حدثنا إسماعيل ، عن يونس ، عن الحسن ، ان اسيد بن المتشمس قال: اقبلنا مع ابي موسى من اصبهان، فتعجلنا، وجاءت عقيلة، فقال ابو موسى : الا فتى ينزل كنته؟ قال: يعني: امة الاشعري، فقلت: بلى، فادنيتها من شجرة، فانزلتها، ثم جئت، فقعدت مع القوم، فقال: الا احدثكم حديثا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحدثناه، فقلنا: بلى، يرحمك الله، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحدثنا: " ان بين يدي الساعة الهرج"، قيل: وما الهرج؟ قال:" الكذب والقتل"، قالوا: اكثر مما نقتل الآن؟ قال:" إنه ليس بقتلكم الكفار، ولكنه قتل بعضكم بعضا، حتى يقتل الرجل جاره، ويقتل اخاه، ويقتل عمه، ويقتل ابن عمه"، قالوا: سبحان الله! ومعنا عقولنا؟ قال:" لا، إلا انه ينزع عقول اهل ذاكم الزمان حتى يحسب احدكم انه على شيء، وليس على شيء". والذي نفس محمد بيده، لقد خشيت ان تدركني وإياكم تلك الامور، وما اجد لي ولكم منها مخرجا، فيما عهد إلينا نبينا صلى الله عليه وسلم، إلا ان نخرج منها كما دخلناها، لم نحدث فيها شيئا ..حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَن يُونُسَ ، عَن الْحَسَنِ ، أَنَّ أَسِيدَ بْنَ الْمُتَشَمِّسِ قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ أَبِي مُوسَى مِنْ أَصْبَهَانَ، فَتَعَجَّلْنَا، وَجَاءَتْ عُقَيْلَةُ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى : أَلَا فَتًى يُنْزِلُ كَنَّتَهُ؟ قَالَ: يَعْنِي: أَمَةٌ الْأَشْعَرِيَّ، فَقُلْتُ: بَلَى، فَأَدْنَيْتُهَا مِنْ شَجَرَةٍ، فَأَنْزَلْتُهَا، ثُمَّ جِئْتُ، فَقَعَدْتُ مَعَ الْقَوْمِ، فَقَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُنَاهُ، فَقُلْنَا: بَلَى، يَرْحَمُكَ اللَّهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُنَا: " أَنَّ بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ الْهَرْجَ"، قِيلَ: وَمَا الْهَرْجُ؟ قَالَ:" الْكَذِبُ وَالْقَتْلُ"، قَالُوا: أَكْثَرُ مِمَّا نَقْتُلُ الْآنَ؟ قَالَ:" إِنَّهُ لَيْسَ بِقَتْلِكُمْ الْكُفَّارَ، وَلَكِنَّهُ قَتْلُ بَعْضِكُمْ بَعْضًا، حَتَّى يَقْتُلَ الرَّجُلُ جَارَهُ، وَيَقْتُلَ أَخَاهُ، وَيَقْتُلَ عَمَّهُ، وَيَقْتُلَ ابْنَ عَمِّهِ"، قَالُوا: سُبْحَانَ اللَّهِ! وَمَعَنَا عُقُولُنَا؟ قَالَ:" لَا، إِلَّا أَنَّهُ يَنْزِعُ عُقُولَ أَهْلِ ذَاكُمِ الزَّمَانِ حَتَّى يَحْسَبَ أَحَدُكُمْ أَنَّهُ عَلَى شَيْءٍ، وَلَيْسَ عَلَى شَيْءٍ". وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ تُدْرِكَنِي وَإِيَّاكُمْ تِلْكَ الْأُمُورُ، وَمَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مِنْهَا مَخْرَجًا، فِيمَا عَهِدَ إِلَيْنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا أَنْ نَخْرُجَ مِنْهَا كَمَا دَخَلْنَاهَا، لَمْ نُحْدِثْ فِيهَا شَيْئًا ..
اسید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم اصفہان سے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ واپس آرہے تھے ہم تیز رفتاری سفر کر رہے تھے کہ " عقیلہ " آگئی حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کوئی نوجوان ہے جوان کی باندی کو سواری سے اتارے میں نے کہا کیوں نہیں چناچہ میں نے اس کی سواری کو درخت کے قریب لے جا کر اسے اتارا پھر آکر لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک حدیث نہ سناؤں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سناتے تھے؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں اللہ کی رحمتیں آپ پر نازل ہوں انہوں نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتاتے تھے کہ قامت سے پہلے " ہرج " واقع ہوگا لوگوں نے پوچھا کہ " ہرج " سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قتل، لوگوں نے پوچھا اس تعداد سے بھی زیادہ جتنے ہم قتل کردیتے ہیں؟ ہم تو ہر سال ستر ہزار سے زیادہ لوگ قتل کردیتے تھے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد مشرکین کو قتل کرنا نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کو قتل کرنا مراد ہے حتیٰ کہ آدمی اپنے پڑوسی، چچا، بھائی اور چچازاد بھائی کو قتل کردے گا لوگوں نے پوچھا کیا اس موقع پر ہماری عقلیں ہمارے ساتھ ہوں گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس زمانے کے لوگوں کی عقلیں چھین لی جائیں گی اور ایسے بیوقوف لوگ رہ جائیں گے جو یہ سمجھیں گے وہ کسی دین پر قائم ہیں حالانکہ وہ کسی دین پر نہیں ہوں گے۔ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر وہ زمانہ آگیا تو میں اپنے اور تمہارے لئے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں پاتا الاّ یہ کہ ہم اس سے اسی طرح نکل جائیں جیسے داخل ہوئے تھے اور کسی کے قتل یا مال میں ملوث نہ ہوں