(حديث مرفوع) اخبرنا جعفر بن عون، اخبرنا هشام، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من الناس، ولكن: قبض العلم قبض العلماء، فإذا لم يبق عالما، اتخذ الناس رؤساء جهالا، فسئلوا، فافتوا بغير علم، فضلوا واضلوا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنْ النَّاسِ، وَلَكِنْ: قَبْضُ الْعِلْمِ قَبْضُ الْعُلَمَاءِ، فَإِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا، اتَّخَذَ النَّاسُ رُؤَسَاءً جُهَّالًا، فَسُئِلُوا، فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اس کو لوگوں سے چھین لے، بلکہ علم کا اٹھانا علماء کا اٹھا لیا جانا ہے، پس جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے، ان سے سوالات کئے جائیں گے اور وہ بنا علم کے فتویٰ دیں گے، اس لئے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسرے لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 244) اس حدیث میں علم اور علماء کے اٹھ جانے کی پیشین گوئی ہے جو پوری ہوتی جارہی ہے، اس لئے جاہلوں کو سردار بنانے اور بے علم علماء کے فتوؤں سے ہوشیار رہنے اور بچنے کی ضرورت ہے۔ اس حدیث کی شرح میں مولانا راز صاحب تحریر فرماتے ہیں: پختہ عالم جو دین کی پوری سمجھ رکھتے ہوں اور احکامِ اسلام کے دقائق و رموز کو بھی جانتے ہوں، ایسے علماء ختم ہو جائیں گے، اور سطحی مدعیانِ علم باقی رہ جائیں گے، جو نا سمجھی کی وجہ سے محض تقلیدِ جامد کی تاریکی میں گرفتار ہوں گے اور اپنے فتوؤں سے خود گمراہ ہوں گے اور دیگر لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے، یہ رائے اور قیاس کے دلدادہ ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 245]» اس حدیث کی سند صحیح اور یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 100]، [مسلم 2673]، [صحيح ابن حبان 4571]، [مسند الحميدي 593]، [مصنف ابن أبى شيبه 19436] وغيرهم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه