من كتاب الفرائض وراثت کے مسائل کا بیان 31. باب الْوَلاَءِ: ولاء کا بیان
امام زہری رحمہ اللہ سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مولیٰ دینی بھائی اور آزاد کرانے والا بھائی ہے، اور اس کی میراث کا سب سے زیادہ حق دار وہ ہے جو آزاد کرنے والے کے سب سے زیادہ قریب ہو۔“ «نعمة» سے مراد «صاحب المنه» ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح يونس بن يزيد من أثبت الناس في الزهري، [مكتبه الشامله نمبر: 3049]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن مرسل ہے۔ امام زہری رحمہ اللہ نے صحابی کا ذکر نہیں کیا۔ دیکھئے: [ابن منصور 272]، [البيهقي 304/1] وضاحت:
(تشریح حدیث 3038) عہدِ غلامی میں دستور تھا کہ لونڈی یا غلام اپنے آقا کا منہ مانگا روپیہ ادا کر کے آزاد ہو سکتے تھے، مگر آزادی کے بعد ان کی وراثت پہلے مالکوں کو ملتی تھی، اسلام نے جہاں غلامی کو ختم کیا ایسے غلط در غلط رواجوں کو بھی ختم کیا، اور بتلایا کہ جو بھی کسی غلام کو آزاد کرائے اس کی وراثت ترکہ وغیرہ کا غلام کی موت کے بعد اگر کوئی اس کا نسبتی وارث نہ ہو تو آزاد کرنے والا ہی بطورِ عصبہ اس کا وارث قرار پائے گا، لفظ ولاء کا یہی مطلب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الولاء لمن اعتق» (متفق علیہ) آزاد کردہ کی ولاء (حقِ وراثت) اس شخص کے لئے ہے جس نے اسے آزاد کیا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح يونس بن يزيد من أثبت الناس في الزهري
محمد بن سالم نے کہا: شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے: ایسا شخص جس نے غلام آزاد کیا پھر آزاد کرنے والا (مالک و مولی) اور غلام فوت ہو گیا اور آزاد کرنے والا اپنا باپ اور بیٹا چھوڑ گیا تو مال بیٹے کا ہو گا۔
تخریج الحدیث: «الحديث إسناده صحيح إلى الحسن وباقي الإسناد ضعيف لضعف محمد بن سالم، [مكتبه الشامله نمبر: 3050]»
محمد بن سالم کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن منصور 263]، [ابن أبى شيبه 11566] وضاحت:
(تشریح حدیث 3039) معتق کا سب سے اقرب اس کا لڑکا ہے، اس لئے غلام یا لونڈی کی میراث کا وارث وہی ہوگا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الحديث إسناده صحيح إلى الحسن وباقي الإسناد ضعيف لضعف محمد بن سالم
سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے کہا: سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ایک آدمی نے اپنا باپ اور پوتا چھوڑا تو ولاء (حق وراثت) پوتے کا ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن وعباد هو: ابن العوام، [مكتبه الشامله نمبر: 3051]»
اس اثر کی سند حسن ہے، اور عباد: ابن العوام ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11566]، [عبدالرزاق 16298] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن وعباد هو: ابن العوام
خصیف نے روایت کیا: زیاد بن ابی مریم سے مروی ہے کہ ایک عورت نے اپنا غلام آزاد کیا، پھر اس عورت کا انتقال ہو گیا اور اس نے اپنا بیٹا اور بھائی چھوڑا، پھر اس کا غلام بھی فوت ہو گیا تو اس عورت (آزاد کرنے والی) کا لڑکا اور اس عورت کا بھائی میراث کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس غلام کی میراث (آزاد کرنے والی) عورت کے لڑکے کے لئے ہے“، عورت کے بھائی نے کہا: یا رسول اللہ! اگر وہ کوئی گناہ کرتا تو کون ذمہ دار ہوتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ذمے دار ہوتے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3052]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ خصیف: ابن عبدالرحمٰن الجزری صدوق سئي الحفظ ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 390/11]، [عبدالرزاق 35/9]، [إرواء الغليل 1697] اس میں ہے عورت کے بھائی نے کہا: اگر وہ کوئی گناہ کرتا تو تاوان میرے اوپر ہوتا؟ فرمایا: ”ہاں۔“ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
مغیرہ نے کہا: میں نے ابراہیم رحمہ اللہ سے پوچھا: ایک آدمی نے اپنے غلام کو آزاد کر دیا، پھر غلام اور آزاد کرنے والے فوت ہو گئے اور آزاد کرنے والے نے باپ اور اپنا بیٹا چھوڑا، تو انہوں نے کہا: باپ کے لئے اتنا ہے اور جو بچے وہ (عصبہ ہونے کے سبب) اس کے بیٹے کا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى إبراهيم، [مكتبه الشامله نمبر: 3053]»
اس اثر کی سند ابراہیم رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن منصور 261]، [ابن أبى شيبه 11567]، [عبدالرزاق 16257] وضاحت:
(تشریح احادیث 3040 سے 3043) اوپر شعبی کا قول گذر چکا ہے کہ آزاد کردہ غلام کا سارا مال آزاد کرنے والے کا بیٹا لے گا، کیوں کہ یہ ولاء حق آزادی کا مسئلہ ہے، یہاں ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا کہ عام حقِ وراثت کی طرح سدس باپ کا ہوگا باقی پانچ حصے بیٹے کے ہوں گے۔ والله اعلم بالصواب۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى إبراهيم
شعبہ سے مروی ہے: میں نے حکم اور حماد سے سنا، وہ کہتے تھے: (مذکورہ بالا صورت میں غلام کے مال کا حق دار صرف) وہ مال بیٹے کے لئے ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف: فيه عنعنة هشيم، [مكتبه الشامله نمبر: 3054]»
ہشیم کے عنعنہ کے سبب اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11570، 11571، 11574]، [عبدالرزاق 16257] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف: فيه عنعنة هشيم
حسن رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع کی طرف گئے تو دیکھا ایک آدمی بیچا جا رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس پہنچے اور اس کے دام لگائے، پھر اس کو چھوڑ آئے (یعنی خریدا نہیں)، ایک اور آدمی نے اسے دیکھا اور خرید لیا اور آزاد کر دیا، پھر اس کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: میں نے اس کو خریدا ہے اور اس کو آزاد کرتا ہوں، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تمہارا (اسلامی) بھائی اور غلام ہے“، اس نے پوچھا اس کو ساتھ رکھنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا: ”اگر اس نے تمہارا شکر ادا کیا تو یہ اس کے لئے بہتر ہے، اور تمہارے لئے اچھا نہیں ہے، اور اگر تمہاری وہ ناشکری کرے تو وہ تمہارے لئے بہتر اور اس کے لئے برا ہے“، اس نے پوچھا: اس کے مال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا: ”اگر وہ مر جائے اور مال سمیٹنے والے وارث موجود نہ ہوں تو تم اس کے وارث ہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف الأشعث، [مكتبه الشامله نمبر: 3055]»
اشعث بن سوار کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے، اور یہ مرسل بھی ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 1621]، [البيهقي 240/6 مرسلًا] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف الأشعث
عبداللہ بن شداد سے مروی ہے کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی نے اپنا غلام آزاد کر دیا، وہ غلام اپنی بیٹی اور مالکہ بنت حمزہ کو چھوڑ کر فوت ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی میراث کو اس کی بیٹی اور مالکہ کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو: ابن سوار وهو مرسل أيضا، [مكتبه الشامله نمبر: 3056]»
اشعث بن سوار کی وجہ سے اس حدیث کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری اسانید سے یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 2734]، [ابن أبى شيبه 11183، 11184]، [عبدالرزاق 16210]، [ابن منصور 174]، [طبراني 355/24، 880]، [الحاكم 66/4]، [البيهقي 241/6] وضاحت:
(تشریح احادیث 3043 سے 3046) اس سے معلوم ہوا کہ آزاد کردہ غلام یا لونڈی کے وارثین سے جو بچے گا اس کا وارث مالک یا مالکہ ہوگی۔ سارے مال کا وارث آزاد کرنے والا یا کرنے والی اس وقت مستحق ہوگا جب کوئی اور حقیقی وارث موجود نہ ہو۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو: ابن سوار وهو مرسل أيضا
شموس الکندیہ نے کہا: میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک قضیہ لے کر گئی کہ میرے باپ نے مجھے اور مالک (آزاد کرنے والے) کو چھوڑا ہے، تو انہوں نے مجھے نصف دیا اور باقی نصف آزاد کرنے والے مالک کو دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى شموس الكندية وشموس هذه ما وجدت لها ترجمة، [مكتبه الشامله نمبر: 3057]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ اس کی سند میں شیبانی: سلیمان بن فیروز اور حکم: ابن عتیبہ ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11186]، [ابن منصور 176]۔ آگے بھی یہ اثر آ رہا ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 3046) اصحاب الفروض کی غیر موجودگی میں بیٹی کا حصہ آدھا ہے، باقی جو بچے وہ مالک کا، اسی اصول کے تحت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ کیا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى شموس الكندية وشموس هذه ما وجدت لها ترجمة
ابوالکنود سے مروی ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک لڑکی (بیٹی) اور آقا (مالک) کا قضیہ لایا گیا تو انہوں نے بیٹی کو نصف دیا اور آزاد کرنے والے مالک کو باقی آدھا دیا، حکم نے کہا: پس میرا مکان اس والی کا حصہ ہے جو اس کو اس کے مالک نے میراث میں پایا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف محمد بن أبي ليلى سيئ الحفظ جدا، [مكتبه الشامله نمبر: 3058]»
اس روایت کی سند میں محمد بن ابی یعلی سییٔ الحفظ جدا ہیں، اور ابوالکنود کا نام عبداللہ بن عامر ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11188] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف محمد بن أبي ليلى سيئ الحفظ جدا
حکم بن عتیبہ سے مروی ہے: عبدالرحمٰن بن مدلج کا انتقال ہو گیا اور وہ اپنی بیٹی اور مالکان کو چھوڑ گئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بیٹی کو نصف دیا اور مالکان میں باقی نصف تقسیم کر دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو: ابن سوار، [مكتبه الشامله نمبر: 3059]»
اس اثر کی سند اشعث بن سوار کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن بیہقی میں صحیح سند سے موجود ہے۔ دیکھئے: [شرح معاني الآثار 402/4]، [البيهقي 241/6] وضاحت:
(تشریح احادیث 3047 سے 3049) اس اثر سے ثابت ہوا کہ مالک ایک ہو یا کئی ان کو بیٹی کو دینے کے بعد باقی نصف ہی ملے گا زیادہ نہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو: ابن سوار
الشموس سے مروی ہے کہ ان کے والد انتقال کر گئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو نصف حصہ دیا اور مالکان کو بھی نصف دیا۔
تخریج الحدیث: «الشموس مجهولة وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 3060]»
اس اثر کی سند میں الشموس مجہولہ ہے، باقی رجال ثقہ ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11187] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الشموس مجهولة وباقي رجاله ثقات
جہم بن دینار نے روایت کیا ابراہیم رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ان سے پوچھا گیا: دو بہنیں ہیں ان میں سے ایک نے اپنے والد کو خریدا اور آزاد کر دیا پھر ان (والد) کا انتقال ہو گیا، تو ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: دونوں بہنوں کے لئے دو ثلث جیسا کہ قرآن پاک میں حصہ مقرر ہے: «فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ . . . . . .» [النساء: 176/4] باقی جو بچا وہ صرف آزاد کرنے والی بیٹی کے لئے ہو گا۔ یعنی دوسری بہن کے لئے باقی حصہ ثلث میں سے کچھ نہ ہو گا اور پورا ثلث معتقہ لے لے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو: ابن سوار، [مكتبه الشامله نمبر: 3061]»
اشعث کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11560]، [عبدالرزاق 16215، 16270] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو: ابن سوار
اشعث سے مروی ہے شعبی رحمہ اللہ نے روایت کیا وہ عورت جس نے اپنے باپ کو آزاد کرایا پھر باپ کا انتقال ہو گیا اور اس نے چار بیٹیاں چھوڑیں جن میں سے ایک آزاد کرانے والی تھی، شعبی رحمہ اللہ نے کہا: آزاد کرانے والی کا کوئی احسان نہیں، چاروں بہنوں میں دو ثلث ہی تقسیم کیا جائے گا اور وہ معتقہ بھی ان میں شامل ہو گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو: ابن سوار، [مكتبه الشامله نمبر: 3062]»
اشعث کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے اور یہ دیگر اسلاف کے فیصلہ کے خلاف ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 16213] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو: ابن سوار
|