حدثنا هشيم ، اخبرنا الشيباني ، عن عبد الله بن ابي اوفى ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر في شهر رمضان، فلما غابت الشمس، قال:" انزل يا فلان، فاجدح لنا"، قال: يا رسول الله، عليك نهار، قال:" انزل فاجدح"، قال: ففعل، فناوله، فشرب، فلما شرب، اوما بيده إلى المغرب، فقال: " إذا غربت الشمس هاهنا، جاء الليل من هاهنا، فقد افطر الصائم" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا الشَّيْبَانِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، فَلَمَّا غَابَتْ الشَّمْسُ، قَالَ:" انْزِلْ يَا فُلَانُ، فَاجْدَحْ لَنَا"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلَيْكَ نَهَارٌ، قَالَ:" انْزِلْ فَاجْدَحْ"، قَالَ: فَفَعَلَ، فَنَاوَلَهُ، فَشَرِبَ، فَلَمَّا شَرِبَ، أَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى الْمَغْرِبِ، فَقَالَ: " إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ هَاهُنَا، جَاءَ اللَّيْلُ مِنْ هَاهُنَا، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ" .
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ماہ رمضان میں کسی سفر میں تھے جب سورج غروب ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو حکم دیا کہ اے فلاں! اترو اور ہمارے لئے ستو گھولو، اس نے کہا یا رسول اللہ! ابھی تو دن کا کچھ حصہ باقی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھر فرمایا کہ اترو اور ستو گھولو، چناچہ اس نے اس پر عمل کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا برتن ہاتھ میں پکڑا اور اسے نوش فرمالیا اور اس کے بعد ہاتھ سے مغرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جب یہاں سورج غروب ہوجائے اور رات یہاں تک آجائے تو روزہ دار روزہ کھول لے۔
حدثنا حدثنا هشيم ، اخبرنا الشيباني ، عن محمد بن ابي المجالد مولى بني هاشم، قال: ارسلني ابن شداد، وابو بردة، فقالا: انطلق إلى ابن ابي اوفى ، فقل له: إن عبد الله بن شداد، وابا بردة، يقرئانك السلام، ويقولان: هل كنتم تسلفون في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في البر والشعير والزبيب؟ قال: نعم، كنا نصيب غنائم في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنسلفها في البر والشعير والتمر والزبيب. فقلت: عند من كان له زرع، او: عند من ليس له زرع؟ فقال: ما كنا نسالهم عن ذلك، قال: وقالا لي: انطلق إلى عبد الرحمن بن ابزى، فاساله، قال: فانطلق، فساله، فقال مثل ما قال ابن ابي اوفى ، وكذا حدثناه ابو معاوية ، عن زائدة ، عن الشيباني ، قال: والزيت.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا الشَّيْبَانِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي الْمُجَالِدِ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، قَالَ: أَرْسَلَنِي ابْنُ شَدَّادٍ، وَأَبُو بُرْدَةَ، فَقَالَا: انْطَلِقْ إِلَى ابْنِ أَبِي أَوْفَى ، فَقُلْ لَهُ: إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَدَّادٍ، وَأَبَا بُرْدَةَ، يُقْرِئَانِكَ السَّلَامَ، وَيَقُولَانِ: هَلْ كُنْتُمْ تُسَلِّفُونَ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْبُرِّ وَالشَّعِيرِ وَالزَّبِيبِ؟ قَالَ: نَعَمْ، كُنَّا نُصِيبُ غَنَائِمَ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنُسَلِّفُهَا فِي الْبُرِّ وَالشَّعِيرِ وَالتَّمْرِ وَالزَّبِيبِ. فَقُلْتُ: عِنْدَ مَنْ كَانَ لَهُ زَرْعٌ، أَوْ: عِنْدَ مَنْ لَيْسَ لَهُ زَرْعٌ؟ فَقَالَ: مَا كُنَّا نَسْأَلُهُمْ عَنْ ذَلِكَ، قَالَ: وَقَالَا لِي: انْطَلِقْ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، فَاسْأَلْهُ، قَالَ: فَانْطَلَقَ، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالَ ابْنُ أَبِي أَوْفَى ، وَكَذَا حَدَّثَنَاهُ أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ ، قَالَ: وَالزَّيْتِ.
عبداللہ بن ابی المجاہد کہتے ہیں کہ ادھاربیع کے مسئلے میں حضرت عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ اور ابوبردہرضی اللہ عنہ کے درمیان اختلاف رائے ہوگیا ان دونوں نے مجھے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا کہ ابن شداد اور ابوبردہ آپ کو سلام کہتے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ کیا آپ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں گندم جو اور زیتون کی ادھاربیع کرتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا ہاں! ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مال غنیمت حاصل کرکے گندم، جو کشمش یا جو چیزیں بھی لوگوں کے پاس ہوتی تھیں، ان سے ادھاربیع کرلیا کرتے تھے میں نے ان سے پوچھا جس کے پاس کھیت ہوتا تھا یا جس کے پاس کھیت نہیں ہوتا تھا؟ انہوں نے فرمایا ہم یہ بات ان سے نہیں پوچھتے تھے پھر ان دونوں حضرات نے مجھے حضرت عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا میں نے ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ نے دیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہانڈیاں اور ان میں جو کچھ ہے الٹادو۔
شیبانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبزمٹکے کی نبیذ سے منع فرمایا ہے میں نے ان سے پوچھا سفیدمٹکے کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا مجھے معلوم نہیں۔
حدثنا سفيان ، حدثنا ابو يعفور ، عبدي مولى لهم، قال: ذهبت إلى ابن ابي اوفى اساله عن الجراد، قال: غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ست غزوات ناكل الجراد .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو يَعْفُورٍ ، عَبْدِيٌّ مَوْلًى لَهُمْ، قَالَ: ذَهَبْتُ إِلَى ابْنِ أَبِي أَوْفَى أَسْأَلُهُ عَنِ الْجَرَادِ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّ غَزَوَاتٍ نَأْكُلُ الْجَرَادَ .
ابویعفور کہتے ہیں کہ میرے ایک شریک نے میرے سامنے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے ٹڈی دلکا حکم پوچھا انہوں نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سات غزوات میں شرکت کی ہے ان غزوات میں ہم لوگ ٹڈی دل کھایا کرتے تھے۔
حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق الشيباني ، قال: سمعت عبد الله بن ابي اوفى ، قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فقال لرجل:" انزل فاجدح لنا" قال سفيان مرة:" فاجدح لي" قال: يا رسول الله، الشمس! قال:" انزل فاجدح لنا" وقال سفيان مرة:" فاجدح لي" قال: يا رسول الله، الشمس، قال:" انزل فاجدح" فجدح، فشرب، فلما شرب رسول الله صلى الله عليه وسلم، اوما بيده نحو الليل: " إذا رايتم الليل قد اقبل من هاهنا، فقد افطر الصائم" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَقَالَ لِرَجُلٍ:" انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا" قَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً:" فَاجْدَحْ لِي" قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الشَّمْسُ! قَالَ:" انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا" وقَالَ سُفْيَانَ مَرَّةً:" فَاجْدَحْ لِي" قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، الشَّمْسُ، قَال:" انَزِلْ فَاجْدَحْ" فَجَدَحَ، فَشَرِبَ، فَلَمَّا شَرِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْمَأَ بِيَدِهِ نَحْوَ اللَّيْلِ: " إِذَا رَأَيْتُمْ اللَّيْلَ قَدْ أَقْبَلَ مِنْ هَاهُنَا، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ" .
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ماہ رمضان میں کسی سفر میں تھے جب سورج غروب ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو حکم دیا کہ اے فلاں! اترو اور ہمارے لئے ستو گھولو، اس نے کہا یا رسول اللہ! ابھی تو دن کا کچھ حصہ باقی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھر فرمایا کہ اترو اور ستو گھولو، چناچہ اس نے اس پر عمل کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا برتن ہاتھ میں پکڑا اور اسے نوش فرمالیا اور اس کے بعد ہاتھ سے مغرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جب یہاں سورج غروب ہوجائے اور رات یہاں تک آجائے تو روزہ دار روزہ کھول لے۔
حدثنا سفيان ، عن الشيباني ، عن ابن ابي اوفى ، قال: اصبنا حمرا خارجا من القرية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اكفئوا القدور بما فيها"، فذكرت ذلك لسعيد ابن جبير، فقال: إنما نهى عنها انها كانت تاكل العذرة .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنِ ابْنِ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: أَصَبْنَا حُمُرًا خَارِجًا مِنَ الْقَرْيَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَكْفِئُوا الْقُدُورَ بِمَا فِيهَا"، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَعِيدِ ابْنِ جُبَيْرٍ، فَقَالَ: إِنَّمَا نَهَى عَنْهَا أَنَّهَا كَانَتْ تَأْكُلُ الْعَذِرَةَ .
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بستی سے باہر کچھ گدھے ہمارے ہاتھ لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہانڈیوں میں جو کچھ سے سب الٹادو، سعید بن جبیررحمتہ اللہ علیہ نے اس کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ گندگی کھاتے تھے۔
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر یہ فرماتے اے ہمارے پروردگار اللہ! تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں زمین و آسمان کے بھرپور ہونے کے برابر اور اس کے علاوہ جن چیزوں کو آپ چاہیں ان کے بھرپور ہونے کے برابر۔
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ليث ، عن مدرك ، عن عبد الله بن ابي اوفى ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدعو فيقول: " اللهم طهرني بالثلج والبرد والماء البارد، اللهم طهر قلبي من الخطايا كما طهرت الثوب الابيض من الدنس، وباعد بيني وبين ذنوبي كما باعدت بين المشرق والمغرب، اللهم إني اعوذ بك من قلب لا يخشع، ونفس لا تشبع، ودعاء لا يسمع، وعلم لا ينفع، اللهم إني اعوذ بك من هؤلاء الاربع، اللهم إني اسالك عيشة تقية، وميتة سوية، ومردا غير مخز" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا لَيْثٌ ، عَنْ مُدْرِكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو فَيَقُولُ: " اللَّهُمَّ طَهِّرْنِي بِالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَالْمَاءِ الْبَارِدِ، اللَّهُمَّ طَهِّرْ قَلْبِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا طَهَّرْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ ذُنُوبِي كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ، وَنَفْسٍ لَا تَشْبَعُ، وَدُعَاءٍ لَا يُسْمَعُ، وَعِلْمٍ لَا يَنْفَعُ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَؤُلَاءِ الْأَرْبَعِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِيشَةً تَقِيَّةً، وَمِيتَةً سَوِيَّةً، وَمَرَدًّا غَيْرَ مُخْزٍ" .
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء فرمایا کرتے تھے اے! مجھے برف اولوں اور ٹھنڈے پانی سے پاکیزگی عطاء فرما، اے اللہ! میرے قلب کو لغزشات سے اس طرح پاک فرما جیسے سفیدکپڑے کو میل کچیل سے صاف کرتا ہے میرے اور میرے گناہوں کے درمیان مشرق اور مغرب جتنا فاصلہ حائل فرمادے اے اللہ! میں خشوع سے خالی دل، سیراب نہ ہونے والے نفس، غیر مقبول دعاء اور غیرنافع علم سے آپ کی پناہ میں آتاہوں اے اللہ! میں ان چاروں چیزوں سے آپ کی پناہ میں آتاہوں، اے اللہ! میں آپ سے تقویٰ والی زندگی، عمدہ موت اور شرمندگی سے پاک لوٹائے جانے کا سوال کرتا ہوں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، ليث ضعيف، ومدرك بن عمارة مستور
حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن القاسم الشيباني ، عن عبد الله بن ابي اوفى ، قال: قدم معاذ اليمن او قال: الشام فراى النصارى تسجد لبطارقتها واساقفتها، فروى في نفسه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم احق ان يعظم، فلما قدم، قال: يا رسول الله، رايت النصارى تسجد لبطارقتها واساقفتها، فروات في نفسي انك احق ان تعظم، فقال: " لو كنت آمر احدا ان يسجد لاحد، لامرت المراة ان تسجد لزوجها، ولا تؤدي المراة حق الله عز وجل عليها كله حتى تؤدي حق زوجها عليها كله، حتى لو سالها نفسها وهي على ظهر قتب لاعطته إياه" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنِ القَاسِمِ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: قَدِمَ مُعَاذٌ الْيَمَنَ أَوْ قَالَ: الشَّامَ فَرَأَى النَّصَارَى تَسْجُدُ لِبَطَارِقَتِهَا وَأَسَاقِفَتِهَا، فَرَوَّى فِي نَفْسِهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَقُّ أَنْ يُعَظَّمَ، فَلَمَّا قَدِمَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْتُ النَّصَارَى تَسْجُدُ لِبَطَارِقَتِهَا وَأَسَاقِفَتِهَا، فَرَوَّأْتُ فِي نَفْسِي أَنَّكَ أَحَقُّ أَنْ تُعَظَّمَ، فَقَالَ: " لَوْ كُنْتُ آمُرُ أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، وَلَا تُؤَدِّي الْمَرْأَةُ حَقَّ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهَا كُلَّهُ حَتَّى تُؤَدِّيَ حَقَّ زَوْجِهَا عَلَيْهَا كُلَّهُ، حَتَّى لَوْ سَأَلَهَا نَفْسَهَا وَهِيَ عَلَى ظَهْرِ قَتَبٍ لَأَعْطَتْهُ إِيَّاهُ" .
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ یمن پہنچے تو وہاں کے عیسائیوں کو دیکھا کہ وہ اپنے پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کو سجدہ کرتے ہیں ان کے دل میں خیال آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ان سے بھی زیادہ تعظیم کے مستحق ہیں لہٰذایمن سے واپس آکر انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے عیسائیوں کو اپنے پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہوئے دیکھا ہے میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ان سے زیادہ تعظیم کے مستحق تو آپ ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہرکوسجدہ کرے اور کوئی عورت اس وقت تک مکمل طور پر حقوق اللہ کو ادا نہیں کرسکتی جب تک اپنے شوہر کے مکمل حقوق ادانہ کرے حتیٰ کہ اگر مرد اس سے اپنی خواہش کی تکمیل کا اس وقت ارادہ کرے جبکہ وہ توے پر روٹی پکار رہی ہوتب بھی اس کی بات پوری کرے۔ گذشہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے کہ البتہ اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ تم یہ کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کی تعظیم کا یہی طریقہ تھا میں نے کہا کہ پھر تو ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس طرح کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے جس طرح اپنی کتابوں میں تحریف کردی ہے اسی طرح اپنے انبیاء پر جھوٹ بھی باندھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے بدلے میں اس سے بہتر چیز یعنی سلام عطاء فرمادیا ہے جو اہل جنت کا طریقہ تعظیم ہے۔
حكم دارالسلام: حديث جيد، وهذا إسناد ضعيف لاضطرابه، اضطرب فيه القاسم الشيباني
حدثنا علي ، حدثنا معاذ بن هشام ، حدثني ابي ، عن القاسم بن عوف رجل من اهل الكوفة احد بني مرة بن همام، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن ابيه ، عن معاذ بن جبل ، قال: إنه اتى الشام، فراى النصارى، فذكر معناه، إلا انه قال: فقلت: لاي شيء تصنعون هذا؟ قالوا: هذا كان تحية الانبياء قبلنا، فقلت: نحن احق ان نصنع هذا بنبينا، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم: " إنهم كذبوا على انبيائهم كما حرفوا كتابهم، إن الله عز وجل ابدلنا خيرا من ذلك السلام تحية اهل الجنة" .حَدَّثَنَا عَلِيٌّ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَوْفٍ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ أَحَدِ بَنِي مُرَّةَ بْنِ هَمَّامٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ: إِنَّهُ أَتَى الشَّامَ، فَرَأَى النَّصَارَى، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: فَقُلْتُ: لِأَيِّ شَيْءٍ تَصْنَعُونَ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا كَانَ تَحِيَّةَ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلَنَا، فَقُلْتُ: نَحْنُ أَحَقُّ أَنْ نَصْنَعَ هَذَا بِنَبِيِّنَا، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهُمْ كَذَبُوا عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ كَمَا حَرَّفُوا كِتَابَهُمْ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَبْدَلَنَا خَيْرًا مِنْ ذَلِكَ السَّلَامَ تَحِيَّةَ أَهْلِ الْجَنَّةِ" .
حكم دارالسلام: جيد دون قوله: إنهم كذبوا على إلى آخر الحديث، وهذا إسناد ضعيف لاضطرابه ، اضطرب فيه القاسم الشيباني
حدثنا يحيى ، عن شعبة ، عن عمرو بن مرة ، قال: سمعت عبد الله بن ابي اوفى ، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اتاه قوم بصدقتهم، صلى عليهم، فاتاه ابي بصدقته، فقال: " اللهم صل على آل ابي اوفى" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاهُ قَوْمٌ بِصَدَقَتِهِمْ، صَلَّى عَلَيْهِمْ، فَأَتَاهُ أَبِي بِصَدَقَتِهِ، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى" .
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے مال کی زکوٰۃ لے کر آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لئے دعاء فرماتے تھے ایک دن میں بھی اپنے والد کے مال کی زکوٰۃ لے کر حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہم صل علی آل ابی اوفی۔
اسماعیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کو خوشخبری دی تھی؟ انہوں نے فرمایا ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنت میں لکڑی کے ایک محل کی خوشخبری دی تھی جس میں کوئی شوروشغب ہوگا اور نہ ہی کوئی تعب۔
حدثنا يحيى ، عن إسماعيل ، حدثنا عبد الله بن ابي اوفى ، قال: اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فطاف بالبيت، ثم خرج، فطاف بين الصفا، والمروة،، وجعلنا نستره من اهل مكة ان يرميه احد، او يصيبه بشيء، فسمعته يدعو على الاحزاب، يقول: " اللهم منزل الكتاب، سريع الحساب، هازم الاحزاب، اللهم اهزمهم وزلزلهم" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطَافَ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ خَرَجَ، فَطَافَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ،، وَجَعَلْنَا نَسْتُرُهُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ أَنْ يَرْمِيَهُ أَحَدٌ، أَوْ يُصِيبَهُ بِشَيْءٍ، فَسَمِعْتُهُ يَدْعُو عَلَى الْأَحْزَابِ، يَقُولُ: " اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ، سَرِيعَ الْحِسَابِ، هَازِمَ الْأَحْزَابِ، اللَّهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ" .
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرے کے لئے روانہ ہوئے بیت اللہ کا طواف کیا پھر باہر نکل کر صفامروہ کے درمیان سعی کی ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل مکہ سے بچاکرچل رہے تھے کہ کہیں کوئی مشرک انہیں تیر نہ ماردے یا انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچادے میں نے انہیں مشرکین کے لشکروں کے لئے بدعاء کرتے ہوئے سنا اے کتاب کو نازل کرنے والے اللہ! جلدی حساب لینے والے لشکروں کو شکست دینے والے، انہیں شکست سے ہمکنار فرما اور انہیں ہلا کر رکھ دے۔
حدثنا وكيع ، حدثنا مالك بن مغول ، عن طلحة بن مصرف ، قال: قلت لعبد الله بن ابي اوفى : اوصى النبي صلى الله عليه وسلم بشيء؟ قال: لا، قلت: فكيف امر المسلمين بالوصية؟ قال: اوصى بكتاب الله عز وجل، قال مالك بن مغول: قال طلحة، وقال الهزيل بن شرحبيل: ابو بكر رضي الله عنه كان يتامر على وصي رسول الله صلى الله عليه وسلم! ود ابو بكر رضي الله عنه، انه وجد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عهدا، فخزم انفه بخزام .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى : أَوْصَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَكَيْفَ أَمْرَ الْمُسْلِمِينَ بِالْوَصِيَّةِ؟ قَالَ: أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ: قَالَ طَلْحَةُ، وَقَالَ الْهُزَيْلُ بْنُ شُرَحْبِيلَ: أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ يَتَأَمَّرُ عَلَى وَصِيِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ! وَدَّ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدًا، فَخُزِمَ أَنْفُهُ بِخِزَامٍ .
طلحہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت فرمائی ہے؟ انہوں نے فرمایا نہیں، میں نے کہا تو پھر انہوں نے مسلمانوں کو وصیت کا حکم کیسے دے دیا جبکہ خود وصیت کی نہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی ہے (لیکن کسی کو کوئی خاص وصیت نہیں فرمائی ')
حدثنا يزيد ، اخبرنا المسعودي ، عن إبراهيم ابي إسماعيل السكسكي ، عن عبد الله بن ابي اوفى ، قال: اتى رجل النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني لا اقرا القرآن، فمرني بما يجزئني منه، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: " قل: الحمد لله، وسبحان الله، ولا إله إلا الله، والله اكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله"، قال: فقالها الرجل، وقبض كفه، وعد خمسا مع إبهامه، فقال: يا رسول الله، هذا لله تعالى، فما لنفسي؟ قال:" قل: اللهم اغفر لي، وارحمني، وعافني، واهدني، وارزقني"، قال: فقالها، وقبض على كفه الاخرى، وعد خمسا مع إبهامه، فانطلق الرجل، وقد قبض كفيه جميعا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لقد ملا كفيه من الخير" ..حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَبِي إِسْمَاعِيلَ السَّكْسَكِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَا أَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَمُرْنِي بِمَا يُجْزِئُنِي مِنْهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قُلْ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ"، قَالَ: فَقَالَهَا الرَّجُلُ، وَقَبَضَ كَفَّهُ، وَعَدَّ خَمْسًا مَعَ إِبْهَامِهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لِلَّهِ تَعَالَى، فَمَا لِنَفْسِي؟ قَالَ:" قُلْ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَعَافِنِي، وَاهْدِنِي، وَارْزُقْنِي"، قَالَ: فَقَالَهَا، وَقَبَضَ عَلَى كَفِّهِ الْأُخْرَى، وَعَدَّ خَمْسًا مَعَ إِبْهَامِهِ، فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ، وَقَدْ قَبَضَ كَفَّيْهِ جَمِيعًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَقَدْ مَلَأَ كَفَّيْهِ مِنَ الْخَيْرِ" ..
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں قرآن کریم کا تھوڑا ساحصہ بھی یاد نہیں کرسکتا، اس لئے مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجئے جو میرے لئے کافی ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوں کہہ لیا کرو سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولاحول ولاقوۃ الاباللہ اس نے کہا یا رسول اللہ! یہ تو اللہ تعالیٰ کے لئے ہے میرے لئے کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوں کہہ لیا کرو اے اللہ! مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما، مجھے عافیت عطاء فرما، مجھے ہدایت عطاء فرما اور مجھے رزق عطاء فرما، پھر وہ آدمی پلٹ کر چلا گیا اور اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو مضبوطی سے بند کر رکھا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ شخص تو اپنے ہاتھ خیر سے بھر کر چلا گیا۔ حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک غلام (لڑکا) آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ ایک یتیم لڑکا ہے جس کی بیوی، ماں اور ایک یتیم بہن ہے آپ ہمیں ان چیزوں میں سے کھلائیے جو اللہ نے آپ کو کھلائی ہیں، اللہ آپ کو اپنے پاس سے اتنا دے کہ آپ راضی ہوجائیں پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔ حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! یہاں ایک لڑکا ہے جو قریب المرگ ہے اسے لا الہ الا اللہ کی تلقین کی جارہی ہے لیکن وہ اسے کہہ نہیں پارہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا وہ اپنی زندگی میں یہ کلمہ نہیں پڑھتا تھا؟ اس نے کہا کیوں نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر موت کے وقت اسے کسی نے روک دیا۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔ فائدہ۔ امام احمد کے صاحبزادے عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب نے یہ دونوں حدیثیں بیان نہیں کی ہیں البتہ کتاب میں لکھ دی تھیں اور انہیں کاٹ دیا تھا کیونکہ انہیں فائد بن عبدالرحمن کی احادیث پر اعتماد نہیں تھا اور ان کے نزدیک وہ متروک الحدیث تھا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن بطرقه، وهذا إسناد ضيعف لضعف إبراهيم السكسكي- يزيد روى عن المسعودي بعد الاختلاط لكنه توبع
قال ابو عبد الرحمن: وكان في كتاب ابي: حدثنا يزيد ابن هارون ، اخبرنا فائد بن عبد الرحمن ، قال: سمعت عبد الله بن ابي اوفى ، قال: كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتاه غلام، فقال: يا رسول الله، إن هاهنا غلاما يتيما، له ام ارملة، واخت يتيمة، اطعمنا مما اطعمك الله تعالى، اعطاك الله مما عنده حتى ترضى، فذكر الحديث بطوله.قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَكَانَ فِي كِتَابِ أَبِي: حَدَّثَنَا يَزِيدُ ابْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا فَائِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ غُلَامٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَاهُنَا غُلَامًا يَتِيمًا، لَهُ أُمٌّ أَرْمَلَةٌ، وَأُخْتٌ يَتِيمَةٌ، أَطْعِمْنَا مِمَّا أَطْعَمَكَ اللَّهُ تَعَالَى، أَعْطَاكَ اللَّهُ مِمَّا عِنْدَهُ حَتَّى تَرْضَى، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ.
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، فائد بن عبدالرحمن ضعيف جدا
قال ابو عبد الرحمن: وكان في كتاب ابي: حدثنا يزيد ابن هارون ، اخبرنا فائد بن عبد الرحمن ، قال: سمعت عبد الله بن ابي اوفى ، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن هاهنا غلاما قد احتضر، يقال له: قل: لا إله إلا الله، فلا يستطيع ان يقولها، فقال: " اليس كان يقول في حياته؟" قال: بلى. قال:" فما منعه منها عند موته؟" فذكر الحديث بطوله. فلم يحدث ابي بهذين الحديثين، ضرب عليهما من كتابه، لانه لم يرض حديث فائد بن عبد الرحمن، وكان عنده متروك الحديث.قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَكَانَ فِي كِتَابِ أَبِي: حَدَّثَنَا يَزِيدُ ابْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا فَائِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَاهُنَا غُلَامًا قَدْ احْتُضِرَ، يُقَالُ لَهُ: قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَلَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَقُولَهَا، فَقَالَ: " أَلَيْسَ كَانَ يَقُولُ فِي حَيَاتِهِ؟" قَالَ: بَلَى. قَالَ:" فَمَا مَنَعَهُ مِنْهَا عِنْدَ مَوْتِهِ؟" فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ. فَلَمْ يُحَدِّثُ أَبِي بِهَذَيْنِ الْحَدِيثَيْنِ، ضَرَبَ عَلَيْهِمَا مِنْ كِتَابِهِ، لِأَنَّهُ لَمْ يَرْضَ حَدِيثَ فَائِدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَكَانَ عِنْدَهُ مَتْرُوكَ الْحَدِيثِ.
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، فائذ بن عبدالرحمن ضعيف جدا
حدثنا محمد بن جعفر ، وحجاج ، قالا: حدثنا شعبة ، قال: سمعت ابا المختار من بني اسد، قال: سمعت عبد الله بن ابي اوفى ، قال: اصاب رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه عطش، قال: فنزل منزلا، فاتي بإناء، فجعل يسقي اصحابه، وجعلوا يقولون: اشرب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ساقي القوم آخرهم"، حتى سقاهم كلهم .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْمُخْتَارِ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: أَصَابَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ عَطَشٌ، قَالَ: فَنَزَلَ مَنْزِلًا، فَأُتِيَ بِإِنَاءٍ، فَجَعَلَ يَسْقِي أَصْحَابَهُ، وَجَعَلُوا يَقُولُونَ: اشْرَبْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَاقِي الْقَوْمِ آخِرُهُمْ"، حَتَّى سَقَاهُمْ كُلَّهُمْ .
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ کسی سفر میں تھے ہمیں پانی نہیں مل رہا تھا تھوڑی دیر بعد ایک جگہ پانی نظر آگیا لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پانی لے کر آنے لگے جب بھی کوئی آدمی پانی لے کر آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے کسی بھی قوم کا ساقی سب سے آخر میں پیتا ہے یہاں تک کہ سب لوگوں نے پانی پی لیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى المختار الأسدي
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان الشيباني ، قال سمعت عبد الله بن ابي اوفى ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر وهو صائم، فدعا صاحب شرابه بشراب، فقال صاحب شرابه: لو امسيت يا رسول الله، ثم دعاه، فقال له: لو امسيت. ثلاثا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا جاء الليل من هاهنا، فقد حل الإفطار" ، او كلمة هذا معناها.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ الشَّيْبَانِيِّ ، قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ وَهُوَ صَائِمٌ، فَدَعَا صَاحِبَ شَرَابِهِ بِشَرَابٍ، فَقَالَ صَاحِبُ شَرَابِهِ: لَوْ أَمْسَيْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ دَعَاهُ، فَقَالَ لَهُ: لَوْ أَمْسَيْتَ. ثَلَاثًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا جَاءَ اللَّيْلُ مِنْ هَاهُنَا، فَقَدْ حَلَّ الْإِفْطَارُ" ، أَوْ كَلِمَةً هَذَا مَعْنَاهَا.
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ماہ رمضان میں کسی سفر میں تھے جب سورج غروب ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا، اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابھی تو دن کا کچھ حصہ باقی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھر پانی لانے کے لئے فرمایا تین مرتبہ اسی طرح ہوا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب یہاں سورج غروب ہوجائے اور رات یہاں تک آجائے تو روزہ دار روزہ کھول لے۔
حدثنا بهز ، وعفان ، المعنى، قالا: حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، قال عفان في حديثه: حدثنا سعيد بن جمهان وقال بهز في حديثه: حدثني سعيد ابن جمهان، قال: كنا مع عبد الله بن ابي اوفى نقاتل الخوارج، وقد لحق غلام لابن ابي اوفى بالخوارج، فناديناه: يا فيروز، هذا ابن ابي اوفى، قال: نعم الرجل لو هاجر، قال: ما يقول عدو الله؟ قال: يقول: نعم الرجل لو هاجر، فقال: هجرة بعد هجرتي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟! يرددها ثلاثا، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " طوبى لمن قتلهم، ثم قتلوه"، قال عفان في حديثه:" وقتلوه" ثلاثا .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، وَعَفَّانُ ، المعنى، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، قَالَ عَفَّانُ فِي حَدِيثِهِ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ وَقَالَ بَهْزٌ فِي حَدِيثِهِ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ ابْنُ جُمْهَانَ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى نُقَاتِلُ الْخَوَارِجَ، وَقَدْ لَحِقَ غُلَامٌ لِابْنِ أَبِي أَوْفَى بِالْخَوَارِجِ، فَنَادَيْنَاهُ: يَا فَيْرُوزُ، هَذَا ابْنُ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: نِعْمَ الرَّجُلُ لَوْ هَاجَرَ، قَالَ: مَا يَقُولُ عَدُوُّ اللَّهِ؟ قَالَ: يَقُولُ: نِعْمَ الرَّجُلُ لَوْ هَاجَرَ، فَقَالَ: هِجْرَةٌ بَعْدَ هِجْرَتِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟! يُرَدِّدُهَا ثَلَاثًا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " طُوبَى لِمَنْ قَتَلَهُمْ، ثُمَّ قَتَلُوهُ"، قَالَ عَفَّانُ فِي حَدِيثِهِ:" وَقَتَلُوهُ" ثَلَاثًا .
سعید بن جمہان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ خوارج سے قتال کر رہے تھے کہ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کا ایک غلام خوارج سے جاملا وہ لوگ اس طرف تھے اور ہم اس طرف، ہم نے اسے " اے فیروز! اے فیروز! کہہ کر آوازیں دیتے ہوئے کہا ارے کمبخت! تیرے آقا حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ تو یہاں ہیں وہ کہنے لگا کہ وہ اچھے آدمی ہوتے اگر تمہارے یہاں سے ہجرت کر جاتے، انہوں نے پوچھا کہ یہ دشمن اللہ کیا کہہ رہا ہے؟ ہم نے اس کا جملہ ان کے سامنے نقل کیا تو وہ فرمانے لگے کیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کرنے والی ہجرت کے بعد دوبارہ ہجرت کروں گا؟ پھر فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو انہیں قتل کرے یا وہ اسے قتل کردیں۔
حدثنا ابو النضر ، حدثنا الحشرج بن نباتة العبسي كوفي ، حدثني سعيد بن جمهان ، قال: اتيت عبد الله بن ابي اوفى وهو محجوب البصر، فسلمت عليه، قال لي: من انت؟ فقلت: انا سعيد بن جمهان، قال: فما فعل والدك؟ قال: قلت: قتلته الازارقة، قال: لعن الله الازارقة، لعن الله الازارقة، حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم انهم كلاب النار، قال: قلت: الازارقة وحدهم، ام الخوارج كلها؟ قال: بل الخوارج كلها، قال: قلت: فإن السلطان يظلم الناس، ويفعل بهم، قال: فتناول يدي، فغمزها بيده غمزة شديدة، ثم قال: ويحك يا ابن جمهان، عليك بالسواد الاعظم، عليك بالسواد الاعظم، إن كان السلطان يسمع منك، فاته في بيته، فاخبره بما تعلم، فإن قبل منك، وإلا فدعه، فإنك لست باعلم منه .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا الْحَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ الْعَبْسِيُّ كُوفِيٌّ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ ، قَالَ: أَتَيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى وَهُوَ مَحْجُوبُ الْبَصَرِ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، قَالَ لِي: مَنْ أَنْتَ؟ فَقُلْتُ: أَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ، قَالَ: فَمَا فَعَلَ وَالِدُكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: قَتَلَتْهُ الْأَزَارِقَةُ، قَالَ: لَعَنَ اللَّهُ الْأَزَارِقَةَ، لَعَنَ اللَّهُ الْأَزَارِقَةَ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ كِلَابُ النَّارِ، قَالَ: قُلْتُ: الْأَزَارِقَةُ وَحْدَهُمْ، أَمْ الْخَوَارِجُ كُلُّهَا؟ قَالَ: بَل الْخَوَارِجُ كُلُّهَا، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنَّ السُّلْطَانَ يَظْلِمُ النَّاسَ، وَيَفْعَلُ بِهِمْ، قَالَ: فَتَنَاوَلَ يَدِي، فَغَمَزَهَا بِيَدِهِ غَمْزَةً شَدِيدَةً، ثُمَّ قَالَ: وَيْحَكَ يَا ابْنَ جُمْهَانَ، عَلَيْكَ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ، عَلَيْكَ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ، إِنْ كَانَ السُّلْطَانُ يَسْمَعُ مِنْكَ، فَأْتِهِ فِي بَيْتِهِ، فَأَخْبِرْهُ بِمَا تَعْلَمُ، فَإِنْ قَبِلَ مِنْكَ، وَإِلَّا فَدَعْهُ، فَإِنَّكَ لَسْتَ بِأَعْلَمَ مِنْهُ .
سعید بن جمہان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت تک ان کی بینائی ختم ہوچکی تھی انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ میں نے بتایا کہ میں سعید بن جمہان ہوں، انہوں نے پوچھا کہ تمہارے والد صاحب کیسے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ انہیں تو " ازارقہ " نے قتل کردیا ہے انہوں نے دو مرتبہ فرمایا ازارقہ پر لعنت الٰہی نازل ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ جہنم کے کتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اس سے صرف " ازارقہ " فرقے کے لوگ مراد ہیں یا تمام خوارج ہیں؟ انہوں نے فرمایا تمام خوارج " مراد ہیں پھر میں نے عرض کیا بعض اوقات بادشاہ بھی عوام کے ساتھ ظلم اور ناانصافی وغیرہ کرتا ہے انہوں نے میرا ہاتھ زور سے دبایا اور بہت تیز چٹکی کاٹی اور فرمایا اے ابن جمہان! تم پر افسوس ہے سواد اعظم کی پیروی کرو سواد اعظم کی پیروی کرو اگر بادشاہ تمہاری بات سنتا ہے تو اس کے گھر میں اس کے پاس جاؤ اور اس کے سامنے وہ ذکر کرو جو تم جانتے ہو اگر وہ قبول کرلے تو بہت اچھا ورنہ تم اس سے بڑے عالم نہیں ہو۔
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال: عمرو بن مرة انباني، قال: سمعت عبد الله بن ابي اوفى قال: وكان من اصحاب الشجرة، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اتاه رجل بصدقته، قال:" اللهم صل على آل فلان". قال فاتاه ابي بصدقته، فقال: " اللهم صل على آل ابي اوفى" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ أَنْبَأَنِي، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى قَالَ: وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاهُ رَجُلٌ بِصَدَقَتِهِ، قَالَ:" اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ فُلَانٍ". قَالَ فَأَتَاهُ أَبِي بِصَدَقَتِهِ، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى" .
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے مال کی زکوٰۃ لے کر آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لئے دعاء فرماتے تھے ایک دن میں بھی اپنے والد کے مال کی زکوٰۃ لے کر حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہم صل علی آل ابی اوفی۔
حدثنا علي بن عاصم ، اخبرنا الهجري ، قال: خرجت في جنازة بنت عبد الله بن ابي اوفى ، وهو على بغلة له حواء يعني سوداء قال: فجعلن النساء يقلن لقائده قدمه امام الجنازة، ففعل، قال: فسمعته يقول له: اين الجنازة؟ قال: فقال: خلفك، قال: ففعل ذلك مرة، او مرتين، ثم قال: الم انهك ان تقدمني امام الجنازة؟ قال: فسمع امراة تلتدم وقال مرة: ترثي فقال: مه، الم انهكن عن هذا، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينهى عن المراثي، لتفض إحداكن من عبرتها ما شاءت . فلما وضعت الجنازة تقدم، فكبر عليها اربع تكبيرات، ثم قام هنيهة، فسبح به بعض القوم، فانفتل، فقال: اكنتم ترون اني اكبر الخامسة؟ قالوا: نعم، قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا كبر الرابعة، قام هنية . فلما وضعت الجنازة جلس، وجلسنا إليه، فسئل عن لحوم الحمر الاهلية، فقال تلقانا يوم خيبر حمر اهلية خارجا من القرية، فوقع الناس فيها، فذبحوها، فإن القدور لتغلي ببعضها، إذ نادى منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اهريقوها"، فاهرقناها، ورايت على عبد الله بن ابي اوفى مطرفا من خز اخضر .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ ، أَخْبَرَنَا الْهَجَرِيُّ ، قَالَ: خَرَجْتُ فِي جِنَازَةِ بِنْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ، وَهُوَ عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ حَوَّاءَ يَعْنِي سَوْدَاءَ قَالَ: فَجَعَلْنَ النِّسَاءُ يَقُلْنَ لِقَائِدِهِ قَدِّمْهُ أَمَامَ الْجِنَازَةِ، فَفَعَلَ، قَالَ: فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ لَهُ: أَيْنَ الْجِنَازَةُ؟ قَالَ: فَقَالَ: خلفك، قَالَ: فَفَعَلَ ذَلِكَ مَرَّةً، أَوْ مَرَّتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: أَلَمْ أَنْهَكَ أَنْ تُقَدِّمَنِي أَمَامَ الْجِنَازَةِ؟ قَالَ: فَسَمِعَ امْرَأَةً تَلْتَدِمُ وَقَالَ مَرَّةً: تَرْثِي فَقَالَ: مَهْ، أَلَمْ أَنْهَكُنّ عَنْ هَذَا، إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَى عَنِ الْمَرَاثِي، لِتُفِضْ إِحْدَاكُنَّ مِنْ عَبْرَتِهَا مَا شَاءَتْ . فَلَمَّا وُضِعَتْ الْجِنَازَةُ تَقَدَّمَ، فَكَبَّرَ عَلَيْهَا أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ، ثُمَّ قَامَ هُنَيْهَةً، فَسَبَّحَ بِهِ بَعْضُ الْقَوْمِ، فَانْفَتَلَ، فَقَالَ: أَكُنْتُمْ تَرَوْنَ أَنِّي أُكَبِّرُ الْخَامِسَةَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا كَبَّرَ الرَّابِعَةَ، قَامَ هُنَيَّةً . فَلَمَّا وُضِعَتْ الْجِنَازَةُ جَلَسَ، وَجَلَسْنَا إِلَيْهِ، فَسُئِلَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ، فَقَالَ تَلَقَّانَا يَوْمَ خَيْبَرَ حُمُرٌ أَهْلِيَّةٌ خَارِجًا مِنَ الْقَرْيَةِ، فَوَقَعَ النَّاسُ فِيهَا، فَذَبَحُوهَا، فَإِنَّ الْقُدُورَ لَتَغْلِي بِبَعْضِهَا، إِذْ نَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَهْرِيقُوهَا"، فَأَهْرَقْنَاهَا، وَرَأَيْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى مِطْرَفًا مِنْ خَزٍّ أَخْضَرَ .
ہجری کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کے جنازے میں شریک ہوا وہ خود ایک سیاہ رنگ کے خچر پر سوار تھے عورتیں ان کے رہبر سے کہنے لگیں کہ انہیں جنازے کے آگے لے کر چلو اس نے ایسا ہی کیا میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ جنازہ کہاں ہے؟ (کیونکہ وہ نابینا ہوچکے تھے) اس نے بتایا آپ کے پیچھے ایک دو مرتبہ اسی طرح ہونے کے بعد انہوں نے فرمایا کیا میں نے تمہیں منع نہیں کیا تھا کہ مجھے جنازے سے آگے لے کر مت چلا کرو۔ پھر انہوں نے ایک عورت کی آواز سنی جو بین کررہی تھی انہوں نے اسے روکتے ہوئے فرمایا کیا میں نے تمہیں اس سے منع نہیں کیا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بین کرنے سے منع فرماتے تھے ہاں البتہ آنسو بہانا چاہتی ہو بہالو، پھر جب جنازہ سامنے رکھا گیا تو انہوں نے آگے بڑھ چار تکبیرات کہیں اور تھوڑی دیر کھڑے رہے یہ دیکھ کر کچھ لوگ " سبحان اللہ " کہنے لگے انہوں نے مڑ کر فرمایا کیا تم یہ سمجھ کر رہے تھے کہ میں پانچویں تکبیر کہنے لگا ہوں؟ انہوں نے جواب دیا جی ہاں! فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب تکبیر کہہ چکتے تو تھوڑی دیر کھڑے رہتے تھے۔ پھر جب جنازہ لا کر رکھا گیا تو حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے کسی شخص نے ان سے پالتو گدھوں کے گوشت کے متعلق پوچھا تو فرمایا کہ غزوہ خیبر کے موقع پر شہر سے باہر ہمیں کچھ پالتو گدھے مل گئے لوگ ان پر جاپڑے اور انہیں ذبح کرلیا، ابھی کچھ ہانڈیوں میں اس کا گوشت ابل ہی رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے نداء لگائی انہیں بہادو، چناچہ ہم نے اسے بہا دیا اور میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کے جسم پر نہایت عمدہ لباس جو سبز ریشم کا تھا دیکھا۔
حكم دارالسلام: النهي عن لحوم الحمر الأهلية منه صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن عاصم