(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن إسماعيل بن عبد الملك، عن ابي الزبير، عن جابر رضي الله عنه، قال: خرجت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، وكان لا ياتي البراز حتى يتغيب فلا يرى، فنزلنا بفلاة من الارض ليس فيها شجرة، ولا علم، فقال:"يا جابر، اجعل في إداوتك ماء ثم انطلق بنا"، قال: فانطلقنا حتى لا نرى، فإذا هو بشجرتين بينهما اربع اذرع، فقال:"يا جابر، انطلق إلى هذه الشجرة، فقل: يقول لك رسول الله صلي الله عليه وسلم: الحقي بصاحبتك حتى اجلس خلفكما"، فرجعت إليها، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم خلفهم، ثم رجعتا إلى مكانهما، فركبنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ورسول الله بيننا كانما علينا الطير تظلنا، فعرضت له امراة معها صبي لها، فقالت: يا رسول الله، إن ابني هذا ياخذه الشيطان كل يوم ثلاث مرار، قال: فتناول الصبي فجعله بينه وبين مقدم الرحل، ثم قال:"اخسا عدو الله، انا رسول الله صلى الله عليه وسلم، اخسا عدو الله انا رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثا"، ثم دفعه إليها، فلما قضينا سفرنا، مررنا بذلك المكان فعرضت لنا المراة معها صبيها، ومعها كبشان تسوقهما، فقالت: يا رسول الله اقبل مني هديتي، فوالذي بعثك بالحق ما عاد إليه بعد، فقال:"خذوا منها واحدا وردوا عليها الآخر"، قال: ثم سرنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم بيننا كانما علينا الطير تظلنا، فإذا جمل ناد حتى إذا كان بين سماطين خر ساجدا، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال علي الناس:"من صاحب الجمل؟"فإذا فتية من الانصار، قالوا: هو لنا يا رسول الله، قال:"فما شانه"؟، قالوا: استنينا عليه منذ عشرين سنة وكانت به شحيمة فاردنا ان ننحره فنقسمه بين غلماننا، فانفلت منا، قال:"بيعونيه"، قالوا: لا، بل هو لك يا رسول الله، قال:"اما لا، فاحسنوا إليه حتى ياتيه اجله"، قال المسلمون عند ذلك: يا رسول الله، نحن احق بالسجود لك من البهائم، قال:"لا ينبغي لشيء ان يسجد لشيء ولو كان ذلك، كان النساء لازواجهن".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، وَكَانَ لَا يَأْتِي الْبَرَازَ حَتَّى يَتَغَيَّبَ فَلَا يُرَى، فَنَزَلْنَا بِفَلَاةٍ مِنْ الْأَرْضِ لَيْسَ فِيهَا شَجَرةٌ، وَلَا عَلَمٌ، فَقَالَ:"يَا جَابِرُ، اجْعَلْ فِي إِدَاوَتِكَ مَاءً ثُمَّ انْطَلِقْ بِنَا"، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا حَتَّى لَا نُرَى، فَإِذَا هُوَ بِشَجَرَتَيْنِ بَيْنَهُمَا أَرْبَعُ أَذْرُعٍ، فَقَالَ:"يَا جَابِرُ، انْطَلِقْ إِلَى هَذِهِ الشَّجَرَةِ، فَقُلْ: يُقُولُ لَكِ رَسولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْحَقِي بِصَاحِبَتِكِ حَتَّى أَجْلِسَ خَلْفَكُمَا"، فَرَجَعَتْ إِلَيْهَا، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَهُمَ، ثُمَّ رَجَعَتَا إِلَى مَكَانِهِمَا، فَرَكِبْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَسُولُ اللَّهِ بَيْنَنَا كَأَنَّمَا عَلَيْنَا الطَّيْرُ تُظِلُّنَا، فَعَرَضَتْ لَهُ امْرَأَةٌ مَعَهَا صَبِيٌّ لَهَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنِي هَذَا يَأْخُذُهُ الشَّيْطَانُ كُلَّ يَوْمٍ ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: فَتَنَاوَلَ الصَّبِيَّ فَجَعَلَهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ مُقَدَّمِ الرَّحْلِ، ثُمَّ قَالَ:"اخْسَأْ عَدُوَّ اللَّهِ، أَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اخْسَأْ عَدُوَّ اللَّهِ أَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا"، ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَيْهَا، فَلَمَّا قَضَيْنَا سَفَرَنَا، مَرَرْنَا بِذَلِكَ الْمَكَانِ فَعَرَضَتْ لَنَا الْمَرْأَةُ مَعَهَا صَبِيُّهَا، وَمَعَهَا كَبْشَانِ تَسُوقُهُمَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اقْبَلْ مِنِّي هَدِيَّتِي، فَوَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا عَادَ إِلَيْهِ بَعْدُ، فَقَالَ:"خُذُوا مِنْهَا وَاحِدًا وَرُدُّوا عَلَيْهَا الْآخَرَ"، قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَنَا كَأَنَّمَا عَلَيْنَا الطَّيْرُ تُظِلُّنَا، فَإِذَا جَمَلٌ نَادٌّ حَتَّى إِذَا كَانَ بَيْنَ سِمَاطَيْنِ خَرَّ سَاجِدًا، فَجَلَسَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ عَلَيَّ النَّاسَ:"مَنْ صَاحِبُ الْجَمَلِ؟"فَإِذَا فِتْيَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، قَالُوا: هُوَ لَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:"فَمَا شَأْنُهُ"؟، قَالُوا: اسْتَنَيْنَا عَلَيْهِ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً وَكَانَتْ بِهِ شُحَيْمَةٌ فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْحَرَهُ فَنَقْسِمَهُ بَيْنَ غِلْمَانِنَا، فَانْفَلَتَ مِنَّا، قَالَ:"بِيعُونِيهِ"، قَالُوا: لَا، بَلْ هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:"أَمَّا لا، فَأَحْسِنُوا إِلَيْهِ حَتَّى يَأْتِيَهُ أَجَلُهُ"، قَالَ الْمُسْلِمُونَ عِنْدَ ذَلِكَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَحْنُ أَحَقُّ بِالسُّجُودِ لَكَ مِنْ الْبَهَائِمِ، قَالَ:"لَا يَنْبَغِي لِشَيْءٍ أَنْ يَسْجُدَ لِشَيْءٍ وَلَوْ كَانَ ذَلِكَ، كَانَ النِّسَاءُ لِأَزْوَاجِهِنَّ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر پر روانہ ہوا۔ آپ قضائے حاجت کے لئے اتنی دور غائب ہو جاتے کہ دکھائی بھی نہ دیتے۔ ہم نے ایسے چٹیل میدان میں پڑاؤ ڈالا جہاں نہ کوئی درخت تھا اور نہ کوئی پہاڑ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جابر! اپنی ڈولچی میں پانی بھرو اور ہمارے ساتھ چلو“، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم چل پڑے اور لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے اور دو درختوں کے پاس پہنچے جن کا درمیانی فاصلہ چار ہاتھ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے جابر درخت کے پاس جاؤ اور کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے یہ کہتے ہیں کہ دوسرے ساتھی درخت سے مل جاؤ تاکہ میں تمہاری آڑ میں بیٹھ جاؤں“، انہوں نے جا کر ایسے ہی کہا، چنانچہ وہ درخت دوسرے سے جا کر مل گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے (قضائے حاجت کے لئے) جا کر بیٹھ گئے، پھر وہ درخت اپنی اپنی جگہ واپس لوٹ گئے، اس کے بعد ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہوئے اور آپ ہمارے ہی درمیان تشریف فرما تھے، ایسا لگتا تھا جیسے ہم پر پرندے سایہ کئے ہوئے ہیں، پھر آپ کے پاس ایک عورت آئی اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا، عرض کیا اے اللہ کے رسول! میرے اس بچے کو شیطان دن میں تین بار اٹھا لے جاتا ہے، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو لے کر اپنے اور کجاونے کے درمیان بٹھا لیا اور فرمایا: ”اے اللہ کے دشمن دور ہو جا میں اللہ کا رسول ہوں، دور ہو جا اللہ کے دشمن میں اللہ کا رسول ہوں“ اسی طرح تین بار فرمایا پھر اس بچے کو اس کی ماں کو واپس دے دیا، پھر اپنے سفر سے جب ہم واپس لوٹے تو اسی جگہ سے گزر ہوا اور وہی عورت اپنے بچے کے ساتھ دو مینڈھوں کو ہنکاتی ہوئی سامنے آئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا یہ تحفہ قبول فرمائے، قسم ہے اس ذات باری تعالی کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے بعد سے وہ شیطان پھر نہیں آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مینڈھا لے لو اور دوسرا اسے واپس لوٹا دو۔“ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے بعد ہم چل پڑے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان ہمارے ساتھ تھے ایسا لگتا تھا کہ ہمارے اوپر پرندے سایہ کئے ہوئے ہیں اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بدکا ہوا اونٹ ہے جب وہ راستے کے دو پہلوؤں کے درمیان آیا تو سجدے میں گر پڑا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور فرمایا: ”لوگوں کو بلاؤ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟“ انصار کے کچھ جوانوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ ہمارا اونٹ ہے، فرمایا: ”اس کا کیا معاملہ ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: ہم اس سے بیس سال سے پانی نکلوا رہے ہیں، اس کے جسم میں چربی کا ایک ٹکڑا ہے جس کی وجہ سے ہمارا ارادہ تھا کہ اسے ذبح کر کے اپنے غلاموں میں تقسیم کر دیں تو یہ بھڑک کر ہمارے پاس سے بھاگ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے میرے ہاتھ بیچ دو“، انہوں نے عرض کیا: نہیں یا رسول اللہ، یہ آپ ویسے ہی لے لیجئے، فرمایا: ”اگر بیچتے نہیں ہو تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو یہاں تک کہ اس کی موت آ جائے“، اس وقت مسلمانوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ہم ان چوپائیوں سے زیادہ آپ کو سجدہ کرنے کے حق دار ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی بھی (انسان) کے لئے کسی غیر کا سجدہ کرنا جائز نہیں ہے، اگر یہ جائز ہوتا تو عورتوں کا اپنے شوہروں کو سجدہ کرنا جائز ہوتا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف إسماعيل بن عبد الملك. ولكن الحديث صحيح بشواهده، [مكتبه الشامله نمبر: 17]» یہ حدیث اس سیاق و سند سے ضعیف ہے، بعض جملوں کے شواہد [أبوداؤد 1۔2] اور [سنن ابن ماجه 335]، و [مصنف ابن ابي شيبة 11803] وغیرہ میں موجود ہیں لیکن سب کی سند ضعیف ہے۔ والله اعلم
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف إسماعيل بن عبد الملك. ولكن الحديث صحيح بشواهده