التكلان.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ يَعْنِي ابْنَ غِيَاثٍ ، عَن أَبِي عُثْمَانَ ، عَن أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ، فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ يَحْيَى، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ فِي قَوْلِ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: اللَّهُ الْمُسْتَعَانُ، اللَّهُمَّ صَبْرًا، وَعَلَى اللَّهِ التُّكْلَانُ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ریشم اور سونا یہ دونوں میری امت کی عورتوں کے لئے حلال اور مردوں کے لئے حرام ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده، وهذا إسناد منقطع، سعيد بن أبى هند لم يلق أبا موسي
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا قرة ، حدثنا سيار ابو الحكم ، عن ابي بردة ، عن ابيه ، قال: قلت للنبي صلى الله عليه وسلم" إن لاهل اليمن شرابين، او اشربة، هذا البتع من العسل، والمزر من الذرة والشعير، فما تامرني فيهما؟ قال: " انهاكم عن كل مسكر" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ ، حَدَّثَنَا سَيَّارٌ أَبُو الْحَكَمِ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِيهِ ، قَالَ: قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِنَّ لِأَهْلِ الْيَمَنِ شَرَابَيْنِ، أَوْ أَشْرِبَةً، هَذَا الْبِتْعُ مِنَ الْعَسَلِ، وَالْمِزْرُ مِنَ الذُّرَةِ وَالشَّعِيرِ، فَمَا تَأْمُرُنِي فِيهِمَا؟ قَالَ: " أَنْهَاكُمْ عَنْ كُلِّ مُسْكِرٍ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے یمن کی طرف بھیجا) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہاں کچھ مشروبات رائج ہیں ایک تو تبع جو شہد سے بنتی ہے اور ایک مزر ہے اور وہ جو سے بنتی ہے آپ مجھے اس کے متعلق کیا حکم دیتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی نشہ آور چیز مت پینا۔
حدثنا يحيى ، عن التيمي ، عن ابي عثمان ، عن ابي موسى ، قال: اخذ القوم في عقبة او ثنية، فكلما علا رجل عليها، نادى: لا إله إلا الله، والله اكبر، والنبي صلى الله عليه وسلم على بغلة يعرضها في الخيل، فقال:" يا ايها الناس، إنكم لا تدعون اصم ولا غائبا" . ثم قال:" يا ابا موسى او: يا عبد الله بن قيس: الا ادلك على كنز من كنوز الجنة؟" قال: قلت: بلى، قال: " لا حول ولا قوة إلا بالله" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَن التَّيْمِيِّ ، عَن أَبِي عُثْمَانَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: أَخَذَ الْقَوْمُ فِي عُقْبَةٍ أَوْ ثَنِيَّةٍ، فَكُلَّمَا عَلَا رَجُلٌ عَلَيْهَا، نَادَى: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَةٍ يَعْرِضُهَا فِي الْخَيْلِ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا" . ثُمَّ قَالَ:" يَا أَبَا مُوسَى أَوْ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ: أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟" قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: " لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جہاد کے سفر میں تھے جس ٹیلے یا بلند جگہ پر چڑھتے یا کسی نشیب میں اترتے تو بلند آواز سے تکبیر کہتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے قریب آکر فرمایا لوگو! اپنے ساتھ نرمی کرو، تم کسی بہرے یا غائب اللہ کو نہیں پکار رہے، تم سمیع وبصیر کو پکار رہے ہو جو تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے، اے عبداللہ بن قیس کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا لاحول ولاقوۃ الا باللہ (جنت کا ایک خزانہ ہے)
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص گوٹیوں کے ساتھ کھیلتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، حميد بن بشير لا بأس به فى الشواهد
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن ہر مسلمان ایک یہودی یا عیسائی کو لے کر آئے گا اور کہے گا کہ یہ جہنم سے بچاؤ کے لئے میری طرف سے فدیہ ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح بغير هذه السياقة ، م: 2767، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى معشر ومصعب بن ثابت
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے کچھ نام بتائے جو ہمیں پہلے سے یاد اور معلوم نہ تھے چناچہ فرمایا کہ میں محمد ہوں، احمد، مقفی، حاشر اور نبی التوبہ اور نبی الملحمہ ہوں صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، 2355، المسعودي اختلط، لكن رواه قبل اختلاطه
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے بیٹے ابوبردہ سے کہا کہ بیٹا! اگر تم نے وہ وقت دیکھا ہوتا تو کیسا لگتا کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے تھے اور ہمارے اندر سے بھیڑ بکریوں جیسی مہک آرہی ہوتی تھی، (موٹے کپڑوں پر بارش کا پانی پڑنے کی وجہ سے)
حكم دارالسلام: حديث صحيح، أبو هلال ضعيف، لكنه توبع
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن صالح ، قال: حدث ابو الزناد ، ان ابا سلمة اخبره، ان عبد الرحمن بن نافع بن عبد الحارث الخزاعي اخبره، ان ابا موسى اخبره، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان في حائط بالمدينة، على قف البئر مدليا رجليه، فدق الباب ابو بكر رضي الله عنه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ائذن له، وبشره بالجنة"، ففعل، فدخل ابو بكر رضي الله عنه، فدلى رجليه، ثم دق الباب عمر رضي الله عنه، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ائذن له، وبشره بالجنة"، ففعل، ثم دق الباب عثمان بن عفان رضي الله عنه، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ائذن له، وبشره بالجنة، وسيلقى بلاء" ففعل.حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، قَالَ: حَدَّثَ أَبُو الزِّنَادِ ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ نَافِعٍ بْنِ عَبْدِ الْحَارِثِ الْخُزَاعِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا مُوسَى أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي حَائِطٍ بِالْمَدِينَةِ، عَلَى قُفِّ الْبِئْرِ مُدَلِّيًا رِجْلَيْهِ، فَدَقَّ الْبَابَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ائْذَنْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، فَفَعَلَ، فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَدَلَّى رِجْلَيْهِ، ثُمَّ دَقَّ الْبَابَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ائْذَنْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، فَفَعَلَ، ثُمَّ دَقَّ الْبَابَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ائْذَنْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، وَسَيَلْقَى بَلَاءً" فَفَعَلَ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی باغ میں تھا ایک آدمی آیا اور اس نے سلام کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اسے اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنادو میں گیا تو وہ حضرت ابوبکرصدق رضی اللہ عنہ تھے میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے آئیے اور جنت کی خوشخبری قبول کیجئے وہ مسلسل اللہ کی تعریف کرتے ہوئے ایک جگہ پر بیٹھ گئے پھر دوسرا آدمی آیا اس نے بھی سلام کیا نبی کریم نے فرمایا اسے بھی اجازت اور خوشخبری دے دو میں گیا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے آئیے اور جنت کی خوشخبری قبول کیجئے وہ مسلسل اللہ کی تعریف کرتے ہوئے ایک جگہ پر بیٹھ گئے پھر تیسرا آدمی آیا اس نے بھی سلام کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا کر اسے بھی اجازت دے دو اور ایک امتحان کے ساتھ جنت کی خوشخبری سنادو میں گیا تو وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے چناچہ ایسا ہی ہوا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3674، م: 2403، عبدالرحمن بن نافع مجهول لكنه توبع
حدثنا حدثنا حسن بن موسى ، وعفان ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن عمارة ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يجمع الله عز وجل الامم في صعيد واحد يوم القيامة، فإذا بدا لله عز وجل ان يصدع بين خلقه، مثل لكل قوم ما كانوا يعبدون، فيتبعونهم حتى يقحمونهم النار، ثم ياتينا ربنا عز وجل، ونحن على مكان رفيع، فيقول: من انتم؟ فنقول: نحن المسلمون، فيقول: ما تنتظرون؟ فيقولون: ننتظر ربنا عز وجل"، قال:" فيقول: وهل تعرفونه إن رايتموه؟ فيقولون: نعم، فيقول: كيف تعرفونه ولم تروه؟ فيقولون: نعم، إنه لا عدل له، فيتجلى لنا ضاحكا، يقول: ابشروا ايها المسلمون، فإنه ليس منكم احد إلا جعلت مكانه في النار يهوديا، او نصرانيا" ..حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَن عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَن عُمَارَةَ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَجْمَعُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْأُمَمَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَإِذَا بَدَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَصْدَعَ بَيْنَ خَلْقِهِ، مَثَّلَ لِكُلِّ قَوْمٍ مَا كَانُوا يَعْبُدُونَ، فَيَتْبَعُونَهُمْ حَتَّى يُقْحِمُونَهُمْ النَّارَ، ثُمَّ يَأْتِينَا رَبُّنَا عَزَّ وَجَلَّ، وَنَحْنُ عَلَى مَكَانٍ رَفِيعٍ، فَيَقُولُ: مَنْ أَنْتُمْ؟ فَنَقُولُ: نَحْنُ الْمُسْلِمُونَ، فَيَقُولُ: مَا تَنْتَظِرُونَ؟ فَيَقُولُونَ: نَنْتَظِرُ رَبَّنَا عَزَّ وَجَلَّ"، قَالَ:" فَيَقُولُ: وَهَلْ تَعْرِفُونَهُ إِنْ رَأَيْتُمُوهُ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيَقُولُ: كَيْفَ تَعْرِفُونَهُ وَلَمْ تَرَوْهُ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، إِنَّهُ لَا عِدْلَ لَهُ، فَيَتَجَلَّى لَنَا ضَاحِكًا، يَقُولُ: أَبْشِرُوا أَيُّهَا الْمُسْلِمُونَ، فَإِنَّهُ لَيْسَ مِنْكُمْ أَحَدٌ إِلَّا جَعَلْتُ مَكَانَهُ فِي النَّارِ يَهُودِيًّا، أَوْ نَصْرَانِيًّا" ..
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ساری امتوں کو ایک ٹیلے پر جمع فرمائے گا جب اللہ تعالیٰ اپنی ساری مخلوق کا امتحان شروع کرے گا تو ہر قدم کے سامنے اس چیز کی تصویر آجائے جس کی وہ عبادت کرتے تھے وہ ان کے پیچھے چلنے لگیں گے اور اس طرح جہنم میں گرجائیں گے پھر ہمارا رب ہمارے پاس آئے گا ہم اس وقت ایک بلند جگہ پر ہوں گے وہ پوچھے گا کہ تم کون ہو؟ ہم کہیں گے کہ ہم مسلمان ہیں وہ کہے گا کہ تم کس کا انتظار کررہے ہو؟ ہم کہیں گے کہ اپنے رب کا انتظار کررہے ہیں وہ پوچھے گا کہ اگر تم اسے دیکھو تو پہچان لو گے ہم کہیں گے جی ہاں وہ کہے گا کہ جب تم نے اسے دیکھا ہی نہیں ہے تو کیسے پہچانو گے؟ ہم کہیں گے کہ ہاں! اس کی کوئی مثال نہیں ہے پھر وہ مسکراتا ہوا اپنی تجلی ہمارے سامنے ظاہر کرے گا اور فرمایا مسلمانو! خوش ہوجاؤ تم میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کی جگہ پر میں نے کسی یہودی یا عیسائی کو جہنم میں نہ ڈال دیاہو۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے لیکن اس کے آغاز میں یہ ہے کہ عمارہ قرشی کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک وفد لے کر حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس گئے جس میں ابوبردہ رحمہ اللہ بھی شامل تھے، انہوں نے ہماری ضرورت پوری کردی ہم وہاں سے نکل آئے لیکن حضرت ابوبردہ رحمہ اللہ دوبارہ ان کے پاس چلے گئے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے پوچھا شیخ کو کوئی اور بات یاد آگئی ہے؟ اب کیا چیز آپ کو واپس لائی؟ کیا آپ کی ضرورت پوری نہیں ہوئی؟ انہوں نے فرمایا ہاں! ایک حدیث ہے جو میرے والدنے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے سنائی تھی پھر انہوں نے مذکورہ حدیث سنائی عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے پوچھا کیا واقعی آپ نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں! میں نے اپنے والد کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔
حكم دارالسلام: قوله: وليس منكم أحد إلا جعلت مكانه فى النار يهوديا أو نصرانيا صحيح، م: 2767، وهذا أسناد ضعيف لضعف على بن زيد وجهالة عمارة
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا علي بن زيد بن جدعان ، عن عمارة القرشي ، قال: وفدنا إلى عمر بن عبد العزيز، وفينا ابو بردة، فقضى حاجتنا، فلما خرج ابو بردة، رجع، فقال عمر بن عبد العزيز: اذكر الشيخ، قال: ما ردك؟ الم اقض حوائجك؟ قال: فقال ابو بردة : إلا حديثا حدثنيه ابي ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" يجمع الله عز وجل الامم يوم القيامة"، فذكر الحديث. قال: فقال عمر لابي بردة: آلله لسمعت ابا موسى يحدث به، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: نعم، لانا سمعته من ابي يحدثه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، عَن عُمَارَةَ الْقُرَشِيِّ ، قَالَ: وَفَدْنَا إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَفِينَا أَبُو بُرْدَةَ، فَقَضَى حَاجَتَنَا، فَلَمَّا خَرَجَ أَبُو بُرْدَةَ، رَجَعَ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ: أَذْكُرُ الشَّيْخَ، قَالَ: مَا رَدَّكَ؟ أَلَمْ أَقْضِ حَوَائِجَكَ؟ قَالَ: فَقَالَ أَبُو بُرْدَةَ : إِلَّا حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ أَبِي ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَجْمَعُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْأُمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ لِأَبِي بُرْدَةَ: آللَّهِ لَسَمِعْتَ أَبَا مُوسَى يُحَدِّثُ بِهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَعَمْ، لَأَنَا سَمِعْتُهُ مِنْ أَبِي يُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کے پاس کوئی باندی ہو اور وہ اسے آزاد کر کے اس سے نئے مہر کے ساتھ نکاح کرلے تو اسے دہرا اجرملے گا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بالغ لڑکی سے اس کے نکاح کی اجازت لی جائے گی، اگر وہ خاموش رہے تو گویا اس نے اجازت دے دی اور اگر وہ انکار کردے تو اسے اس رشتے پر مجبور نہ کیا جائے۔
حدثنا محمد بن سابق ، حدثنا ربيع يعني ابا سعيد النصري ، عن معاوية بن إسحاق ، عن ابي بردة. قال ابو بردة : حدثني ابي ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن هذه الامة مرحومة، جعل الله عز وجل عذابها بينها، فإذا كان يوم القيامة، دفع إلى كل امرئ منهم رجل من اهل الاديان، فيقال: هذا يكون فداءك من النار" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ ، حَدَّثَنَا رَبِيعٌ يَعْنِي أَبَا سَعِيدٍ النَّصْرِيَّ ، عَن مُعَاوِيَةَ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ. قَالَ أَبُو بُرْدَةَ : حَدَّثَنِي أَبِي ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ مَرْحُومَةٌ، جَعَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَذَابَهَا بَيْنَهَا، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ، دُفِعَ إِلَى كُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْأَدْيَانِ، فَيُقَالُ: هَذَا يَكُونُ فِدَاءَكَ مِنَ النَّارِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ امت، امت مرحومہ ہے اللہ نے اس کا عذاب ان کے درمیان ہی رکھ دیا ہے، جب قیامت کا دن آئے گا تو ان میں سے ہر ایک کو دوسرے ادیان و مذاہب کا ایک ایک آدمی دے کر کہا جائے گا کہ یہ شخص جہنم سے بچاؤ کا تمہارے لئے فدیہ ہے
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ربيع أبو سعيد النصري مجهول
حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، حدثنا داود بن عبد الله الاودي ، عن حميد بن عبد الرحمن الحميري ، ان رجلا كان يقال له: حممة، من اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم خرج إلى اصبهان غازيا في خلافة عمر رضي الله عنه، فقال:" اللهم إن حممة يزعم انه يحب لقاءك، فإن كان حممة صادقا، فاعزم له بصدقه، وإن كان كاذبا، فاعزم عليه، وإن كره، اللهم لا ترد حممة من سفره هذا، قال: فاخذه الموت وقال عفان مرة: البطن فمات باصبهان، قال: فقام ابو موسى ، فقال: يا ايها الناس، إنا والله ما سمعنا فيما سمعنا من نبيكم صلى الله عليه وسلم، وما بلغ علمنا، إلا ان: حممة شهيد .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَوْدِيُّ ، عَن حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ يُقَالُ لَهُ: حَمَمَةُ، مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى أَصْبَهَانَ غَازِيًا فِي خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ إِنَّ حَمَمَةَ يَزْعُمُ أَنَّهُ يُحِبُّ لِقَاءَكَ، فَإِنْ كَانَ حَمَمَةُ صَادِقًا، فَاعْزِمْ لَهُ بِصِدْقِهِ، وَإِنْ كَانَ كَاذِبًا، فَاعْزِمْ عَلَيْهِ، وَإِنْ كَرِهَ، اللَّهُمَّ لَا تَرُدَّ حَمَمَةَ مِنْ سَفَرِهِ هَذَا، قَالَ: فَأَخَذَهُ الْمَوْتُ وَقَالَ عَفَّانُ مَرَّةً: الْبَطْنُ فَمَاتَ بأَصْبَهَانَ، قَالَ: فَقَامَ أَبُو مُوسَى ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّا وَاللَّهِ مَا سَمِعْنَا فِيمَا سَمِعْنَا مِنْ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا بَلَغَ عِلْمَنَا، إِلَّا أَنَّ: حَمَمَةَ شَهِيدٌ .
حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ایک آدمی تھا جس کا نام " حممہ " تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے تھا وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جہاد کے لئے اصفہان کی طرف روانہ ہوا اور یہ دعاء کی کہ اے اللہ! حممہ کا یہ خیال ہے کہ وہ تجھ سے ملنے کو پسند کرتا ہے اگر حممہ سچا ہے تو اس کی سچائی اور عزم کو پورا فرما اور اگر وہ جھوٹا ہے تو اسے اس کا عزم عطاء فرما اگرچہ اسے ناپسند ہی ہو اے اللہ! حممہ کو اس سفر سے واپس نہ لوٹا، چناچہ اسے موت نے آلیا اور وہ اصفہان میں ہی فوت ہوگیا حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے لوگو! ہم نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا اور جہاں تک ہمارا علم پہنچتا ہے وہ یہی ہے کہ حممہ شہید ہوا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن ثبت سماع حميد بن عبدالرحمن لهذه القصة من أبى موسي
حدثنا عفان ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، حدثنا عاصم الاحول ، عن ابي كبشة ، قال: سمعت ابا موسى ، يقول على المنبر: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مثل الجليس الصالح، كمثل العطار، إن لا يحذك يعبق بك من ريحه، ومثل الجليس السوء كمثل صاحب الكير" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَن أَبِي كَبْشَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُوسَى ، يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ، كَمَثَلِ الْعَطَّارِ، إِنْ لَا يُحْذِكَ يَعْبَقُ بِكَ مِنْ رِيحِهِ، وَمَثَلُ الْجَلِيسِ السَّوْءِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْكِيرِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھے ہم نشین کی مثال عطار کی سی ہے کہ اگر وہ اپنے عطر کی شیشی تمہارے قریب بھی نہ لائے تو اس کی مہک تم تک پہنچے گی اور برے ہم نشین کی مثال بھٹی کی سی ہے کہ اگر وہ تمہیں نہ بھی جلائے تب بھی اس کی گرمی اور شعلے تو تم تک پہنچیں گے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى كبشة، وقد اختلف فيه على عاصم الأحول
قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما سمي القلب من تقلبه، إنما مثل القلب كمثل ريشة معلقة في اصل شجرة، يقلبها الريح ظهرا لبطن" .قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا سُمِّيَ الْقَلْبُ مِنْ تَقَلُّبِهِ، إِنَّمَا مَثَلُ الْقَلْبِ كَمَثَلِ رِيشَةٍ مُعَلَّقَةٍ فِي أَصْلِ شَجَرَةٍ، يُقَلِّبُهَا الرِّيحُ ظَهْرًا لِبَطْنٍ" .
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قلب کو قلب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ پلٹتا رہتا ہے اور دل کی مثال تو اس پر کی سی ہے جو کسی درخت کی جڑ میں پڑا ہو اور ہوا اسے الٹ پلٹ کرتی رہتی ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى كبشة، وقد اختلف فيه على عاصم الأحول
قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن بين ايديكم فتنا، كقطع الليل المظلم، يصبح الرجل فيها مؤمنا، ويمسي كافرا، ويمسي مؤمنا، ويصبح كافرا، القاعد فيها خير من القائم، والقائم فيها خير من الماشي، والماشي فيها خير من الساعي"، قالوا: فما تامرنا؟ قال:" كونوا احلاس بيوتكم" .قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ فِتَنًا، كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا، وَيُمْسِي كَافِرًا، وَيُمْسِي مُؤْمِنًا، وَيُصْبِحُ كَافِرًا، الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي"، قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ:" كُونُوا أَحْلَاسَ بُيُوتِكُمْ" .
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے آگے تاریک رات کے حصوں کی طرح فتنے آرہے ہیں اس زمانے میں ایک آدمی صبح کو مسلمان اور شام کو کافر ہوگا یا شام کو مسلمان اور صبح کو کافر ہوگا، اس زمانے میں بیٹھا ہوا شخص کھڑے ہوئے سے، کھڑا ہوا چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے گھر کا ٹاٹ بن جانا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، راجع ما قبله
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فتنوں کے زمانے میں اپنی کمانیں توڑ دینا تانتیں کاٹ دینا اپنے گھروں کے ساتھ چمٹ جانا اور حضرت آدم کے بہترین بیٹے (ہابیل) کی طرح ہوجانا۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا شعبة ، عن قتادة ، عن انس ، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " مثل المؤمن الذي يقرا القرآن مثل الاترجة، طعمها طيب، وريحها طيب، ومثل المؤمن الذي لا يقرا القرآن مثل التمرة، طعمها طيب، ولا ريح لها، ومثل المنافق الذي يقرا القرآن كمثل الريحانة، طيب ريحها، ولا طعم لها"، وقال يحيى مرة:" طعمها مر، ومثل المنافق الذي لا يقرا القرآن مثل الحنظلة، لا ريح لها، وطعمها خبيث" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَن قَتَادَةَ ، عَن أَنَسٍ ، عَن أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ الْأُتْرُجَّةِ، طَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَرِيحُهَا طَيِّبٌ، وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ التَّمْرَةِ، طَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَلَا رِيحَ لَهَا، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ، طَيِّبٌ رِيحُهَا، وَلَا طَعْمَ لَهَا"، وَقَالَ يَحْيَى مَرَّةً:" طَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ الْحَنْظَلَةِ، لَا رِيحَ لَهَا، وَطَعْمُهَا خَبِيثٌ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس مسلمان کی مثال جو قرآن کریم پڑھتا ہے اترج کی سی ہے جس کا ذائقہ بھی عمدہ ہوتا ہے اور اس کی مہک بھی عمدہ ہوتی ہے، اس مسلمان کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور کی سی ہے جس کا ذائقہ تو عمدہ ہوتا ہے لیکن اس کی مہک نہیں ہوتی، اس گنہگار کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے ریحان کی سی ہے جس کا ذائقہ تو کڑوا ہوتا ہے لیکن مہک عمدہ ہوتی ہے۔ اور اس فاجر کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اندرائن کی سی ہے جس کا ذائقہ بھی کڑوا ہوتا ہے اور اس کی مہک بھی نہیں ہوتی۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا هشام ، قال: حدثنا قتادة ، عن يونس بن جبير ، عن حطان بن عبد الله الرقاشي : ان الاشعري صلى باصحابه صلاة، فقال رجل من القوم حين جلس في صلاته: اقرت الصلاة بالبر والزكاة، فلما قضى الاشعري صلاته، اقبل على القوم، فقال: ايكم القائل كلمة كذا وكذا؟ فارم القوم قال ابو عبد الرحمن: قال ابي: ارم: السكوت قال: لعلك يا حطان قلتها لحطان بن عبد الله قال: والله إن قلتها، ولقد رهبت ان تبعكني بها، قال رجل من القوم: انا قلتها، وما اردت بها إلا الخير، فقال الاشعري : الا تعلمون ما تقولون في صلاتكم؟ فإن نبي الله صلى الله عليه وسلم خطبنا، فعلمنا سنتنا، وبين لنا صلاتنا، فقال: " اقيموا صفوفكم، ثم ليؤمكم اقرؤكم، فإذا كبر فكبروا، وإذا قال: ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7، فقولوا: آمين، يجبكم الله، فإذا كبر الإمام، وركع، فكبروا واركعوا، فإن الإمام يركع قبلكم، ويرفع قبلكم، قال نبي الله صلى الله عليه وسلم:" فتلك بتلك، فإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: اللهم ربنا لك الحمد، يسمع الله لكم، فإن الله عز وجل قال على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم: سمع الله لمن حمده، وإذا كبر الإمام وسجد، فكبروا واسجدوا، فإن الإمام يسجد قبلكم، ويرفع قبلكم"، قال نبي الله صلى الله عليه وسلم:" فتلك بتلك، فإذا كان عند القعدة، فليكن من اول قول احدكم ان يقول: التحيات الطيبات الصلوات لله، السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، اشهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا عبده ورسوله" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَن يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَن حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ : أَنَّ الْأَشْعَرِيَّ صَلَّى بِأَصْحَابِهِ صَلَاةً، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ حِينَ جَلَسَ فِي صَلَاتِهِ: أَقَرَّتْ الصَّلَاةُ بِالْبِرِّ وَالزَّكَاةِ، فَلَمَّا قَضَى الْأَشْعَرِيُّ صَلَاتَهُ، أَقْبَلَ عَلَى الْقَوْمِ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا؟ فَأَرَمَّ الْقَوْمُ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: قَالَ أَبِي: أَرَمَّ: السُّكُوتُ قَالَ: لَعَلَّكَ يَا حِطَّانُ قُلْتَهَا لِحِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: وَاللَّهِ إِنْ قُلْتُهَا، وَلَقَدْ رَهِبْتُ أَنْ تَبْعَكَنِي بِهَا، قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا قُلْتُهَا، وَمَا أَرَدْتُ بِهَا إِلَّا الْخَيْرَ، فَقَالَ الْأَشْعَرِيُّ : أَلَا تَعْلَمُونَ مَا تَقُولُونَ فِي صَلَاتِكُمْ؟ فَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا، فَعَلَّمَنَا سُنَّتَنَا، وَبَيَّنَ لَنَا صَلَاتَنَا، فَقَالَ: " أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمْ أَقْرَؤُكُمْ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَالَ: وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، فَقُولُوا: آمِينَ، يُجِبْكُمْ اللَّهُ، فَإِذَا كَبَّرَ الْإِمَامُ، وَرَكَعَ، فَكَبِّرُوا وَارْكَعُوا، فَإِنَّ الْإِمَامَ يَرْكَعُ قَبْلَكُمْ، وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ، قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَتِلْكَ بِتِلْكَ، فَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، يَسْمَعْ اللَّهُ لَكُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، وَإِذَا كَبَّرَ الْإِمَامُ وَسَجَدَ، فَكَبِّرُوا وَاسْجُدُوا، فَإِنَّ الْإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ، وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ"، قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَتِلْكَ بِتِلْكَ، فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ، فَلْيَكُنْ مِنْ أَوَّلِ قَوْلِ أَحَدِكُمْ أَنْ يَقُولَ: التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ" .
حطان بن عبداللہ کہتے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی، دوران نماز جب " جلسے " میں بیٹھے تو ایک کہنے لگا کہ نماز کو نیکی اور زکوٰۃ سے قرار دیا گیا ہے نماز سے فارغ ہو کر حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا کہ تم میں سے کس نے یہ کلمہ کہا ہے؟ لوگ خاموش رہے انہوں نے حطان سے کہا کہ حطان! شاید تم نے یہ جملہ کہا ہے؟ حطان نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نے یہ جملہ نہیں کہا اور میں اسی سے ڈررہا تھا کہ کہیں آپ مجھے بیوقوف نہ قرار دے دیں، پھر ایک آدمی بولا کہ میں نے ہی جملہ کہا ہے اور صرف خیرہی کی نیت سے کہا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ نماز میں کیا پڑھنا چاہئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیں ایک مرتبہ خطبہ دیا تھا اور اس میں ہمارے سامنے سنتیں اور نماز کا طریقہ واضح کردیا تھا اور فرمایا تھا صفیں سیدھی رکھا کرو پھر جو زیادہ قرآن پڑھا ہوا ہو وہ امام کرائے جب وہ تکبیر کہیں تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو، اللہ تمہاری پکار کو قبول کرے گا جب وہ تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے تو تم بھی تکبیر کہہ کر رکوع کرو کیونکہ امام تم سے پہلے رکوع کرے گا اور تم سے پہلے سر اٹھائے گا یہ تو برابر برابر ہوگیا۔ جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنالک الحمد کہو اللہ تمہاری پکار کیونکہ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ فرمایا ہے کہ جو اللہ کی تعریف کرتا ہے اللہ اس کی سن لیتا ہے جب وہ تکبیر کہہ کر سجدے میں جائے تو تم بھی تکبیر کہہ کر سجدہ کرو کیونکہ امام تم سے پہلے سجدہ کرے گا اور سر اٹھائے گا اور یہ بھی برابر برابر ہوگیا۔ جب وہ قعدے میں بیٹھے تو سب سے پہلے تمہیں یوں کہنا چاہئے التحیات الطیبات الصلوات للہ السلام علیک ایہا النبی ورحمتہ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین اشہدان لا الہ الا اللہ واشہدان محمدا عبدہ ورسولہ۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا قرة بن خالد ، حدثنا حميد بن هلال ، حدثنا ابو بردة ، قال: قال ابو موسى الاشعري : اقبلت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، ومعي رجلان من الاشعريين، احدهما عن يميني، والآخر عن يساري، فكلاهما سال العمل، والنبي صلى الله عليه وسلم يستاك، قال:" ما تقول يا ابا موسى، او: يا عبد الله بن قيس؟"، قال: قلت: والذي بعثك بالحق، ما اطلعاني على ما في انفسهما، وما شعرت انهما يطلبان العمل، قال: فكاني انظر إلى سواكه تحت شفته، قلصت، قال:" إني، او: لا نستعمل على عملنا من اراده، ولكن اذهب انت يا ابا موسى، او: يا عبد الله بن قيس"، فبعثه على اليمن، ثم اتبعه معاذ بن جبل، فلما قدم عليه، قال: انزل، والقى له وسادة، فإذا رجل عنده موثق، قال:" ما هذا؟" قال: كان يهوديا، فاسلم، ثم راجع دينه دين السوء، فتهود، قال: لا اجلس حتى يقتل، قضاء الله ورسوله، ثلاث مرار، فامر به، فقتل ، ثم تذاكرنا قيام الليل، فقال معاذ بن جبل: اما انا فانام واقوم، او: اقوم وانام، وارجو في نومتي ما ارجو في قومتي.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ : أَقْبَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعِي رَجُلَانِ مِنَ الْأَشْعَرِيِّينَ، أَحَدُهُمَا عَنْ يَمِينِي، وَالْآخَرُ عَنْ يَسَارِي، فَكِلَاهُمَا سَأَلَ الْعَمَلَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَاكُ، قَالَ:" مَا تَقُولُ يَا أَبَا مُوسَى، أَوْ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ؟"، قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، مَا أَطْلَعَانِي عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمَا، وَمَا شَعُرْتُ أَنَّهُمَا يَطْلُبَانِ الْعَمَلَ، قَالَ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى سِوَاكِهِ تَحْتَ شَفَتِهِ، قَلَصَتْ، قَالَ:" إِنِّي، أَوْ: لَا نَسْتَعْمِلُ عَلَى عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَهُ، وَلَكِنْ اذْهَبْ أَنْتَ يَا أَبَا مُوسَى، أَوْ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ"، فَبَعَثَهُ عَلَى الْيَمَنِ، ثُمَّ أَتْبَعَهُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلَيْهِ، قَالَ: انْزِلْ، وَأَلْقَى لَهُ وِسَادَةً، فَإِذَا رَجُلٌ عِنْدَهُ مُوثَقٌ، قَالَ:" مَا هَذَا؟" قَالَ: كَانَ يَهُودِيًّا، فَأَسْلَمَ، ثُمَّ رَاجَعَ دِينَهُ دِينَ السَّوْءِ، فَتَهَوَّدَ، قَالَ: لَا أَجْلِسُ حَتَّى يُقْتَلَ، قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثَلَاثَ مِرَارٍ، فَأَمَرَ بِهِ، فَقُتِلَ ، ثُمَّ تَذَاكَرْنَا قِيَامَ اللَّيْلِ، فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: أَمَّا أَنَا فَأَنَامُ وَأَقُومُ، أَوْ: أَقُومُ وَأَنَامُ، وَأَرْجُو فِي نَوْمَتِي مَا أَرْجُو فِي قَوْمَتِي.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اشعریین کے آدمی بھی تھے جن میں سے ایک میری دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب تھا اس قوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک فرما رہے تھے ان دونوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی عہدہ مانگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ابوموسیٰ! تم کیا کہتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ان دونوں نے مجھے اپنے اس خیال سے آگاہ نہیں کیا تھا اور نہ میں ہی سمجھتا تھا کہ یہ لوگ کسی عہدے کی درخواست کرنے والے ہیں وہ منظر اس وقت بھی میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک ہونٹ کے نیچے آگئی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم کسی ایسے شخص کو کوئی عہدہ نہیں دیتے جو ہم سے اس کا مطالبہ کرتا ہے البتہ اے ابوموسیٰ! تم جاؤ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیج دیا پھر ان کے پیچھے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو روانہ کردیا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ جب وہاں پہنچے تو حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا تشریف لائیے اور ان کے لئے تکیہ رکھا وہاں! ایک آدمی رسیوں سے بندھا ہوا نظر آیا تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس کا کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ ایک یہودی تھا اس نے اسلام قبول کرلیا بعد میں اپنے ناپسندیدہ دین کی طرف لوٹ گیا اور دوبارہ یہودی ہوگیا، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو اس وقت نہیں بیٹھوں گا جب تک اسے قتل نہیں کردیا جاتا، یہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ ہے (یہ بات تین مرتبہ کہی) چناچہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا اور اسے قتل کردیا گیا، پھر ہم قیام اللیل کی باتیں کرنے لگے تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں، قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور اپنی نیند میں بھی اتنے ہی ثواب کی امید رکھتا ہوں جتنے ثواب کی امید قیام پر رکھتا ہوں۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن سفيان ، حدثني ابو بردة بن عبد الله بن ابي بردة ، عن جده ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا جاءه السائل او ذو الحاجة، قال: " اشفعوا تؤجروا، وليقض الله عز وجل على لسان رسوله ما شاء" . وقال: " المؤمن للمؤمن كالبنيان، يشد بعضه بعضا" . وقال: " الخازن الامين الذي يؤدي ما امر به طيبة به نفسه، احد المتصدقين" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَن سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَن جَدِّهِ ، عَن أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَاءَهُ السَّائِلُ أَوْ ذُو الْحَاجَةِ، قَالَ: " اشْفَعُوا تُؤْجَرُوا، وَلْيَقْضِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى لِسَانِ رَسُولِهِ مَا شَاءَ" . وَقَالَ: " الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ، يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا" . وَقَالَ: " الْخَازِنُ الْأَمِينُ الَّذِي يُؤَدِّي مَا أُمِرَ بِهِ طَيِّبَةً بِهِ نَفْسُهُ، أَحَدُ الْمُتَصَدِّقِينَ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی سائل آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں فرماتے تم اس کی سفارش کرو تمہیں اجر ملے گا اور اللہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر وہی فیصلہ جاری فرمائے گا جو اسے محبوب ہوگا۔ اور فرمایا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہوتا ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔ اور امانت دارخزانچی وہ ہوتا ہے کہ اسے جس چیز کا حکم دیا جائے وہ اسے مکمل، پورا اور دل کی خوشی کے ساتھ ادا کردے تاکہ صدقہ کرنے والوں نے جسے دینے کا حکم دیا ہے اس تک وہ چیز پہنچ جائے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مردوں میں سے کامل افراد تو بہت گذرے ہیں لیکن عورتوں میں کامل عورتیں صرف حضرت آسیہ رضی اللہ عنہ " جو فرعون کی بیوی تھیں " اور حضرت مریم (علیہا السلام) گذری ہیں اور تمام عورتوں پر عائشہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کو فضیلت حاصل ہے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہودی لوگ یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس دن کا روزہ رکھا کرو۔
حدثنا ابو اسامة ، عن طلحة بن يحيى ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كان يوم القيامة، دفع إلى كل مؤمن رجل من اهل الملل، فيقال له: هذا فداؤك من النار" .حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَن طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ، دُفِعَ إِلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمِلَلِ، فَيُقَالَ لَهُ: هَذَا فِدَاؤُكَ مِنَ النَّارِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب قیامت کا دن آئے گا تو ہر ایک مسلمان کو دوسرے ادیان و مذاہب کا ایک ایک آدمی دے کر کہا جائے گا کہ یہ شخص جہنم سے بچاؤ کا تمہارے لئے فدیہ ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2767، وهذا إسناده حسن
حدثنا ابو داود الحفري ، حدثنا سفيان ، عن قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب ، قال: قال ابو موسى : قدمت من اليمن، قال: فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم:" بم اهللت؟"، قال: قلت: بإهلال كإهلال النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فقال:" هل معك من هدي؟"، قال: قلت: يعني لا، قال: فامرني، فطفت بالبيت، وبين الصفا، والمروة، ثم اتيت امراة من قومي، فمشطت راسي، وغسلته، ثم احللت، فلما كان يوم التروية اهللت بالحج ، قال: فكنت افتي الناس بذلك إمارة ابي بكر، وعمر رضي الله تعالى عنهما، فبينا انا واقف في سوق الموسم، إذ جاء رجل فسارني، فقال: إنك لا تدري ما احدث امير المؤمنين في شان النسك، قال: قلت: ايها الناس، من كنا افتيناه في شيء فليتئد، فهذا امير المؤمنين قادم عليكم، فبه فاتموا، قال: فقال لي: إن ناخذ بكتاب الله تعالى، فإنه يامر بالتمام، وإن ناخذ بسنة نبينا صلى الله عليه وسلم، فإنه لم يحل، حتى نحر الهدي.حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَن قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَن طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى : قَدِمْتُ مِنَ الْيَمَنِ، قَالَ: فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِمَ أَهْلَلْتَ؟"، قَالَ: قُلْتُ: بِإِهْلَالٍ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَالَ:" هَلْ مَعَكَ مِنْ هَدْيٍ؟"، قَالَ: قُلْتُ: يَعْنِي لَا، قَالَ: فَأَمَرَنِي، فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ، وَبَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَوْمِي، فَمَشَطَتْ رَأْسِي، وَغَسَلَتْهُ، ثُمَّ أَحْلَلْتُ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ أَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ ، قَالَ: فَكُنْتُ أُفْتِي النَّاسَ بِذَلِكَ إِمَارَةَ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا، فَبَيْنَا أَنَا وَاقِفٌ فِي سُوقِ الْمَوْسِمِ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ فَسَارَّنِي، فَقَالَ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ، قَالَ: قُلْتُ: أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ فِي شَيْءٍ فَلْيَتَّئِدْ، فَهَذَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ، فَبِهِ فَأْتَمُّوا، قَالَ: فَقَالَ لِي: إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى، فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالتَّمَامِ، وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ، حَتَّى نَحَرَ الْهَدْيَ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی قوم کے علاقے میں بھیج دیا، جب حج کاموسم قریب آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لئے تشریف لے گئے میں نے بھی حج کی سعادت حاصل کی، میں جب حاضرخدمت میں ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابطح میں پڑاؤ کئے ہوئے تھے مجھ سے پوچھا کہ اے عبداللہ بن قیس! تم نے کس نیت سے احرام باندھا؟ میں نے عرض کیا " لبیک بحج کحج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھایہ بتاؤ کہ کیا اپنے ساتھ ہدی کا جانور لائے ہو؟ میں نے کہا نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا کر بیت اللہ کا طواف کرو، صفا مروہ کے درمیان سعی کرو اور حلال ہوجاؤ۔ چناچہ میں چلا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق کرلیا پھر اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا، اس نے " خطمی " سے میرا سر دھویا اور میرے سر کی جوئیں دیکھیں، پھر میں نے آٹھ دی الحج کو حج کا احرام باندھ لیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک لوگوں کو یہی فتویٰ دیتا رہا جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی یہی صورت حال رہی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو ایک دن میں حجر اسود کے قریب کھڑا ہوا تھا اور لوگوں کو یہی مسئلہ بتارہا تھا جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا کہ اچانک ایک آدمی آیا اور سرگوشی میں مجھ سے کہنے لگا کہ یہ فتویٰ دینے میں جلدی سے کام مت لیجئے کیونکہ امیرالمومنین نے مناسک حج کے حوالے سے کچھ نئے احکام جاری کئے ہیں۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ اے لوگو! جسے ہم نے مناسک حج کے حوالے سے کوئی فتویٰ دیا ہو وہ انتظار کرے کیونکہ امیرالمؤمنین آنے والے ہیں آپ ان ہی کی اقتداء کریں، پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تو میں نے ان سے پوچھا اے امیرالمؤمنین! کیا مناسک حج کے حوالے سے آپ نے کچھ نئے احکام جاری کئے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں! اگر ہم کتاب اللہ کو لیتے ہیں تو وہ ہمیں اتمام کا حکم دیتی ہے اور اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لیتے ہیں تو انہوں نے قربانی کرنے تک احرام نہیں کھولا تھا۔
حدثنا وكيع ، حدثنا مغيرة الكندي ، عن سعيد بن ابي بردة ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني لاتوب إلى الله عز وجل في كل يوم مئة مرة" ، قال عبد الله: يعني: مغيرة بن ابي الحر.حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ الْكِنْدِيُّ ، عَن سَعِيدٍ بن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِيهِ ، عَن جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَتُوبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي كُلِّ يَوْمٍ مِئَةَ مَرَّةٍ" ، قَالَ عَبْد اللَّهِ: يَعْنِي: مُغِيرَةَ بْنَ أَبِي الْحُرِّ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں روزانہ سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔
حكم دارالسلام: صحيح من حديث الأغر المزني، وهذا إسناد خالف فيه المغيرة الكندي
حدثنا وكيع ، حدثنا شعبة ، عن سعيد بن ابي بردة ، عن ابيه ، عن ابي موسى ، قال: بعثني النبي صلى الله عليه وسلم انا ومعاذ بن جبل إلى اليمن، فقلت: يا رسول الله، إن شرابا يصنع بارضنا، يقال له: المزر من الشعير، وشراب يقال له: البتع من العسل، فقال: " كل مسكر حرام" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَن سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِيهِ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ إِلَى الْيَمَنِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ شَرَابًا يُصْنَعُ بِأَرْضِنَا، يُقَالُ لَهُ: الْمِزْرُ مِنَ الشَّعِيرِ، وَشَرَابٌ يُقَالُ لَهُ: الْبِتْعُ مِنَ الْعَسَلِ، فَقَالَ: " كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے یمن کی طرف بھیجا) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہاں کچھ مشروبات رائج ہیں، مثلاً جو کی نبیذ ہے جسے مزر کہا جاتا ہے اور شہد کی نبیذ ہے جسے " تبع " کہا جاتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4345 تعليقاً، م: 1733
حدثنا وكيع ، حدثني بريد بن ابي بردة ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا مر احدكم بالنبل في المسجد، فليمسك بنصولها" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنِي بُرَيْدُ بْنُ أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِيهِ ، عَن جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا مَرَّ أَحَدُكُمْ بِالنَّبْلِ فِي الْمَسْجِدِ، فَلْيُمْسِكْ بِنُصُولِهَا" .
حضرت عبداللہ بن قیس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم مسلمانوں کی مسجدوں اور بازاروں میں جایا کرو اور تمہارے پاس تیر ہوں تو ان کا پھل قابو میں رکھا کرو۔
حدثنا ابو اسامة ، عن طلحة بن يحيى ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كان يوم القيامة، دفع إلى كل مؤمن رجل من اهل الملل، فيقال له: هذا فداؤك من النار" .حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَن طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ، دُفِعَ إِلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمِلَلِ، فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا فِدَاؤُكَ مِنَ النَّارِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب قیامت کا دن آئے گا تو ہر ایک مسلمان کو دوسرے ادیان و مذاہب کا ایک ایک آدمی دے کر کہا جائے گا کہ یہ شخص جہنم سے بچاؤ کا تمہارے لئے فدیہ ہے۔
حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا سليمان ، عن الحسن ، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا تواجه المسلمان بسيفيهما، فقتل احدهما صاحبه، فهما في النار"، قيل: يا رسول الله، هذا القاتل، فما بال المقتول؟ قال:" إنه اراد قتل صاحبه" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونٍَ ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ ، عَن الْحَسَنِ ، عَن أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا، فَقَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ، فَهُمَا فِي النَّارِ"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الْقَاتِلُ، فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟ قَالَ:" إِنَّهُ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے سامنے آجائیں اور ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کردے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ قاتل کی بات تو سمجھ میں آجاتی ہے مقتول کا کیا معاملہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہتا تھا۔
حكم دارالسلام: صحيح الغيره، وهذا إسناد منقطع، الحسن البصري لم يسمع من أبى موسى
حدثنا يزيد ، اخبرنا داود ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: استاذن ابو موسى على عمر رضي الله تعالى عنهما ثلاثا، فلم يؤذن له، فرجع، فلقيه عمر، فقال: ما شانك رجعت؟ قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من استاذن ثلاثا، فلم يؤذن له، فليرجع" ، فقال: لتاتين على هذا ببينة، او: لافعلن ولافعلن، فاتى مجلس قومه، فناشدهم الله تعالى، فقلت: انا معك، فشهدوا له بذلك، فخلى سبيله.حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ ، عَن أَبِي نَضْرَةَ ، عَن أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ أَبُو مُوسَى عَلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا ثَلَاثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، فَرَجَعَ، فَلَقِيَهُ عُمَرُ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ رَجَعْتَ؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مِنَ اسْتَأْذَنَ ثَلَاثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، فَلْيَرْجِعْ" ، فَقَالَ: لَتَأْتِيَنَّ عَلَى هَذَا بِبَيِّنَةٍ، أَوْ: لَأَفْعَلَنَّ وَلَأَفْعَلَنَّ، فَأَتَى مَجْلِسَ قَوْمِهِ، فَنَاشَدَهُمْ اللَّهَ تَعَالَى، فَقُلْتُ: أَنَا مَعَكَ، فَشَهِدُوا لَهُ بِذَلِكَ، فَخَلَّى سَبِيلَهُ.
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تین مرتبہ سلام کیا، انہیں اجازت نہیں ملی تو وہ واپس چلے گئے بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ان سے ملاقات ہوئی تو پوچھا کہ تم واپس کیوں چلے گئے انہوں نے فرمایا کہ میں نے تین مرتبہ اجازت لی تھی، جب مجھے اجازت نہیں ملی تو میں واپس چلا گیا ہمیں اسی کا حکم دیا جاتا تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس پر گواہ پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ انصار کی ایک مجلس میں پہنچے وہ لوگ کہنے لگے کہ اس بات کی شہادت تو ہم میں سب سے چھوٹا بھی دے سکتا ہے چناچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ چلے گئے اور اس کی شہادت دے دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا راستہ چھوڑ دیا۔
حدثنا يزيد ، اخبرنا المسعودي ، وهاشم يعني ابن القاسم ، حدثنا المسعودي، عن سعيد بن ابي بردة ، عن ابيه ، عن جده ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن امتي امة مرحومة، ليس عليها في الآخرة عذاب، إنما عذابها في الدنيا: القتل، والبلابل، والزلازل" ، قال ابو النضر:" بالزلازل، والقتل، والفتن".حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، وهَاشِمٌ يعني ابن القاسم ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَن سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِيهِ ، عَن جَدِّهِ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أُمَّتِي أُمَّةٌ مَرْحُومَةٌ، لَيْسَ عَلَيْهَا فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ، إِنَّمَا عَذَابُهَا فِي الدُّنْيَا: الْقَتْلُ، وَالْبَلَابِلُ، وَالزَّلَازِلُ" ، قَالَ أَبُو النَّضْرِ:" بِالزَّلَازِلِ، وَالْقَتْلِ، وَالْفِتَنِ".
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت، امت مرحومہ ہے، آخرت میں اس پر کوئی عذاب نہیں ہوگا اس کا عذاب دنیا ہی میں قتل و غارت، پریشانیاں اور زلزلے ہے۔
حكم دارالسلام: ضعيف، يزيد ابن هارون وهاشم بن القاسم رويا عن المسعودي بعد الاختلاط، وقد اختلف فيه على أبى بردة
حدثنا يزيد ، قال: اخبرنا العوام بن حوشب ، حدثنا إبراهيم ابن إسماعيل السكسكي ، انه سمع ابا بردة بن ابي موسى، واصطحب هو ويزيد بن ابي كبشة في سفر، وكان يزيد يصوم، فقال له ابو بردة : سمعت ابا موسى مرارا يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا مرض العبد، او: سافر، كتب له من الاجر مثل ما كان يعمل مقيما صحيحا" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ السَّكْسَكِيُّ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا بُرْدَةَ بْنَ أَبِي مُوسَى، وَاصْطَحَبَ هُوَ وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي كَبْشَةَ فِي سَفَرٍ، وَكَانَ يَزِيدُ يَصُومُ، فَقَالَ لَهُ أَبُو بُرْدَةَ : سَمِعْتُ أَبَا مُوسَى مِرَارًا يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا مَرِضَ الْعَبْدُ، أَوْ: سَافَرَ، كُتِبَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ مَا كَانَ يَعْمَلُ مُقِيمًا صَحِيحًا" .
ابوبردہ اور یزید بن ابی کبثہ ایک مرتبہ سفر میں اکٹھے تھے یزید دوران سفر روزہ رکھتے تھے ابوبردہ نے ان سے کہا کہ میں نے اپنے والد حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو کئی مرتبہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی شخص بیمار ہوجاتا ہے یا سفر پر چلا جاتا ہے تو اس کے لئے اتنا ہی اجر لکھا جاتا ہے جتنا مقیم اور تندرست ہونے کی حالت میں اعمال پر ملتا ہے۔
حدثنا عفان ، وعبد الصمد ، قالا: حدثنا جعفر ، المعنى، قال عفان في حديثه: سمعت ابا عمران الجوني يقول: حدثنا ابو بكر بن عبد الله بن قيس ، قال: سمعت ابي ، وهو بحضرة العدو، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن ابواب الجنة تحت ظلال السيوف" ، قال: فقام رجل من القوم رث الهيئة، فقال: يا ابا موسى، اانت سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول هذا؟ قال: نعم، قال: فرجع إلى اصحابه، فقال اقرا عليكم السلام، ثم كسر جفن سيفه، ثم مشى بسيفه إلى العدو، فضرب به حتى قتل.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، وَعَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ ، الْمَعْنَى، قَالَ عَفَّانُ فِي حَدِيثِهِ: سَمِعْتُ أَبَا عِمْرَانَ الْجَوْنِيَّ يَقُولُ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، وَهُوَ بِحَضْرَةِ الْعَدُوِّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَبْوَابَ الْجَنَّةِ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ" ، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ رَثُّ الْهَيْئَةِ، فَقَالَ: يَا أَبَا مُوسَى، أَأَنْتَ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ هَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَرَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ أَقْرَأُ عَلَيْكُمْ السَّلَامَ، ثُمَّ كَسَرَ جَفْنَ سَيْفِهِ، ثُمَّ مَشَى بِسَيْفِهِ إِلَى الْعَدُوِّ، فَضَرَبَ بِهِ حَتَّى قُتِلَ.
ابوبکربن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ دشمن کے لشکر کے سامنے میں نے اپنے والد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے میں ہیں یہ سن کر ایک پراگندہ ہیئت آدمی لوگوں میں سے کھڑا ہو اور کہنے لگا اے ابوموسیٰ! کیا یہ حدیث آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! وہ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس پہنچا اور انہیں آخری مرتبہ سلام کیا اپنی تلوار کی نیام توڑ کر پھینکی اور تلوار لے کر چل پڑا اور اس شدت کے ساتھ لڑا کہ بالآخر شہید ہوگیا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت کا ایک خیمہ ایک جوف دار موتی سے بنا ہوگا آسمان میں جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی اور اس کے ہر کونے میں ایک مسلمان کے جو اہل خانہ ہوں گے، دوسرے کونے والے انہیں دیکھ نہ سکیں۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو جنتیں (باغ) چاندی کی ہوں گی ان کے برتن اور ہر چیز چاندی کی ہوگی دو جنتیں سونے کی ہوں گی اور ان کے برتن اور ہر چیز سونے کی ہوگی اور جنت عدن میں اپنے پروردگار کی زیارت میں لوگوں کے درمیان صرف کبریائی کی چادر ہی حائل ہوگی جو اس کے رخ تاباں پر ہے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت کا ایک خیمہ ایک جوف دار موتی سے بنا ہوگا آسمان میں جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی اور اس کے ہر کونے میں ایک مسلمان کے جو اہل خانہ ہوں گے، دوسرے کونے والے انہیں دیکھ نہ سکیں۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہودی لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر چھینکیں مارتے تھے تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جواب میں یہ کہہ دیں کہ اللہ تم پر رحم فرمائے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھینک کے جواب میں یوں فرماتے کہ اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارے احوال کی اصلاح فرمائے۔
حدثنا محمد بن الصباح ، قال عبد الله: وسمعته انا من محمد بن الصباح، قال: حدثنا إسماعيل بن زكريا ، عن بريد ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تعاهدوا القرآن، فإنه اشد تفلتا من قلوب الرجال من الإبل من عقلها" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، قَالَ عَبْد اللَّهِ: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا ، عَن بُرَيْدٍ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَعَاهَدُوا الْقُرْآنَ، فَإِنَّهُ أَشَدُّ تَفَلُّتًا مِنْ قُلُوبِ الرِّجَالِ مِنَ الْإِبِلِ مِنْ عُقُلِهَا" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس قرآن کی حفاظت کیا کرو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے یہ اپنی رسی چھڑا کر بھاگ جانے والے اونٹ سے زیادہ تم میں سے کسی کے سینے سے جلدی نکل جاتا ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سعيد بن ابي بردة ، عن ابيه ، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " على كل مسلم صدقة"، قالوا: فإن لم يجد؟ قال:" يعتمل بيديه، فينفع نفسه ويتصدق"، قالوا: فإن لم يفعل، او: يستطع؟ قال:" يعين ذا الحاجة الملهوف"، قالوا: فإن لم يستطع، او: لم يفعل؟ قال:" يامر بالخير"، قالوا: فإن لم يستطع او يفعل؟ قال:" يمسك عن الشر، فإنه صدقة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَن سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِيهِ ، عَن أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ"، قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَجِدْ؟ قَالَ:" يَعْتَمِلُ بِيَدَيْهِ، فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ وَيَتَصَدَّقُ"، قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ، أَوْ: يَسْتَطِعْ؟ قَالَ:" يُعِينُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَ"، قَالَوا: فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ، أَوْ: لَمْ يَفْعَلْ؟ قَالَ:" يَأْمُرُ بِالْخَيْرِ"، قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَوْ يَفْعَلْ؟ قَالَ:" يُمْسِكُ عَنِ الشَّرِّ، فَإِنَّهُ صَدَقَةٌ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر مسلمان پر صدقہ کرنا واجب ہے کسی نے پوچھا یہ بتائیے کہ اگر کسی کے پاس کچھ نہ ہو تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے ہاتھ سے محنت کرے، اپنا بھی فائدہ کرے اور صدقہ بھی کرے، سائل نے پوچھا یہ بتائیے کہ اگر وہ اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی ضرورت مند، فریادی کی مدد کر دے سائل نے پوچھا اگر کوئی شخص یہ بھی نہ کرسکے تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خیریا عدل کا حکم دے سائل نے پوچھا اگر یہ بھی نہ کرسکے تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کسی کو تکلیف پہنچانے سے اپنے آپ کو روک کر رکھے اس کے لئے یہی صدقہ ہے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے ساتھ میری قوم کے دو آدمی بھی آئے تھے ان دونوں نے دوران گفتگو کوئی عہدہ طلب کیا جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا میرے نزدیک تم میں سب سے بڑا خائن وہ ہے جو کسی عہدے کا طلب گار ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضيعف الإبهام أخي إسماعيل بن أبى خالد
حدثنا ابو قطن ، حدثنا يونس ، قال: قال ابو بردة : قال ابو موسى : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تستامر اليتيمة في نفسها، فإن سكتت فقد اذنت، وإن انكرت لم تكره" ، قلت ليونس: سمعته منه او: سمعته من ابي بردة؟ قال: نعم.حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ ، قَالَ: قَالَ أَبُو بُرْدَةَ : قَالَ أَبُو مُوسَى : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تُسْتَأْمَرُ الْيَتِيمَةُ فِي نَفْسِهَا، فَإِنْ سَكَتَتْ فَقَدْ أَذِنَتْ، وَإِنْ أَنْكَرَتْ لَمْ تُكْرَهْ" ، قُلْتُ لِيُونُسَ: سَمِعْتَهُ مِنْهُ أَوْ: سَمِعْتَهُ مِنْ أَبِي بُرْدَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بالغ لڑکی سے اس کے نکاح کی اجازت لی جائے گی، اگر وہ خاموش رہے تو گویا اس نے اجازت دے دی اور اگر وہ انکار کردے تو اسے اس رشتے پر مجبور نہ کیا جائے۔
حدثنا بهز ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، حدثنا ابو عمران الجوني ، عن ابي بكر بن ابي موسى ، عن ابيه ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " ابشروا وبشروا الناس، من قال: لا إله إلا الله، صادقا بها، دخل الجنة" ، فخرجوا يبشرون الناس، فلقيهم عمر رضي الله عنه، فبشروه، فردهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من ردكم؟"، قالوا: عمر، قال:" لم رددتهم يا عمر؟" قال: إذا يتكل الناس يا رسول الله.حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَن أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَن أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَبْشِرُوا وَبَشِّرُوا النَّاسَ، مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، صَادِقًا بِهَا، دَخَلَ الْجَنَّةَ" ، فَخَرَجُوا يُبَشِّرُونَ النَّاسَ، فَلَقِيَهُمْ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَبَشَّرُوهُ، فَرَدَّهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ رَدَّكُمْ؟"، قَالُوا: عُمَرُ، قَالَ:" لِمَ رَدَدْتَهُمْ يَا عُمَرُ؟" قَالَ: إِذًَا يَتَّكِلَ النَّاسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میرے ساتھ میری قوم کے کچھ لوگ بھی تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خوشخبری قبول کرو اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو سنا دو کہ جو شخص صدق دل کے ساتھ لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے نکل کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہونے پر ان کو یہ خوشخبری سنانے لگے وہ ہمیں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! اس طرح تو لوگ اسی بات پر بھروسہ کرکے بیٹھ جائیں گے
حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن الاسود ، قال: قال ابو موسى : لقد ذكرنا علي بن ابي طالب رضي الله عنه صلاة كنا نصليها مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، إما نسيناها، وإما تركناها عمدا، يكبر كلما ركع، وكلما رفع، وكلما سجد .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَن أَبِي إِسْحَاقَ ، عَن الْأَسْوَدِ ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى : لَقَدْ ذَكَّرَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ صَلَاةً كُنَّا نُصَلِّيهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِمَّا نَسِينَاهَا، وَإِمَّا تَرَكْنَاهَا عَمْدًا، يُكَبِّرُ كُلَّمَا رَكَعَ، وَكُلَّمَا رَفَعَ، وَكُلَّمَا سَجَدَ .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد دلا دی ہے جو ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے تھے جسے ہم بھلاچکے تھے یا عمداً چھوڑ چکے تھے وہ ہر مرتبہ رکوع کرتے وقت، سر اٹھاتے وقت اور سجدے میں جاتے ہوئے اللہ اکبر کہتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على أبى إسحاق
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کو کسی کی تعریف (اس کے منہ پر) کرتے ہوئے اور اس میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے دیکھا تو فرمایا تم نے اس کی کمر توڑ ڈالی۔
حدثنا ابو عبد الرحمن مؤمل ، قال: حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، حدثنا عاصم ، عن ابي وائل ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اللهم اجعل عبيدا ابا عامر فوق اكثر الناس يوم القيامة" ، قال: فقتل عبيد يوم اوطاس، وقتل ابو موسى قاتل عبيد، قال: قال ابو وائل: ارجو ان لا يجمع الله عز وجل بين قاتل عبيد، وبين ابي موسى في النار.حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ مُؤَمَّلٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَن أَبِي وَائِلٍ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ اجْعَلْ عُبَيْدًا أَبَا عَامِرٍ فَوْقَ أَكْثَرِ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" ، قَالَ: فَقُتِلَ عُبَيْدٌ يَوْمَ أَوْطَاسٍ، وَقَتَلَ أَبُو مُوسَى قَاتِلَ عُبَيْدٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو وَائِلٍ: أَرْجُو أَنْ لَا يَجْمَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بَيْنَ قَاتِلِ عُبَيْدٍ، وَبَيْنَ أَبِي مُوسَى فِي النَّارِ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! عبید ابوعامر کو قیامت کے دن بہت سے لوگوں پر فوقیت عطاء فرما عبید رضی اللہ عنہ غزوہ اوطاس کے موقع پر شہید ہوگئے تھے اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان کے قاتل کو قتل کردیا تھا۔ ابو وائل کہتے ہیں مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عبید کے قاتل اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو جہنم میں جمع نہیں کرے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف مؤمل
حدثنا ابو عبد الرحمن عبد الله بن يزيد ، حدثنا المسعودي ، عن عدي بن ثابت ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: لقي عمر اسماء بنت عميس، رضي الله عنهما، فقال: نعم القوم انتم، لولا انكم سبقتم بالهجرة، ونحن افضل منكم، قالت: كنتم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلم جاهلكم، ويحمل راجلكم، وفررنا بديننا، فقالت: لا انتهي حتى ادخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدخلت، فذكرت ما قال لها عمر رضي الله عنه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " بل لكم الهجرة مرتين: هجرتكم إلى الحبشة، وهجرتكم إلى المدينة" .حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَن عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: لَقِيَ عُمَرُ أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَيْسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقَالَ: نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ، لَوْلَا أَنَّكُمْ سَبَقْتُمْ بِالْهِجْرَةِ، وَنَحْنُ أَفْضَلُ مِنْكُمْ، قَالَتْ: كُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُ جَاهِلَكُمْ، وَيَحْمِلُ رَاجِلَكُمْ، وَفَرَرْنَا بِدِينِنَا، فَقَالَتْ: لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَتْ، فَذَكَرَتْ مَا قَالَ لَهَا عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَلْ لَكُمْ الْهِجْرَةُ مَرَّتَيْنِ: هِجْرَتُكُمْ إِلَى الْحَبَشَةِ، وَهِجْرَتُكُمْ إِلَى الْمَدِينَةِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت اسماء رضی اللہ عنہ حبشہ سے واپس آئیں تو مدینہ منورہ کے کسی راستے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کا آمنا سامنا ہوگیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا حبشہ جانے والی ہو؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگ بہترین قوم تھے اگر تم سے ہجرت مدینہ نہ چھوٹتی انہوں نے فرمایا کہ تم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے وہ تمہارے پیدل چلنے والوں کو سواری دیتے تمہارے جاہل کو علم سکھاتے اور ہم لوگ اس وقت اپنے دین کو بچانے کے لئے نکلے تھے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کئے بغیر اپنے گھر واپس نہ جاؤں گی چناچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ساری بات بتادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری دو ہجرتیں ہوئیں ایک مدینہ منورہ کی طرف اور دوسری ہجرت حبشہ کی جانب۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 4230، م: 2503، المسعودي اختلط
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ایک جنازہ تیزی سے لے کر گذرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سکون کے ساتھ چلنا چاہئے۔
حدثنا القاسم بن مالك ابو جعفر ، حدثنا عاصم بن كليب ، عن ابي بردة ، قال: دخلت على ابي موسى في بيت ابنة ام الفضل، فعطست ولم يشمتني، وعطست فشمتها، فرجعت إلى امي، فاخبرتها، فلما جاءها، قالت: عطس ابني عندك، فلم تشمته، وعطست فشمتها! فقال: إن ابنك عطس، فلم يحمد الله تعالى، فلم اشمته، وإنها عطست، فحمدت الله تعالى، فشمتها، وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إذا عطس احدكم، فحمد الله، فشمتوه، وإن لم يحمد الله عز وجل، فلا تشمتوه" ، فقالت: احسنت احسنت.حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ أَبُو جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي مُوسَى فِي بَيْتِ ابْنَةِ أُمِّ الْفَضْلِ، فَعَطَسْتُ وَلَمْ يُشَمِّتْنِي، وَعَطَسَتْ فَشَمَّتَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَى أُمِّي، فَأَخْبَرْتُهَا، فَلَمَّا جَاءَهَا، قَالَتْ: عَطَسَ ابْنِي عِنْدَكَ، فَلَمْ تُشَمِّتْهُ، وَعَطَسَتْ فَشَمَّتَّهَا! فَقَالَ: إِنَّ ابْنَكِ عَطَسَ، فَلَمْ يَحْمَدْ اللَّهَ تَعَالَى، فَلَمْ أُشَمِّتْهُ، وَإِنَّهَا عَطَسَتْ، فَحَمَدَتْ اللَّهَ تَعَالَى، فَشَمَّتُّهَا، وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ، فَحَمِدَ اللَّهَ، فَشَمِّتُوهُ، وَإِنْ لَمْ يَحْمَدْ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَلَا تُشَمِّتُوهُ" ، فَقَالَتْ: أَحْسَنْتَ أَحْسَنْتَ.
ابوبردہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ بنت ام الفضل کے گھر میں حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ موجود تھے میں بھی وہاں چلا گیا مجھے چھینک آئی تو انہوں نے مجھے اس کا جواب نہیں دیا اور خاتون کو چھینک آئی تو انہوں نے جواب دیا، میں نے اپنی والدہ کے پاس آکر انہیں یہ بات بتائی جب والد صاحب آئے تو انہوں نے کہا کہ میرے بیٹے کو آپ کے سامنے چھینک آئی تو آپ نے جواب نہیں دیا اور اس خاتون کو چھینک آئی تو جواب دے دیا؟ انہوں نے فرمایا کہ تمہارے صاحبزادے کو جب چھینک آئی تو اس نے الحمدللہ نہیں کہا تھا لہٰذا میں نے اسے جواب نہیں دیا اور اسے چھینک آئی تو اس نے الحمدللہ کہا تھا لہٰذا میں نے اسے جواب بھی دے دیا کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی شخص چھینکنے کے بعد الحمدللہ کہے تو اسے جواب دو اور اگر وہ الحمدللہ نہ کہے تو اسے جواب بھی مت دو اس پر والدہ نے کہا آپ نے خوب کیا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص دنیا کو پسند کرتا ہے اس کی آخرت کا نقصان ہوجاتا ہے اور جو شخص آخرت کو پسند کرتا ہے اس کی دنیا کا نقصان ہوجاتا ہے تم باقی رہنے والی چیز کو فناء ہوجانے والی چیز پر ترجیح دو۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، المطلب ابن عبدالله لا يعرف له سماع من الصحابة
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص دنیا کو پسند کرتا ہے اس کی آخرت کا نقصان ہوجاتا ہے اور جو شخص آخرت کو پسند کرتا ہے اس کی دنیا کا نقصان ہوجاتا ہے تم باقی رہنے والی چیز کو فناء ہوجانے والی چیز پر ترجیح دو۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، المطلب بن عبدالله لا يعرف له سماع من الصحابة
حدثنا وكيع ، حدثنا شعبة ، عن سعيد بن ابي بردة ، عن ابيه ، ان النبي صلى الله عليه وسلم بعث معاذا، وابا موسى، إلى اليمن، فقال: " بشروا ولا تنفروا، ويسروا ولا تعسروا، وتطاوعا ولا تختلفا" ، قال: فكان لكل واحد منهما فسطاطا يكون فيه، يزور احدهما صاحبه. قال ابو عبد الرحمن: اظنه عن ابي موسى .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَن سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا، وَأَبَا مُوسَى، إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ: " بَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا، وَيَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا، وَتَطَاوَعَا وَلَا تَخْتَلِفَا" ، قَالَ: فَكَانَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا فُسْطَاطًا يَكُونُ فِيهِ، يَزُورُ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ. قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: أَظُنُّهُ عَن أَبِي مُوسَى .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے ہوئے فرمایا خوشخبری دینا، نفرت مت پھیلانا، آسانی پیدا کرنا، مشکلات میں نہ ڈالنا، ایک دوسرے کی بات ماننا اور آپس میں اختلاف نہ کرنا، چناچہ ان دونوں میں سے ہر ایک کا خیمہ تھا جس میں وہ ایک دوسرے سے ملنے کے لئے آتے رہتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 6124، م: 1733، رجاله ثقات
حدثنا حسين بن علي ، عن زائدة ، عن عبد الملك بن عمير ، عن ابي بردة بن ابي موسى ، عن ابي موسى ، قال: مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاشتد مرضه، فقال:" مروا ابا بكر يصلي بالناس"، فقالت عائشة: يا رسول الله، إن ابا بكر رجل رقيق، متى يقوم مقامك لا يستطيع ان يصلي بالناس، قال: " مروا ابا بكر، فليصل بالناس، فإنكن صواحبات يوسف" ، فاتاه الرسول، فصلى ابو بكر بالناس في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم..حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَن زَائِدَةَ ، عَن عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاشْتَدَّ مَرَضُهُ، فَقَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ، مَتَى يَقُومُ مَقَامَكَ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، قَالَ: " مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ" ، فَأَتَاهُ الرَّسُولُ، فَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ بِالنَّاسِ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ..
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور بیماری بڑھتی ہی چلی گئی تو فرمایا کہ ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھادیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ابوبکر بڑے رقیق القلب آدمی ہیں جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو نماز نہ پڑھا سکیں گے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھادیں، تم تو یوسف والیاں ہو چناچہ قاصد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طبیبہ ہی میں انہوں نے نماز پڑھائی۔ گذشہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اشارہ سے سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ سفر میں جانور کی پشت پر اس طرح نماز پڑھنی چاہئے۔
حدثنا ابو النضر ، حدثنا ابو معاوية يعني شيبان ، عن ليث ، عن ابي بردة بن ابي موسى ، عن ابيه ، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الظهر، ثم اقبل علينا بوجهه، فقال:" مكانكم"، فاستقبل الرجال، فقال: " إن الله تبارك وتعالى يامرني ان آمركم ان تتقوا الله، وان تقولوا قولا سديدا"، ثم تخطى الرجال، فاتى النساء، فقال:" إن الله تبارك وتعالى يامرني ان آمركن ان تتقين الله عز وجل، وان تقلن قولا سديدا"، ثم رجع إلى الرجال، فقال:" إذا دخلتم مساجد المسلمين واسواقهم او: اسواق المسلمين ومساجدهم ومعكم من هذه النبل شيء، فامسكوا بنصولها، لا تصيبوا احدا من المسلمين، فتؤذوه، او: تجرحوه" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ يَعْنِي شَيْبَانَ ، عَن لَيْثٍ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَن أَبِيهِ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الظُّهْرِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ:" مَكَانَكُمْ"، فَاسْتَقْبَلَ الرِّجَالَ، فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَأْمُرُنِي أَنْ آمُرَكُمْ أَنْ تَتَّقُوا اللَّهَ، وَأَنْ تَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا"، ثُمَّ تَخَطَّى الرِّجَالَ، فَأَتَى النِّسَاءَ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَأْمُرُنِي أَنْ آمُرَكُنَّ أَنْ تَتَّقِينَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَنْ تَقُلْنَ قَوْلًا سَدِيدًا"، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الرِّجَالِ، فَقَالَ:" إِذَا دَخَلْتُمْ مَسَاجِدَ الْمُسْلِمِينَ وَأَسْوَاقَهُمْ أَوْ: أَسْوَاقَ الْمُسْلِمِينَ وَمَسَاجِدَهُمْ وَمَعَكُمْ مِنْ هَذِهِ النَّبْلِ شَيْءٌ، فَأَمْسِكُوا بِنُصُولِهَا، لَا تُصِيبُوا أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَتُؤْذُوهُ، أَوْ: تَجْرَحُوهُ" .
حضرت عبداللہ بن قیس سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور نماز کے بعد فرمایا اپنی جگہ پر ہی رکو پھر پہلے مردوں کے پاس آکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اللہ سے ڈرنے اور درست بات کہنے کا حکم دوں، پھر خواتین کے پاس جا کر ان سے بھی یہی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اللہ سے ڈرنے اور درست بات کہنے کا حکم دوں، پھر واپس مردوں کے پاس آکر فرمایا جب تم مسلمانوں کی مسجدوں اور بازاروں میں جایا کرو اور تمہارے پاس تیر ہوں تو ان کا پھل قابو میں رکھا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کسی کو لگ جائے اور تم کسی کو اذیت پہنچاؤ یا زخمی کردو۔
حكم دارالسلام: قوله منه : إذا دخلتم مساجد المسلمين وأسواقهم ... إلى آخر الحديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس چیز کا رنگ آگ نے بدل ڈالا ہو اسے کھانے کے بعد وضو کیا کرو۔
حكم دارالسلام: إسناده فيه ضعف وانقطاع، المبارك بن فضالة يدلس ويسوي، وقد عنعن، والحسن لم يسمع من أبى موسى
حدثنا ابو النضر ، قال: حدثنا ابو معاوية يعني شيبان ، عن ليث ، عن ابي بردة بن ابي موسى ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا مرت بكم جنازة، فإن كان مسلما، او يهوديا، او نصرانيا، فقوموا لها، فإنه ليس لها نقوم، ولكن نقوم لمن معها من الملائكة" قال ليث: فذكرت هذا الحديث لمجاهد، فقال: حدثني عبد الله بن سخبرة الازدي، قال: إنا لجلوس مع علي رضي الله عنه، ننتظر جنازة، إذ مرت بنا اخرى، فقمنا، فقال علي رضي الله عنه: ما يقيمكم؟ فقلنا: هذا ما تاتونا به يا اصحاب محمد، قال: وما ذاك، قلت: زعم ابو موسى: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا مرت بكم جنازة، إن كان مسلما، او يهوديا، او نصرانيا، فقوموا لها، فإنه ليس لها نقوم، ولكن نقوم لمن معها من الملائكة"، فقال علي رضي الله عنه: ما فعلها رسول الله صلى الله عليه وسلم قط غير مرة، برجل من اليهود، وكانوا اهل كتاب، وكان يتشبه بهم، فإذا نهي انتهى، فما عاد لها بعد.حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ يَعْنِي شَيْبَانَ ، عَن لَيْثٍ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَن أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا مَرَّتْ بِكُمْ جِنَازَةٌ، فَإِنْ كَانَ مُسْلِمًا، أَوْ يَهُودِيًّا، أَوْ نَصْرَانِيًّا، فَقُومُوا لَهَا، فَإِنَّهُ لَيْسَ لَهَا نَقُومُ، وَلَكِنْ نَقُومُ لِمَنْ مَعَهَا مِنَ الْمَلَائِكَةِ" قَالَ لَيْثٌ: فَذَكَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِمُجَاهِدٍ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَخْبَرَةَ الْأَزْدِيُّ، قَالَ: إِنَّا لَجُلُوسٌ مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، نَنْتَظِرُ جِنَازَةً، إِذْ مَرَّتْ بِنَا أُخْرَى، فَقُمْنَا، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَا يُقِيمُكُمْ؟ فَقُلْنَا: هَذَا مَا تَأْتُونَا بِهِ يَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ، قَالَ: وَمَا ذَاكَ، قُلْتُ: زَعَمَ أَبُو مُوسَى: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا مَرَّتْ بِكُمْ جِنَازَةٌ، إِنْ كَانَ مُسْلِمًا، أَوْ يَهُودِيًّا، أَوْ نَصْرَانِيًّا، فَقُومُوا لَهَا، فَإِنَّهُ لَيْسَ لَهَا نَقُومُ، وَلَكِنْ نَقُومُ لِمَنْ مَعَهَا مِنَ الْمَلَائِكَةِ"، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَا فَعَلَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ غَيْرَ مَرَّةٍ، بِرَجُلٍ مِنْ اليهود، وَكَانُوا أَهْلَ كِتَابٍ، وَكَانَ يَتَشَبَّهُ بِهِمْ، فَإِذَا نُهِيَ انْتَهَى، فَمَا عَادَ لَهَا بَعْدُ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تمہارے سامنے سے کی یہودی، عیسائی یا مسلمان کا جنازہ گذرے تو تم کھڑے ہوجایا کرو، کیونکہ تم جنازے کی خاطر کھڑے نہیں ہوگے، ان فرشتوں کی وجہ سے کھڑے ہوگے جو جنازے کے ساتھ ہوتے ہیں۔ عبداللہ بن سخبرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے کسی جنازے کا انتظار کر رہے تھے کہ ایک دوسرا جنازہ ہمارے پاس سے گذراہم لوگ کھڑے ہوگئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تم لوگ کیوں کھڑے ہوگئے؟ ہم نے کہا آپ لوگوں ہی نے تو ہمیں یہ بات بتائی ہے انہوں نے فرمایا وہ کیا؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہارے سامنے سے کی یہودی، عیسائی یا مسلمان کا جنازہ گذرے تو تم کھڑے ہوجایا کرو، کیونکہ ہم اس کے لئے کھڑے نہیں ہوگے، اس کے ساتھ موجود فرشتوں کی خاطر کھڑے ہوں گے اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح صرف ایک مرتبہ یہودی کے ساتھ کیا تھا یہ لوگ اہل کتاب تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مشابہت اختیار کرتے تھے جب اس کی ممانعت ہوگئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے اور دوبارہ اس طرح نہیں کیا۔
حكم دارالسلام: هذا الحديث إنما هو حديثان : أولهما: حديث أبى موسى، وهو صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، ليث ضعيف. وثانيهما : حديث على ، وهو صحيح دون قوله : وكانوا أهل كتاب، وكان يتشبه بهما
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک آدمی نے کچھ مانگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس کی سفارش کرو، تمہیں اجر ملے گا اور اللہ اپنے نبی کی زبان پر وہی فیصلہ جاری فرمائے گا جو اسے محبوب ہوگا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت " طعن اور طاعون " سے فناء ہوگی طاعون کا معنی بتاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے دشمن جنات کے کچوکے اور دونوں صورتوں میں شہادت ہے۔
حكم دارالسلام: في إسناده أبو يلج الفزاري وهو مختلف فيه
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص فرض نمازوں کے علاوہ دن بھر میں بارہ رکعتیں پڑھ لے جنت میں اس کا گھر بنادیا جائے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، قد اختلف فيه على حماد بن زيد راويه عنه
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی عورت عطر لگا کر کچھ لوگوں کے پاس سے گذرتی ہے تاکہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ ایسی ایسی ہے (بدکار ہے)
حدثنا عبدة بن سليمان ، قال: حدثنا صالح بن صالح ، عن الشعبي ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كانت له جارية، فادبها، فاحسن ادبها، وعلمها، فاحسن تعليمها، ثم اعتقها، وتزوجها، فله اجران، وايما رجل من اهل الكتاب آمن بنبيه، وآمن بمحمد، فله اجران، وايما عبد مملوك ادى حق الله عز وجل عليه، وحق مواليه، فله اجران" .حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ صَالِحٍ ، عَن الشَّعْبِيِّ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ، فَأَدَّبَهَا، فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا، وَعَلَّمَهَا، فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، ثُمَّ أَعْتَقَهَا، وَتَزَوَّجَهَا، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ، وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَأَيُّمَا عَبْدٍ مَمْلُوكٍ أَدَّى حَقَّ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ، وَحَقَّ مَوَالِيهِ، فَلَهُ أَجْرَانِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کے پاس کوئی باندی ہو اور وہ اسے عمدہ تعلیم دلائے بہترین ادب سکھائے پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کرلے تو اسے دہرا اجر ملے گا، اسی طرح وہ غلام جو اپنے اللہ کا حق بھی ادا کرتا ہو اور اپنے آقا کا حق بھی ادا کرتا ہو یا اہل کتاب میں سے وہ آدمی جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر بھی ایمان لایا ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر بھی ایمان لایا ہو اسے بھی دہرا اجر ملے گا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ہمیشہ روزہ رکھتا ہے اس پر جہنم اس طرح تنگ ہوجائے گی یہ کہہ کر انہوں نے اپنی ہتھیلیوں کو مٹھی کی طرح بند کر کے دکھایا۔
حكم دارالسلام: موقوفه صحيح قد اختلف على أبى تميمه فى رفعه ووقفه
حدثنا وكيع ، قال: حدثنا شعبة ، عن ابي التياح الضبعي ، قال: سمعت رجلا وصفه كان يكون مع ابن عباس، قال: كتب ابو موسى إلى ابن عباس: إنك رجل من اهل زمانك، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن بني إسرائيل كان احدهم إذا اصابه الشيء من البول، قرضه بالمقاريض"، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على دمث يعني: مكانا لينا فبال فيه، وقال:" إذا بال احدكم، فليرتد لبوله" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَن أَبِي التَّيَّاحِ الضُّبَعِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا وَصَفَهُ كَانَ يَكُونُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَتَبَ أَبُو مُوسَى إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ: إِنَّكَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ زَمَانِكَ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَ أَحَدُهُمْ إِذَا أَصَابَهُ الشَّيْءُ مِنَ الْبَوْلِ، قَرَضَهُ بِالْمَقَارِيضِ"، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى دَمْثٍ يَعْنِي: مَكَانًا لَيِّنًا فَبَالَ فِيهِ، وَقَالَ:" إِذَا بَالَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَرْتَدْ لِبَوْلِهِ" .
ابوالتیاح ایک طویل سیاہ فام آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بصرہ آیا انہوں نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے انہیں جواب میں لکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ جا رہے تھے کہ ایک باغ کے پہلو میں نرم زمین کے قریب پہنچ کر پیشاب کیا اور فرمایا بنی اسرائیل میں جب کوئی شخص پیشاب کرتا اور اس کے جسم پر معمولی سا پیشاب لگ جاتا تو وہ اس جگہ کو قینچی سے کاٹ دیا کرتا تھا اور فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص پیشاب کا ارادہ کرے تو اس کے لئے نرم زمین تلاش کرے۔
حكم دارالسلام: صحيح الغيره دون قوله: إذا بال أحدكم ... وهذا إسناده ضعيف ، لإبهام الرجل الراوي عنه أبو التياح
حدثنا وكيع ، قال: حدثنا علي بن علي بن رفاعة ، عن الحسن ، عن ابي موسى رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يعرض الناس يوم القيامة ثلاث عرضات: فاما عرضتان، فجدال ومعاذير، واما الثالثة: فعند ذلك تطير الصحف في الايدي، فآخذ بيمينه، وآخذ بشماله" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَلِيِّ بْنِ رِفَاعَةَ ، عَن الْحَسَنِ ، عَن أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُعْرَضُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَ عَرَضَاتٍ: فَأَمَّا عَرْضَتَانِ، فَجِدَالٌ وَمَعَاذِيرُ، وَأَمَّا الثَّالِثَةُ: فَعِنْدَ ذَلِكَ تَطِيرُ الصُّحُفُ فِي الْأَيْدِي، فَآخِذٌ بِيَمِينِهِ، وَآخِذٌ بِشِمَالِهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن لوگوں کو تین مرتبہ پیش کیا جائے گا پہلے دو عرضوں میں جھگڑے اور معذرتیں ہوں اور تیسرے عرضے کے وقت اعمال نامے اڑ اڑ کر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچیں گے کسی کے دائیں ہاتھ میں اور کسی کے بائیں ہاتھ میں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، الحسن البصري لم يسمع من أبى موسى
حدثنا ابو عامر ، قال: حدثنا زهير ، عن اسيد بن ابي اسيد ، عن موسى بن ابي موسى الاشعري ، عن ابيه ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الميت يعذب ببكاء الحي عليه، إذا قالت النائحة: واعضداه، واناصراه، واكاسباه، جبذ الميت، وقيل له: آنت عضدها؟ آنت ناصرها؟ آنت كاسبها؟" فقلت: سبحان الله! يقول الله عز وجل: ولا تزر وازرة وزر اخرى سورة الانعام آية 164، فقال: ويحك، احدثك عن ابي موسى، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وتقول هذا! فاينا كذب؟ فوالله ما كذبت على ابي موسى، ولا كذب ابو موسى على رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَن أَسِيدِ بْنِ أَبِي أَسِيدٍ ، عَن مُوسَى بْنِ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، عَن أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ عَلَيْهِ، إِذَا قَالَتْ النَّائِحَةُ: وَاعَضُدَاهُ، وَانَاصِرَاهُ، وَاكَاسِبَاهُ، جُبِذَ الْمَيِّتُ، وَقِيلَ لَهُ: آَنْتَ عَضُدُهَا؟ آَنْتَ نَاصِرُهَا؟ آَنْتَ كَاسِبُهَا؟" فَقُلْتُ: سُبْحَانَ اللَّهِ! يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى سورة الأنعام آية 164، فَقَالَ: وَيْحَكَ، أُحَدِّثُكَ عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتَقُولُ هَذَا! فَأَيُّنَا كَذَبَ؟ فَوَاللَّهِ مَا كَذَبْتُ عَلَى أَبِي مُوسَى، وَلَا كَذَبَ أَبُو مُوسَى عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میت کو اپنے اوپر اہل محلہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے جب بین کرنے والی کہتی ہے ہائے میرا بازو، ہائے میرا مددگار، ہائے میرا کمانے والا، تو میت کو کھینچ کر پوچھا جاتا ہے کیا واقعی تو اس کا بازو، مددگار اور کمانے والا تھا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، أسيد بن أبى أسيد لم ينفرد به
حدثنا عفان ، قال: حدثنا حماد بن سلمة ، قال: اخبرنا علي بن زيد ، عن حطان بن عبد الله الرقاشي ، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن بين يدي الساعة الهرج"، فقالوا: وما الهرج؟ قال:" القتل"، قالوا: اكثر مما نقتل؟ إنا لنقتل في العام الواحد اكثر من سبعين الفا، قال:" إنه ليس بقتلكم المشركين، ولكن قتل بعضكم بعضا"، قالوا: ومعنا عقولنا يومئذ؟ قال:" إنه ينزع عقول اكثر اهل ذلك الزمان، ويخلف له هباء من الناس، يحسب اكثرهم انه على شيء، وليسوا على شيء" ، قال ابو موسى: والذي نفسي بيده، ما اجد لي ولكم منها مخرجا، إن ادركتني وإياكم، إلا ان نخرج منها كما دخلناها، لم نصب فيها دما ولا مالا.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قال: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، قال: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَن حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ ، عَن أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ الْهَرْجَ"، فَقَالُوا: وَمَا الْهَرْجُ؟ قَالَ:" الْقَتْلُ"، قَالُوا: أَكْثَرُ مِمَّا نَقْتُلُ؟ إِنَّا لَنَقْتُلُ فِي الْعَامِ الْوَاحِدِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ أَلْفًا، قَالَ:" إِنَّهُ لَيْسَ بِقَتْلِكُمْ الْمُشْرِكِينَ، وَلَكِنْ قَتْلُ بَعْضِكُمْ بَعْضًا"، قَالُوا: وَمَعَنَا عُقُولُنَا يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ:" إِنَّهُ يُنْزَعُ عُقُولُ أَكْثَرِ أَهْلِ ذَلِكَ الزَّمَانِ، وَيُخَلَّفُ لَهُ هَبَاءٌ مِنَ النَّاسِ، يَحْسَبُ أَكْثَرُهُمْ أَنَّهُ عَلَى شَيْءٍ، وَلَيْسُوا عَلَى شَيْءٍ" ، قَالَ أَبُو مُوسَى: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مِنْهَا مَخْرَجًا، إِنْ أَدْرَكَتْنِي وَإِيَّاكُمْ، إِلَّا أَنْ نَخْرُجَ مِنْهَا كَمَا دَخَلْنَاهَا، لَمْ نُصِبْ فِيهَا دَمًا وَلَا مَالًا.
راوی اسید بن ابی اسید نے یہ حدیث سن کر کہا سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کوئی شخص کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا؟ تو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا ارے کمبخت! میں تجھے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تو یہ کہہ رہا ہے، ہم میں سے کون جھوٹا ہے؟ بخدا! میں حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ پر جھوٹ نہیں بول رہا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں باندھا۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت سے پہلے " ہرج " واقع ہوگا لوگوں نے پوچھا کہ " ہرج " سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قتل، لوگوں نے پوچھا اس تعداد سے بھی زیادہ جتنے ہم قتل کردیتے ہیں؟ ہم تو ہر سال ستر ہزار سے زیادہ لوگ قتل کردیتے تھے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد مشرکین کو قتل کرنا نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کو قتل کرنا مراد ہے لوگوں نے پوچھا کیا اس موقع پر ہماری عقلیں ہمارے ساتھ ہوں گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس زمانے کے لوگوں کی عقلیں چھین لی جائیں گی اور ایسے بیوقوف لوگ رہ جائیں گے جو یہ سمجھیں گے وہ کسی دین پر قائم ہیں حالانکہ وہ کسی دین پر نہیں ہوں گے۔ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر وہ زمانہ آگیا تو میں اپنے اور تمہارے لئے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں پاتا الاّ یہ کہ ہم اس سے اسی طرح نکل جائیں جیسے داخل ہوئے تھے اور کسی کے قتل یا مال میں ملوث نہ ہوں۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح ، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ یا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو اپنے پیارے جسم میں آگ کا چھلا پہننا پسند ہو اسے چاہئے کہ سونے کا چھلا پہن لے جس شخص کو اپنے پیارے جسم پر آگ کا کنگن رکھنا پسند ہو، اسے چاہئے کہ سونے کا کنگن پہن لے، البتہ چاندی کی اجازت ہے اس لئے اسی سے دل لگی کرو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لاضطراب أسيد فيه، وقد انفرد به، فمثله لا يحتمل تفرده، وعبدالرحمن بن عبدالله ضعيف وقد أخطأ من جعل حديث أبى موسي شاهدا لحديث أبى هريرة
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی شخص یا قوم سے خوف محسوس ہوتا تو یہ دعاء فرماتے کہ اے اللہ! میں تجھے ان کے سینوں کے سامنے کرتا ہوں اور ان کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، عمران بن داود ضعيف مضطرب فيه، لكنه توبع
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی شخص یا قوم سے خوف محسوس ہوتا تو یہ دعاء فرماتے کہ اے اللہ! میں تجھے ان کے سینوں کے سامنے کرتا ہوں اور ان کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، إسناده ضعيف، قتادة لم يسمع من أبى بردة
مزیدہ بن جابر اپنی والدہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ میں کوفہ کی مسجد میں تھی، اس وقت ہمارے امیر حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تھے میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے لہٰذا تم بھی روزہ رکھو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالله بن ميسرة وجهالة أم مزيدة
حدثنا حسن ، حدثنا زهير ، عن ابي إسحاق ، عن بريد بن ابي مريم ، عن رجل من بني تميم، عن ابي موسى الاشعري ، قال: لقد صلى بنا علي بن ابي طالب رضي الله عنه، صلاة ذكرنا بها، صلاة كنا نصليها مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإما ان نكون نسيناها، وإما ان نكون تركناها عمدا، يكبر في كل رفع، ووضع، وقيام، وقعود .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَن أَبِي إِسْحَاقَ ، عَن بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ ، عَن رَجُلٍ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، عَن أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: لَقَدْ صَلَّى بِنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، صَلَاةً ذَكَّرَنَا بِهَا، صَلَاةً كُنَّا نُصَلِّيهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَسِينَاهَا، وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ تَرَكْنَاهَا عَمْدًا، يُكَبِّرُ فِي كُلِّ رَفْعٍ، وَوَضْعٍ، وَقِيَامٍ، وَقُعُودٍ .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد دلا دی ہے جو ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے تھے جسے ہم بھلا چکے تھے یا عمداً چھوڑ چکے تھے وہ ہر مرتبہ رکوع کرتے وقت، سر اٹھاتے وقت اور سجدے میں جاتے ہوئے اللہ اکبر کہتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على أبى إسحاق
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب تم نماز کے لئے اٹھو تو تم میں سے ایک کو امام بن جانا چاہئے اور جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔
حدثنا حسن بن موسى يعني الاشيب ، قال: حدثنا سكين ابن عبد العزيز ، قال: اخبرنا يزيد الاعرج قال: عبد الله: يعني اظنه الشني، قال: حدثنا حمزة بن علي بن مخفر ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض اسفاره، قال: فعرس بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانتبهت بعض الليل إلى مناخ رسول الله صلى الله عليه وسلم اطلبه، فلم اجده، قال: فخرجت بارزا اطلبه، وإذا رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يطلب ما اطلب، قال: فبينا نحن كذلك، إذ اتجه إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فقلنا: يا رسول الله، انت بارض حرب، ولا نامن عليك، فلولا إذ بدت لك الحاجة، قلت لبعض اصحابك، فقام معك، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني سمعت هزيزا كهزيز الرحى او: حنينا كحنين النحل واتاني آت من ربي عز وجل، فخيرني بان يدخل ثلث امتي الجنة، وبين الشفاعة لهم، فاخترت لهم شفاعتي، وعلمت انها اوسع لهم، فخيرني بين ان يدخل شطر امتي الجنة، وبين شفاعتي لهم، فاخترت شفاعتي لهم، وعلمت انها اوسع لهم"، قال: فقالا: يا رسول الله، ادع الله تعالى ان يجعلنا من اهل شفاعتك، قال: فدعا لهما، ثم إنهما نبها اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، واخبراهم بقول رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فجعلوا ياتونه، ويقولون: يا رسول الله، ادع الله تعالى ان يجعلنا من اهل شفاعتك، فيدعو لهم، قال: فلما اضب عليه القوم، وكثروا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنها لمن مات وهو يشهد ان لا إله إلا الله" .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى يَعْنِي الْأَشْيَبَ ، قال: حَدَّثَنَا سُكَيْنُ ابْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، قال: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ الْأَعْرَجُ قال: عَبْد اللَّهِ: يَعْنِي أَظُنُّهُ الشَّنِّيَّ، قال: حَدَّثَنَا حَمْزَةُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مَخْفَرٍ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، قَالَ: فَعَرَّسَ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْتبَهْتُ بَعْضَ اللَّيْلِ إِلَى مُنَاخِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَطْلُبُهُ، فَلَمْ أَجِدْهُ، قَالَ: فَخَرَجْتُ بَارِزًا أَطْلُبُهُ، وَإِذَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَطْلُبُ مَا أَطْلُبُ، قَالَ: فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ، إِذْ اتَّجَهَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْتَ بِأَرْضِ حَرْبٍ، وَلَا نَأْمَنُ عَلَيْكَ، فَلَوْلَا إِذْ بَدَتْ لَكَ الْحَاجَةُ، قُلْتَ لِبَعْضِ أَصْحَابِكَ، فَقَامَ مَعَكَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي سَمِعْتُ هَزِيزًا كَهَزِيزِ الرَّحَى أَوْ: حَنِينًا كَحَنِينِ النَّحْلِ وَأَتَانِي آتٍ مِنْ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، فَخَيَّرَنِي بِأَنْ يَدْخُلَ ثُلْثَ أُمَّتِي الْجَنَّةَ، وَبَيْنَ الْشَفَاعَةَ لَهُمْ، فَاخْتَرْتُ لَهُمْ شَفَاعَتِي، وَعَلِمْتُ أَنَّهَا أَوْسَعُ لَهُمْ، فَخَيَّرَنِي بَيْنَ أَنْ يَدْخُلَ شَطْرَ أُمَّتِي الْجَنَّةَ، وَبَيْنَ شَفَاعَتِي لَهُمْ، فَاخْتَرْتُ شَفَاعَتِي لَهُمْ، وَعَلِمْتُ أَنَّهَا أَوْسَعُ لَهُمْ"، قَالَ: فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ تَعَالَى أَنْ يَجْعَلَنَا مِنْ أَهْلِ شَفَاعَتِكَ، قَالَ: فَدَعَا لَهُمَا، ثُمَّ إِنَّهُمَا نَبَّهَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَخْبَرَاهُمْ بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَجَعَلُوا يَأْتُونَهُ، وَيَقُولُونَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ تَعَالَى أَنْ يَجْعَلَنَا مِنْ أَهْلِ شَفَاعَتِكَ، فَيَدْعُوَ لَهُمْ، قَالَ: فَلَمَّا أَضَبَّ عَلَيْهِ الْقَوْمُ، وَكَثُرُوا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهَا لِمَنْ مَاتَ وَهُوَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہاد کے کسی سفر پر روانہ ہوئے رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا ایک مرتبہ میں رات کو اٹھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی خواب گاہ میں نہ پایا مجھے طرح طرح کے خدشات اور وساوس پیش آنے لگے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلا تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوگئی ان کی بھی وہی کیفیت تھی جو میری تھی اسی دوران سامنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آتے ہوئے دکھائی دیئے، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ جنگ کے علاقے میں ہیں ہمیں آپ کی جان کا خطرہ ہے جب آپ کو کوئی ضرورت تھی تو آپ اپنے ساتھ کسی کو کیوں نہیں لے کر گئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ایسی آواز سنی جو چکی کے چلنے سے پیدا ہوتی ہے یا جیسے مکھیوں کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے۔ میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا تھا اور اس نے مجھے ان دو میں سے کسی ایک بات کا اختیار دیا کہ میری نصف امت جنت میں داخل ہوجائے یا مجھے شفاعت کا اختیار مل جائے تو میں نے شفاعت والے پہلو کو ترجیح دے لی دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعاء کر دیجئے کہ وہ آپ کی شفاعت میں ہمیں بھی شامل کر دے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعاء کردی بعد میں ان دونوں دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو بھی اس کے متعلق بتایا تو وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے لگے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کر دیجئے کہ وہ ہمیں بھی آپ کی شفاعت میں شامل کر دے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے دعاء فرما دیتے جب یہ سلسلہ زیادہ ہی بڑھ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ ہر وہ شخص بھی جو اس حال میں مرے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو میری شفاعت میں شامل ہے۔
حكم دارالسلام: قوله ﷺ فى الشفاعة: إنها لمن مات ....إلا الله صحيح لغيره، وقوله : خيرني .... فاخترت شفاعتي لهم ، حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حمزة بن علي
حدثنا حدثنا يحيى بن إسحاق يعني السالحيني ، قال: اخبرنا حماد بن سلمة ، عن ابي سنان ، قال: دفنت ابنا لي، وإني لفي القبر، إذ اخذ بيدي ابو طلحة ، فاخرجني، فقال: الا ابشرك؟ قال: قلت: بلى، قال: حدثني الضحاك بن عبد الرحمن ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قال الله تعالى: يا ملك الموت، قبضت ولد عبدي، قبضت قرة عينه، وثمرة فؤاده؟ قال: نعم، قال: فما قال؟ قال: حمدك، واسترجع، قال: ابنوا له بيتا في الجنة، وسموه بيت الحمد" ..حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ يَعْنِي السَّالَحِينِيَّ ، قال: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَن أَبِي سِنَانٍ ، قَالَ: دَفَنْتُ ابْنًا لِي، وَإِنِّي لَفِي الْقَبْرِ، إِذْ أَخَذَ بِيَدَيَّ أَبُو طَلْحَةَ ، فَأَخْرَجَنِي، فَقَالَ: أَلَا أُبَشِّرُكَ؟ قال: قُلْتُ: بَلَى، قال: حَدَّثَنِي الضَّحَّاكُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: يَا مَلَكَ الْمَوْتِ، قَبَضْتَ وَلَدَ عَبْدِي، قَبَضْتَ قُرَّةَ عَيْنِهِ، وَثَمَرَةَ فُؤَادِهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا قَالَ؟ قَالَ: حَمِدَكَ، وَاسْتَرْجَعَ، قَالَ: ابْنُوا لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ، وَسَمُّوهُ بَيْتَ الْحَمْدِ" ..
ابوسنان کہتے ہیں کہ میں اپنے بیٹے کو دفن کرنے کے بعد ابھی قبر میں ہی تھا کہ ابوطلحہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے باہر نکالا اور کہا کہ میں تمہیں خوشخبری نہ سناؤں؟ میں نے کہا کیوں نہیں انہوں نے اپنی سند سے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث سنائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ فرشتے سے فرماتا ہے اے ملک الموت! کیا تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کرلی؟ کیا تم اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور جگر کے ٹکڑے کو لے آئے؟ وہ کہتے ہیں جی ہاں! اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ پھر میرے بندے نے کیا کہا؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ اس نے آپ کی تعریف بیان کی اور اناللہ پڑھا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنت میں اس شخص کے لئے گھر بنادو اور " بیت الحمد " اس کا نام رکھو۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو سنان ضعيف، والضحاك لم يسمع من أبى موسى الأشعري
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کے پاس کوئی باندی ہو اور وہ اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کرلے تو اسے دہرا اجر ملے گا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ ان پر بیہوشی طاری ہوئی تو لوگ رونے لگے جب انہیں افاقہ ہوا تو فرمایا میں اس شخص سے بری ہوں جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بری ہیں لوگ ان کی بیوی سے اس کی تفصیل پوچھنے لگے انہوں نے جواب دیا کہ وہ شخص جو واویلا کرے، بال نوچے اور گریبان چاک کرے۔
حدثنا عبد الصمد ، قال: حدثنا ابي ، قال: حدثنا محمد بن جحادة ، عن عبد الرحمن بن ثروان ، عن هزيل بن شرحبيل ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن بين يدي الساعة فتنا كقطع الليل المظلم، يصبح الرجل فيها مؤمنا، ويمسي كافرا، ويمسي مؤمنا، ويصبح كافرا، القاعد فيها خير من القائم، والقائم فيها خير من الماشي، والماشي فيها خير من الساعي، فاكسروا قسيكم، وقطعوا اوتاركم، واضربوا بسيوفكم الحجارة، فإن دخل على احدكم بيته، فليكن كخير ابني آدم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قال: حَدَّثَنَا أَبِي ، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ ، عَن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَرْوَانَ ، عَن هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا، وَيُمْسِي كَافِرًا، وَيُمْسِي مُؤْمِنًا، وَيُصْبِحُ كَافِرًا، الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي، فَاكْسِرُوا قِسِيَّكُمْ، وَقَطِّعُوا أَوْتَارَكُمْ، وَاضْرِبُوا بِسُيُوفِكُمْ الْحِجَارَةَ، فَإِنْ دُخِلَ عَلَى أَحَدِكُمْ بَيْتَهُ، فَلْيَكُنْ كَخَيْرِ ابْنَيْ آدَمَ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے آگے تاریک رات کے حصوں کی طرح فتنے آرہے ہیں اس زمانے میں ایک آدمی صبح کو مسلمان اور شام کو کافر ہوگا یا شام کو مسلمان اور صبح کو کافر ہوگا، اس زمانے میں بیٹھا ہوا شخص کھڑے ہوئے سے، کھڑا ہوا چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ تم اپنی کمانیں توڑ دینا تانتیں کاٹ دینا اپنے گھروں کے ساتھ چمٹ جانا اور اگر کوئی تمہارے گھر میں آئے تو حضرت آدم (علیہ السلام) کے بہترین بیٹے (ہابیل) کی طرح ہوجانا۔
حدثنا عبد الصمد ، قال: حدثنا ابو قدامة الحارث بن عبيد الإيادي ، قال: حدثنا ابو عمران يعني الجوني ، عن ابي بكر بن عبد الله ابن قيس ، عن ابيه ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " جنان الفردوس اربع ثنتان من ذهب، حليتهما وآنيتهما، وما فيهما، وثنتان من فضة، آنيتهما وحليتهما وما فيهما، وليس بين القوم وبين ان ينظروا إلى ربهم عز وجل إلا رداء الكبرياء على وجهه في جنة عدن، وهذه الانهار تشخب من جنة عدن، ثم تصدع بعد ذلك انهارا" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو قُدَامَةَ الْحَارِثُ بْنُ عُبَيْدٍ الْإِيَادِيُّ ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ يَعْنِي الْجَوْنِيَّ ، عَن أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ قَيْسٍ ، عَن أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " جِنَانُ الْفِرْدَوْسِ أَرْبَعٌ ثِنْتَانِ مِنْ ذَهَبٍ، حِلْيَتُهُمَا وَآنِيَتُهُمَا، وَمَا فِيهِمَا، وَثِنْتَانِ مِنْ فِضَّةٍ، آنِيَتُهُمَا وَحِلْيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا، وَلَيْسَ بَيْنَ الْقَوْمِ وَبَيْنَ أَنْ يَنْظُرُوا إِلَى رَبِّهِمْ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا رِدَاءُ الْكِبْرِيَاءِ عَلَى وَجْهِهِ فِي جَنَّةِ عَدْنٍ، وَهَذِهِ الْأَنْهَارُ تَشْخَبُ مِنْ جَنَّةِ عَدْنٍ، ثُمَّ تَصْدَعُ بَعْدَ ذَلِكَ أَنْهَارًا" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت الفردوس کے چار درجے ہیں ان میں سے دو جنتیں (باغ) چاندی کی ہوں گی ان کے برتن اور ہر چیز چاندی کی ہوگی دو جنتیں سونے کی ہوں گی اور ان کے برتن اور ہر چیز سونے کی ہوگی اور جنت عدن میں اپنے پروردگار کی زیارت میں لوگوں کے درمیان صرف کبریائی کی چادر ہی حائل ہوگی جو اس کے رخ تاباں پر ہے اور یہ نہریں جنت عدن سے پھوٹتی ہیں اور نہروں کی شکل میں جاری ہوجاتی ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة لضعف أبى قدامة
حدثنا ابو نعيم ، قال: حدثنا بدر بن عثمان مولى لآل عثمان قال: حدثني ابو بكر بن ابي موسى ، عن ابيه ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: واتاه سائل يساله عن مواقيت الصلاة، فلم يرد عليه شيئا، فامر بلالا، فاقام بالفجر حين انشق الفجر، والناس لا يكاد يعرف بعضهم بعضا، ثم امره، فاقام بالظهر حين زالت الشمس، والقائل يقول: انتصف النهار، او: لم ينتصف، وكان اعلم منهم، ثم امره، فاقام بالعصر، والشمس مرتفعة، ثم امره، فاقام بالمغرب حين وقعت الشمس، ثم امره، فاقام بالعشاء حين غاب الشفق، ثم اخر الفجر من الغد حتى انصرف منها، والقائل يقول: طلعت الشمس، او: كادت، واخر الظهر حتى كان قريبا من وقت العصر بالامس، ثم اخر العصر حتى انصرف منها، والقائل يقول: احمرت الشمس، ثم اخر المغرب حتى كان عند سقوط الشفق، واخر العشاء حتى كان ثلث الليل الاول، فدعا السائل، فقال:" الوقت فيما بين هذين" .حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، قال: حَدَّثَنَا بَدْرُ بْنُ عُثْمَانَ مَوْلًى لِآلِ عُثْمَانَ قال: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مُوسَى ، عَن أَبِيهِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَأَتَاهُ سَائِلٌ يَسْأَلُهُ عَنْ مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ شَيْئًا، فَأَمَرَ بِلَالًا، فَأَقَامَ بِالْفَجْرِ حِينَ انْشَقَّ الْفَجْرُ، وَالنَّاسُ لَا يَكَادُ يَعْرِفُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، ثُمَّ أَمَرَهُ، فَأَقَامَ بِالظُّهْرِ حِينَ زَالَتْ الشَّمْسُ، وَالْقَائِلُ يَقُولُ: انْتَصَفَ النَّهَارُ، أَوْ: لَمْ يَنْتَصِفْ، وَكَانَ أَعْلَمَ مِنْهُمْ، ثُمَّ أَمَرَهُ، فَأَقَامَ بِالْعَصْرِ، وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ، ثُمَّ أَمَرَهُ، فَأَقَامَ بِالْمَغْرِبِ حِينَ وَقَعَتْ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَمَرَهُ، فَأَقَامَ بِالْعِشَاءِ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ أَخَّرَ الْفَجْرَ مِنَ الْغَدِ حَتَّى انْصَرَفَ مِنْهَا، وَالْقَائِلُ يَقُولُ: طَلَعَتْ الشَّمْسُ، أَوْ: كَادَتْ، وَأَخَّرَ الظُّهْرَ حَتَّى كَانَ قَرِيبًا مِنْ وَقْتِ الْعَصْرِ بِالْأَمْسِ، ثُمَّ أَخَّرَ الْعَصْرَ حَتَّى انْصَرَفَ مِنْهَا، وَالْقَائِلُ يَقُولُ: احْمَرَّتْ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى كَانَ عِنْدَ سُقُوطِ الشَّفَقِ، وَأَخَّرَ الْعِشَاءَ حَتَّى كَانَ ثُلُثُ اللَّيْلِ الْأَوَّلُ، فَدَعَا السَّائِلَ، فَقَالَ:" الْوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ هَذَيْنِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اوقات نماز کے حوالے سے پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انہوں نے فجر کی اقامت اس وقت کہی جب طلوع فجر ہوگئی اور لوگ ایک دوسرے کو پہچان نہیں سکتے تھے پھر انہیں حکم دیا انہوں نے ظہر کی اقامت اس وقت کہی جب زوال شمس ہوگیا اور کوئی کہتا تھا کہ آدھا دن ہوگیا کوئی کہتا تھا نہیں ہوا لیکن وہ زیادہ جانتے تھے پھر انہیں حکم دیا انہوں نے عصر کی اقامت اس وقت کہی جب سورج روشن تھا پھر انہیں حکم دیا انہوں نے مغرب کی اقامت اس وقت کہی جب سورج غروب ہوگیا پھر انہیں حکم دیا انہوں نے عشاء کی اقامت اس وقت کہی جب شفق غروب ہوگئی پھر اگلے دن فجر کو اتنا مؤخر کیا کہ جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگ کہنے لگے کہ سورج طلوع ہونے ہی والا ہے ظہر کو اتنا مؤخر کیا کہ وہ گزشتہ دن کی عصر کے قریب ہوگئی عصر کو اتنا مؤخر کیا کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد لوگ کہنے لگے کہ سورج سرخ ہوگیا ہے مغرب کو سقوط شفق تک مؤخر کردیا اور عشاء کو رات کی پہلی تہائی تک مؤخر کردیا پھر سائل کو بلا کر فرمایا کہ نماز کا وقت ان دو وقتوں کے درمیان ہے۔
حدثنا زيد بن الحباب ، قال: حدثنا ابن ثوبان ، عن ابيه ، عن مكحول ، قال: حدثني ابو عائشة ، وكان جليسا لابي هريرة: ان سعيد بن العاص دعا ابا موسى الاشعري، وحذيفة بن اليمان، رضي الله عنهم، فقال: كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكبر في الفطر والاضحى؟ فقال ابو موسى : كان يكبر اربعا، تكبيره على الجنائز ، وصدقه حذيفة ، فقال ابو عائشة: فما نسيت بعد قوله تكبيره على الجنائز، وابو عائشة حاضر سعيد بن العاص.حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْبَانَ ، عَن أَبِيهِ ، عَن مَكْحُولٍ ، قال: حَدَّثَنِي أَبُو عَائِشَةَ ، وَكَانَ جَلِيسًا لِأَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ دَعَا أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ، وَحُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، فَقَالَ: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُ فِي الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى؟ فَقَالَ أَبُو مُوسَى : كَانَ يُكَبِّرُ أَرْبَعًَا، تَكْبِيرَهُ عَلَى الْجَنَائِزِ ، وَصَدَّقَهُ حُذَيْفَةُ ، فَقَالَ أَبُو عَائِشَةَ: فَمَا نَسِيتُ بَعْدُ قَوْلَهُ تَكْبِيرَهُ عَلَى الْجَنَائِزِ، وَأَبُو عَائِشَةَ حَاضِرٌ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ.
ابو عائشہ رحمہ اللہ " جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ہم نشین تھے " کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سعید بن عاص نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو بلایا اور پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر اور عیدالاضحی میں کتنی تکبیرات کہتے تھے؟ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس طرح جنازے پر چار تکبیرات کہتے تھے عیدین میں بھی چار تکبیرات کہتے تھے، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ان کی تصدیق کی ابوعائشہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اب تک ان کی ہی بات نہیں بھولا کہ " نماز جنازہ کی تکبیرات کی طرح " یاد رہے کہ ابو عائشہ رحمہ اللہ اس وقت سعید بن عاص کے پاس موجود تھے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن موقوفاً، وهذا إسناد ضعيف الجهالة حال أبى عائشة، وقد أنكر على ابن ثوبان أحاديث يرويها عن أبيه، عن مكحول
حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اعطيت خمسا: بعثت إلى الاحمر والاسود، وجعلت لي الارض طهورا ومسجدا، واحلت لي الغنائم، ولم تحل لمن كان قبلي، ونصرت بالرعب شهرا، واعطيت الشفاعة، وليس من نبي إلا وقد سال شفاعة، وإني اختبات شفاعتي، ثم جعلتها لمن مات من امتي، لم يشرك بالله شيئا" ..حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُعْطِيتُ خَمْسًا: بُعِثْتُ إِلَى الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ، وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا، وَأُحِلَّتْ لِي الْغَنَائِمُ، وَلَمْ تُحَلَّ لِمَنْ كَانَ قَبْلِي، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ شَهْرًا، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ، وَلَيْسَ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ سَأَلَ شَفَاعَةً، وَإِنِّي اخْتَبَأَتْ شَفَاعَتِي، ثُمَّ جَعَلْتُهَا لِمَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي، لَمْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا" ..
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے پانچ ایسی خصوصیات عطاء فرمائی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں مجھے ہر سرخ و سیاہ کی طرف مبعوث کیا گیا ہے، میرے لئے ساری زمین کو باعث طہارت قرار دے دیا گیا اور مسجد بنادیا گیا ہے میرے لئے مال غنیمت کو حلال کردیا گیا ہے جو کہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں تھا، ایک مہینے کی مسافت رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے مجھے شفاعت کا حق دیا گیا ہے کوئی نبی ایسا نہیں ہے جس نے خود سے شفاعت کا سوال نہ کیا ہو میں نے اپنا حق شفاعت محفوظ کر رکھا ہے اور ہر اس امتی کے لئے رکھ چھوڑا ہے جو اس حال میں مرے کہ اللہ ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد اختلف فيه على إسرائيل فى وصله وإرساله
حدثنا يونس بن محمد ، قال: حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا غيلان بن جرير ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو يستاك، وهو واضع طرف السواك على لسانه، يستن إلى فوق ، فوصف حماد كانه يرفع سواكه، قال حماد ووصفه لنا غيلان، قال: كان يستن طولا.حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قال: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَسْتَاكُ، وَهُوَ وَاضِعٌ طَرَفَ السِّوَاكِ عَلَى لِسَانِهِ، يَسْتَنُّ إِلَى فَوْقَ ، فَوَصَفَ حَمَّادٌ كَأَنَّهُ يَرْفَعُ سِوَاكَهُ، قَالَ حَمَّادٌ وَوَصَفَهُ لَنَا غَيْلَانُ، قَالَ: كَانَ يَسْتَنُّ طُولًا.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ اس وقت مسواک کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کا کنارہ زبان پر رکھا ہوا تھا اور زبان کے کنارے پر مسواک کر رہے تھے راوی کہتے ہیں کہ وہ طولاً مسواک کیا کرتے تھے۔
حدثنا ابو احمد ، قال: حدثنا شريك ، عن ابي إسحاق ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يدعو بهؤلاء الدعوات: " اللهم اغفر لي خطاياي، وجهلي، وإسرافي في امري، وما انت اعلم به مني، اللهم اغفر لي جدي وهزلي، وخطئي وعمدي، وكل ذلك عندي" .حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، قال: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو بِهَؤُلَاءِ الدَّعَوَاتِ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطَايَايَ، وَجَهْلِي، وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِي، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي جَدِّي وَهَزْلِي، وَخَطَئِي وَعَمْدِي، وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیں مانگا کرتے تھے اے اللہ! میرے گناہوں اور نادانیوں کو معاف فرما، حد سے زیادہ آگے بڑھنے کو اور ان کو بھی جو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے اے اللہ! سنجیدگی، مذاق، غلطی اور جان بوجھ کر ہونے والے میرے سارے گناہوں کو معاف فرما، یہ سب میری ہی طرف سے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 6398، م: 2719، شريك سيئ الحفظ لكنه متابع
حدثنا زياد بن عبد الله يعني البكائي ، قال: حدثنا منصور ، عن شقيق بن سلمة ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: سال رجل النبي صلى الله عليه وسلم وهو منكس، فقال: يا رسول الله، ما القتال في سبيل الله تعالى؟ فإن احدنا يقاتل حمية، ويقاتل غضبا، فله اجر؟ قال: فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم راسه إليه، ولولا انه كان قائما، ما رفع راسه إليه، ثم قال: " من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا، فهو في سبيل الله عز وجل" .حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي الْبَكَّائِيَّ ، قال: حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَن شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُنَكِّسٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْقِتَالُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى؟ فَإِنَّ أَحَدَنَا يُقَاتِلُ حَمِيَّةً، وَيُقَاتِلُ غَضَبًا، فَلَهُ أَجْرٌ؟ قَالَ: فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ إِلَيْهِ، وَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ قَائِمًا، مَا رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا، فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ بتائیے کہ آدمی اپنے آپ کو بہادر ثابت کرنے کے لئے لڑتا ہے ایک آدمی قومی غیرت کے جذبے سے قتال کرتا ہے اور ایک آدمی ریاکاری کے لئے قتال کرتا ہے ان میں سے اللہ کے راستے میں قتال کرنے والا کون ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر جھکا رکھا تھا اس کا سوال سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اگر وہ کھڑا ہوا نہ ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سر اٹھا کر اسے نہ دیکھتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اس لئے قتال کرتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے وہی اللہ کے راستہ میں قتال کرنے والا ہے۔
حدثنا حسن بن موسى ، قال: حدثنا زهير ، قال: حدثنا منصور بن المعتمر ، عن ابي وائل ، قال: قال ابو موسى : سال رجل، او: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس منكس راسه، فقال: ما القتال في سبيل الله عز وجل؟ فإن احدنا يقاتل حمية وغضبا، فله اجر؟ قال: فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم راسه إليه، ولولا انه كان قائما، او كان قاعدا الشك من زهير ما رفع راسه إليه، فقال: " من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا، فهو في سبيل الله عز وجل" .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، قال: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، قال: حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ ، عَن أَبِي وَائِلٍ ، قال: قال أَبُو مُوسَى : سَأَلَ رَجُلٌ، أَوْ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ مُنَكِّسٌ رَأْسَهُ، فَقَالَ: مَا الْقِتَالُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ فَإِنَّ أَحَدَنَا يُقَاتِلُ حَمِيَّةً وَغَضَبًا، فَلَهُ أَجْرٌ؟ قَالَ: فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ إِلَيْهِ، وَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ قَائِمًا، أَوْ كَانَ قَاعِدًا الشَّكُّ مِنْ زُهَيْرٍ مَا رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: " مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا، فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ بتائیے کہ آدمی اپنے آپ کو بہادر ثابت کرنے کے لئے لڑتا ہے ایک آدمی قومی غیرت کے جذبے سے قتال کرتا ہے اور ایک آدمی ریاکاری کے لئے قتال کرتا ہے ان میں سے اللہ کے راستے میں قتال کرنے والا کون ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سرجھکا رکھا تھا اس کا سوال سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اگر وہ کھڑا ہوا نہ ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سر اٹھا کر اسے نہ دیکھتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اس لئے قتال کرتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے وہی اللہ کے راستہ میں قتال کرنے والا ہے۔
حدثنا سليمان بن حرب ، قال: حدثنا عمر بن علي بن مقدم ، قال: حدثنا ابو عميس ، عن سعيد بن ابي بردة ، عن ابيه ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: اتاني ناس من الاشعريين، فقالوا: اذهب معنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن لنا حاجة، قال: فقمت معهم، فقالوا: يا رسول الله، استعن بنا في عملك، فاعتذرت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم مما قالوا، وقلت: لم ادر ما حاجتهم، فصدقني رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعذرني، وقال: " إنا لا نستعين في عملنا من سالناه" .حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قال: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مُقَدَّمٍ ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو عُمَيْسٍ ، عَن سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِيهِ ، عَن أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: أَتَانِي نَاسٌ مِنَ الْأَشْعَرِيِّينَ، فَقَالُوا: اذْهَبْ مَعَنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ لَنَا حَاجَةً، قَالَ: فَقُمْتُ مَعَهُمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَعِنْ بِنَا فِي عَمَلِكَ، فَاعْتَذَرْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا قَالُوا، وَقُلْتُ: لَمْ أَدْرِ مَا حَاجَتُهُمْ، فَصَدَّقَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَذَرَنِي، وَقَالَ: " إِنَّا لَا نَسْتَعِينُ فِي عَمَلِنَا مَنْ سَأَلَنَاهُ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میرے پاس کچھ اشعری لوگ آئے اور کہنے لگے کہ ہمارے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو، ہمیں ان سے کوئی کام ہے میں ان کے ساتھ چلا گیا، وہاں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی عہدہ مانگا میں نے ان کی بات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معذرت کی اور عرض کیا کہ مجھے ان کی اس ضرورت کے بارے کچھ پتہ نہیں تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری تصدیق فرمائی اور میرا عذر قبول کرلیا اور فرمایا ہم کسی ایسے شخص کو کوئی عہدہ نہیں دیتے جو ہم سے اس کا مطالبہ کرتا ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن سعيد بن ابي بردة ، عن ابيه ، عن جده ، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم ابا موسى، ومعاذ بن جبل، إلى اليمن، فقال لهما:" يسرا ولا تعسرا، وبشرا ولا تنفرا، وتطاوعا"، قال ابو موسى: يا رسول الله، إنا بارض يصنع فيها شراب من العسل، يقال له: البتع، وشراب من الشعير، يقال له: المزر؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كل مسكر حرام" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَن سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِيهِ ، عَن جَدِّهِ ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا مُوسَى، وَمُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ لَهُمَا:" يَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا، وَتَطَاوَعَا"، قَالَ أَبُو مُوسَى: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا بِأَرْضٍ يُصْنَعُ فِيهَا شَرَابٌ مِنَ الْعَسَلِ، يُقَالُ لَهُ: الْبِتْعُ، وَشَرَابٌ مِنَ الشَّعِيرِ، يُقَالُ لَهُ: الْمِزْرُ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے ہوئے فرمایا خوشخبری دینا، نفرت مت پھیلانا، آسانی پیدا کرنا، مشکلات میں نہ ڈالنا، ایک دوسرے کی بات ماننا اور آپس میں اختلاف نہ کرنا، حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کچھ مشروبات رائج ہیں، مثلاً جو کی نبیذ ہے جسے مزر کہا جاتا ہے اور شہد کی نبیذ ہے جسے " تبع " کہا جاتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن زياد بن علاقة ، قال: حدثني رجل من قومي، قال شعبة: قد كنت احفظ اسمه، قال: كنا على باب عثمان رضي الله عنه، ننتظر الإذن عليه، فسمعت ابا موسى الاشعري ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فناء امتي بالطعن والطاعون"، قال: فقلنا: يا رسول الله، هذا الطعن قد عرفناه، فما الطاعون؟ قال:" طعن اعدائكم من الجن، في كل شهادة" ، قال زياد: فلم ارض بقوله، فسالت سيد الحي، وكان معهم، فقال: صدق، حدثناه ابو موسى..حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَن زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ ، قال: حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ قَوْمِي، قال شُعْبَةُ: قَدْ كُنْتُ أَحْفَظُ اسْمَهُ، قَالَ: كُنَّا عَلَى بَابِ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، نَنْتَظِرُ الْإِذْنَ عَلَيْهِ، فَسَمِعْتُ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَنَاءُ أُمَّتِي بِالطَّعْنِ وَالطَّاعُونِ"، قَالَ: فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الطَّعْنُ قَدْ عَرَفْنَاهُ، فَمَا الطَّاعُونُ؟ قَالَ:" طَعْنُ أَعْدَائِكُمْ مِنَ الْجِنِّ، فِي كُلٍّ شَهَادَةٌ" ، قَالَ زِيَادٌ: فَلَمْ أَرْضَ بِقَوْلِهِ، فَسَأَلْتُ سَيِّدَ الْحَيِّ، وَكَانَ مَعَهُمْ، فَقَالَ: صَدَقَ، حَدَّثَنَاهُ أَبُو مُوسَى..
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت " طعن اور طاعون " سے فناء ہوگی کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم طعن کا معنی تو ہم نے سمجھ لیا (کہ نیزوں سے مارنا) طاعون سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے دشمن جنات کے کچوکے اور دونوں صورتوں میں شہادت ہے۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: وهذا إسناد اختلف فيه على زياد ابن علاقة
حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا عاصم الاحول ، عن ابي عثمان النهدي ، عن ابي موسى ، قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، قال: فهبطنا في وهدة من الارض، قال: فرفع الناس اصواتهم بالتكبير، فقال:" ايها الناس، اربعوا على انفسكم، فإنكم لا تدعون اصم، ولا غائبا، إنكم تدعون سميعا قريبا"، قال: ثم دعاني، وكنت منه قريبا، فقال:" يا عبد الله بن قيس، الا ادلك على كلمة من كنز الجنة؟"، قال: قلت: بلى، قال:" لا حول ولا قوة إلا بالله" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قال: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَن أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، قَالَ: فََهَبَطْنَا فِي وَهْدَةً مِنَ الْأَرْضِ، قَالَ: فَرَفَعَ النَّاسُ أَصْوَاتَهُمْ بِالتَّكْبِيرِ، فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ، وَلَا غَائِبًا، إِنَّكُمْ تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا"، قَالَ: ثُمَّ دَعَانِي، وَكُنْتُ مِنْهُ قَرِيبًا، فَقَالَ:" يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَلِمَةٍ مِنْ كَنْزِ الْجَنَّةِ؟"، قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَ:" لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جہاد کے سفر میں تھے جس ٹیلے یا بلند جگہ پر چڑھتے یا کسی نشیب میں اترتے تو بلند آواز سے تکبیر کہتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے قریب آکر فرمایا لوگو! اپنے ساتھ نرمی کرو، تم کسی بہرے یا غائب اللہ کو نہیں پکار رہے، تم سمیع وبصیر کو پکار رہے ہو جو تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے، اے عبداللہ بن قیس کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا " لاحول ولاقوۃ الاباللہ " (جنت کا ایک خزانہ ہے)
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی عورت عطر لگا کر کچھ لوگوں کے پاس سے گذرتی ہے تاکہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ ایسی ایسی ہے (بدکا رہے)
حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا سليمان يعني التيمي ، عن ابي السليل ، عن زهدم ، عن ابي موسى ، قال: اتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم نستحمله، فقال:" لا والله، لا احملكم"، فلما رجعنا، ارسل إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بثلاث ذود بقع الذرى، قال: فقلت: حلف رسول الله صلى الله عليه وسلم ان لا يحملنا، ثم حملنا، فاتيناه، فقلنا: يا رسول الله، إنك حلفت ان لا تحملنا، فحملتنا! فقال: " لم احملكم، ولكن الله حملكم، والله لا احلف على يمين، فارى غيرها خيرا منها، إلا اتيته" . قال ابو عبد الرحمن: قال ابي: ابو السليل: ضريب بن نقير.حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قال: أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي التَّيْمِيَّ ، عَن أَبِي السَّلِيلِ ، عَن زَهْدَمٍ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَسْتَحْمِلُهُ، فَقَالَ:" لَا وَاللَّهِ، لَا أَحْمِلُكُمْ"، فَلَمَّا رَجَعْنَا، أَرْسَلَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثِ ذَوْدٍ بُقْعِ الذُّرَى، قَالَ: فَقُلْتُ: حَلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَحْمِلَنَا، ثُمَّ حَمَلَنَا، فَأَتَيْنَاهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ حَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا، فَحَمَلْتَنَا! فَقَالَ: " لَمْ أَحْمِلْكُمْ، وَلَكِنَّ اللَّهَ حَمَلَكُمْ، وَاللَّهِ لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ، فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَتَيْتُهُ" . قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: قَالَ أَبِي: أَبُو السَّلِيلِ: ضُرَيْبُ بْنُ نُقَيْرٍ.
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لئے جانوروں کی درخواست کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخدا! میں تمہیں سوار نہیں کرسکوں گا کیونکہ میرے پاس تمہیں سوار کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے؟ ہم کچھ دیر " جب تک اللہ کو منظور ہوا " رکے رہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے روشن پیشانی کے تین اونٹوں کا حکم دے دیا جب ہم واپس جانے لگے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواری کے جانور کی درخواست لے کر آئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی تھی کہ وہ ہمیں سواری کا جانور نہیں دیں گے واپس چلو تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی قسم یاد دلا دیں۔ چناچہ ہم دوبارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ کے پاس سواری کے جانور کی درخواست لے کر آئے تھے اور آپ نے قسم کھائی تھی کہ ہمیں سواری کا جانور نہیں دیں گے، پھر آپ نے ہمیں جانور دے دیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہیں سوار نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے بخدا! اگر اللہ کو منظور ہوا تو میں جب بھی کوئی قسم کھاؤں گا اور کسی دوسری چیز میں خیر دیکھوں گا تو اسی کو اختیار کر کے اپنی قسم کا کفارہ دے دوں گا۔
حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا داود ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: استاذن ابو موسى على عمر رضي الله عنهما ثلاثا، فلم يؤذن له، فرجع، فلقيه عمر رضي الله عنه، فقال: ما شانك رجعت؟ قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من استاذن ثلاثا، فلم يؤذن له، فليرجع"، فقال: لتاتين على هذه ببينة، او: لافعلن ولافعلن، فاتى مجلس قومه، فناشدهم الله تعالى، فقلت: انا معك، فشهدوا له، فخلى سبيله .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونٍَ ، قال: أَخْبَرَنَا دَاوُدُ ، عَن أَبِي نَضْرَةَ ، عَن أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ أَبُو مُوسَى عَلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ثَلَاثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، فَرَجَعَ، فَلَقِيَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ رَجَعْتَ؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ اسْتَأْذَنَ ثَلَاثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، فَلْيَرْجِعْ"، فَقَالَ: لَتَأْتِيَنَّ عَلَى هَذِهِ بِبَيِّنَةٍ، أَوْ: لَأَفْعَلَنَّ وَلَأَفْعَلَنَّ، فَأَتَى مَجْلِسَ قَوْمِهِ، فَنَاشَدَهُمْ اللَّهَ تَعَالَى، فَقُلْتُ: أَنَا مَعَكَ، فَشَهِدُوا لَهُ، فَخَلَّى سَبِيلَهُ .
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تین مرتبہ سلام کیا، انہیں اجازت نہیں ملی تو وہ واپس چلے گئے بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ان سے ملاقات ہوئی تو پوچھا کہ تم واپس کیوں چلے گئے انہوں نے فرمایا کہ میں نے تین مرتبہ اجازت لی تھی، جب مجھے اجازت نہیں ملی تو میں واپس چلا گیا ہمیں اسی کا حکم دیا جاتا تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس پر گواہ پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ انصار کی ایک مجلس میں پہنچے وہ لوگ کہنے لگے کہ اس بات کی شہادت تو ہم میں سب سے چھوٹا بھی دے سکتا ہے چناچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ چلے گئے اور اس کی شہادت دے دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا راستہ چھوڑ دیا۔
حدثنا يزيد ، قال: اخبرنا سعيد ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا المسلمان تواجها بسيفيهما، فقتل احدهما صاحبه، فهما في النار"، قيل: يا رسول الله، هذا القاتل، فما بال المقتول؟ قال:" إنه اراد قتل صاحبه" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قال: أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ ، عَن قَتَادَةَ ، عَن الْحَسَنِ ، عَن أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا الْمُسْلِمَانِ تَوَاجَهَا بِسَيْفَيْهِمَا، فَقَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ، فَهُمَا فِي النَّارِ"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الْقَاتِلُ، فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟ قَالَ:" إِنَّهُ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے سامنے آجائیں اور ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ قاتل کی بات تو سمجھ میں آجاتی ہے مقتول کا کیا معاملہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہتا تھا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد منقطع، الحسن البصري لم يسمع من أبى موسى، وسماع يزيد من سعيد بن أبى عروبة بعد الاختلاط، لكنه توبع
حدثنا يزيد ، قال: اخبرنا المسعودي ، عن سعيد بن ابي بردة ، عن ابيه ، عن جده ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن امتي امة مرحومة، ليس عليها في الآخرة عذاب، إنما عذابها في الدنيا: القتل، والبلابل، والزلازل" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قال: أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَن سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِيهِ ، عَن جَدِّهِ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أُمَّتِي أُمَّةٌ مَرْحُومَةٌ، لَيْسَ عَلَيْهَا فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ، إِنَّمَا عَذَابُهَا فِي الدُّنْيَا: الْقَتْلُ، وَالْبَلاَبِلُ، وَالزَّلَازِلُ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت، امت مرحومہ ہے، آخرت میں اس پر کوئی عذاب نہیں ہوگا اس کا عذاب دنیا ہی میں قتل و غارت، پریشانیاں اور زلزلے ہیں۔
حكم دارالسلام: ضعيف، يزيد بن هارون روي عن المسعودي بعد الاختلاط، وقد اختلف فيه على أبى بردة
حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا العوام . ومحمد بن يزيد ، المعنى، قال: حدثنا العوام، قال: حدثني إبراهيم ابو إسماعيل السكسكي ، قال: سمعت ابا بردة بن ابي موسى وهو يقول ليزيد بن ابي كبشة، واصطحبا في سفر، فكان يزيد يصوم في السفر، فقال له ابو بردة: سمعت ابا موسى مرارا، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن العبد المسلم إذا مرض، او سافر، كتب له من الاجر كما كان يعمل مقيما صحيحا" ، قال محمد يعني ابن يزيد:" كتب الله له مثل ما كان يعمل مقيما صحيحا".حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونٍَ ، قال: أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ . وَمُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ ، المعنى، قال: حَدَّثَنَا الْعَوَّامُ، قال: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ أَبُو إِسْمَاعِيلَ السَّكْسَكِيُّ ، قال: سَمِعْتُ أَبَا بُرْدَةَ بْنَ أَبِي مُوسَى وَهُوَ يَقُولُ لِيَزِيدَ بْنِ أَبِي كَبْشَةَ، وَاصْطَحَبَا فِي سَفَرٍ، فَكَانَ يَزِيدُ يَصُومُ فِي السَّفَرِ، فَقَالَ لَهُ أَبُو بُرْدَةَ: سَمِعْتُ أَبَا مُوسَى مِرَارًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ إِذَا مَرِضَ، أَوْ سَافَرَ، كُتِبَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ كَمَا كَانَ يَعْمَلُ مُقِيمًا صَحِيحًا" ، قَالَ مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ يَزِيدَ:" كَتَبَ اللَّهُ لَهُ مِثْلَ مَا كَانَ يَعْمَلُ مُقِيمًا صَحِيحًا".
بوبردہ اور یزید بن ابی کبثہ ایک مرتبہ سفر میں اکٹھے تھے یزید دوران سفر روزہ رکھتے تھے ابوبردہ نے ان سے کہا کہ میں نے اپنے والد حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو کئی مرتبہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی شخص بیمار ہوجاتا ہے یا سفر پر چلا جاتا ہے تو اس کے لئے اتنا ہی اجر لکھا جاتا ہے جتنا مقیم اور تندرست ہونے کی حالت میں اعمال پر ملتا ہے۔
حدثنا يزيد ، قال: اخبرنا حماد بن سلمة ، عن ثابت البناني ، عن ابي بردة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا مر احدكم بسوق، او مجلس، او مسجد، ومعه نبل، فليقبض على نصالها، فليقبض على نصالها"، ثلاثا ، قال ابو موسى: فما زال بنا البلاء حتى سدد بها بعضنا في وجوه بعض!.حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قال: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَن ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا مَرَّ أَحَدُكُمْ بِسُوقٍ، أَوْ مَجْلِسٍ، أَوْ مَسْجِدٍ، وَمَعَهُ نَبْلٌ، فَلْيَقْبِضْ عَلَى نِصَالِهَا، فَلْيَقْبِضْ عَلَى نِصَالِهَا"، ثَلَاثًا ، قَالَ أَبُو مُوسَى: فَمَا زَالَ بِنَا الْبَلَاءُ حَتَّى سَدَّدَ بِهَا بَعْضُنَا فِي وُجُوهِ بَعْضٍ!.
حضرت عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم مسلمانوں کی مسجدوں اور بازاروں میں جایا کرو اور تمہارے پاس تیر ہوں تو ان کا پھل قابو میں رکھا کرو۔
حدثنا يزيد ، قال: اخبرنا الجريري ، عن ابي عثمان النهدي ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزاة، فاسرعنا الاوبة، واحسنا الغنيمة، فلما اشرفنا على الرزداق، جعل الرجل منا يكبر، قال: حسبته قال باعلى صوته، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ايها الناس"، وجعل يقول بيده هكذا، ووصف يزيد كانه يشير، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ايها الناس، إنكم لا تنادون اصم ولا غائبا، إن الذي تنادون دون رؤوس رواحلكم" . ثم قال:" يا عبد الله بن قيس، او: يا ابا موسى، الا ادلك على كلمة من كنوز الجنة؟"، قلت: بلى يا رسول الله، قال:" قل: لا حول ولا قوة إلا بالله" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قال: أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَن أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَن أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَأَسْرَعْنَا الْأَوْبَةَ، وَأَحْسَنَّا الْغَنِيمَةَ، فَلَمَّا أَشْرَفْنَا عَلَى الرُّزْدَاقِ، جَعَلَ الرَّجُلُ مِنَّا يُكَبِّرُ، قَالَ: حَسِبْتُهُ قَالَ بِأَعْلَى صَوْتِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّهَا النَّاسُ"، وَجَعَل يَقُولُ بِيَدِهِ هَكَذَا، وَوَصَفَ يَزِيدُ كَأَنَّهُ يُشِيرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ لَا تُنَادُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، إِنَّ الَّذِي تُنَادُونَ دُونَ رُؤُوسِ رَوَاحِلِكُمْ" . ثُمَّ قَالَ:" يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، أَوْ: يَا أَبَا مُوسَى، أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَلِمَةٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟"، قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" قُلْ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جہاد کے سفر میں تھے جس ٹیلے یا بلند جگہ پر چڑھتے یا کسی نشیب میں اترتے تو بلند آواز سے تکبیر کہتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے قریب آکر فرمایا لوگو! اپنے ساتھ نرمی کرو، تم کسی بہرے یا غائب اللہ کو نہیں پکار رہے، تم سمیع وبصیر کو پکار رہے ہو جو تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے، اے عبداللہ بن قیس کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا " لاحول ولاقوۃ الاباللہ " (جنت کا ایک خزانہ ہے)
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2992، م: 2704، روي يزيد عن الجريري بعد الاختلاط، لكنه توبع
حدثنا يزيد ، قال: اخبرنا حماد بن سلمة ، عن ثابت البناني ، قال: حدثني من سمع حطان بن عبد الله ، يحدث، عن ابي موسى الاشعري ، قال: قلت لرجل: هلم، فلنجعل يومنا هذا لله عز وجل، فوالله لكان رسول الله صلى الله عليه وسلم شاهد هذا، فخطب، فقال: " ومنهم من يقول: هلم، فلنجعل يومنا هذا لله عز وجل" ، فما زال يقولها، حتى تمنيت ان الارض ساخت بي.حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قال: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَن ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، قال: حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ حِطَّانَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يُحَدِّثُ، عَن أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قال: قُلْتُ لِرَجُلٍ: هَلُمَّ، فَلْنَجْعَلْ يَوْمَنَا هَذَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَوَاللَّهِ لَكَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاهِدٌ هَذَا، فَخَطَبَ، فَقَالَ: " وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: هَلُمَّ، فَلَنَجْعَلْ يَوْمَنَا هَذَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" ، فَمَا زَالَ يَقُولُهَا، حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنَّ الْأَرْضَ سَاخَتْ بِي.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ آؤ! آج کا دن اللہ کے لئے وقف کردیتے ہیں مجھے ایسا لگا جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے موجود ہیں اور فرما رہے ہیں کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو یوں کہتے ہیں کہ آؤ آج کا دن اللہ کے لئے وقف کردیتے ہیں اور انہوں نے یہ بات اتنی مرتبہ دہرائی ہے کہ میں تمنا کرنے لگا کہ میں زمین میں اتر جاؤں۔
حدثنا يزيد ، قال: اخبرنا الجريري ، عن غنيم بن قيس ، عن ابي موسى الاشعري ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن هذا القلب كريشة بفلاة من الارض، يقيمها الريح ظهرا لبطن" ، قال ابي: ولم يرفعه إسماعيل عن الجريري.حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قال: أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَن غُنَيْمِ بْنِ قَيْسٍ ، عَن أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ هَذَا الْقَلْبَ كَرِيشَةٍ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ، يُقِيمُهَا الرِّيحُ ظَهْرًا لِبَطْنٍ" ، قَالَ أَبِي: وَلَمْ يَرْفَعْهُ إِسْمَاعِيلُ عَنِ الْجُرَيْرِيِّ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قلب کو قلب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ پلٹتا رہتا ہے اور دل کی مثال تو اس پر کی سی ہے جو کسی درخت کی جڑ میں پڑا ہو اور ہوا اسے الٹ پلٹ کرتی رہتی ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، وقد اختلف فى رفعه ووقفه، ووقفه أرجح يزيد بن سمع من الجريري بعد الاختلاط
حدثنا روح ، قال: حدثنا سعيد ، عن قتادة ، قال: حدث ابو بردة بن عبد الله بن قيس ، عن ابيه، قال: قال ابي : لو شهدتنا ونحن مع نبينا صلى الله عليه وسلم إذا اصابتنا السماء، حسبت ان ريحنا ريح الضان، إنما لباسنا الصوف .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، قال: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَن قَتَادَةَ ، قَالَ: حَدَّثَ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ، عَن أَبِيهِ، قال: قال أَبِي : لَوْ شَهِدْتَنَا وَنَحْنُ مَعَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَصَابَتْنَا السَّمَاءُ، حَسِبْتَ أَنَّ رِيحَنَا رِيحُ الضَّأْنِ، إِنَّمَا لِبَاسُنَا الصُّوفُ .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے بیٹے ابوبردہ سے کہا کہ بیٹا! اگر تم نے وہ وقت دیکھا ہوتا تو کیسا لگتا کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے تھے اور ہمارے اندر سے بھیڑ بکریوں جیسی مہک آرہی ہوتی تھی، (موٹے کپڑوں پر بارش کا پانی پڑنے کی وجہ سے)
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقول قتادة: حدث أبو بردة مشعر بالانقطاع لأنه مدلس
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے بیٹے ابوبردہ سے کہا کہ بیٹا! اگر تم نے وہ وقت دیکھا ہوتا تو کیسا لگتا کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے تھے اور ہمارے اندر سے بھیڑ بکریوں جیسی مہک آرہی ہوتی تھی، (موٹے کپڑوں پر بارش کا پانی پڑنے کی وجہ سے)
حدثنا عبد الصمد ، قال: حدثنا ثابت ، قال: حدثنا عاصم ، عن ابي مجلز ، قال: صلى ابو موسى باصحابه وهو مرتحل من مكة إلى المدينة، فصلى العشاء ركعتين، وسلم، ثم قام، فقرا مئة آية من سورة النساء في ركعة، فانكر ذلك عليه، فقال: ما الوت ان اضع قدمي حيث وضع رسول الله صلى الله عليه وسلم قدمه، وان اصنع مثل ما صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قال: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، قال: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَن أَبِي مِجْلَزٍ ، قَالَ: صَلَّى أَبُو مُوسَى بِأَصْحَابِهِ وَهُوَ مُرْتَحِلٌ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَصَلَّى الْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ، وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ، فَقَرَأَ مِئَةَ آيَةٍ مِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ فِي رَكْعَةٍ، فَأُنْكِرَ ذَلِكَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَا أَلَوْتُ أَنْ أَضَعَ قَدَمَيَّ حَيْثُ وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدَمَهُ، وَأَنْ أَصْنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
ابومجلز رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جا رہے تھے تو راستے میں اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی، انہوں نے عشاء کی دو رکعتیں پڑھا کر سلام پھیر دیا، پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت میں سورت نساء کی سو آیات پڑھ ڈالیں اس پر کسی نے نکیر کی تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے اس چیز میں کوئی کمی نہیں کی جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم رکھا ہو، میں بھی وہیں قدم رکھوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح کیا ہے میں بھی اسی طرح کروں۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات غير أن فى سماع أبى مجلز من أبى موسي نظرا
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت کا ایک خیمہ ایک جوف دار موتی سے بنا ہوگا آسمان میں جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی اور اس کے ہر کونے میں ایک مسلمان کے جو اہل خانہ ہوں گے، دوسرے کونے والے انہیں دیکھ نہ سکیں۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔