من كتاب الفرائض وراثت کے مسائل کا بیان 55. باب جَرِّ الْوَلاَءِ: حق ولاء اپنی طرف کھینچنے کا بیان
امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا علی، سیدنا عمر اور سیدنا زید رضی اللہ عنہم نے کہا: باپ اپنے بیٹے کا ولاء (اپنی طرف) کھینچ لے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو: ابن سوار، [مكتبه الشامله نمبر: 3208]»
اشعث بن سوار کی وجہ سے یہ اثر ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11583]، [عبدالرزاق 16276، 16277 بسند منقطع] وضاحت:
(تشریح حدیث 3196) ولاء غلام کی میراث کے سلسلے میں حق یہ ہے کہ اس کا نسبی وارث نہ ہو تو غلام کا مالک اس کے کل مال کا وارث ہوگا۔ اس باب میں ذکر ہے کہ بیٹے کے ولاء کا باپ اور باپ کا دادا وارث ہو سکتا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو: ابن سوار
شعبی رحمہ اللہ نے کہا: دادا ولاء کو کھینچ لے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل أشعث، [مكتبه الشامله نمبر: 3209]»
اس اثر کی بھی سند اشعث کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11583، 11594]، [عبدالرزاق 16286 بسند صحيح] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل أشعث
محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے مروی ہے قاضی شریح نے کہا: والد اپنے بیٹے کا ولاء کھینچ لے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 3210]»
اس روایت کی سند بھی ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11587، 11589، عن جابر الجعفي وهو ضعيف] و [عبدالرزاق 16278، 16279] و [البيهقي 307/10] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
امام عامر شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے: ایک غلام مر گیا اور اس کا آزاد باپ اور اس کے بیٹے (یعنی مرنے والے کے بیٹے) آزاد عورت سے موجود ہیں تو ولاء کس کے لئے ہو گا؟ انہوں نے کہا: ایسی صورت میں دادا کے جو مالکان ہیں ولاء ان کا ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الشعبي، [مكتبه الشامله نمبر: 3211]»
اس اثر کی سند شعبی رحمہ اللہ تک صحیح ہے، اور ابونعیم کا نام فضل بن دکین ہے، اور زکریا: ابن ابی زائدہ ہیں۔ دیکھئے: [البيهقي 307/10] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الشعبي
مغیرہ سے مروی ہے ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: ایک غلام مکاتب فوت ہو گیا، جس نے آدھی قسط ادا کر دی تھی اور آزاد بیوی سے اس کا ایک لڑکا موجود تھا، انہوں نے کہا: میرا خیال ہے وہ اپنے بیٹے کا ولاء کھینچ لے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى إبراهيم، [مكتبه الشامله نمبر: 3212]»
اس روایت کی سند ابراہیم رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 16287] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى إبراهيم
حکم سے مروی ہے ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: قاضی شریح جو فیصلہ کرتے اس سے رجوع نہ کرتے تھے، ان سے اسود نے بیان کیا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جب غلام کی شادی آزاد عورت سے ہو جائے، پھر عورت سے اولاد ہوئی جو آزاد تھی، پھر بعد میں باپ بھی آزاد ہو گیا تو ولاء کاحق انہوں نے ان کے باپ کو آزاد کرنے والوں کو دیا، چنانچہ قاضی شریح نے اس کو مان لیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3213]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11589]، [البيهقي 307/10] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابراہیم رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جس غلام کے عقد میں آزاد بیوی ہو تو اس کا بیٹا بھی ماں کے ساتھ آزاد ہو گا، اور جب باپ آزاد کر دیا جائے گا تو وہ ولاء کو کھینچ لے گا۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع إبراهيم النخعي لم يدرك عمر، [مكتبه الشامله نمبر: 3214]»
اس اثر کے رجال ثقات ہیں، لیکن ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا لقاء سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔ تخریج دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11581، 11582]، [عبدالرزاق 16276، 16277]، [البيهقي 306/10] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع إبراهيم النخعي لم يدرك عمر
عطاء سے آزاد عورت جو غلام کے عقد میں ہو، کے بارے میں مروی ہے: اس کی غلامی کی حالت میں جو اولاد ہو گی ان کا ولاء عورت کے محسنین کے لئے ہو گا اور جو اولاد اس غلام کی آزادی کے بعد پیدا ہوئی ان کا ولاء غلام کی اہل نعمت (آزاد کرنے والے محسنین) کے لئے ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 3215]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ مسلم: ابن ابراہیم، اور عبدالوارث: ابن سعید ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11597]، [عبدالرزاق 16290] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى عطاء
ابراہیم رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آزاد عورت اگر غلام کے نکاح میں ہو اور اس غلام سے لڑکا پیدا ہو تو اس کی ماں کی آزادی کے ساتھ وہ لڑکا بھی آزاد کر دیا جائے گا، اور اس کا ولاء اس کی ماں کے مالکان کے لئے ہو گا، پھر جب غلام آزاد ہو گا تو اس کا ولاء اس کے باپ کے موالی کی طرف چلا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 3216]»
اس اثر کی سند میں انقطاع ہے۔ دیکھئے: [البيهقي 306/10] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع
علاء بن عبدالرحمٰن سے مروی ہے ان کے والد نے کہا: میری ماں حرقہ (قبیلے) کی آزاد کردہ لونڈی تھیں اور میرے والد یعقوب مالک بن اوس بن حدثان نصری کے مکاتب غلام تھے، پھر میرے والد نے مکاتبہ کی مقررہ رقم ادا کر دی تو حرقی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اس وقت اوس بن مالک بھی ان کے پاس بیٹھے تھے، حرقی نے میرے حق کا مطالبہ کیا یعنی ولاء (عطاء) کا، اس نے کہا: یہ میرا آزاد کردہ ہے۔ ان دونوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے فیصلہ مانگا تو انہوں نے حرقی کے حق میں فیصلہ دیا، یعنی ماں کے موالی کے حق میں فیصلہ دیا، باپ کے موالی کے حق میں نہیں۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن محمد بن إسحاق قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 3217]»
اس اثر کے رواۃ سب ثقہ ہیں، صرف محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور صیغہ عن سے روایت کی ہے۔ «وانفرد به الدارمي» ۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 3197 سے 3206) ماں باپ دونوں عبد ہوں تو ان کا لڑکا باپ کے مولی کے تابع ہوگا، اور اگر باپ غلام ماں آزاد ہو تو بچہ بھی آزاد مانا جائے گا، لیکن اگر بچے کی پیدائش کے بعد باپ بھی آزاد ہو گیا تو اس بچے کا ولاء باپ کے موالی کے لئے جائے گا، جر الولاء کی کچھ شروط اور تفصیل ہے جو «التحقيقات الرضية فى المباحث الفرضية للشيخ الفوزان» ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ دیکھے: ص: 120-122۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن محمد بن إسحاق قد عنعن وهو مدلس
|