من كتاب الفرائض وراثت کے مسائل کا بیان 12. باب قَوْلِ عُمَرَ في الْجَدِّ: دادا کے بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بیان
شعبی رحمہ اللہ نے کہا: اسلام میں سب سے پہلے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے دادا کی حیثیت سے میراث لی۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد إلى الشعبي، [مكتبه الشامله نمبر: 2956]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 19041] وضاحت:
(تشریح حدیث 2946) اس کا مطلب یہ ہے کہ عملی طور پر باقاعدہ دادا کی حیثیت سے میراث سب سے پہلے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد إلى الشعبي
شعبی رحمہ اللہ نے کہا: اسلام میں پہلے دادا جو وارث ہوئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انہوں نے اپنا حصہ لے لیا تو سیدنا علی اور سیدنا زید رضی اللہ عنہما ان کے پاس آئے اور کہا کہ ایسے نہیں، آپ بھی دو بھائیوں کی طرح ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الشعبي، [مكتبه الشامله نمبر: 2957]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11277]، [البيهقي 247/6]، تفصیل کے لئے [فتح الباري 20/12] وضاحت:
(تشریح حدیث 2947) اگر کوئی میت دادا اور بھائی چھوڑ جائے تو سیدنا عمر، سیدنا عبداللہ و سیدنا زید رضی اللہ عنہم کے نزدیک دادا کو ثلث، باقی ثلثين بھائیوں کے لئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک سدس دادا کو باقی پانچ اسداس بھائیوں کے لئے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الشعبي
شعبی رحمہ اللہ نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دادا کو ایک یا دو بھائی کے ساتھ تقسیم میں شریک کرتے تھے، اگر بھائی زیادہ ہوتے تو دادا کو ثلث دیتے اور اولاد کے ساتھ سدس دیتے۔
تخریج الحدیث: «في اسناده عيسى بن أبي عيسى: ميسرة وهو متروك وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 2958]»
اس اثر کی سند میں عیسیٰ بن ابی عیسیٰ: میسرہ، متروک ہیں لیکن دوسری صحیح سند سے بھی یہ اثر مروی ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11265]، [ابن منصور 59]، [البيهقي 249/2]، [المحلی 284/9] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في اسناده عيسى بن أبي عيسى: ميسرة وهو متروك وباقي رجاله ثقات
مروان بن الحکم سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ جب نیزے سے زخمی ہوئے تو دادا کے بارے میں صحابہ سے مشورہ کیا اور کہا کہ دادا کے بارے میں میری ایک رائے تھی، اگر تم چاہو تو پیروی کرنا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر ہم آپ کی رائے کی پیروی کریں تو یہ راہِ ہدایت ہے اور اگر شیخ (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ) کی رائے مانیں تو وہ بھی بہت اچھی رائے والے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2959]»
اس اثر کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 19051، 19052]، [الحاكم 340/4]، [البيهقي 246/6]، [المحلی 283/9] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
|