حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گذرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے میں نے سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی کے اشارے سے جواب دیا۔
حدثنا هشيم ، اخبرنا عبد الحميد بن جعفر ، عن الحسن بن محمد الانصاري ، قال: حدثني رجل من النمر بن قاسط، قال: سمعت صهيب بن سنان يحدث، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ايما رجل اصدق امراة صداقا والله يعلم انه لا يريد اداءه إليها، فغرها بالله، واستحل فرجها بالباطل، لقي الله يوم يلقاه وهو زان، وايما رجل ادان من رجل دينا، والله يعلم انه لا يريد اداءه إليه، فغره بالله، واستحل ماله بالباطل، لقي الله عز وجل يوم يلقاه وهو سارق" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ الأْنْصَارِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ مَنْ النَّمِرِ بْنِ قَاسِطٍ، قَالَ: سَمِعْتُ صُهَيْبَ بْنَ سِنَانٍ يُحَدِّثُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّمَا رَجُلٍ أَصْدَقَ امْرَأَةً صَدَاقًا وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُرِيدُ أَدَاءَهُ إِلَيْهَا، فَغَرَّهَا بِاللَّهِ، وَاسْتَحَلَّ فَرْجَهَا بِالْبَاطِلِ، لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ يَلْقَاهُ وَهُوَ زَانٍ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ ادَّانَ مِنْ رَجُلٍ دَيْنًا، وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّهُ لاَ يُرِيدُ أَدَاءَهُ إِلَيْهِ، فَغَرَّهُ بِاللَّهِ، وَاسْتَحَلَّ مَالَهُ بِالْبَاطِلِ، لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ يَلْقَاهُ وَهُوَ سَارِقٌ" .
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی عورت کا مہر مقرر کرے اور اللہ جانتا ہے ہو کہ اس کا وہ مہر ادا کرنے کا ارادہ نہیں ہے صرف اللہ کے نام سے دھوکہ دے کر ناحق اس کی شرمگاہ کو اپنے لئے حلال کرلیتا ہے تو وہ اللہ سے قیامت کے دن اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا شمار زانیوں میں ہوگا اور جو شخص کسی آدمی سے قرض کے طور پر کچھ پیسے لے اور اللہ جانتا ہے کہ اس کا وہ قرض واپس ادا کرنے کا ارادہ نہیں ہے صرف اللہ کے نام سے دھوکہ دے کر ناحق کسی کے مال کو اپنے اوپر حلال کرتا ہے تو وہ اللہ سے قیامت کے دن اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا شمار چوروں میں ہوگا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الرجل الراوي عن صهيب، ولجهالة الحسن بن محمد الأنصاري
حدثنا وكيع ، عن حماد بن سلمة ، عن ثابت ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن صهيب ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحرك شفتيه ايام حنين بشيء لم يكن يفعله قبل ذلك، قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إن نبيا كان فيمن كان قبلكم اعجبته امته، فقال: لن يروم هؤلاء شيء، فاوحى الله إليه ان خيرهم بين إحدى ثلاث، إما ان اسلط عليهم عدوا من غيرهم فيستبيحهم، او الجوع او الموت"، قال:" فقالوا: اما القتل او الجوع، فلا طاقة لنا به ولكن الموت" قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فمات في ثلاث سبعون الفا"، قال: فقال:" فانا اقول الآن اللهم بك احاول، وبك اصول، وبك اقاتل" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ صُهَيْبٍ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ أَيَّامَ حُنَيْنٍ بِشَيْءٍ لَمْ يَكُنْ يَفْعَلُهُ قَبْلَ ذَلِكَ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ نَبِيًّا كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ أَعْجَبَتْهُ أُمَّتُهُ، فَقَالَ: لَنْ يَرُومَ هَؤُلاَءِ شَيْءٌ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنْ خَيِّرْهُمْ بَيْنَ إِحْدَى ثَلَاَثٍ، إِمَّا أَنْ أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ فَيَسْتَبِيحَهُمْ، أَوْ الْجُوعَ أَوْ الْمَوْتَ"، قَالَ:" فَقَالُوا: أَمَّا الْقَتْلُ أَوْ الْجُوعُ، فَلَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَلَكِنْ الْمَوْتُ" قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَمَاتَ فِي ثَلَاثٍ سَبْعُونَ أَلْفًا"، قَالَ: فَقَالَ:" فَأَنَا أَقُولُ الَآْنَ اللَّهُمَّ بِكَ أُحَاوِلُ، وَبِكَ أَصُولُ، وَبِكَ أُقَاتِلُ" .
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ حنین کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹ ہلتے رہتے تھے اس سے پہلے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا تھا بعد میں فرمایا کہ پہلی امتوں میں ایک پیغمبر تھے انہیں اپنی امت کی تعداد پر اطمینان اور خوشی ہوئی اور ان کے منہ سے یہ جملہ نکل گیا کہ یہ لوگ کبھی شکست نہیں کھاسکتے اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کی طرف وحی بھیجی اور انہیں تین میں سے کسی ایک بات کا اختیار دیا کہ یا تو ان پر کسی دشمن کو مسلط کردوں جو ان کا خون بہائے یا بھوک کو مسلط کردوں یا موت کو؟ وہ کہنے لگے کہ قتل اور بھوک کی تو ہم میں طاقت نہیں ہے البتہ موت ہم پر مسلط کردی جائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صرف تین دن میں ان کے ستر ہزار آدمی مرگئے اس لئے اب میں یہ کہتا ہوں کہ اے اللہ! میں تیری ہی مدد سے حیلہ کرتا ہوں تیری ہی مدد سے حملہ کرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے قتال کرتا ہوں۔
حدثنا بهز ، وحجاج ، قالا: حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن صهيب ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عجبت من امر المؤمن، إن امر المؤمن كله له خير، وليس ذلك لاحد إلا للمؤمن، إن اصابته سراء شكر، كان ذلك له خيرا، وإن اصابته ضراء فصبر، كان ذلك له خيرا" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَا: حدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ صُهَيْبٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَجِبْتُ مِنْ أَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَ الْمُؤْمِنِ كُلَّهُ لَهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَلِكَ لَأَحَدٍ إِلَاََّّ لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، كَانَ ذَلِكَ لَهُ خَيْرًا، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ فَصَبَرَ، كَانَ ذَلِكَ لَهُ خَيْرًا" .
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے تو مسلمانوں کے معاملات پر تعجب ہوتا ہے کہ اس کے معاملے میں سراسر خیر ہی خیر ہے اور یہ سعادت مؤمن کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے کہ گر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے جو کہ اس کے لئے سراسر خیر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور یہ بھی سراسر خیر ہے۔
حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا حماد بن سلمة ، عن ثابت البناني ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن صهيب ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا دخل اهل الجنة الجنة نودوا: يا اهل الجنة، إن لكم عند الله موعدا لم تروه، فقالوا: وما هو؟ الم تبيض وجوهنا وتزحزحنا عن النار، وتدخلنا الجنة؟" قال:" فيكشف الحجاب، فينظرون إليه، فوالله ما اعطاهم الله شيئا احب إليهم منه" ثم تلا رسول الله صلى الله عليه وسلم: للذين احسنوا الحسنى وزيادة سورة يونس آية 26 .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ صُهَيْبٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ نُودُوا: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، إِنَّ لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ مَوْعِدًا لَمْ تَرَوْهُ، فَقَالُوا: وَمَا هُوَ؟ أَلَمْ تُبَيِّضْ وُجُوهَنَا وَتُزَحْزِحْنَا عَنِ النَّارِ، وَتُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ؟" قَالَ:" فَيُكْشَفُ الْحِجَابُ، فَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ، فَوَاللَّهِ مَا أَعْطَاهُمْ اللَّهُ شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْهُ" ثُمَّ تَلاَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ سورة يونس آية 26 .
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تو انہیں پکار کر کہا جائے گا کہ اے اہل جنت! اللہ کا تم سے ایک وعدہ باقی ہے جو ابھی تک تم نے نہیں دیکھا جنتی کہیں گے کہ وہ کیا ہے؟ کیا آپ نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں کیا اور ہمیں جہنم سے بچا کر جنت میں داخل نہیں کیا؟ اس کے جواب میں حجاب اٹھا دیا جائے گا اور جنتی اپنے پروردگار کی زیارت کرسکیں گے بخدا! اللہ نے انہیں جتنی نعمتیں عطاء کر رکھی ہوں گی انہیں اس نعمت سے زیادہ محبوب کوئی نعمت نہ ہوگی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ان لوگوں کے لئے جہنوں نے نیکیاں کیں عمدہ بدلہ اور " مزید اضافہ " ہے۔
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن صهيب ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إذا دخل اهل الجنة الجنة، واهل النار النار نودوا: يا اهل الجنة، إن لكم عند الله موعدا، فقالوا: الم يثقل موازيننا، ويعطينا كتبنا بايماننا، ويدخلنا الجنة، وينجينا من النار، فيكشف الحجاب" قال:" فيتجلى الله عز وجل لهم" قال:" فما اعطاهم الله شيئا احب إليهم من النظر إليه" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ صُهَيْبٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ نُودُوا: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، إِنَّ لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ مَوْعِدًا، فَقَالُوا: أَلَمْ يُثَقِّلْ مَوَازِينَنَا، وَيُعْطِينَا كُتُبَنَا بِأَيْمَانِنَا، وَيُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ، وَيُنْجِينَا مِنَ النَّارِ، فَيُكْشَفُ الْحِجَابُ" قَالَ:" فَيَتَجَلَّى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمْ" قَالَ:" فَمَا أَعْطَاهُمْ اللَّهُ شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَيْهِ" .
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تو انہیں پکار کر کہا جائے گا کہ اے اہل جنت! اللہ کا تم سے ایک وعدہ باقی ہے جو ابھی تک تم نے نہیں دیکھا جنتی کہیں گے کہ وہ کیا ہے؟ کیا آپ نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں کیا اور ہمیں جہنم سے بچاکر جنت میں داخل نہیں کیا؟ اس کے جواب میں حجاب اٹھادیا جائے گا اور جنتی اپنے پروردگار کی زیارت کرسکیں گے بخدا! اللہ نے انہیں جتنی نعمتیں عطاء کر رکھی ہوں گی انہیں اس نعمت سے زیادہ محبوب کوئی نعمت نہ ہوگی۔
حدثنا عفان من كتابه، قال: حدثنا سليمان يعني ابن المغيرة ، قال: حدثنا ثابت ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن صهيب ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى همس شيئا لا نفهمه، ولا يحدثنا به، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فطنتم لي" قال قائل: نعم، قال: " فإني قد ذكرت نبيا من الانبياء اعطي جنودا من قومه، فقال: من يكافئ هؤلاء، او من يقوم لهؤلاء" او كلمة شبيهة بهذه شك سليمان، قال:" فاوحى الله إليه اختر لقومك بين إحدى ثلاث: إما ان اسلط عليهم عدوا من غيرهم او الجوع او الموت" قال:" فاستشار قومه في ذلك، فقالوا: انت نبي الله، نكل ذلك إليك، فخر لنا" قال:" فقام إلى صلاته" قال:" وكانوا يفزعون إذا فزعوا إلى الصلاة" قال:" فصلى، قال: اما عدو من غيرهم فلا، او الجوع فلا، ولكن الموت" قال:" فسلط عليهم الموت ثلاثة ايام، فمات منهم سبعون الفا، فهمسي الذي ترون اني اقول: اللهم يا رب، بك اقاتل، وبك اصاول، ولا حول ولا قوة إلا بالله" ..حَدَّثَنَا عَفَّانُ مِنْ كِتَابِهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ ، قَالَ: حدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ صُهَيْبٍ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى هَمَسَ شَيْئًا لَا نَفْهَمُهُ، وَلَا يُحَدِّثُنَا بِهِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَطِنْتُمْ لِي" قَالَ قَائِلٌ: نَعَمْ، قَالَ: " فَإِنِّي قَدْ ذَكَرْتُ نَبِيًّا مِنَ الَأَََنْبِيَاءِ أُعْطِيَ جُنُودًا مِنْ قَوْمِهِ، فَقَالَ: مَنْ يُكَافِئُ هَؤُلَاَءِ، أَوْ مَنْ يَقُومُ لِهَؤُلَاَءِ" أَوْ كَلِمَةً شَبِيهَةً بِهَذِهِ شَكَّ سُلَيْمَانُ، قَالَ:" فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ اخْتَرْ لِقَوْمِكَ بَيْنَ إِحْدَى ثَلَاثٍ: إِمَّا أَنْ أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ أَوْ الْجُوعَ أَوْ الْمَوْتَ" قَالَ:" فَاسْتَشَارَ قَوْمَهُ فِي ذَلِكَ، فَقَالُوا: أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ، نَكِلُ ذَلِكَ إِلَيْكَ، فَخِرْ لَنَا" قَالَ:" فَقَامَ إِلَى صَلَاَتِهِ" قَالَ:" وَكَانُوا يَفْزَعُونَ إِذَا فَزِعُوا إِلَى الصَّلَاَةِ" قَالَ:" فَصَلَّى، قَالَ: أَمَّا عَدُوٌّ مِنْ غَيْرِهِمْ فَلَا، أَوْ الْجُوعُ فَلَا، وَلَكِنْ الْمَوْتُ" قَالَ:" فَسُلِّطَ عَلَيْهِمْ الْمَوْتُ ثَلَاَثَةَ أَيَّامٍ، فَمَاتَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا، فَهَمْسِي الَّذِي تَرَوْنَ أَنِّي أَقُولُ: اللَّهُمَّ يَا رَبِّ، بِكَ أُقَاتِلُ، وَبِكَ أُصَاوِلُ، وَلَاَ حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَاََّّ بِاللَّهِ" ..
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹ ہلتے رہتے تھے اس سے ہمیں کچھ سمجھ میں آتا اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے کچھ بیان فرماتے بعد میں فرمایا کہ پہلی امتوں میں ایک پیغمبر تھے انہیں اپنی امت کی تعداد پر اطمینان اور خوشی ہوئی اور ان کے منہ سے یہ جملہ نکل گیا کہ یہ لوگ کبھی شکست نہیں کھاسکتے اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کی طرف وحی بھیجی اور انہیں تین میں سے کسی ایک بات کا اختیار دیا کہ یا تو ان پر کسی دشمن کو مسلط کردوں جو ان کا خوف بہائے یا بھوک کو مسلط کردوں یا موت کو؟ انہوں نے اپنی قوم سے اس کے متعلق مشورہ کیا وہ کہنے لگے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں یہ معاملہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں آپ ہی کسی ایک صورت کو ترجیح دے لیں چناچہ وہ نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے اور انبیاء کرام (علیہم السلام) کا معمول رہا ہے کہ ان پر جب بھی کوئی پریشانی آتی تو وہ نماز کی طرف متوجہ ہوجاتے بہرحال! نماز سے فارغ ہو کر وہ کہنے لگے کہ قتل اور بھوک کی تو ہم میں طاقت نہیں ہے البتہ موت ہم پر مسلط کردی جائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صرف تین دن میں ان کے ستر ہزار آدمی مرگئے اس لئے اب میں یہ کہتا ہوں کہ اے اللہ! میں تیری ہی مدد سے حیلہ کرتا ہوں تیری ہی مدد سے حملہ کرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے قتال کرتا ہوں اور گناہ سے بچنے اور نیکی کرنے کی قدرت اللہ ہی سے مل سکتی ہے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا عفان ، قال: حدثنا حماد بن سلمة بهذا الحديث سواء بهذا الكلام كله، وبهذا الإسناد، ولم يقل فيه: كانوا إذا فزعوا فزعوا إلى الصلاة.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ بِهَذَا الْحَدِيثِ سَوَاءً بِهَذَا الْكَلَاَمِ كُلِّهِ، وَبِهَذَا الَإِِِسْنَادِ، وَلَمْ يَقُلْ فِيهِ: كَانُوا إِذَا فَزِعُوا فَزِعُوا إِلَى الصَّلَاَةِ.
حدثنا عفان من كتابه، حدثنا سليمان ، حدثنا ثابت ، عن ابن ابي ليلى ، عن صهيب ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عجبت لامر المؤمن، إن امر المؤمن كله له خير، ليس ذلك لاحد إلا للمؤمن، إن اصابته سراء شكر، وكان خيرا، وإن اصابته ضراء صبر، وكان خيرا" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ مِنْ كِتَابِهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ صُهَيْبٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَجِبْتُ لَأَِمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَ الْمُؤْمِنِ كُلَّهُ لَهُ خَيْرٌ، لَيْسَ ذَلِكَ لأَِحَدٍ إِلَاَ لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، وَكَانَ خَيْرًا، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ، وَكَانَ خَيْرًا" .
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے تو مسلمانوں کے معاملات پر تعجب ہوتا ہے کہ اس کے معاملے میں سراسر خیر ہی خیر ہے اور یہ سعادت مومن کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے جو کہ اس کے لئے سراسر خیر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور یہ بھی سراسر خیر ہے۔
حدثنا عفان ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، حدثنا ثابت ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن صهيب ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ايام حنين يحرك شفتيه بعد صلاة الفجر بشيء لم نكن نراه يفعله، فقلنا: يا رسول الله، إنا نراك تفعل شيئا لم تكن تفعله، فما هذا الذي تحرك شفتيك؟ قال: " إن نبيا فيمن كان قبلكم اعجبته كثرة امته، فقال: لن يروم هؤلاء شيء، فاوحى الله إليه ان خير امتك بين إحدى ثلاث إما ان نسلط عليهم عدوا من غيرهم فيستبيحهم، او الجوع، وإما ان ارسل عليهم الموت، فشاورهم، فقالوا: اما العدو، فلا طاقة لنا بهم، واما الجوع فلا صبر لنا عليه، ولكن الموت، فارسل عليهم الموت، فمات منهم في ثلاثة ايام سبعون الفا" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فانا اقول الآن حيث راى كثرتهم اللهم بك احاول، وبك اصاول، وبك اقاتل" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ صُهَيْبٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَيَّامَ حُنَيْنٍ يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ بَعْدَ صَلَاَةِ الْفَجْرِ بِشَيْءٍ لَمْ نَكُنْ نَرَاهُ يَفْعَلُهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَرَاكَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ تَكُنْ تَفْعَلُهُ، فَمَا هَذَا الَّذِي تُحَرِّكُ شَفَتَيْكَ؟ قَالَ: " إِنَّ نَبِيًّا فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ أَعْجَبَتْهُ كَثْرَةُ أُمَّتِهِ، فَقَالَ: لَنْ يَرُومَ هَؤُلَاَءِ شَيْءٌ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنْ خَيِّرْ أُمَّتَكَ بَيْنَ إِحْدَى ثَلاَثٍ إِمَّا أَنْ نُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ فَيَسْتَبِيحَهُمْ، أَوْ الْجُوعَ، وَإِمَّا أَنْ أُرْسِلَ عَلَيْهِمْ الْمَوْتَ، فَشَاوَرَهُمْ، فَقَالُوا: أَمَّا الْعَدُوُّ، فَلَا طَاقَةَ لَنَا بِهِمْ، وَأَمَّا الْجُوعُ فَلَا صَبْرَ لَنَا عَلَيْهِ، وَلَكِنْ الْمَوْتُ، فَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ الْمَوْتَ، فَمَاتَ مِنْهُمْ فِي ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ سَبْعُونَ أَلْفًا" قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَأَنَا أَقُولُ الآْنَ حَيْثُ رَأَى كَثْرَتَهُمْ اللَّهُمَّ بِكَ أُحَاوِلُ، وَبِكَ أُصَاوِلُ، وَبِكَ أُقَاتِلُ" .
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ حنین کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹ ہلتے رہتے تھے اس سے پہلے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا تھا بعد میں فرمایا کہ پہلی امتوں میں ایک پیغمبر تھے انہیں اپنی امت کی تعداد پر اطمینان اور خوشی ہوئی اور ان کے منہ سے یہ جملہ نکل گیا کہ یہ لوگ کبھی شکست نہیں کھاسکتے اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کی طرف وحی بھیجی اور انہیں تین میں سے کسی ایک بات کا اختیار دیا کہ یا تو ان پر کسی دشمن کو مسلط کردوں جو ان کا خون بہائے یا بھوک کو مسلط کردوں یا موت کو؟ وہ کہنے لگے کہ قتل اور بھوک کی تو ہم میں طاقت نہیں ہے البتہ موت ہم پر مسلط کردی جائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صرف تین دن میں ان کے ستر ہزار آدمی مرگئے اس لئے اب میں یہ کہتا ہوں کہ اے اللہ! میں تیری ہی مدد سے حیلہ کرتا ہوں تیری ہی مدد سے حملہ کرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے قتال کرتا ہوں۔
حدثنا عفان ، اخبرنا حماد ، اخبرنا ثابت ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن صهيب ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم تلا هذه الآية: للذين احسنوا الحسنى وزيادة سورة يونس آية 26، قال: " إذا دخل اهل الجنة الجنة، واهل النار النار، نادى مناد يا اهل الجنة، إن لكم عند الله موعدا يريد ان ينجزكموه، فيقولون: وما هو؟ الم يثقل موازيننا، ويبيض وجوهنا، ويدخلنا الجنة، ويجرنا من النار" قال:" فيكشف لهم الحجاب فينظرون إليه" قال:" فوالله ما اعطاهم شيئا احب إليهم من النظر إليه، ولا اقر لاعينهم" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادٌ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ صُهَيْبٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلَا هَذِهِ الآيَةَ: لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ سورة يونس آية 26، قَالَ: " إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ، نَادَى مُنَادٍ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، إِنَّ لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ مَوْعِدًا يُرِيدُ أَنْ يُنْجِزَكُمُوهُ، فَيَقُولُونَ: وَمَا هُوَ؟ أَلَمْ يُثَقِّلْ مَوَازِينَنَا، وَيُبَيِّضْ وُجُوهَنَا، وَيُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ، وَيُجِرْنَا مِنَ النَّارِ" قَالَ:" فَيُكْشَفُ لَهُمْ الْحِجَابُ فَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ" قَالَ:" فَوَاللَّهِ مَا أَعْطَاهُمْ شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَيْهِ، وَلَا أَقَرَّ لَأَعْيُنِهِمْ" .
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کرکے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے نیکیاں کیں عمدہ بدلہ اور " مزید اضافہ " ہے ارشاد فرمایا جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تو انہیں پکار کر کہا جائے گا کہ اے اہل جنت! اللہ کا تم سے ایک وعدہ باقی ہے جو ابھی تک تم نے نہیں دیکھا جنتی کہیں گے کہ وہ کیا ہے؟ کیا آپ نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں کیا اور ہمیں جہنم سے بچا کر جنت میں داخل نہیں کیا؟ اس کے جواب میں حجاب اٹھا دیا جائے گا اور جنتی اپنے پروردگار کی زیارت کرسکیں گے بخدا! اللہ نے انہیں جتنی نعمتیں عطاء کر رکھی ہوں گی انہیں اس نعمت سے زیادہ محبوب کوئی نعمت نہ ہوگی۔
حدثنا بهز ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا زيد بن اسلم ، ان عمر بن الخطاب ، قال لصهيب رضي الله عنهما:" لولا ثلاث خصال فيك، لم يكن بك باس، قال: وما هن، فوالله ما نراك تعيب شيئا؟ قال: اكتناؤك بابي يحيى وليس لك ولد، وادعاؤك إلى النمر بن قاسط وانت رجل الكن، وانك لا تمسك المال، قال: اما اكتنائي بابي يحيى، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كناني بها، فلا ادعها حتى القاه، واما ادعائي إلى النمر بن قاسط، فإني امرؤ منهم، ولكن استرضع لي بالايلة، فهذه اللكنة من ذاك، واما المال، فهل تراني انفق إلا في حق" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، قَالَ لِصُهَيْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" لَوْلَا ثَلَاثُ خِصَالٍ فِيكَ، لَمْ يَكُنْ بِكَ بَأْسٌ، قَالَ: وَمَا هُنَّ، فَوَاللَّهِ مَا نَرَاكَ تَعِيبُ شَيْئًا؟ قَالَ: اكْتِنَاؤُكَ بِأَبِي يَحْيَى وَلَيْسَ لَكَ وَلَدٌ، وَادِّعَاؤُكَ إِلَى النَّمِرِ بْنِ قَاسِطٍ وَأَنْتَ رَجُلٌ أَلْكَنُ، وَأَنَّكَ لَاَ تُمْسِكُ الْمَالَ، قَالَ: أَمَّا اكْتِنَائِي بِأَبِي يَحْيَى، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَنَّانِي بِهَا، فَلَا أَدَعُهَا حَتَّى أَلْقَاهُ، وَأَمَّا ادِّعَائِي إِلَى النَّمِرِ بْنِ قَاسِطٍ، فَإِنِّي امْرُؤٌ مِنْهُمْ، وَلَكِنْ اسْتُرْضِعَ لِي بِالَأَيْلَةِ، فَهَذِهِ اللُّكْنَةُ مِنْ ذَاكَ، وَأَمَّا الْمَالُ، فَهَلْ تُرَانِي أُنْفِقُ إِلَاَّ فِي حَقٍّ" .
زید بن اسلم رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے سے فرمایا اگر تم میں تین چیزیں نہ ہوتی تو تم میں کوئی عیب نہ ہوتا انہوں نے پوچھا وہ کیا ہیں؟ کیونکہ ہم نے تو کبھی آپ کو کسی چیز میں عیب نکالتے ہوئے دیکھا ہی نہیں انہوں نے فرمایا ایک تو یہ کہ تم اپنی کنیت ابویحیی رکھتے ہو حالانکہ تمہارے یہاں کوئی اولاد ہی نہیں ہے دوسرا یہ کہ تم اپنی نسبت نمر بن قاسط کی طرف کرتے ہو جبکہ تمہاری زبان میں لکنت ہے اور تم مال نہیں رکھتے۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ جہاں تک میری کنیت ابویحییٰ کا تعلق ہے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی ہے لہٰذا اسے تو میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا یہاں تک کہ ان سے جا ملوں رہی نمر بن قاسط کی طرف میری نسبت تو یہ صحیح ہے کیونکہ میں ان ہی کا ایک فرد ہوں لیکن چونکہ میری رضاعت " ایلہ " میں ہوئی تھی اس وجہ سے یہ لکنت پیدا ہوگئی اور باقی رہا مال تو کیا کبھی آپ نے مجھے ایسی جگہ خرچ کرتے ہوئے دیکھا ہے جو ناحق ہو۔
حكم دارالسلام: هذا الأثر إسناده ضعيف على اضطراب فى متنه، وزيد بن أسلم لم يدرك عمر بن الخطاب