Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
4. باب مَا أَكْرَمَ اللَّهُ بِهِ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِيمَانِ الشَّجَرِ بِهِ وَالْبَهَائِمِ وَالْجِنِّ:
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو درخت اور چوپائے نیز جنوں کے ان پر ایمان لانے سے جو عزت بخشی اس کا بیان
حدیث نمبر: 22
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ مُزَيْنَةَ، أَوْ جُهَيْنَةَ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَجْرَ فَإِذَا هُوَ بِقَرِيبٍ مِنْ مِئَةِ ذِئْبٍ قَدْ أَقْعَيْنَ وُفُودُ الذِّئَابِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَرْضَخُونَ لَهُمْ شَيْئًا مِنْ طَعَامِكُمْ وَتَأْمَنُونَ عَلَى مَا سِوَى ذَلِكَ؟"، فَشَكَوْا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَاجَةَ، قَالَ:"فَآذِنُوهُنَّ"، قَالَ: فَآذَنُوهُنَّ فَخَرَجْنَ وَلَهُنَّ عُوَاءٌ.
شمر بن عطیہ سے روایت ہے کہ مزینہ یا جہینہ کے ایک شخص نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر ادا کی، اچانک سو کے قریب بھیڑئیے نمودار ہوئے اور اپنی مخصوص نشست کی طرح بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کرام سے) فرمایا: اپنے کھانے میں سے کچھ انہیں دے دو تاکہ ان کے شر سے مامون و محفوظ ہو جاؤ، ان بھیڑیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں اپنی مجبوری سے آگاہ کرو، لوگوں نے ایسا ہی کیا، چنانچہ وہ سب بھیٹرئیے آوازیں نکالتے ہوئے واپس چلے گئے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات ولكن قيل: أخطأ محمد بن يوسف في مئة وخمسين حديثا من حديث سفيان، [مكتبه الشامله نمبر: 22]»
اس روایت کے سارے راوی ثقات ہیں۔ دیکھئے: [البداية والنهاية 146/6]، و [مصنف ابن ابي شيبه 11785]

وضاحت: (تشریح حدیث 22)
اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ شجر و حجر، حیوانات و جمادات میں سے جسے چاہے گویائی بخش دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور آپ کا معجزہ کہ درندے بھی آپ کے پاس آتے ہیں، ان کی فریاد کو سننا اور حاجت رفع کرنا ساری مخلوق پر شفقت و رحمت کی دلیل ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: «﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ﴾» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات ولكن قيل: أخطأ محمد بن يوسف في مئة وخمسين حديثا من حديث سفيان