حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہل قباء کے پاس تشریف لے گئے وہ لوگ چاشت کے وقت نماز پڑھ رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کی یہ نماز اس وقت پڑھی جاتی ہے جب اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلنے لگیں۔
حكم دارالسلام: هذا من صحيح حديث القاسم بن عوف، م: 748
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن ابي حيان التيمي ، حدثني يزيد بن حيان التيمي ، قال: انطلقت انا، وحصين بن سبرة، وعمر بن مسلم، إلى زيد بن ارقم، فلما جلسنا إليه، قال له حصين: لقد لقيت يا زيد خيرا كثيرا، رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وسمعت حديثه، وغزوت معه، وصليت معه، لقد لقيت يا زيد خيرا كثيرا، حدثنا يا زيد ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا ابن اخي، والله لقد كبرت سني، وقدم عهدي، ونسيت بعض الذي كنت اعي من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما حدثتكم فاقبلوه، وما لا فلا تكلفونيه، ثم قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما خطيبا فينا بماء يدعى خما، بين مكة، والمدينة، فحمد الله تعالى، واثنى عليه، ووعظ، وذكر، ثم قال:" اما بعد، الا يا ايها الناس، إنما انا بشر يوشك ان ياتيني رسول ربي عز وجل، فاجيب، وإني تارك فيكم ثقلين، اولهما: كتاب الله عز وجل، فيه الهدى والنور، فخذوا بكتاب الله تعالى، واستمسكوا به، فحث على كتاب الله، ورغب فيه، قال: واهل بيتي، اذكركم الله في اهل بيتي، اذكركم الله في اهل بيتي، اذكركم الله في اهل بيتي"، فقال له حصين: ومن اهل بيته يا زيد؟ اليس نساؤه من اهل بيته؟ قال: إن نساءه من اهل بيته، ولكن اهل بيته من حرم الصدقة بعده، قال: ومن هم؟ قال: هم: آل علي، وآل عقيل، وآل جعفر، وآل عباس، قال: اكل هؤلاء حرم الصدقة؟ قال: نعم .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ حَيَّانَ التَّيْمِيُّ ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا، وَحُصَيْنُ بْنُ سَبْرَةَ، وَعُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ، إلى زيد بن أرقم، فلما جلسنا إليه، قَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَمِعْتَ حَدِيثَهُ، وَغَزَوْتَ مَعَهُ، وَصَلَّيْتَ مَعَهُ، لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، حَدِّثْنَا يَا زَيْدُ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، وَاللَّهِ لَقَدْ كَبُرَتْ سِنِّي، وَقَدُمَ عَهْدِي، وَنَسِيتُ بَعْضَ الَّذِي كُنْتُ أَعِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا حَدَّثْتُكُمْ فَاقْبَلُوهُ، وَمَا لَا فَلَا تُكَلِّفُونِيهِ، ثُمَّ قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا خَطِيبًا فِينَا بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا، بَيْنَ مَكَّةَ، وَالْمَدِينَةِ، فَحَمِدَ اللَّهَ تَعَالَى، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ، وَذَكَّرَ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، أَلَا يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَنِي رَسُولُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، فَأُجِيبُ، وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ، أَوَّلُهُمَا: كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ، فَخُذُوا بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ، فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ، وَرَغَّبَ فِيهِ، قَالَ: وَأَهْلُ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمْ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمْ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمْ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي"، فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ يَا زَيْدُ؟ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ؟ قَالَ: إِنَّ نِسَاءَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَلَكِنَّ أَهْلَ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ، قَالَ: وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ: هُمْ: آلُ عَلِيٍّ، وَآلُ عَقِيلٍ، وَآلُ جَعْفَرٍ، وَآلُ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَكُلُّ هَؤُلَاءِ حُرِمَ الصَّدَقَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ .
یزید بن حیان تمیمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حصین بن سبرہ اور عمربن مسلم کے ساتھ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا جب ہم لوگ بیٹھ چکے تو حصین نے عرض کیا کہ اے زید! آپ کو تو خیر کثیر ملی ہے آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے ان کی احادیث سنی ہیں ان کے ساتھ جہاد میں شرکت کی ہے اور ان کی معیت میں نماز پڑھی ہے لہٰذا آپ کو تو خیر کثیر نصیب ہوگئی آپ ہمیں کوئی ایسی حدیث سنائیے جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہو؟ انہوں نے فرمایا بھتیجے! میں بوڑھا ہوچکا، میرا زمانہ پرانا ہوچکا اور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جو باتیں محفوظ رکھتا تھا، ان میں سے کچھ بھول بھی چکا، لہٰذا میں اپنے طور پر اگر کوئی حدیث بیان کردیا کروں تو اسے قبول کرلیا کرو ورنہ مجھے اس پر مجبور نہ کیا کرو پھر فرمایا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک چشمے کے قریب جسے " خم " کہا جاتا ہے خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدوثناء بیان کرکے کچھ وعظ و نصیحت کی، پھر، امابعد " کہہ کر فرمایا لوگو! میں بھی ایک انسان ہی ہوں ہوسکتا ہے کہ جلدہی میرے رب کا قاصد مجھے بلانے کے لئے آپہنچے اور میں اس کی پکار پر لبیک کہہ دوں، یاد رکھو! میں تمہارے درمیان دو مضبوط چھوڑ کر جارہاہوں پہلی چیز تو کتاب اللہ ہے جس میں ہدایت بھی ہے اور نور بھی، لہٰذا کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامو، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی ترغیب دی اور توجہ دلائی اور فرمایا دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں اور تین مرتبہ فرمایا میں اپنے اہل بیت کے حقوق کے متعلق تمہیں اللہ کے نام سے نصیحت کرتا ہوں۔ حصین نے پوچھا کہ اے زید! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے کون مراد ہیں؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت میں داخل نہیں ہیں؟ انہوں نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہیں لیکن یہاں مرادوہ لوگ ہیں جن پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدصدقہ حرام ہو، حصین نے پوچھا وہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے فرمایا آل عقیل، آل علی، آل جعفر اور آل عباس، حصین نے پوچھا کہ ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں!
قال يزيد بن حيان : حدثنا زيد بن ارقم في مجلسه ذلك، قال: بعث إلي عبيد الله بن زياد، فاتيته، فقال: ما احاديث تحدثها وترويها عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، لا نجدها في كتاب الله عز وجل? تحدث ان له حوضا في الجنة! قال: قد حدثناه رسول الله صلى الله عليه وسلم ووعدناه، قال: كذبت، ولكنك شيخ قد خرفت، قال: إني قد سمعته اذناي، ووعاه قلبي من رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من كذب علي متعمدا، فليتبوا مقعده من جهنم"، وما كذبت على رسول الله صلى الله عليه وسلم . وحدثنا زيد في مجلسه، قال: " إن الرجل من اهل النار ليعظم للنار، حتى يكون الضرس من اضراسه كاحد" .قَالَ يَزِيدُ بْنُ حَيّان : حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ فِي مَجْلِسِهِ ذَلِكَ، قَالَ: بَعَثَ إِلَيَّ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ، فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ: مَا أَحَادِيثُ تُحَدِّثُهَا وَتَرْوِيهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَا نَجِدُهَا فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ? تُحَدِّثُ أَنَّ لَهُ حَوْضًا فِي الْجَنَّةِ! قَالَ: قَدْ حَدَّثَنَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَعَدَنَاهُ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ شَيْخٌ قَدْ خَرِفْتَ، قَالَ: إِنِّي قَدْ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ جَهَنَّمَ"، وَمَا كَذَبْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . وَحَدَّثَنَا زَيْدٌ فِي مَجْلِسِهِ، قَالَ: " إِنَّ الرَّجُلَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَيَعْظُمُ لِلنَّارِ، حَتَّى يَكُونَ الضِّرْسُ مِنْ أَضْرَاسِهِ كَأُحُدٍ" .
یزید بن حیان کہتے ہیں کہ اسی مجلس میں (جس کا تذکرہ پچھلی حدیث میں ہوا) حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے ہمیں بتایا کہ ایک مرتبہ مجھے عبیداللہ بن زیادنے پیغام بھیج کر بلایا میں اس کے پاس پہنچا تو وہ کہنے لگا کہ یہ آپ کون سی احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے نقل کرتے رہتے ہیں جو ہمیں کتاب اللہ میں نہیں ملتیں؟ آپ بیان کرتے ہیں کہ جنت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حوض ہوگا؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ بات تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہم سے فرمائی تھی اور ہم سے اس کا وعدہ کیا تھا وہ کہنے لگا کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں آپ بوڑھے ہوگئے ہیں اس لئے آپ کی عقل کام نہیں کررہی انہوں نے فرمایا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاداپنے کانوں سے سنا ہے اور دل میں محفوظ کیا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر میری طرف کسی جھوٹی بات کسی نسبت کرتا ہے اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالینا چاہئے اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کبھی جھوٹ نہیں باندھا۔ اور اسی مجلس میں حضرت زید رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بھی ہمارے سامنے بیان فرمائی کہ جہنم میں جہنمی آدمی کا جسم بھی بہت پھیل جائے گا حتی کہ اس کی ایک ڈاڑھ احد پہاڑ کے برابر ہو جائے گی۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن يزيد بن حيان ، عن زيد بن ارقم ، قال: سحر النبي صلى الله عليه وسلم رجل من اليهود، قال: فاشتكى لذلك اياما، قال: فجاءه جبريل عليه السلام، فقال: إن رجلا من اليهود سحرك، عقد لك عقدا في بئر كذا وكذا، فارسل إليها من يجيء بها، فبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا رضي الله عنه، فاستخرجها، فجاء بها، فحلها، قال: فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم كانما نشط من عقال، فما ذكر لذلك اليهودي، ولا رآه في وجهه قط، حتى مات .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَيَّانَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: سَحَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ، قَالَ: فَاشْتَكَى لِذَلِكَ أَيَّامًا، قَالَ: فَجَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: إِنَّ رَجُلًا مِنَ الْيَهُودِ سَحَرَكَ، عَقَدَ لَكَ عُقَدًا فِي بِئْرِ كَذَا وَكَذَا، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا مَنْ يَجِيءُ بِهَا، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَاسْتَخْرَجَهَا، فَجَاءَ بِهَا، فَحَلَّهَا، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ، فَمَا ذَكَرَ لِذَلِكَ الْيَهُودِيِّ، وَلَا رَآهُ فِي وَجْهِهِ قَطُّ، حَتَّى مَاتَ .
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی یہودی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کردیا جس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کئی دن بیمار رہے پھر حضرت جبرائیل آئے اور کہنے لگے کہ ایک یہودی شخص نے آپ پر سحر کردیا ہے اس نے فلاں کنوئیں میں کسی چیز پر کچھ گرہیں لگا رکھی ہیں آپ کسی کو بھیج کر وہ وہاں سے منگوالیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیج کر وہ چیز نکلوالی، حضرت علی رضی اللہ عنہ اسے لے کر آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھولا جوں جوں وہ گرہیں کھلتی جاتی تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح تندرست ہوتے جاتے تھے جیسے کسی رسی سے آپ کو کھول دیا گیا ہے ہو لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی کا کوئی تذکرہ کیا اور نہ ہی وصال تک اس کا چہرہ دیکھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بغير هذه السياقة، وهذا إسناد ضعيف لتدليس الأعمش
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن طلحة مولى قرظة، عن زيد بن ارقم ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما انتم بجزء من مئة الف جزء ممن يرد علي الحوض يوم القيامة"، قال: فقلنا لزيد: وكم انتم يومئذ؟ قال: فقال: بين الست مئة، إلى السبع مئة .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ طَلْحَةَ مَوْلَى قَرَظَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أَنْتُمْ بِجُزْءٍ مِنْ مِئَةِ أَلْفِ جُزْءٍ مِمَّنْ يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، قَالَ: فَقُلْنَا لِزَيْدٍ: وَكَمْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: فَقَالَ: بَيْنَ السِّتِّ مِئَةِ، إِلَى السَّبْعِ مِئَةِ .
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن میرے پاس حوض کوثر پر آنے والوں کا لاکھواں حصہ بھی نہیں ہو ہم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اس وقت آپ لوگ کتنے تھے؟ انہوں نے فرمایا چھ سے سات سو کے درمیان۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، طلحة مولي قرظة مجهول. وقول الحافظ ابن حجر: "وثقة النسائي" وهم
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن ثمامة بن عقبة ، عن زيد بن ارقم ، قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل من اليهود، فقال: يا ابا القاسم، الست تزعم ان اهل الجنة ياكلون فيها ويشربون؟ وقال لاصحابه: إن اقر لي بهذه خصمته، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بلى، والذي نفسي بيده، إن احدهم ليعطى قوة مئة رجل في المطعم، والمشرب، والشهوة، والجماع، قال: فقال له اليهودي: فإن الذي ياكل ويشرب تكون له الحاجة، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حاجة احدهم عرق يفيض من جلودهم مثل ريح المسك، فإذا البطن قد ضمر" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، أَلَسْتَ تَزْعُمُ أَنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَأْكُلُونِ فِيهَا وَيَشْرَبُونَ؟ وَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: إِنْ أَقَرَّ لِي بِهَذِهِ خَصَمْتُهُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَلَى، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّ أَحَدَهُمْ لَيُعْطَى قُوَّةَ مِئَةِ رَجُلٍ فِي الْمَطْعَمِ، وَالْمَشْرَبِ، وَالشَّهْوَةِ، وَالْجِمَاعِ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ الْيَهُودِيُّ: فَإِنَّ الَّذِي يَأْكُلُ وَيَشْرَبُ تَكُونُ لَهُ الْحَاجَةُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حَاجَةُ أَحَدِهِمْ عَرَقٌ يَفِيضُ مِنْ جُلُودِهِمْ مِثْلُ رِيحِ الْمِسْكِ، فَإِذَا الْبَطْنُ قَدْ ضَمُرَ" .
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا اے ابوالقاسم! کیا آپ کا یہ خیال نہیں ہے کہ جنتی جنت میں کھائیں پئیں گے؟ اس نے اپنے دوستوں سے پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اقرار کرلیا تو میں ان پر غالب آکر دکھاؤں گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کیوں نہیں ہر جنتی کو کھانے، پینے، خواہشات اور مباشرت کے حوالے سے سو آدمیوں کے برابرطاقت عطاء کی جائے گی، اس یہودی نے کہا کہ پھر اس کھانے پینے والے کو قضاء حاجت کا مسئلہ بھی پیش آئے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قضاء حاجت کا طریقہ یہ ہوگا کہ انہیں پسینہ آئے گا جوان کی کھال سے بہے گا اور اس سے مشک کی مہک آئے گی اور پیٹ ہلکا ہوجائے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، لأن الأعمش مدلس، وقد عنعن
حدثنا إسماعيل بن علية ، اخبرنا ايوب ، عن القاسم الشيباني ، ان زيد بن ارقم راى قوما يصلون في مسجد قباء من الضحى، فقال: اما لقد علموا ان الصلاة في غير هذه الساعة افضل، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن صلاة الاوابين حين ترمض الفصال، وقال مرة: واناس يصلون" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنِ الْقَاسِمِ الشَّيْبَانِيِّ ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ رَأَى قَوْمًا يُصَلُّونَ فِي مَسْجِدِ قُبَاءَ مِنَ الضُّحَى، فَقَالَ: أَمَا لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّ الصَّلَاةَ فِي غَيْرِ هَذِهِ السَّاعَةِ أَفْضَلُ، إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ صَلَاةَ الْأَوَّابِينَ حِينَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ، وَقَالَ مَرَّةً: وَأُنَاسٌ يُصَلُّونَ" .
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اہل قباء کے پاس تشریف لے گئے وہ لوگ چاشت کے وقت نماز پڑھ رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کی یہ نماز اس وقت پڑھی جاتی ہے جب اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلنے لگیں۔
حكم دارالسلام: هذا من صحيح حديث القاسم بن عوف، م: 748
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن جريج ، قال: اخبرني حسن بن مسلم ، عن طاوس ، قال: قدم زيد بن ارقم ، فقال له ابن عباس يستذكره: كيف اخبرتني عن لحم اهدي للنبي صلى الله عليه وسلم، وهو حرام؟ قال: نعم، اهدى له رجل عضوا من لحم صيد، فرده، وقال: " إنا لا ناكله، إنا حرم" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، قَالَ: قَدِمَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ يَسْتَذْكِرُهُ: كَيْفَ أَخْبَرْتَنِي عَنْ لَحْمٍ أُهْدِيَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ حَرَامٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، أَهْدَى لَهُ رَجُلٌ عُضْوًا مِنْ لَحْمِ صَيْدٍ، فَرَدَّهُ، وَقَالَ: " إِنَّا لَا نَأْكُلُهُ، إِنَّا حُرُمٌ" .
طاؤس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کریدتے ہوئے پوچھا کہ آپ نے مجھے وہ بات کیسے بتائی تھی کہ حالت احرام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا گیا؟ انہوں نے فرمایا ہاں! ایک آدمی نے کسی شکار کا ایک حصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیۃ ًپیش کیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہ کیا اور فرمایا ہم اسے نہیں کھاسکتے کیونکہ ہم محرم ہیں۔
ابن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ہمارے جنازوں پر چارتکبیرات کہتے تھے ایک مرتبہ کسی جنازے پر انہوں نے پانچ تکبیرات کہہ دیں لوگوں نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھارپانچ تکبیرات بھی کہہ لیا کرتے تھے۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ اور براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کے بدلے سونے کی ادھارخریدوفروخت سے منع کیا ہے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی دور باسعادت میں لوگ اپنی ضرورت سے متعلق نماز کے دوران گفتگو کرلیتے تھے یہاں تک کہ پھر یہ آیت نازل ہوگئی وقومو اللہ قنتین " اور ہمیں خاموشیکا حکم دے دیا گیا۔
حدثنا ابن نمير ، حدثنا عبد الملك يعني ابن ابي سليمان ، عن عطية العوفي ، قال: سالت زيد بن ارقم ، فقلت له: إن ختنا لي حدثني عنك بحديث في شان علي رضي الله عنه يوم غدير خم، فانا احب ان اسمعه منك، فقال: إنكم معشر اهل العراق فيكم ما فيكم، فقلت له: ليس عليك مني باس، فقال: نعم، كنا بالجحفة، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلينا ظهرا، وهو آخذ بعضد علي رضي الله عنه، فقال:" ايها الناس، الستم تعلمون اني اولى بالمؤمنين من انفسهم؟ قالوا: بلى، قال: فمن كنت مولاه، فعلي مولاه"، قال: فقلت له: هل قال: اللهم وال من والاه، وعاد من عاداه؟ قال: إنما اخبرك كما سمعت .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ ، قَالَ: سَأَلْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ خَتَنًا لِي حَدَّثَنِي عَنْكَ بِحَدِيثٍ فِي شَأْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْكَ، فَقَالَ: إِنَّكُمْ مَعْشَرَ أَهْلِ الْعِرَاقِ فِيكُمْ مَا فِيكُمْ، فَقُلْتُ لَهُ: لَيْسَ عَلَيْكَ مِنِّي بَأْسٌ، فَقَالَ: نَعَمْ، كُنَّا بِالْجُحْفَةِ، فَخَرْجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْنَا ظُهْرًا، وَهُوَ آخِذٌ بِعَضُدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ"، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: هَلْ قَالَ: اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ؟ قَالَ: إِنَّمَا أُخْبِرُكَ كَمَا سَمِعْتُ .
عطیہ عوفی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ میرے ایک دامادنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غدیرخم کے موقع کی حدیث آپ کے حوالے سے میرے سامنے بیان کی ہے، میں چاہتا ہوں کہ براہ راست آپ سے اس کی سماعت کروں؟ انہوں نے فرمایا اے اہل عراق! مجھے تم سے اندیشہ ہے میں نے عرض کیا کہ میری طرف سے آپ بےفکر رہیں انہوں نے کہا اچھا ایک مرتبہ ہم لوگ مقام جحفہ میں تھے کہ ظہر کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا لوگو! کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ مجھے مسلمانوں پر ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ حق حاصل ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیوں نہیں، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ دبا کر فرمایا جس کا میں محبوب ہوں علی بھی اس کے محبوب ہونے چاہئیں میں نے عرض کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا اے اللہ! جو علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے تو اس سے محبت فرما اور جو اس سے دشمنی کرتا ہے تو اس سے دشمنی فرما؟ انہوں نے فرمایا میں نے جو سنا تھا وہ تمہیں بتادیا۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهد، وهذا إسناد ضعيف لضعف عطية
حدثنا محمد بن عبيد ، وابو المنذر ، قالا: حدثنا يوسف بن صهيب ، قال ابو المنذر في حديثه: قال: حدثني حبيب بن يسار ، عن زيد بن ارقم ، قال: لقد كنا نقرا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو كان لابن آدم واديان من ذهب وفضة، لابتغى إليهما آخر، ولا يملا بطن ابن آدم إلا التراب، ويتوب الله على من تاب" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، وَأَبُو الْمُنْذِرِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ صُهَيْبٍ ، قَالَ أَبُو الْمُنْذِرِ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ يَسَارٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: لَقَدْ كُنَّا نَقْرَأُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ ذَهَبٍ وَفِضَّةٍ، لَابْتَغَى إِلَيْهِمَا آخَرَ، وَلَا يَمْلَأُ بَطْنَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ" .
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی دور میں ہم اس کی تلاوت کرتے تھے (جو بعد میں منسوخ ہوگئی) کہ اگر ابن آدم کے پاس سونے چاندی کی دو وادیاں بھی ہوں تو وہ ایک اور کی تمنا کرے گا اور ابن آدم کا پیٹ مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھرسکتی البتہ جو توبہ کرلیتا ہے، اللہ اس پر متوجہ ہوجاتا ہے۔
ابواسحاق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے غزوات فرمائے؟ انہوں نے جواب دیا انیس جن میں سے سترہ میں میں بھی شریک تھا لیکن دو غزوے مجھ سے رہ گئے تھے۔
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم کی سنت ہے انہوں نے پوچھا اس پر ہمیں کیا ملے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ! اون کا کیا حکم ہے؟ فرمایا اون کے ہر بال کے عوض بھی ایک نیکی ملے گی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، أبو داود نفيع بن الحارث متروك، وعائذ الله ضعيف
حدثنا حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، قال: سمعت ابا حمزة يحدث، عن زيد بن ارقم ، قال: اول من صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم علي رضي الله عنه ، قال عمرو: فذكرت ذلك لإبراهيم، فانكر ذلك، وقال: ابو بكر رضي الله تعالى عنه.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَمْزَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: أَوَّلُ مَنْ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ عَمْرٌو: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِإِبْرَاهِيمَ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ، وَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ.
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ (بچوں میں) سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو حمزة مولى الأنصار مجهول. وقول الحافظ ابن حجر: "وثقة النسائي" وهم
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن محمد بن كعب القرظي ، عن زيد بن ارقم ، قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة، فقال عبد الله بن ابي: لئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الاعز منها الاذل، قال: فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فحلف عبد الله بن ابي انه لم يكن شيء من ذلك، قال: فلامني قومي، وقالوا: ما اردت إلى هذا؟! قال: فانطلقت، فنمت كئيبا حزينا، قال: فارسل إلي نبي الله صلى الله عليه وسلم او اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " إن الله عز وجل قد انزل عذرك، وصدقك"، قال فنزلت هذه الآية: هم الذين يقولون لا تنفقوا على من عند رسول الله حتى ينفضوا حتى بلغ لئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الاعز منها الاذل سورة المنافقون آية 7 - 8 .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ: لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، قَالَ: فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَحَلَفَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: فَلَامَنِي قَوْمِي، وَقَالُوا: مَا أَرَدْتَ إِلَى هَذَا؟! قَالَ: فَانْطَلَقْتُ، فَنِمْتُ كَئِيبًا حَزِينًا، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَيَّ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَنْزَلَ عُذْرَكَ، وَصَدَّقَكَ"، قَالَ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا حَتَّى بَلَغَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْهَا الأَذَلَّ سورة المنافقون آية 7 - 8 .
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں کسی غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھا (رئیس المنافقین) عبداللہ بن ابی کہنے لگا کہ اگر ہم مدینہ منورہ واپس گئے تو جو زیادہ باعزت ہوگا وہ زیادہ ذلیل کو وہاں سے باہر نکال دے گا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ کو اس کی یہ بات بتائی، عبداللہ بن ابی نے قسم اٹھالی کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی میری قوم کے لوگ مجھے ملامت کرنے لگے اور کہنے لگے کہ تمہارا اس سے کیا مقصد تھا؟ میں وہاں سے واپس آکر غمزدہ سالیٹ کر سونے لگا تھوڑی ہی دیر بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد کے ذریعے مجھے بلابھیجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارا عذرنازل کرکے تمہاری سچائی کو ثابت کردیا ہے اور یہ آیت نازل ہوئی ہے یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہم مدینہ منورہ واپس گئے تو جو زیادہ باعزت ہوگا وہ زیادہ ذلیل کو وہاں سے باہر نکال دے گا۔
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ان بیت الخلاؤں میں جنات آتے رہتے ہیں اس لئے جب تم میں سے کوئی شخص بیت الخلاء میں داخل ہو تو اسے یہ دعاء پڑھ لینی چاہئے کہ اے اللہ! میں خبیث مذکر و مؤنث جنات سے آپ کی پناہ میں آتاہوں۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، وهذا حديث تفرد به قتاده، ورواه عنه جماعة من تلاميذه، واختلفوا عليه فيه
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا عوف ، عن ميمون ابي عبد الله ، عن زيد بن ارقم ، قال: كان لنفر من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ابواب شارعة في المسجد، قال: فقال يوما: " سدوا هذه الابواب إلا باب علي، قال: فتكلم في ذلك الناس، قال: فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحمد الله تعالى، واثنى عليه، ثم قال: اما بعد ؛ فإني امرت بسد هذه الابواب إلا باب علي، وقال فيه قائلكم، وإني والله ما سددت شيئا ولا فتحته، ولكني امرت بشيء فاتبعته" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: كَانَ لِنَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْوَابٌ شَارِعَةٌ فِي الْمَسْجِدِ، قَالَ: فَقَالَ يَوْمًا: " سُدُّوا هَذِهِ الْأَبْوَابَ إِلَّا بَابَ عَلِيٍّ، قَالَ: فَتَكَلَّمَ فِي ذَلِكَ النَّاسُ، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللَّهَ تَعَالَى، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ ؛ فَإِنِّي أَمَرْتُ بِسَدِّ هَذِهِ الْأَبْوَابِ إِلَّا بَابَ عَلِيٍّ، وَقَالَ فِيهِ قَائِلُكُمْ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا سَدَدْتُ شَيْئًا وَلَا فَتَحْتُهُ، وَلَكِنِّي أُمِرْتُ بِشَيْءٍ فَاتَّبَعْتُهُ" .
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ رضی اللہ عنہ کے دروازے مسجد نبوی کے طرف کھلتے تھے ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علی کے دروازے کو چھوڑ کر باقی سب دروازے بند کردو، اس پر کچھ لوگوں نے باتیں کیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدوثناء کی، پھر امابعد کہہ کر فرمایا کہ میں نے علی کا دروازہ چھوڑ کر باقی تمام دروازے بند کرنے کا جو حکم دیا ہے اس پر تم میں سے بعض لوگوں کو اعتراض ہے اللہ کی قسم! میں اپنے طور پر کسی چیز کو کھول بند نہیں کرتا بلکہ مجھے تو حکم دیا گیا ہے اور میں اسی کی پیروی کرتا ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضيعف، ومتنه منكر، ميمون أبو عبدالله ضعيف
حدثنا محمد بن بشر ، حدثنا مسعر ، عن الحجاج مولى بني ثعلبة، عن قطبة بن مالك عم زياد بن علاقة، قال: نال المغيرة بن شعبة من علي، فقال زيد بن ارقم : قد علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينهى عن سب الموتى، فلم تسب عليا وقد مات؟! .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنِ الْحَجَّاجِ مَوْلَى بَنِي ثَعْلَبَةَ، عَنْ قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ عَمِّ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، قَالَ: نَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ مِنْ عَلِيٍّ، فَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ : قَدْ عَلِمْتَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَى عَنْ سَبِّ الْمَوْتَى، فَلِمَ تَسُبُّ عَلِيًّا وَقَدْ مَاتَ؟! .
حضرت قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی زبان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں کوئی نامناسب جملہ نکل گیا تو حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ آپ جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو برابھلا کہنے سے منع فرمایا ہے پھر آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسی بات کیوں کررہے ہیں جبکہ وہ فوت ہوچکے؟
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حجاج مولى بني ثعلبة
حدثنا سليمان بن داود ، اخبرنا شعبة ، عن ابي عبد الله الشامي ، قال: سمعت معاوية يخطب، يقول: يا اهل الشام، حدثني الانصاري قال شعبة: يعني زيد بن ارقم: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تزال طائفة من امتي على الحق ظاهرين، وإني لارجو ان تكونوا هم يا اهل الشام" .حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الشَّامِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ يَخْطُبُ، يَقُولُ: يَا أَهْلَ الشَّامِ، حَدَّثَنِي الْأَنْصَارِيُّ قَالَ شُعْبَةُ: يَعْنِي زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا هُمْ يَا أَهْلَ الشَّامِ" .
ابو عبداللہ شامی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو دوران خطبہ یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے انصاری صحابی حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا اور مجھے امید ہے کہ اے اہل شام! یہ تم ہی ہو۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح، وهذا اسناد ضعيف لجهالة ابي عبدالله الشامي
حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، قال: سمعت ابا حمزة مولى الانصار، قال: سمعت زيد بن ارقم ، قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم في منزل نزلوه في مسيره، فقال: " ما انتم بجزء من مئة الف جزء ممن يرد علي الحوض من امتي"، قال: قلت: كم كنتم يومئذ؟ قال: كنا سبع مئة، او ثمان مئة؟ .حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَمْزَةَ مَوْلَى الْأَنْصَارِ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَنْزِلٍ نَزَلُوهُ فِي مَسِيرِهِ، فَقَالَ: " مَا أَنْتُمْ بِجُزْءٍ مِنْ مِئَةِ أَلْفِ جُزْءٍ مِمَّنْ يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ مِنْ أُمَّتِي"، قَالَ: قُلْتُ: كَمْ كُنْتُمْ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: كُنَّا سَبْعَ مِئَةٍ، أَوْ ثَمَانِ مِئَةٍ؟ .
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سفر میں ایک مقام پر پڑاؤ کرکے فرمایا تم لوگ قیامت کے دن میرے پاس حوض کوثر پر آنے والوں کا لاکھواں حصہ بھی نہیں ہو ہم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اس وقت آپ لوگ کتنے تھے؟ انہوں نے فرمایا چھ سے سات سو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو حمزة مجهول، وقول الحافظ ابن حجر: «وثقه النسائي» وهم
حدثنا إبراهيم بن مهدي ، حدثنا معتمر ، قال: سمعت داود الطفاوي يحدث، عن ابي مسلم البجلي ، عن زيد بن ارقم ، قال: كان نبي الله صلى الله عليه وسلم يقول في دبر صلاته: " اللهم ربنا ورب كل شيء، انا شهيد انك انت الرب وحدك، لا شريك لك، قالها إبراهيم مرتين: ربنا ورب كل شيء، انا شهيد ان محمدا عبدك ورسولك، ربنا ورب كل شيء، انا شهيد ان العباد كلهم إخوة، اللهم ربنا ورب كل شيء، اجعلني مخلصا لك واهلي في كل ساعة من الدنيا والآخرة، ذا الجلال والإكرام، اسمع واستجب، الله الاكبر الاكبر، الله نور السماوات والارض، الله الاكبر الاكبر، حسبي الله ونعم الوكيل، الله الاكبر الاكبر" .حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ دَاوُدَ الطُّفَاوِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ الْبَجَلِيِّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي دُبُرِ صَلَاتِهِ: " اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ، أَنَا شَهِيدٌ أَنَّكَ أَنْتَ الرَّبُّ وَحْدَكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ، قَالَهَا إِبْرَاهِيمُ مَرَّتَيْنِ: رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ، أَنَا شَهِيدٌ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ، رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ، أَنَا شَهِيدٌ أَنَّ الْعِبَادَ كُلَّهُمْ إِخْوَةٌ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ، اجْعَلْنِي مُخْلِصًا لَكَ وَأَهْلِي فِي كُلِّ سَاعَةٍ مِنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، ذَا الْجِلَالِ وَالْإِكْرَامِ، اسْمَعْ وَاسْتَجِبْ، اللَّهُ الْأَكْبَرُ الْأَكْبَرُ، اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، اللَّهُ الْأَكْبَرُ الْأَكْبَرُ، حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ، اللَّهُ الْأَكْبَرُ الْأَكْبَرُ" .
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعدیوں کہتے تھے اے اللہ! ہمارے اور ہر چیز کے رب! میں گواہی دیتاہوں کہ آپ اکیلے رب ہیں آپ کا کوئی شریک نہیں اے ہمارے اور ہر چیز کے رب! میں گواہی دیتاہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے بندے اور آپ کے رسول ہیں اے ہمارے اور ہر چیز کے رب! میں گواہی دیتاہوں کہ سب بندے آپس میں بھائی بھائی ہیں اے اللہ! اے ہمارے اور ہر چیز کے رب! مجھے اور میرے گھروالوں کو دنیا و آخرت میں اپنے لئے مخلص بنادیجئے اے بزرگی اور عزت والے میری دعا کو سن لے اور قبول فرمالے اللہ سب سے بڑا ہے سب سے بڑا اللہ زمین و آسمان کا نور ہے اللہ سب سے بڑا ہے سب سے بڑا اللہ مجھے کافی ہے اور وہ بہترین کا رساز ہے اللہ سب سے بڑا ہے سب سے بڑا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف داود الطفاوي، ولجهالة أبى مسلم البجلي
عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نے مجھے وہ بات کیسے بتائی تھی کہ حالت احرام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا گیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہیں فرمایا؟ انہوں نے کہا ہاں! اسی طرح ہے۔
حدثنا هاشم ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، قال: سمعت محمد بن كعب القرظي ، قال: سمعت زيد بن ارقم ، قال: لما قال عبد الله بن ابي ما قال: لا تنفقوا على من عند رسول الله، قال: لئن رجعنا إلى المدينة، قال: فسمعته، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له، قال: فلامني ناس من الانصار، قال: وجاء هو، فحلف ما قال ذاك، فرجعت إلى المنزل، فنمت، قال: فاتاني رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم، او بلغني، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " إن الله عز وجل قد صدقك وعذرك" ، فنزلت هذه الآية: هم الذين يقولون لا تنفقوا على من عند رسول الله سورة المنافقون آية 7..حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ الْقُرَظِيَّ ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ ، قَالَ: لَمَّا قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ مَا قَالَ: لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ، قَالَ: لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ: فَسَمِعْتُهُ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، قَالَ: فَلَامَنِي نَاسٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: وَجَاءَ هُوَ، فَحَلَفَ مَا قَالَ ذَاكَ، فَرَجَعْتُ إِلَى الْمَنْزِلِ، فَنِمْتُ، قَالَ: فَأَتَانِي رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ بَلَغَنِي، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ صَدَّقَكَ وَعَذَرَكَ" ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ سورة المنافقون آية 7..
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں (کسی غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھا)، (رئیس المنافقین) عبداللہ بن ابی کہنے لگا کہ اگر ہم مدینہ منورہ واپس گئے تو جو زیادہ باعزت ہوگا وہ زیادہ ذلیل کو وہاں سے باہر نکال دے گا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ کو اس کی یہ بات بتائی، عبداللہ بن ابی نے قسم اٹھالی کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی میری قوم کے لوگ مجھے ملامت کرنے لگے اور کہنے لگے کہ تمہارا اس سے کیا مقصد تھا؟ میں وہاں سے واپس آکرغمزدہ سالیٹ کر سونے لگا تھوڑی ہی دیر بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد کے ذریعے مجھے بلابھیجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارا عذر نازل کرکے تمہاری سچائی کو ثابت کردیا ہے اور یہ آیت نازل ہوئی ہے یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہم مدینہ منورہ واپس گئے تو جو زیادہ باعزت ہوگا وہ زیادہ ذلیل کو وہاں سے باہر نکال دے گا۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا زهير ، عن ابي إسحاق ، قال: سالت زيد بن ارقم : كم غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: سبع عشرة، قال: وحدثني زيد بن ارقم: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم غزا تسع عشرة، وانه حج بعد ما هاجر حجة واحدة حجة الوداع، قال ابو إسحاق: وبمكة اخرى .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَأَلْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ : كَمْ غَزَوْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: سَبْعَ عَشْرَةَ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا تِسْعَ عَشْرَةَ، وَأَنَّهُ حَجَّ بَعْدَ مَا هَاجَرَ حَجَّةً وَاحِدَةً حَجَّةَ الْوَدَاعِ، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: وَبِمَكَّةَ أُخْرَى .
ابواسحاق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کتنے غزوات فرمائے؟ انہوں نے جواب دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس غزوات فرمائے تھے جن میں سے سترہ میں میں بھی شریک تھا۔
حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن النضر بن انس ، ان زيد بن ارقم كتب إلى انس بن مالك زمن الحرة يعزيه فيمن قتل من ولده وقومه، وقال: ابشرك ببشرى من الله عز وجل: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " اللهم اغفر للانصار، ولابناء الانصار، ولابناء ابناء الانصار، واغفر لنساء الانصار، ولنساء ابناء الانصار، ولنساء ابناء ابناء الانصار" .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ كَتَبَ إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ زَمَنَ الْحَرَّةِ يُعَزِّيهِ فِيمَنْ قُتِلَ مِنْ وَلَدِهِ وَقَوْمِهِ، وَقَالَ: أُبَشِّرُكَ بِبُشْرَى مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ، وَلِأَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ، وَلِأَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ، وَاغْفِرْ لِنِسَاءِ الْأَنْصَارِ، وَلِنِسَاءِ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ، وَلِنِسَاءِ أَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ" .
نضربن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ واقعہ حرہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے جو بچے اور قوم کے لوگ شہید ہوگئے تھے ان کی تعزیت کرنے کے لئے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے انہیں خط لکھا اور کہا کہ میں آپ کو اللہ کی طرف سے ایک خوشخبری سناتاہوں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے اللہ! انصار کی، ان کی بیٹوں کی اور ان کی پوتوں کی مغفرت فرما اور انصار کی عورتوں کی ان کے بیٹوں کی عورتوں کی اور ان کے پوتوں کی عورتوں کی مغفرت فرما۔
حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا إسرائيل ، عن عبد الاعلى ، قال: صليت خلف زيد بن ارقم على جنازة، فكبر خمسا، فقام إليه ابو عيسى عبد الرحمن بن ابي ليلى، فاخذ بيده، فقال: نسيت؟ قال: لا، ولكن صليت خلف ابي القاسم خليلي صلى الله عليه وسلم، فكبر خمسا، فلا اتركها ابدا .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ عَلَى جِنَازَةٍ، فَكَبَّرَ خَمْسًا، فَقَامَ إِلَيْهِ أَبُو عِيسَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى، فَأَخَذَ بِيَدِهِ، فَقَالَ: نَسِيتَ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنْ صَلَّيْتُ خَلْفَ أَبِي الْقَاسِمِ خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَبَّرَ خَمْسًا، فَلَا أَتْرُكُهَا أَبَدًا .
عبدالاعلی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی انہوں نے اس میں پانچ مرتبہ تکبیرکہی تو ابن ابی لیلیٰ نے کھڑے ہو کر ان کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگے کیا آپ بھول گئے ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں البتہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے " جو میرے خلیل اور ابوالقاسم تھے صلی اللہ علیہ وسلم " نماز جنازہ پڑھی ہے، انہوں نے پانچ مرتبہ تکبیرکہی تھی لہٰذا میں اسے کبھی ترک نہیں کروں گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالأعلى ضعيف عند الجمهور، ثم إن فى قوله: «صليت خلف زيد بن أرقم» وقفة
ابوسلمان مؤذن کہتے ہیں کہ ابوسریحہ کا انتقال ہوا تو حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور چارتکبیرات کہیں اور فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شريك، وجهالة حال أبى سلمان المؤذن، وللاختلاف عليه فيه
حدثنا حسين بن محمد ، وابو نعيم ، المعنى، قالا: حدثنا فطر ، عن ابي الطفيل ، قال: جمع علي رضي الله عنه الناس في الرحبة، ثم قال لهم: انشد الله كل امرئ مسلم سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم غدير خم ما سمع، لما قام، فقام ثلاثون من الناس، وقال ابو نعيم: فقام ناس كثير، فشهدوا حين اخذه بيده، فقال للناس: اتعلمون اني اولى بالمؤمنين من انفسهم؟ قالوا: نعم يا رسول الله، قال:" من كنت مولاه، فهذا مولاه، اللهم وال من والاه، وعاد من عاداه"، قال: فخرجت وكان في نفسي شيئا، فلقيت زيد بن ارقم، فقلت له: إني سمعت عليا رضي الله تعالى عنه يقول كذا وكذا، قال: فما تنكر؟ قد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ذلك له .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَأَبُو نُعَيْمٍ ، المعنى، قَالَا: حَدَّثَنَا فِطْرٌ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ: جَمَعَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ النَّاسَ فِي الرَّحَبَةِ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ: أَنْشُدُ اللَّهَ كُلَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ مَا سَمِعَ، لَمَّا قَامَ، فَقَامَ ثَلَاثُونَ مِنَ النَّاسِ، وَقَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: فَقَامَ نَاسٌ كَثِيرٌ، فَشَهِدُوا حِينَ أَخَذَهُ بِيَدِهِ، فَقَالَ لِلنَّاسِ: أَتَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟ قَالُوا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَهَذَا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ"، قَالَ: فَخَرَجْتُ وَكَأَنَّ فِي نَفْسِي شَيْئًا، فَلَقِيتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنِّي سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَمَا تُنْكِرُ؟ قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَلِكَ لَهُ .
ابوالطفیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صحن کوفہ میں لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا جس مسلمان نے غدیرخم کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سناہو میں اسے قسم دے کر کہتاہوں کہ اپنی جگہ پر کھڑا ہوجائے چناچہ تیس آدمی کھڑے ہوگئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ مجھے مسلمانوں پر ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ حق حاصل ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیوں نہیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ دبا کر فرمایا جس کا میں محبوب ہوں علی بھی اس کے محبوب ہونے چاہئیں اے اللہ، اے اللہ! جو علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے تو اس سے محبت فرما اور جو اس سے دشمنی کرتا ہے تو اس سے دشمنی فرما میں وہاں سے نکلا تو میرے دل میں اس کے متعلق کچھ شکوک و شبہات تھے چناچہ میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ملا اور عرض کیا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس اس طرح کہتے ہوئے سنا ہے انہوں نے فرمایا تمہیں اس پر تعجب کیوں ہورہا ہے؟ میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔
حدثنا حدثنا حسين ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ،: سمعت ابا حمزة رجلا من الانصار، قال: سمعت زيد بن ارقم ، يقول: اول من صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم علي رضي الله عنه. قال عمرو: فذكرت ذلك لإبراهيم، فانكره، وقال: ابو بكر رضي الله عنه.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ،: سَمِعْتُ أَبَا حَمْزَةَ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ ، يَقُولُ: أَوَّلُ مَنْ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. قَالَ عَمْرٌو: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِإِبْرَاهِيمَ، فَأَنْكَرَهُ، وَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ (بچوں میں) سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضيعف لجهالة أبى حمزة. وقوله الحافظ ابن حجر : "وثقة النسائي" وهم
حدثنا حدثنا حسين ، حدثنا شعبة ، اخبرني عمرو بن مرة ، قال: سمعت ابن ابي ليلى يحدث، عن زيد بن ارقم ، قال: كنا إذا جئناه، قلنا: حدثنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: إنا قد كبرنا ونسينا، والحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم شديد .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَى يُحَدِّثُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: كُنَّا إِذَا جِئْنَاهُ، قُلْنَا: حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّا قَدْ كَبُرْنَا وَنَسِينَا، وَالْحَدِيثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَدِيدٌ .
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ جب ہم لوگ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے کوئی حدیث سنانے کی فرمائش کرتے تو وہ فرماتے کہ ہم بوڑھے ہوگئے اور بھول گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے حدیث بیان کرنا بڑا مشکل کام ہے۔
بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ جب ہم لوگ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے کوئی حدیث سنانے کی فرمائش کرتے تو وہ فرماتے کہ ہم بوڑھے ہوگئے اور بھول گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے حدیث بیان کرنا بڑا مشکل کام ہے۔
حدثنا حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي حمزة ، عن زيد بن ارقم ، قال: اول من اسلم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم علي بن ابي طالب، فذكرت ذلك للنخعي، فانكره، وقال: ابو بكر اول من اسلم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّخَعِيِّ، فَأَنْكَرَهُ، وَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ (بچوں میں) سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضيعف لجهالة أبى حمزة. وقوله الحافظ ابن حجر : "وثقة النسائي" وهم
ابومنہال رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ اور براء بن عازب رضی اللہ عنہ ایک دوسرے کے تجارتی شریک تھے ایک مرتبہ دونوں نے نقد کے بدلے میں اور ادھار چاندی خرید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پتہ چلی تو ان دونوں کو حکم دیا کہ جو خریداری نقد کے بدلے میں ہوئی ہے اسے تو برقرار رکھو اور جو ادھار کے بدلے میں ہوئی ہے اسے واپس کردو۔
حدثنا عفان ، حدثنا عبد الرحمن بن زياد ، حدثنا عاصم الاحول ، عن عبد الله بن الحارث ، عن زيد بن ارقم ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " اللهم إني اعوذ بك من العجز، والكسل، والهرم، والجبن، والبخل، وعذاب القبر، اللهم آت نفسي تقواها، وزكها انت خير من زكاها، انت وليها ومولاها، اللهم إني اعوذ بك من قلب لا يخشع، ونفس لا تشبع، وعلم لا ينفع، ودعوة لا يستجاب لها"، قال: فقال زيد بن ارقم: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمناهن، ونحن نعلمكموهن .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْرَحْمَنِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ، وَالْكَسَلِ، وَالْهَرَمِ، وَالْجُبْنِ، وَالْبُخْلِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، اللَّهُمَّ آتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا، وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا، أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ، وَنَفَسٍ لَا تَشْبَعُ، وَعِلْمٍ لَا يَنْفَعُ، وَدَعْوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا"، قَالَ: فَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَاهُنَّ، وَنَحْنُ نُعَلِّمُكُمُوهُنَّ .
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء فرماتے تھے کہ اے اللہ! میں لاچاری، سستی، بڑھاپے، بزدلی، کنجوسی اور عذاب قبر سے آپ کی پناہ میں آتاہوں، اسے اللہ میرے نفس کو تقویٰ عطاء فرما اور اس کا تزکیہ فرما کہ تو ہی اس کا بہترین تزکیہ کرنے والا اور اس کا آقاومولیٰ ہے اے اللہ! میں خشوع سے خالی دل، نہ بھرنے والے نفس، غیرنافع علم اور مقبول نہ ہونے والی دعاء سے آپ کی پاہ میں آتاہوں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء ہمیں سکھاتے تھے اور ہم تمہیں سکھا رہے ہیں۔
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال: عمرو بن مرة اخبرني، قال: سمعت ابا حمزة ، انه سمع زيد بن ارقم ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فنزل منزلا، فسمعته يقول: " ما انتم بجزء من مئة الف جزء ممن يرد علي الحوض من امتي"، قال: كم كنتم يومئذ؟ قال: سبع مئة، او ثمان مئة .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ أَخْبَرَنِي، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَمْزَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَنَزَلَ مَنْزِلًا، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " مَا أَنْتُمْ بِجُزْءٍ مِنْ مِئَةِ أَلْفِ جُزْءٍ مِمَّنْ يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ مِنْ أُمَّتِي"، قَالَ: كَمْ كُنْتُمْ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: سَبْعَ مِئَةٍ، أَوْ ثَمَانِ مِئَةٍ .
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سفر میں ایک مقام پر پڑاؤ کرکے فرمایا تم لوگ قیامت کے دن میرے پاس حوض کوثر پر آنے والوں کا لاکھواں حصہ بھی نہیں ہو ہم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اس وقت آپ لوگ کتنے تھے؟ انہوں نے فرمایا چھ سے سات سو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو حمزة مجهول. وقوله الحافظ ابن حجر : "وثقة النسائي" وهم
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، اخبرني حبيب بن ابي ثابت ، قال: سمعت ابا المنهال ، قال: سالت البراء بن عازب ، وزيد بن ارقم ، عن الصرف، فهذا يقول: سل هذا، فإنه خير مني واعلم، وهذا يقول: سل هذا، فهو خير مني واعلم، قال: فسالتهما، فكلاهما يقول: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الورق بالذهب دينا، وسالت هذا، فقال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الورق بالذهب دينا.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنِي حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْمِنْهَالِ ، قَالَ: سَأَلْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ، وَزَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ ، عَنِ الصَّرْفِ، فَهَذَا يقُولُ: سَلْ هَذَا، فَإِنَّهُ خَيْرٌ مِنِّي وَأَعْلَمُ، وَهَذَا يَقُولُ: سَلْ هَذَا، فَهُوَ خَيْرٌ مِنِّي وَأَعْلَمُ، قَالَ: فَسَأَلْتُهُمَا، فَكِلَاهُمَا يَقُولُ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْوَرِقِ بِالذَّهَبِ دَيْنًا، وَسَأَلْتُ هَذَا، فَقَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْوَرِقِ بِالذَّهَبِ دَيْنًا.
ابومنہال رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے بیع صرف کے متعلق پوچھا وہ کہتے ہیں کہ ان سے پوچھ لو، یہ مجھ سے بہتر اور زیادہ جانتے والے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ان سے پوچھ لویہ مجھ سے بہتر اور زیادہ جاننے والے ہیں بہرحال! ان دونوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کے بدلے چاندی کی ادھارخریدوفروخت سے منع کیا ہے۔
عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نے مجھے وہ بات کیسے بتائی تھی کہ حالت احرام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا گیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہیں فرمایا؟ انہوں نے کہا ہاں! اسی طرح ہے۔
عبدالعزیزبن حکیم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی انہوں نے اس میں پانچ تکبیرات کہہ دیں پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح تکبیرات کہہ لیا کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: أشار العقيلي إلى تضعيف هذا الطريق، وقد ورد هذا الحديث من طريق أخرى، وهو صحيح
علی بن ربیعہ کہتے کہ ایک مرتبہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی اس وقت وہ مختار کے پاس جارہے تھے یا آرہے تھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ میں تم میں دو مضبوط چیزیں چھوڑ کر جارہاہوں؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں!
حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن ثمامة بن عقبة المحلمي ، قال: سمعت زيد بن ارقم يقول: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الرجل من اهل الجنة يعطى قوة مئة رجل في الاكل، والشرب، والشهوة، والجماع، فقال رجل من اليهود: فإن الذي ياكل ويشرب تكون له الحاجة، قال: فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: حاجة احدهم عرق يفيض من جلده، فإذا بطنه قد ضمر" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عُقْبَةَ الْمُحَلِّمِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ يَقُولُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الرَّجُلَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ يُعْطَى قُوَّةَ مِئَةِ رَجُلٍ فِي الْأَكْلِ، وَالشُّرْبِ، وَالشَّهْوَةِ، وَالْجِمَاعِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ اليهود: فَإِنَّ الَّذِي يَأْكُلُ وَيَشْرَبُ تَكُونُ لَهُ الْحَاجَةُ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حَاجَةُ أَحَدِهِمْ عَرَقٌ يَفِيضُ مِنْ جِلْدِهِ، فَإِذَا بَطْنُهُ قَدْ ضَمُرَ" .
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ہر جنتی کو کھانے، پینے خواہشات اور مباشرت کے حوالے سے سو آدمیوں کے برابرطاقت عطاء کی جائے گی ایک یہودی نے کہا کہ پھر اس کھانے پینے والے کو قضاء حاجت کا مسئلہ بھی پیش آئے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قضاء حاجت کا طریقہ یہ ہوگا کہ انہیں پسینہ آئے گا جوان کی کھال سے بہے گا اور اس سے مشک کی مہک آئے گی اور پیٹ ہلکا ہوجائے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، الأعمش مدلس، وقد عنعن
حدثنا وكيع ، حدثنا مسعر ، عن ابي ايوب مولى لبني ثعلبة، عن قطبة بن مالك ، قال: سب امير من الامراء عليا رضي الله تعالى عنه، فقام زيد بن ارقم ، فقال: اما ان قد علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن سب الموتى، فلم تسب عليا وقد مات؟! .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ مَوْلَى لِبَنِي ثَعْلَبَةَ، عَنْ قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: سَبَّ أَمِيرٌ مِنَ الْأُمَرَاءِ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، فَقَامَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ ، فَقَالَ: أَمَا أَنْ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ سَبِّ الْمَوْتَى، فَلِمَ تَسُبُّ عَلِيًّا وَقَدْ مَاتَ؟! .
حضرت قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی گورنر کی زبان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں کوئی نامناسب جملہ نکل گیا تو حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ آپ جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو برابھلا کہنے سے منع فرمایا ہے پھر آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسی بات کیوں کررہے ہیں جبکہ وہ فوت ہوچکے؟
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حجاج مولى بني ثعلبة
ابواسحاق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کتنے غزوات فرمائے؟ انہوں نے جواب دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس غزوات فرمائے تھے جن میں سے سترہ میں میں بھی شریک تھا۔
ابوالمنہال کہتے ہیں کہ میں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ اور زید رضی اللہ عنہ سے بیع صرف کے متعلق پوچھا تو ان دونوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ہم تجارت کرتے تھے ایک مرتبہ ہم نے بھی ان سے یہی سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر معاملہ نقد کا ہو تو کوئی حرج نہیں اور اگر ادھارہو تو پھر صحیح نہیں ہے۔
ایاس بن ابی رملہ شامی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا انہوں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جمعہ کے دن عید دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے پہلے حصے میں عید کی نماز پڑھی اور باہر سے آنے والوں کو جمعہ کی رخصت دے دی اور فرمایا جو شخص چاہے وہ جمعہ پڑھ کر واپس جائے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة إياس بن أبى رملة
حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن القاسم الشيباني ، ان زيد بن ارقم راى ناسا يصلون في مسجد قباء من الضحى، فقال: اما لقد علموا ان الصلاة في غير هذه الساعة افضل، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن صلاة الاوابين حين ترمض الفصال" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنِ الْقَاسِمِ الشَّيْبَانِيِّ ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ رَأَى نَاسًا يُصَلُّونَ فِي مَسْجِدِ قُبَاءَ مِنَ الضُّحَى، فَقَالَ: أَمَا لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّ الصَّلَاةَ فِي غَيْرِ هَذِهِ السَّاعَةِ أَفْضَلُ، إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ صَلَاةَ الْأَوَّابِينَ حِينَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ" .
قاسم شیبانی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ اہل قباء کے پاس تشریف لے گئے وہ لوگ چاشت کے وقت نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے فرمایا یہ لوگ جانتے بھی ہیں کہ یہ نماز کسی اور وقت میں افضل ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کی یہ نماز اس وقت پڑھی جاتی ہے جب اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلنے لگیں۔
حكم دارالسلام: هذا من صحيح حديث القاسم بن عوف، م: 748
ابن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ہمارے جنازوں پر چارتکبیرات کہتے تھے ایک مرتبہ کسی جنازے پر انہوں نے پانچ تکبیرات کہہ دیں لوگوں نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھارپانچ تکبیرات بھی کہہ لیا کرتے تھے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي حمزة ، عن زيد بن ارقم ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما انتم جزء من مئة الف او: من سبعين الفا ممن يرد علي الحوض"، قال: فسالوه: كم كنتم؟ فقال: ثمان مئة، او: سبع مئة .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أَنْتُمْ جُزْءٌ مِنْ مِئَةِ أَلْفٍ أَوْ: مِنْ سَبْعِينَ أَلْفًا مِمَّنْ يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ"، قَالَ: فَسَأَلُوهُ: كَمْ كُنْتُمْ؟ فَقَالَ: ثَمَانِ مِئَةٍ، أَوْ: سَبْعَ مِئَةٍ .
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سفر میں ایک مقام پر پڑاؤ کرکے فرمایا تم لوگ قیامت کے دن میرے پاس حوض کوثر پر آنے والوں کا لاکھواں حصہ بھی نہیں ہو ہم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اس وقت آپ لوگ کتنے تھے؟ انہوں نے فرمایا سات سویا آٹھ سو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو حمزة مجهول. وقوله الحافظ ابن حجر : "وثقة النسائي" وهم
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! انصار کی، ان کی بیٹوں کی اور ان کی پوتوں کی مغفرت فرما۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ جب ہم لوگ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے کوئی حدیث سنانے کی فرمائش کرتے تو وہ فرماتے کہ ہم بوڑھے ہوگئے اور بھول گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے حدیث بیان کرنا بڑا مشکل کام ہے۔
حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن المغيرة ، عن ابي عبيد ، عن ميمون ابي عبد الله ، قال: قال زيد بن ارقم ، وانا اسمع: نزلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بواد يقال له: وادي خم، فامر بالصلاة، فصلاها بهجير، قال فخطبنا، وظلل لرسول الله صلى الله عليه وسلم بثوب على شجرة سمرة من الشمس، فقال:" الستم تعلمون او لستم تشهدون اني اولى بكل مؤمن من نفسه؟ قالوا: بلى، قال: فمن كنت مولاه، فإن عليا مولاه، اللهم وال من والاه، وعاد من عاداه" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ ، وَأَنَا أَسْمَعُ: نَزَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَادٍ يُقَالُ لَهُ: وَادِي خُمٍّ، فَأَمَرَ بِالصَّلَاةِ، فَصَلَّاهَا بِهَجِيرٍ، قَالَ فَخَطَبَنَا، وَظُلِّلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَوْبٍ عَلَى شَجَرَةِ سَمُرَةٍ مِنَ الشَّمْسِ، فَقَالَ:" أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَوَ لَسْتُمْ تَشْهَدُونَ أَنِّي أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَإِنَّ عَلِيًّا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ" .
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ کسی سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے ہم نے " غدیرخم " کے مقام پر پڑاؤ ڈالا، کچھ دیر بعد " الصلوٰۃ جامعۃ " کی منادی کردی گئی دو درختوں کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جگہ تیار کردی گئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر پڑھائی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کردو مرتبہ فرمایا کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ مجھے مسلمانوں پر ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ حق حاصل ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیوں نہیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ دبا کر فرمایا جس کا میں محبوب ہوں علی بھی اس کے محبوب ہونے چاہئیں اے اللہ، اے اللہ! جو علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے تو اس سے محبت فرما اور جو اس سے دشمنی کرتا ہے تو اس سے دشمنی فرما۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى عبيد، ولضعف ميمون أبى عبدالله
ابومنہال رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے بیع صرف کے متعلق پوچھا وہ کہتے ہیں کہ ان سے پوچھ لو، یہ مجھ سے بہتر اور زیادہ جانتے والے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ان سے پوچھ لویہ مجھ سے بہتر اور زیادہ جاننے والے ہیں بہرحال! ان دونوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کے بدلے چاندی کی ادھارخریدوفروخت سے منع کیا ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ميمون ابي عبد الله ، قال: كنت عند زيد بن ارقم ، فجاء رجل من اقصى الفسطاط، فساله عن ذا، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " الست اولى بالمؤمنين من انفسهم؟ قالوا: بلى، قال: من كنت مولاه، فعلي مولاه، قال ميمون: فحدثني بعض القوم عن زيد: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: اللهم وال من والاه، وعاد من عاداه" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْفَسْطَاطِ، فَسَأَلَهُ عَنْ ذَا، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، قَالَ مَيْمُونٌ: فَحَدَّثَنِي بَعْضُ الْقَوْمِ عَنْ زَيْدٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ" .
میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی فسطاط کے آخر سے آیا اور ان سے کسی بیماری کے متعلق پوچھا انہوں نے دوران گفتگو فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا مجھے مسلمانوں پر ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ حق حاصل ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیوں نہیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ دبا کر فرمایا جس کا میں محبوب ہوں علی بھی اس کے محبوب ہونے چاہئیں میمون ایک دوسری سند سے یہ اضافہ بھی نقل کرتے ہیں کہ، اے اللہ! جو علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے تو اس سے محبت فرما اور جو اس سے دشمنی کرتا ہے تو اس سے دشمنی فرما۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ميمون أبى عبدالله
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن اجلح ، عن الشعبي ، عن عبد خير الحضرمي ، عن زيد بن ارقم ، قال: كان علي رضي الله عنه باليمن، فاتي بامراة وطئها ثلاثة نفر في طهر واحد، فسال اثنين: اتقران لهذا بالولد؟ فلم يقرا، ثم سال اثنين: اتقران لهذا بالولد؟ فلم يقرا، ثم سال اثنين، حتى فرغ يسال اثنين اثنين عن واحد، فلم يقروا، ثم اقرع بينهم، فالزم الولد الذي خرجت عليه القرعة، وجعل عليه ثلثي الدية، فرفع ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فضحك حتى بدت نواجذه .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَجْلَحَ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: كَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِالْيَمَنِ، فَأُتِيَ بِامْرَأَةٍ وَطِئَهَا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ، فَسَأَلَ اثْنَيْنِ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ فَلَمْ يُقِرَّا، ثُمَّ سَأَلَ اثْنَيْنِ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ فَلَمْ يُقِرَّا، ثُمَّ سَأَلَ اثْنَيْنِ، حَتَّى فَرَغَ يَسْأَلُ اثْنَيْنِ اثْنَيْنِ عَنْ وَاحِدٍ، فَلَمْ يُقِرُّوا، ثُمَّ أَقْرَعَ بَيْنَهُمْ، فَأَلْزَمَ الْوَلَدَ الَّذِي خَرَجَتْ عَلَيْهِ الْقُرْعَةُ، وَجَعَلَ عَلَيْهِ ثُلُثَيْ الدِّيَةِ، فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ .
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن میں تھے تو ان کی پاس ایک عورت کو لایا گیا جس سے ایک ہی طہر میں تین آدمیوں نے بدکاری کی تھی انہوں نے ان میں سے دو آدمیوں سے پوچھا کہ کیا تم اس شخص کے لئے بچے کا اقرار کرتے ہو؟ انہوں نے اقرار نہیں کیا اسی طرح ایک ایک کے ساتھ دوسرے کو ملاکرسوال کرتے رہے یہاں تک کہ اس مرحلے سے فارغ ہوگئے اور کسی نے بھی بچے کا اقرار نہیں کیا پھر انہوں نے ان کے درمیان قرعہ اندازی کی اور قرعہ میں جس کا نام نکل آیابچہ اس کا قرار دے دیا اور اس پر دوتہائی دیت مقرر کردی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ مسئلہ پیش ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنے مسکرائے کہ دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لاضطرابه ، فقد رواه الشعبي، واختلف عنه
ابوالمنہال کہتے ہیں کہ میں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ اور زید رضی اللہ عنہ سے بیع صرف کے متعلق پوچھا تو ان دونوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ہم تجارت کرتے تھے ایک مرتبہ ہم نے بھی ان سے یہی سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر معاملہ نقد کا ہو تو کوئی حرج نہیں اور اگر ادھارہو تو پھر صحیح نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2180، م: 1589، وهذا إسناد ضعيف الانقطاعه، حسن بن مسلم لم يسمعه من أبى المنهال
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ان بیت الخلاؤں میں جنات آتے رہتے ہیں اس لئے جب تم میں سے کوئی شخص بیت الخلاء میں داخل ہو تو اسے یہ دعاء پڑھ لینی چاہئے کہ اے اللہ! میں خبیث مذکرومؤنث جنات سے آپ کی پناہ میں آتاہوں۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، وهذا حديث تفرد به قتاده، ورواه عنه جماعة من تلاميذه، واختلفوا عليه فيه
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ان بیت الخلاؤں میں جنات آتے رہتے ہیں اس لئے جب تم میں سے کوئی شخص بیت الخلاء میں داخل ہو تو اسے یہ دعاء پڑھ لینی چاہئے کہ اے اللہ! میں خبیث مذکر و مؤنث جنات سے آپ کی پناہ میں آتاہوں۔
حدثنا يحيى بن آدم ، ويحيى بن ابي بكير ، قالا: حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، قال: سمعت زيد بن ارقم ، قال ابن ابي بكير: عن زيد بن ارقم، قال: خرجت مع عمي في غزاة، فسمعت عبد الله بن ابي ابن سلول يقول لاصحابه: لا تنفقوا على من عند رسول الله، ولئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الاعز منها الاذل، فذكرت ذلك لعمي، فذكره عمي لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فارسل إلي النبي صلى الله عليه وسلم فحدثته، فارسل إلى عبد الله بن ابي ابن سلول واصحابه، فحلفوا ما قالوا، فكذبني رسول الله صلى الله عليه وسلم وصدقه، فاصابني هم لم يصيبني مثله قط، وجلست في البيت، فقال عمي: ما اردت إلى ان كذبك النبي صلى الله عليه وسلم ومقتك؟ قال: حتى انزل الله عز وجل: إذا جاءك المنافقون سورة المنافقون آية 1، قال: فبعث إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقراها، ثم قال: " إن الله عز وجل قد صدقك" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، وَيَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ ، قَالَ ابْنُ أَبِي بُكَيْرٍ: عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عَمِّي فِي غَزَاةٍ، فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ ابْنِ سَلُولَ يَقُولُ لِأَصْحَابِهِ: لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ، وَلَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمِّي، فَذَكَرَهُ عَمِّي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْتُهُ، فَأَرْسَلَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيِّ ابْنِ سَلُولَ وَأَصْحَابِهِ، فَحَلَفُوا مَا قَالُوا، فَكَذَّبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَدَّقَهُ، فَأَصَابَنِي هَمٌّ لَمْ يُصِيبُنِي مِثْلُهُ قَطُّ، وَجَلَسْتُ فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ عَمِّي: مَا أَرَدْتَ إِلَى أَنْ كَذَّبَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَقَتَكَ؟ قَالَ: حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ سورة المنافقون آية 1، قَالَ: فَبَعَثَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَهَا، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ صَدَّقَكَ" .
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں اپنے چچا کے ساتھ کسی غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھا، (رئیس المنافقین) عبداللہ بن ابی کہنے لگا کہ اگر ہم مدینہ منورہ واپس گئے تو جو زیادہ باعزت ہوگا وہ زیادہ ذلیل کو وہاں سے باہر نکال دے گا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ کو اس کی یہ بات بتائی، عبداللہ بن ابی نے قسم اٹھالی کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی میرے چچا مجھے ملامت کرنے لگے اور کہنے لگے کہ تمہارا اس سے کیا مقصد تھا؟ میں وہاں سے واپس آکرغمزدہ سالیٹ کر سونے لگا تھوڑی ہی دیر بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد کے ذریعے مجھے بلابھیجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارا عذر نازل کرکے تمہاری سچائی کو ثابت کردیا ہے اور یہ آیت نازل ہوئی ہے یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہم مدینہ منورہ واپس گئے تو جو زیادہ باعزت ہوگا وہ زیادہ ذلیل کو وہاں سے باہر نکال دے گا۔
حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا زهير ، حدثنا ابو إسحاق ، انه سمع زيد بن ارقم يقول: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فاصاب الناس شدة، فقال عبد الله بن ابي لاصحابه: لا تنفقوا على من عند رسول الله حتى ينفضوا من حوله، وقال: لئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الاعز منها الاذل، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبرته بذلك، فارسل إلى عبد الله بن ابي، فساله، فاجتهد يمينه ما فعل، فقالوا: كذب زيد رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فوقع في نفسي مما قالوا، حتى انزل الله عز وجل تصديقي في: إذا جاءك المنافقون سورة المنافقون آية 1، قال: ودعاهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ليستغفر لهم، فلووا رؤوسهم، وقوله تعالى: كانهم خشب مسندة سورة المنافقون آية 4، قال: كانوا رجالا اجمل شيء .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ يَقُولُ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَأَصَابَ النَّاسَ شِدَّةٌ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ لِأَصْحَابِهِ: لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ، وَقَالَ: لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِذَلِكَ، فَأَرْسَلَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ، فَسَأَلَهُ، فَاجْتَهَدَ يَمِينَهُ مَا فَعَلَ، فَقَالُوا: كَذَّبَ زَيْدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِمَّا قَالُوا، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ تَصْدِيقِي فِي: إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ سورة المنافقون آية 1، قَالَ: وَدَعَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَسْتَغْفِرَ لَهُمْ، فَلَوَّوْا رُؤُوسَهُمْ، وَقَوْلُهُ تَعَالَى: كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ سورة المنافقون آية 4، قَالَ: كَانُوا رِجَالًا أَجْمَلَ شَيْءٍ .
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں کسی غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھا، لوگوں کو اس پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا (رئیس المنافقین) عبداللہ بن ابی کہنے لگا کہ اگر ہم مدینہ منورہ واپس گئے تو جو زیادہ باعزت ہوگا وہ زیادہ ذلیل کو وہاں سے باہر نکال دے گا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ کو اس کی یہ بات بتائی، عبداللہ بن ابی نے قسم اٹھالی کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی میری قوم کے لوگ مجھے ملامت کرنے لگے اور کہنے لگے کہ تمہارا اس سے کیا مقصد تھا؟ میں وہاں سے واپس آکرغمزدہ سالیٹ کر سونے لگا تھوڑی ہی دیر بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد کے ذریعے مجھے بلابھیجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارا عذر نازل کرکے تمہاری سچائی کو ثابت کردیا ہے اور یہ آیت نازل ہوئی ہے یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہم مدینہ منورہ واپس گئے تو جو زیادہ باعزت ہوگا وہ زیادہ ذلیل کو وہاں سے باہر نکال دے گا۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، قال: لقيت زيد بن ارقم ، فقلت له: كم غزا رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: تسع عشرة، قلت: كم غزوت انت معه؟ قال: سبع عشرة غزوة، قال: فقلت: فما اول غزوة غزا؟ قال: ذات العشير، او: العشيرة .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: لَقِيتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ ، فَقُلْتُ لَهُ: كَمْ غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: تِسْعَ عَشْرَةَ، قُلْتُ: كَمْ غَزَوْتَ أَنْتَ مَعَهُ؟ قَالَ: سَبْعَ عَشْرَةَ غَزْوَةً، قَالَ: فَقُلْتُ: فَمَا أَوَّلُ غَزْوَةٍ غَزَا؟ قَالَ: ذَاتُ الْعُشَيْرِ، أَوْ: الْعُشَيْرَةِ .
ابواسحاق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے غزوات فرمائے؟ انہوں نے جواب دیا انیس میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کتنے غزوات میں شرکت کی؟ انہوں نے فرمایا ان میں سے سترہ میں میں بھی شریک تھا میں پہلے غزوے کا نام پوچھا تو انہوں نے ذات العیسریاذات العشیرہ بتایا۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، قال سمعت ابا حمزة ، قال: قالت الانصار: يا رسول الله، إن لكل نبي اتباعا، وإنا قد تبعناك، فادع الله عز وجل ان يجعل اتباعنا منا، قال: فدعا لهم ان يجعل اتباعهم منهم، قال: فنميت ذلك إلى ابن ابي ليلى، فقال: زعم ذلك زيد، يعني ابن ارقم .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حَمْزَةَ ، قَالَ: قَالَتِ الْأَنْصَارُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ أَتْبَاعًا، وَإِنَّا قَدْ تَبِعْنَاكَ، فَادْعُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَجْعَلَ أَتْبَاعَنَا مِنَّا، قَالَ: فَدَعَا لَهُمْ أَنْ يَجْعَلَ أَتْبَاعَهُمْ مِنْهُمْ، قَالَ: فَنَمَّيْتُ ذَلِكَ إِلَى ابْنِ أَبِي لَيْلَى، فَقَالَ: زَعَمَ ذَلِكَ زَيْدٌ، يَعْنِي ابْنَ أَرْقَمَ .
ابوحمزہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ انصارنے عرض کیا یا رسول اللہ! ہر نبی کے پیروکار ہوتے ہیں ہم آپ کے پیروکار ہیں آپ اللہ سے دعاء کردیجئے کہ ہمارے پیروکاروں کو ہم میں ہی شامل فرمادے چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعاء فرمادی کہ اللہ ان کے پیروکاروں کو ان ہی میں شامل فرمادے۔ یہ حدیث ابن ابی لیلیٰ سے بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا بھی یہی خیال ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، أبوحمزة مجهول، وقول ابن حجر: وثقه النسائي وهم
حدثنا محمد بن جعفر ، وبهز ، قالا: حدثنا شعبة ، عن حبيب ، قال: سمعت ابا المنهال ، قال بهز: اخبرني حبيب بن ابي ثابت، قال: سمعت ابا المنهال رجلا من بني كنانة، قال: سالت البراء بن عازب ، عن الصرف، فقال: سل زيد بن ارقم ، فإنه خير مني واعلم، قال: فسالت زيدا، فقال: سل البراء، فإنه خير مني واعلم، قال: فقالا جميعا: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الورق بالذهب دينا .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَبَهْزٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ حَبِيبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْمِنْهَالِ ، قَالَ بَهْزٌ: أَخْبَرَنِي حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْمِنْهَالِ رَجُلًا مِنْ بَنِي كِنَانَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ، عَنِ الصَّرْفِ، فَقَالَ: سَلْ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ ، فَإِنَّهُ خَيْرٌ مِنِّي وَأَعْلَمُ، قَالَ: فَسَأَلْتُ زَيْدًا، فَقَالَ: سَلِ الْبَرَاءَ، فَإِنَّهُ خَيْرٌ مِنِّي وَأَعْلَمُ، قَالَ: فَقَالَا جَمِيعًا: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْوَرِقِ بِالذَّهَبِ دَيْنًا .
ابومنہال رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے بیع صرف کے متعلق پوچھا وہ کہتے ہیں کہ ان سے پوچھ لو، یہ مجھ سے بہتر اور زیادہ جانتے والے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ان سے پوچھ لویہ مجھ سے بہتر اور زیادہ جاننے والے ہیں بہرحال! ان دونوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کے بدلے چاندی کی ادھارخریدوفروخت سے منع کیا ہے۔
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن مطر ، عن عبد الله بن بريدة ، قال:" شك عبيد الله بن زياد في الحوض، فارسل إلى زيد بن ارقم ، فساله عن الحوض، فحدثه حديثا مونقا اعجبه، فقال له: سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: لا، ولكن حدثنيه اخي .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، قَالَ:" شَكَّ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ فِي الْحَوْضِ، فَأَرْسَلَ إِلَى زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، فَسَأَلَهُ عَنِ الْحَوْضِ، فَحَدَّثَهُ حَدِيثًا مُوَنَّقًا أَعْجَبَهُ، فَقَالَ لَهُ: سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنْ حَدَّثَنِيهِ أَخِي .
عبداللہ بن بریدہ کہتے ہیں کہ عبیداللہ بن زیاد کو حوض کوثر کے متعلق کچھ شکوک شبہات تھے اس نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو بلابھیجا اور ان سے اس کے متعلق دریافت کیا انہوں نے اسے اس حوالے سے ایک عمدہ حدیث سنائی جسے سن کر وہ خوش ہوا اور کہنے لگا کہ آپ نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا نہیں، بلکہ میرے بھائی نے مجھ سے بیان کی ہے۔
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج . وابن بكر ، قال: حدثنا ابن جريج ، قال: اخبرني حسن بن مسلم ، عن طاوس ، قال: قدم زيد بن ارقم ، فكان ابن عباس يستذكره، كيف اخبرتني عن لحم، قال ابن بكر: اهدي للنبي صلى الله عليه وسلم حراما، وقال عبد الرزاق: اهدي للنبي صلى الله عليه وسلم؟ فقال: نعم، اهدي له عضو، قال ابن بكر: اهدى رجل عضوا من لحم صيد، فرده عليه، وقال: " إنا لا ناكله، إنا حرم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ . وَابْنُ بَكْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، قَالَ: قَدِمَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ ، فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَسْتَذْكِرُهُ، كَيْفَ أَخْبَرْتَنِي عَنْ لَحْمٍ، قَالَ ابْنُ بَكْرٍ: أُهْدِيَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَامًا، وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: أُهْدِيَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، أُهْدِيَ لَهُ عُضْوٌ، قَالَ ابْنُ بَكْرٍ: أَهْدَى رِجْلُ عُضْوًا مِنْ لَحْمِ صَيْدٍ، فَرَدَّهُ عَلَيْهِ، وَقَالَ: " إِنَّا لَا نَأْكُلُهُ، إِنَّا حُرُمٌ" .
طاؤس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کریدتے ہوئے پوچھا کہ آپ نے مجھے وہ بات کیسے بتائی تھی کہ حالت احرام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا گیا؟ انہوں نے فرمایا ہاں! ایک آدمی نے کسی شکار کا ایک حصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیۃ ًپیش کیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہ کیا اور فرمایا ہم اسے نہیں کھاسکتے کیونکہ ہم محرم ہیں۔
حدثنا سفيان بن عيينة ، عن اجلح ، عن الشعبي ، عن عبد الله بن ابي الخليل ، عن زيد بن ارقم : ان نفرا وطئوا امراة في طهر، فقال علي رضي الله تعالى عنه لاثنين: اتطيبان نفسا لذا؟ فقالا: لا، فاقبل على الآخرين، فقال: اتطيبان نفسا لذا؟ فقالا: لا، قال: انتم شركاء متشاكسون، قال: إني مقرع بينكم، فايكم قرع اغرمته ثلثي الدية، والزمته الولد، قال: فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " لا اعلم إلا ما قال علي" رضي الله عنه .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَجْلَحَ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْخَلِيلِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ : أَنَّ نَفَرًا وَطِئُوا امْرَأَةً فِي طُهْرٍ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ لِاثْنَيْنِ: أَتَطِيبَانِ نَفْسًا لِذَا؟ فَقَالَا: لَا، فَأَقْبَلَ عَلَى الْآخَرَيْنِ، فَقَالَ: أَتَطِيبَانِ نَفْسًا لِذَا؟ فَقَالَا: لَا، قَالَ: أَنْتُمْ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ، قَالَ: إِنِّي مُقْرِعٌ بَيْنَكُمْ، فَأَيُّكُمْ قُرِعَ أَغْرَمْتُهُ ثُلُثَيْ الدِّيَةِ، وَأَلْزَمْتُهُ الْوَلَدَ، قَالَ: فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " لَا أَعْلَمُ إِلَّا مَا قَالَ عَلِيٌّ" رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ .
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن میں تھے تو ان کی پاس ایک عورت کو لایا گیا جس سے ایک ہی طہر میں تین آدمیوں نے بدکاری کی تھی انہوں نے ان میں سے دو آدمیوں سے پوچھا کہ کیا تم اس شخص کے لئے بچے کا اقرار کرتے ہو؟ انہوں نے اقرار نہیں کیا اسی طرح ایک ایک کے ساتھ دوسرے کو ملاکرسوال کرتے رہے یہاں تک کہ اس مرحلے سے فارغ ہوگئے اور کسی نے بھی بچے کا اقرار نہیں کیا پھر انہوں نے ان کے درمیان قرعہ اندازی کی اور قرعہ میں جس کا نام نکل آیابچہ اس کا قرار دے دیا اور اس پر دوتہائی دیت مقرر کردی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ مسئلہ پیش ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بھی اس کا حل وہی جانتاہوں جو علی نے بتایا ہے۔
حدثنا يزيد ، اخبرنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن ابي بكر بن انس ، قال: كتب زيد بن ارقم ، إلى انس بن مالك يعزيه بمن اصيب من ولده وقومه يوم الحرة، فكتب إليه: وابشرك ببشرى من الله عز وجل، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " اللهم اغفر للانصار، ولابناء الانصار، ولابناء ابناء الانصار، ولنساء الانصار، ولنساء ابناء الانصار، ولنساء ابناء ابناء الانصار" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ ، قَالَ: كَتَبَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ ، إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ يُعَزِّيهِ بِمَنْ أُصِيبَ مِنْ وَلَدِهِ وَقَوْمِهِ يَوْمَ الْحَرَّةِ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ: وَأُبَشِّرُكَ بِبُشْرَى مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ، وَلِأَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ، وَلِأَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ، وَلِنِسَاءِ الْأَنْصَارِ، وَلِنِسَاءِ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ، وَلِنِسَاءِ أَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ" .
نضربن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ واقعہ حرہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے جو بچے اور قوم کے لوگ شہید ہوگئے تھے ان کی تعزیت کرنے کے لئے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے انہیں خط لکھا اور کہا کہ میں آپ کو اللہ کی طرف سے ایک خوشخبری سناتاہوں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے اللہ! انصار کی، ان کی بیٹوں کی اور ان کی پوتوں کی مغفرت فرما اور انصار کی عورتوں کی ان کے بیٹوں کی عورتوں کی اور ان کے پوتوں کی عورتوں کی مغفرت فرما۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 4906، م: 2506، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حدثنا سريج بن النعمان ، حدثنا هشيم ، اخبرنا الاجلح ، عن الشعبي ، عن ابي الخليل ، عن زيد بن ارقم : ان عليا رضي الله عنه اتي في ثلاثة نفر إذ كان باليمن اشتركوا في ولد، فاقرع بينهم، فضمن الذي اصابته القرعة ثلثي الدية، وجعل الولد له، قال زيد بن ارقم: فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبرته بقضاء علي، فضحك حتى بدت نواجذه .حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا الْأَجْلَحُ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ : أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أُتِيَ فِي ثَلَاثَةِ نَفَرٍ إِذْ كَانَ بِالْيَمَنِ اشْتَرَكُوا فِي وَلَدٍ، فَأَقْرَعَ بَيْنَهُمْ، فَضَمِنَ الَّذِي أَصَابَتْهُ الْقُرْعَةُ ثُلُثَيْ الدِّيَةِ، وَجَعَلَ الْوَلَدَ لَهُ، قَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِقَضَاءِ عَلِيٍّ، فَضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ .
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن میں تھے تو ان کی پاس ایک عورت کو لایا گیا جس سے ایک ہی طہر میں تین آدمیوں نے بدکاری کی تھی انہوں نے ان کے درمیان قرعہ اندازی کی اور قرعہ میں جس کا نام نکل آیابچہ اس کا قرار دے دیا اور اس پر دوتہائی دیت مقرر کردی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ مسئلہ پیش ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنے مسکرائے کہ دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔
حدثنا محمد بن ربيعة ، عن خالد ابي العلاء الخفاف ، عن عطية ، عن زيد بن ارقم ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كيف انعم وصاحب القرن قد التقم القرن، وحنى جبهته، واصغى السمع متى يؤمر، قال: فسمع ذلك اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فشق عليهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قولوا: حسبنا الله ونعم الوكيل" ..حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ ، عَنْ خَالِدٍ أَبِي الْعَلَاءِ الْخَفَّافِ ، عَنْ عَطِيَّةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَيْفَ أَنْعَمُ وَصَاحِبُ الْقَرْنِ قَدْ الْتَقَمَ الْقَرْنَ، وَحَنَى جَبْهَتَهُ، وَأَصْغَى السَّمْعَ مَتَى يُؤْمَرُ، قَالَ: فَسَمِعَ ذَلِكَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَقَّ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُولُوا: حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ" ..
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں کس طرح نعمتوں سے لطف اندوز ہوسکتا ہوں جبکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے اپنے منہ صور سے لگا رکھا ہے پیشانی جھکا رکھی ہے اور کان متوجہ کر رکھے ہیں کہ کب اسے حکم ہوتا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو یہ بات سن کر بہت سخت معلوم ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم حسبنا اللہ ونعم الوکیل کہتے رہو۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ بھی مروی ہے کہ
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف عطية وخالد الخفاف، وقد اختلف فيه
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عطية العوفي، وهذا الحديث من مسند أبى سعيد الخدري، وقد سلف ، وإنما أعادها الإمام أحمد هنا لذكر الاختلاف فيه على عطية العوفي
حدثنا عبد الوهاب ، عن سعيد ، عن قتادة ، عن القاسم الشيباني ، عن زيد بن ارقم ، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم اتى على مسجد قباء او: دخل مسجد قباء بعدما اشرقت الشمس، فإذا هم يصلون، فقال: " إن صلاة الاوابين كانوا يصلونها إذا رمضت الفصال" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْقَاسِمِ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى عَلَى مَسْجِدِ قُبَاءَ أَوْ: دَخَلَ مَسْجِدَ قُبَاءَ بَعْدَمَا أَشْرَقَتِ الشَّمْسُ، فَإِذَا هُمْ يُصَلُّونَ، فَقَالَ: " إِنَّ صَلَاةَ الْأَوَّابِينَ كَانُوا يُصَلُّونَهَا إِذَا رَمِضَتِ الْفِصَالُ" .
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہل قباء کے پاس تشریف لے گئے وہ لوگ چاشت کے وقت نماز پڑھ رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کی یہ نماز اس وقت پڑھی جاتی ہے جب اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلنے لگیں۔
حكم دارالسلام: هذا من صحيح حديث القاسم بن عوف، م: 748
حدثنا حجاج ، عن يونس بن ابي إسحاق ، وإسماعيل بن عمر ، قال: حدثنا يونس بن ابي إسحاق ، عن ابي إسحاق ، عن زيد بن ارقم ، قال: اصابني رمد، فعادني النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فلما برات خرجت، قال: فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ارايت لو كانت عيناك لما بهما ما كنت صانعا؟ قال: قلت: لو كانتا عيناي لما بهما، صبرت واحتسبت، قال: لو كانت عيناك لما بهما، ثم صبرت واحتسبت، للقيت الله عز وجل ولا ذنب لك، قال إسماعيل: ثم صبرت واحتسبت، لاوجب الله لك الجنة" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: أَصَابَنِي رَمَدٌ، فَعَادَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَلَمَّا بَرَأْتُ خَرَجْتُ، قَالَ: فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَتْ عَيْنَاكَ لِمَا بِهِمَا مَا كُنْتَ صَانِعًا؟ قَالَ: قُلْتُ: لَوْ كَانَتَا عَيْنَايَ لِمَا بِهِمَا، صَبَرْتُ وَاحْتَسَبْتُ، قَالَ: لَوْ كَانَتْ عَيْنَاكَ لِمَا بِهِمَا، ثُمَّ صَبَرْتَ وَاحْتَسَبْتَ، لَلَقِيتَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا ذَنْبَ لَكَ، قَالَ إِسْمَاعِيلُ: ثُمَّ صَبَرْتَ وَاحْتَسَبْتَ، لَأَوْجَبَ اللَّهُ لَكَ الْجَنَّةَ" .
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مجھے آشوب چشم کا عارضہ لاحق ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے تھے جب میں صحیح ہوگیا تو گھر سے نکلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا یہ بتاؤ کہ اگر تمہاری آنکھیں اسی بیماری میں رہتیں تو تم کیا کرتے؟ میں نے جواب دیا کہ اگر میری آنکھیں اسی طرح رہتیں تو میں ثواب کی نیت سے صبر کرتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم اللہ سے اس طرح ملتے کہ تمہارا کوئی گناہ نہ ہوتا۔