من كتاب الفرائض وراثت کے مسائل کا بیان 39. باب في الاِدِّعَاءِ وَالإِنْكَارِ: کسی چیز کے انکار کا دعویٰ کرنے کا بیان
حسن رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے اپنی موت کے وقت اعتراف کیا کہ فلاں آدمی کے اس کے پاس ہزار درہم ہیں، دوسرے آدمی نے بینہ (دلیل) سے ثابت کیا کہ اس کے بھی ہزار درہم ہیں، اور مرنے والے نے صرف ہزار درہم چھوڑے ہیں؟ حسن رحمہ اللہ نے کہا: آدھا آدھا مال دونوں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے الا یہ کہ مرنے والا مفلس ہو ایسی صورت میں اس کی بات ماننا جائز نہ ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف عمرو بن عبيد بن باب ضعفوه وقد اتهمه بعضهم مع عبادة، [مكتبه الشامله نمبر: 3105]»
اس اثر کی سند عمرو بن عبید بن باب معتزلی کی وجہ سے ضعیف ہے، اور امام دارمی رحمہ اللہ کے علاوہ کسی محدث نے اسے روایت نہیں کیا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف عمرو بن عبيد بن باب ضعفوه وقد اتهمه بعضهم مع عبادة
ابونعیم نے کہا: میں نے شریک سے پوچھا: دو بھائیوں کے بارے میں آپ نے کیا ذکر کیا ہے جن میں سے ایک دعویٰ کرتا ہے کہ وہ (میت کا) بھائی ہے؟ انہوں نے کہا: وہ بھائی کا حصہ پائے گا، میں نے عرض کیا: یہ کس نے ذکر کیا ہے؟ جواب دیا کہ جابر نے عامر سے اور انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف جابر وهو: ابن يزيد الجعفي، [مكتبه الشامله نمبر: 3106]»
اس اثر کو بھی صرف امام دارمی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف جابر وهو: ابن يزيد الجعفي
اعمش (سلیمان بن مہران) نے روایت کیا، ابراہیم رحمہ اللہ سے مروی ہے: بھائیوں میں سے بعض (کسی کے) بھائی ہونے کا دعویٰ کرے اور دوسرے اس کا انکار کریں، ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: وہ بھائیوں کے ساتھ غلام کی حیثیت سے شامل ہو گا، ان میں سے ایک آزاد کرانے کا حصہ دے گا۔ اور عامر و حکم اور ان کے شاگردوں نے کہا: جس بھائی نے اعتراف کیا اسی کے حصے سے وہ حصہ لے گا۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن عبد الرحمن قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 3107]»
اس اثر کی سند میں عبدالرحمٰن بن محمد المحاربی مدلس ہیں اور عن سے روایت کی ہے، باقی رجال ثقات ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11543]، [عبدالرزاق 19143] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن عبد الرحمن قد عنعن وهو مدلس
وکیع رحمہ اللہ نے کہا: دو بھائیوں میں سے ایک (تیسرے کے) بھائی ہونے کا دعویٰ کرے اور دوسرا انکار کرے، انہوں نے کہا: ابن ابی لیلیٰ کہتے تھے: مسئلہ چھ سے ہو گا، جس نے انکار کیا تین حصے لے گا، دو حصے دعویٰ کرنے والا لے گا اور ایک حصہ وہ لے گا جس کے بھائی ہونے کا دعویٰ کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى سيئ الحفظ جدا، [مكتبه الشامله نمبر: 3108]»
اس اثر میں محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سیٔ الحفظ جدا ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11547]، [عبدالرزاق 19142] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى سيئ الحفظ جدا
حماد سے مروی ہے: آدمی کے تین بیٹے ہیں، اس نے کہا: میرا ایک ثلث (تہائی) مال سب سے چھوٹے بیٹے کے لئے ہے، بیچ والے لڑکے نے کہا: میری طرف سے اجازت ہے، اور بڑے بیٹے نے کہا: میں نہیں مانتا؟ حماد نے کہا: مسئلہ نو سے ہو گا، اس میں تین (سب سے چھوٹے لڑکے ہوں گے) اس کا حصہ اور جس نے اجازت دی اس کا حصہ ہے۔ اور حماد نے کہا: جو باقی بچا وه سب پر برابر لوٹا دیا جائے گا، اور شعبی رحمہ اللہ نے کہا: جس نے رد کر دیا (گویا) اس نے اپنے سے (اپنا حصہ) رد کر دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى حماد وهو: ابن أبي سليمان، [مكتبه الشامله نمبر: 3109]»
حماد: ابن ابی سلیمان ہیں، اور ابوسلیمان کا نام مسلم ہے، ان تک یہ سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11072]، [عبدالرزاق 19145] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى حماد وهو: ابن أبي سليمان
قاضی شریح نے کہا: ایک آدمی نے (دوسرے کے) بھائی ہونے کا اقرار کیا، انہوں نے کہا: اس کو دلیل لانی ہو گی کہ وہ اس کا بھائی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3110]»
اس روایت کی سند شریک کی وجہ سے حسن ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11545] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
حارث عکلی نے کہا: ایک آدمی نے اپنی موت کے وقت ایک ہزار درہم کا مضاربت (تجارت) کے لئے اقرار کیا، اور ایک ہزار قرض کا، اور صرف ایک ہزار درہم چھوڑے؟ انہوں نے کہا: پہلے قرض ادا کیا جائے گا اور اگر اس کے بعد کچھ بچ گیا تو وہ صاحب مضاربت کے لئے (یعنی جس نے تجارت کے لئے درہم دیئے تھے اس کا) ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحارث العكلي، [مكتبه الشامله نمبر: 3111]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11057]۔ اس اثر کی سند میں ابوعوانہ: وضاح بن عبداللہ اور ابوالنعمان: محمد بن فضل عارم الدوسی ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحارث العكلي
شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے: ایک آدمی فوت ہو گیا اور تین سو درہم اور تین لڑکے چھوڑ گیا، اس کے بعد کوئی آدمی آیا اس نے میت پر سو درہم کا دعویٰ کیا اور ان تینوں بھائیوں میں سے ایک نے اس کا اقرار بھی کیا، شعبی رحمہ اللہ نے کہا: وہ ان سے اپنا حصہ لے گا، پھر کہا: میرا خیال ہے قرض دینے کے بعد میراث تقسیم ہو گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى عامر الشعبي، [مكتبه الشامله نمبر: 3112]»
اس اثر کی سند شعبی رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11049]، [عبدالرزاق 19142]، [ابن منصور 314] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى عامر الشعبي
اشعث سے مروی ہے حسن رحمہ اللہ نے اس شخص کے بارے میں کہا جو انتقال کر گیا اور اپنے دو بیٹے اور دو ہزار درہم چھوڑ گیا، دونوں بھائیوں نے دو ہزار درہم تقسیم کر لئے پھر ان میں سے ایک لڑکا غائب ہو گیا اور ایک آدمی نے ہزار درہم کا دعویٰ کیا؟ حسن رحمہ اللہ نے کہا: موجود بھائی کے پاس جو کچھ ہے وہ مدعی لے لے گا اور کہا جائے گا کہ تم اپنے بھائی کو تلاش کر کے جو اس کے پاس ہو اس کا آدھا حصہ اس سے لے لو۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3113]»
اس اثر کی سند حسن ہے۔ اشعث: ابن عبدالملک ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11048] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
حسن رحمہ اللہ نے کہا: جب کچھ وارثین (مرنے والے پر) قرض کا اقرار کر لیں تو وہی اپنے حصہ سے قرض ادا کریں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3114]»
اس اثر کی سند حسن رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11050]، [ابن منصور 316]۔ زیاد: ابن حسان ہیں۔ نیز سنن سعید بن منصور میں ہے کہ اگر ایک وارث نے اقرار کیا تو وہ اپنے حصے سے قرض ادا کرے گا، اور دو نے اعتراف کیا تو دو، اور زیادہ نے اعتراف کیا تو سب اپنے حصہ سے اس کا قرض ادا کریں گے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: جب دو وارث جو سچے ہوں اور قرض کی گواہی دیں تو کل مال سے قرض ادا کیا جائے گا، امام شعبی رحمہ اللہ نے کہا: بس وہی دونوں اپنے حصہ سے قرض ادا کریں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى إبراهيم النخعي، [مكتبه الشامله نمبر: 3115]»
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ تک اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [سنن سعيد بن منصور 322] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى إبراهيم النخعي
|